دنیا کے مشہور آبی درّے
بین الاقوامی معیشت سمندروں کو ملانے والی ان آبنائوں کے گرد گھومتی ہے۔
جب سمندر کا کوئی حصہ خشکی کے دو تنگ حصوں کے درمیان حائل ہو کر انہیں جدا کر ے اور پانی کے دو حصوں کو ملا دے تو اسے درّہ یعنی تنگ سمندری راستہ کہتے ہیں۔
سمندری درّہ چوں کہ آبی گزرگاہ ہوتا ہے اور اس سے گزرے بغیر سمندری نقل و حمل مشکل یا ناممکن ہوتی ہے، اس لئے بین الاقوامی طور پر اسے بہت اہمیت حاصل ہے۔ دور جدید میں دنیا بھر کی معیشت بھی چند سمندری درّوں یا آبناؤں کے گرد گھوم رہی ہے۔ آئیے ان سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔
آبنائے ہرمز
(HORMUZ STRAIT OF )
آبنائے ہرمز جس کو عربی میں مضیق ہرمز اور فارسی میں تنگۂ ہرمز کہتے ہیں، خلیج عمان اور خلیج فارس کے درمیان واقع ہے۔ اس کے شمالی ساحلوں پر ایران اور جنوبی ساحلوں پر متحدہ عرب امارات اور عمان ہے۔ آبنائے کی کم از کم چوڑائی21 میل ہے جو خلیجی ریاستوں کے تیل کی برآمدات کا واحد بحری راستہ ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر میں روزانہ تیل کی کل رسد کا 20 فیصد اس آبنائے سے گزرتا ہے۔ قدرت نے تیل کی دولت اور اس کی نقل و حمل کی عظیم شاہراہ مکمل طور پر مسلمانوں کو عطا کی تھی لیکن آپس کی نااتفاقیوں کی وجہ سے اس دولت پر عالمی طاغوتی طاقتوں کا قبضہ ہے۔ یہاں سے کوئی جہاز ان کی رضا مندی کے بغیر نہیں گزر سکتا جبکہ ان کے بڑے بڑے تیل بردار جہاز یہاں سے ہزاروں بیرل تیل لے کر بلا خوف و خطر آتے جاتے ہیں۔
آبنائے باب المندب
آبنائے باب المندب ایشیا اور افریقہ کو جدا کرنے والی آبنائے ہے۔ جس کے ایشیائی جانب یمن اور افریقی جانب جبوتی واقع ہے۔ یہ بحیرہ قلزم اور بحیرہ ہند (خلیج عدن) کو ملاتی ہے۔ یہ محل وقوع کے اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور دنیا کی مصروف ترین آبی گزر گاہوں میںسے ایک ہے۔ جزیرہ نما عرب پر ''راس منہلی'' اور افریقہ پر (راس سیان) کے درمیان واقع اس آبنائے کی زیادہ سے زیادہ چوڑائی20 میل یعنی 30 کلو میٹر ہے۔ آبنائے کے بیچوں بیچ واقع ''پیرم'' کا جزیرہ اس آبنائے کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے، جن میں سے مشرقی آبنائے ''باب اسکندر'' کہلاتی ہے جو دو میل چوڑی اور 30 میٹر گہری ہے جبکہ مغربی آبنائے16 میل چوڑی اور 310میٹر گہری ہے۔
آبنائے جبل الطارق
( STRAIT OF GIBRALTAR)
آبنائے جبل الطارق بحر اوقیانوس کو بحیرہ روم سے منسلک کرنے والی ایک انتہائی اہم آبنائے ہے، جو اسپین اور مراکش کو جدا کرتی ہے۔ اس آبنائے کو یہ نام جبل الطارق (جبرالٹر) کے نام پر ملا، جہاں 711ء میں بنو امیہ کے عظیم جرنیل طارق بن زیاد اسپین فتح کرنے کے لئے لنگر انداز ہوئے تھے۔ آبنائے کے شمال میں جبل الطارق اور اسپین جبکہ جنوب میں مراکش ہے' یہ آبنائے اہم ترین اور شاندار محل وقوع کے باعث دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔ یہاں سے بحری جہاز بحیرہ روم سے بحر اوقیانوس اور بحرہ اوقیانوس سے بحیر روم سفر کرتے ہیں۔ اس کی گہرائی تقریباً 300 میٹر اور اس کی لمبائی کم از کم 14 کلو میٹر ہے۔ اس کے ذریعے عرب ممالک کی معدنی دولت آبنائے ہرمز' باب العندب اور نہر سوئز سے گزرنے کے بعد یورپ اور امریکا جاتی ہے۔
آبنائے باسفورس
(B0SPHORUS STRAIT OF )
آبنائے باسفورس ترکی کے یورپی حصے (رومبلیا) اور ایشیائی حصے (اناطولیہ ) کو جدا کر کے یور پ اور ایشیاء کے درمیان سرحد قائم کرتی ہے۔ اس آبنائے کو آبنائے استنبول بھی کہا جاتا ہے۔ بین الاقوامی جہاز رانی کے لئے استعمال ہونے والی دنیا کی یہ سب سے تنگ آبنائے ہے جو بحیرہ اسود کو بحیرہ مرمر سے ملاتی ہے۔ آگے چل کر بحیرہ مرمر درہ دانیال کے ذریعے بحیرہ ایجئین سے منسلک ہے جو بحیرہ روم سے ملا ہوا ہے۔ استبولی باشندے اسے صرف (Boaz) کہتے ہیں جبکہ Boazii کی اصطلاح آبنائے کے ساتھ ساتھ واقع استنبول کے علاقوں کے لئے استعمال ہوتی ہے۔
آبنائے باسفورس پر دو پل قائم ہیں 1973ء میں مکمل ہونے والا پہلاپل باسفورس 1074 میٹر طویل ہے دوسرا پل (سلطان محمد فاتح پل) 1090میٹر طویل اور 1988ء میں اس کی تکمیل ہوئی، یہ پہلے پل سے تقریباً 5کلو میٹر شمال میں واقع ہے۔ ترک حکومت کی جانب سے سات مجوزہ مقامات میں سے ایک مقام پر تیسرا پل بھی تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے۔ تاحال اس پل کے مقام کو صیغہ راز میں رکھا گیا ہے تاکہ زمینوں کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہو۔ مرمرے نامی ایک اور زیر آب گزر گاہ 2008ء میں مکمل ہوئی یہ 13.7کلومیٹر طویل ریلوے سرنگ ہے جو آبنائے سے 55 میٹر گہرائی سے گزرتی ہے۔
شاندار محل وقوع کے باعث باسفورس کی اہمیت ہمیشہ سے رہی ہے۔ یہ ایشیاء سے یورپ میں داخل ہونے کا راستہ بھی ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے اس کے دورازے پر موجود ناکے یعنی قسطنطنیہ کو فتح کرنے والے کے لئے جنت کی بشارت دی تھی، اس لئے مسلم مجاہد مسلسل اسے عبور کرنے کی کوششیں کرتے رہے تاآنکہ کامیابی کا تاج نوجوان عثمانی خلیفہ سلطان محمد فاتح کے سر پر 1453ء میں سجا۔ ماضی قریب میں اس پر قبضہ کے لئے کئی جنگیں لڑی گئیں جن میں1877ء کی روس ترک جنگ اور1915ء میں پہلی جنگ عظیم کے دوران اتحادی قوتوں کا دورہ دانیال پر حملہ بھی شامل ہے۔ قدیم تاریخ میں اس کے محل وقوع کی اہمیت کے باعث ہی رومی بادشاہ قسطنطین نے اس کے کنارے قسطنطنیہ کا شہر آباد کیا تھا۔
درہ دانیال
(DARDANELLES)
درہ دانیال آبنائے باسفورس کا جنوبی حصہ ہے۔ جو بحیرہ اسود کو بحیرہ روم سے ملاتا ہے یہ آبنائے تقریباً 40 میل لمبی اورایک سے چار میل چوڑی ہے۔ تاریخی اہمیت کی حامل یہ آبنائے یورپ کو ایشیاء سے جدا کرتی ہے۔ اس سے متعلق سب سے پہلا تاریخی واقعہ وہ ہے جب اردشیر نے اس پر پل باندھا تھا۔ انگریز شاعر (بائرن) نے اسے تیر کر پار کیا تھا۔ یہ آبنائے 14ویں صدی میں ترکی کے قبضہ میں آئی، جب سلطنت عثمانیہ نے اس پر قبضہ کیا۔ روس کو چوںکہ بحیرہ روم میں داخل ہونے کے لئے اس سے گزرنا پڑنا تھا، لہٰذا روس کی ہر حکومت اس پر قبضے کی خواہشمند رہی۔ 1833ء میں جب زار روس نے مصر کے باغی حکمران محمد علی باشا کے خلاف عثمانی سلطان کی مدد کی تو موخرالذکر نے روس کو درہ دانیال میں خاص مراعات دیں اور روسی جہازوں کو یہ حق دیا کہ وہ جب چاہیں آئیں، مگر یورپی طاقتوں کو یہ ناگوار گزرا۔
بالخصوص اس لئے کہ بصورت جنگ انہیں اس آبنائے میں جہاز داخل کرنے کی اجازت نہ تھی۔ چنانچہ انہوں نے 1840ء میں لندن کنونشن کے ذریعے ترکی پر دباؤ ڈالا اور اس سے روس کے لئے مراعات منسوخ کرا لیں اور1914ء تک یہ نظام رائج رہا۔ پہلی جنگ عظیم میں اتحادی طاقتوں نے درہ دانیال فتح کرنے کی کوشش کی مگر منہ کی کھائی۔ جنگ کے خاتمے پر اتحادیوں نے گیلی پولی کا ساحل یونان کو دے دیا اور اس آبنائے کو نہتا کر دیا۔1922ء میں ترک حکومت نے اسے یونان سے واپس لے لیا۔4 اگست 1923ء کو اسے ایک معاہدہ (لوزان) کے تحت بین الاقوامی تحویل میں دے دیا گیا۔ 30 جولائی 1936ء کو مانٹروکنونشن کی رو سے اس پر عملاً ترکی کا اختیار تسلیم کر لیا گیا۔
آبنائے ملا کا
(STRAIT OF MALACCA)
آبنائے ملا کا انڈونیشیاء کے صوبے سماٹرا کو جزیرہ نما ملائیشیا سے جداکرتی ہے اور بحرالکاہل کو بحرِ ہند سے ملاتی ہے۔ جزیرہ نما ملائیشیا اور انڈونیشیاء کے جزیرے سماٹرا کے درمیان ایک آبی گزرگاہ ہے۔ محل وقوع اور اقتصادی لحاظ سے یہ نہر سویز اور نہر پانامہ کی طرح دنیا کی اہم ترین بحری گزر گاہوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ بحر ہند اور بحرالکاہل کے درمیان بحری جہازوں کو گزرنے کا مرکزی راستہ فراہم کرتی ہے اور اس طرح دنیا کے 3 گنجان آباد ترین ممالک بھارت' انڈونیشیاء اور چین کو منسلک کرتی ہے۔ اس آبنائے سے سالانہ 50 ہزار جہاز گزرتے ہیں جودنیا کے کل تجارتی حصے کا ایک پانچواں یا ایک چوتھائی حصہ ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں تیل کی ترسیل کا ایک چوتھائی حصہ اس گزر گاہ سے گزرتا ہے اور 2003ء میں اندازاً 11 ملین بیرل تیل روزانہ اس آبنائے سے گزرا۔ 805 کلو میٹر (500) میل رود بار سنگا پور کے قریب رودبار فلپس کے مقام پر محض 1.5 بحری میل (2.8 کلو میٹر) چوڑی ہے یہ اس کا تنگ ترین علاقہ ہے اس کی وجہ سے ذرائع نقل و حمل کے لئے دنیا کی اہم ترین راہ یعنی درّہ (Botttle Nech) بننا ہے۔ اس راستے سے گزرنے کے لئے جہاز کے زیادہ سے زیادہ حجم کو (ملا کا میکس) گہرا جاتا ہے۔
آبنائے ڈوور
(Dover)
ڈوور نامی یہ آبنائے انگلستان اور فرانس کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے اور انگلش چینل کو بحیرہ شمالی سے ملاتی ہے، یہ 21 سے 36 میل چوڑی ہے۔ اس کا نام ساحل انگلستان کی بندرگاہ ڈوور پر رکھا گیا ہے۔ یہاں سے فرانس کا فاصلہ بہت کم ہے۔ تعمیرات کا عظیم شاہکار چینل ٹنل اسی کے نیچے سے سمندر میں گزرتی ہے اور فرانس اور برطانیہ کے درمیان زیر آب زمینی راستے کا کام دیتی ہے۔
رود بار انگلستان
(انگلش چینل)
رود بار انگلستان یا انگلش چینل بحراوقیانوس کا ایک حصہ ہے، جو برطانیہ کو شمالی فرانس سے جدا اور بحیرہ شمالی کو بحر اوقیانوس سے منسلک کرتا ہے۔ یہ 563 کلو میٹر (350 میل) طویل اور زیادہ سے زیادہ 240 کلو میٹر (150 میل) چوڑی ہے۔ آبنائے ڈوور اس کاسب سے کم چوڑا مقام ہے جو محض 34 کلومیٹر (21میل) ہے اور رود بار انگلستان کے مشرقی کنارے پر واقع ہے۔ رومی سلطنت کے دور میں یہ رودبار (Oceanus Britannicus) کہلاتی تھی۔ اور1549ء تک اسے بحیرہ برٹش کہا جاتا تھا۔ یہ رود بار انگلستان کی قدرتی محافظ ہے اور کئی جنگوں کی شاہد رہ چکی ہے جن میں زمانہ جدید کی نپولین کی جنگیں، دوسری جنگ عظیم میں نازی جنگیں اور زمانہ قدیم میں رومیوں کی فتح برطانیہ،1066ء میں نارمن فتوحات اور 1588ء میں ہسپانوی یلغار شامل ہیں۔
برطانیہ اور فرانس کی جانب سے رودبار کے دونوں جانب واقع شہروں کے لئے کشتیوں اور جہازوں کے ذریعے سفری خدمات مہیا کی گئی ہیں جبکہ دونوں ممالک کے دارالحکومت (لندن اور پیرس) کے درمیان فاصلہ گھٹانے کے لئے رودبار انگلستان کے نیچے سے ایک سرنگ تعمیر کی گئی جسے ''چینل ٹنل'' یعنی رود بار سرنگ کہا جاتا ہے۔ یہ پہلی بار 1994ء میں کھولی گئی اور اس کے ذریعے پہلی مرتبہ برطانیہ سے کوئی ریل گاڑی فرانس پہنچی۔ پیرس، برسلز اور لندن آج کل ''یوروسٹار'' نامی ریل گاڑی کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔
سمندری درّہ چوں کہ آبی گزرگاہ ہوتا ہے اور اس سے گزرے بغیر سمندری نقل و حمل مشکل یا ناممکن ہوتی ہے، اس لئے بین الاقوامی طور پر اسے بہت اہمیت حاصل ہے۔ دور جدید میں دنیا بھر کی معیشت بھی چند سمندری درّوں یا آبناؤں کے گرد گھوم رہی ہے۔ آئیے ان سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔
آبنائے ہرمز
(HORMUZ STRAIT OF )
آبنائے ہرمز جس کو عربی میں مضیق ہرمز اور فارسی میں تنگۂ ہرمز کہتے ہیں، خلیج عمان اور خلیج فارس کے درمیان واقع ہے۔ اس کے شمالی ساحلوں پر ایران اور جنوبی ساحلوں پر متحدہ عرب امارات اور عمان ہے۔ آبنائے کی کم از کم چوڑائی21 میل ہے جو خلیجی ریاستوں کے تیل کی برآمدات کا واحد بحری راستہ ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر میں روزانہ تیل کی کل رسد کا 20 فیصد اس آبنائے سے گزرتا ہے۔ قدرت نے تیل کی دولت اور اس کی نقل و حمل کی عظیم شاہراہ مکمل طور پر مسلمانوں کو عطا کی تھی لیکن آپس کی نااتفاقیوں کی وجہ سے اس دولت پر عالمی طاغوتی طاقتوں کا قبضہ ہے۔ یہاں سے کوئی جہاز ان کی رضا مندی کے بغیر نہیں گزر سکتا جبکہ ان کے بڑے بڑے تیل بردار جہاز یہاں سے ہزاروں بیرل تیل لے کر بلا خوف و خطر آتے جاتے ہیں۔
آبنائے باب المندب
آبنائے باب المندب ایشیا اور افریقہ کو جدا کرنے والی آبنائے ہے۔ جس کے ایشیائی جانب یمن اور افریقی جانب جبوتی واقع ہے۔ یہ بحیرہ قلزم اور بحیرہ ہند (خلیج عدن) کو ملاتی ہے۔ یہ محل وقوع کے اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور دنیا کی مصروف ترین آبی گزر گاہوں میںسے ایک ہے۔ جزیرہ نما عرب پر ''راس منہلی'' اور افریقہ پر (راس سیان) کے درمیان واقع اس آبنائے کی زیادہ سے زیادہ چوڑائی20 میل یعنی 30 کلو میٹر ہے۔ آبنائے کے بیچوں بیچ واقع ''پیرم'' کا جزیرہ اس آبنائے کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے، جن میں سے مشرقی آبنائے ''باب اسکندر'' کہلاتی ہے جو دو میل چوڑی اور 30 میٹر گہری ہے جبکہ مغربی آبنائے16 میل چوڑی اور 310میٹر گہری ہے۔
آبنائے جبل الطارق
( STRAIT OF GIBRALTAR)
آبنائے جبل الطارق بحر اوقیانوس کو بحیرہ روم سے منسلک کرنے والی ایک انتہائی اہم آبنائے ہے، جو اسپین اور مراکش کو جدا کرتی ہے۔ اس آبنائے کو یہ نام جبل الطارق (جبرالٹر) کے نام پر ملا، جہاں 711ء میں بنو امیہ کے عظیم جرنیل طارق بن زیاد اسپین فتح کرنے کے لئے لنگر انداز ہوئے تھے۔ آبنائے کے شمال میں جبل الطارق اور اسپین جبکہ جنوب میں مراکش ہے' یہ آبنائے اہم ترین اور شاندار محل وقوع کے باعث دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔ یہاں سے بحری جہاز بحیرہ روم سے بحر اوقیانوس اور بحرہ اوقیانوس سے بحیر روم سفر کرتے ہیں۔ اس کی گہرائی تقریباً 300 میٹر اور اس کی لمبائی کم از کم 14 کلو میٹر ہے۔ اس کے ذریعے عرب ممالک کی معدنی دولت آبنائے ہرمز' باب العندب اور نہر سوئز سے گزرنے کے بعد یورپ اور امریکا جاتی ہے۔
آبنائے باسفورس
(B0SPHORUS STRAIT OF )
آبنائے باسفورس ترکی کے یورپی حصے (رومبلیا) اور ایشیائی حصے (اناطولیہ ) کو جدا کر کے یور پ اور ایشیاء کے درمیان سرحد قائم کرتی ہے۔ اس آبنائے کو آبنائے استنبول بھی کہا جاتا ہے۔ بین الاقوامی جہاز رانی کے لئے استعمال ہونے والی دنیا کی یہ سب سے تنگ آبنائے ہے جو بحیرہ اسود کو بحیرہ مرمر سے ملاتی ہے۔ آگے چل کر بحیرہ مرمر درہ دانیال کے ذریعے بحیرہ ایجئین سے منسلک ہے جو بحیرہ روم سے ملا ہوا ہے۔ استبولی باشندے اسے صرف (Boaz) کہتے ہیں جبکہ Boazii کی اصطلاح آبنائے کے ساتھ ساتھ واقع استنبول کے علاقوں کے لئے استعمال ہوتی ہے۔
آبنائے باسفورس پر دو پل قائم ہیں 1973ء میں مکمل ہونے والا پہلاپل باسفورس 1074 میٹر طویل ہے دوسرا پل (سلطان محمد فاتح پل) 1090میٹر طویل اور 1988ء میں اس کی تکمیل ہوئی، یہ پہلے پل سے تقریباً 5کلو میٹر شمال میں واقع ہے۔ ترک حکومت کی جانب سے سات مجوزہ مقامات میں سے ایک مقام پر تیسرا پل بھی تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے۔ تاحال اس پل کے مقام کو صیغہ راز میں رکھا گیا ہے تاکہ زمینوں کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہو۔ مرمرے نامی ایک اور زیر آب گزر گاہ 2008ء میں مکمل ہوئی یہ 13.7کلومیٹر طویل ریلوے سرنگ ہے جو آبنائے سے 55 میٹر گہرائی سے گزرتی ہے۔
شاندار محل وقوع کے باعث باسفورس کی اہمیت ہمیشہ سے رہی ہے۔ یہ ایشیاء سے یورپ میں داخل ہونے کا راستہ بھی ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے اس کے دورازے پر موجود ناکے یعنی قسطنطنیہ کو فتح کرنے والے کے لئے جنت کی بشارت دی تھی، اس لئے مسلم مجاہد مسلسل اسے عبور کرنے کی کوششیں کرتے رہے تاآنکہ کامیابی کا تاج نوجوان عثمانی خلیفہ سلطان محمد فاتح کے سر پر 1453ء میں سجا۔ ماضی قریب میں اس پر قبضہ کے لئے کئی جنگیں لڑی گئیں جن میں1877ء کی روس ترک جنگ اور1915ء میں پہلی جنگ عظیم کے دوران اتحادی قوتوں کا دورہ دانیال پر حملہ بھی شامل ہے۔ قدیم تاریخ میں اس کے محل وقوع کی اہمیت کے باعث ہی رومی بادشاہ قسطنطین نے اس کے کنارے قسطنطنیہ کا شہر آباد کیا تھا۔
درہ دانیال
(DARDANELLES)
درہ دانیال آبنائے باسفورس کا جنوبی حصہ ہے۔ جو بحیرہ اسود کو بحیرہ روم سے ملاتا ہے یہ آبنائے تقریباً 40 میل لمبی اورایک سے چار میل چوڑی ہے۔ تاریخی اہمیت کی حامل یہ آبنائے یورپ کو ایشیاء سے جدا کرتی ہے۔ اس سے متعلق سب سے پہلا تاریخی واقعہ وہ ہے جب اردشیر نے اس پر پل باندھا تھا۔ انگریز شاعر (بائرن) نے اسے تیر کر پار کیا تھا۔ یہ آبنائے 14ویں صدی میں ترکی کے قبضہ میں آئی، جب سلطنت عثمانیہ نے اس پر قبضہ کیا۔ روس کو چوںکہ بحیرہ روم میں داخل ہونے کے لئے اس سے گزرنا پڑنا تھا، لہٰذا روس کی ہر حکومت اس پر قبضے کی خواہشمند رہی۔ 1833ء میں جب زار روس نے مصر کے باغی حکمران محمد علی باشا کے خلاف عثمانی سلطان کی مدد کی تو موخرالذکر نے روس کو درہ دانیال میں خاص مراعات دیں اور روسی جہازوں کو یہ حق دیا کہ وہ جب چاہیں آئیں، مگر یورپی طاقتوں کو یہ ناگوار گزرا۔
بالخصوص اس لئے کہ بصورت جنگ انہیں اس آبنائے میں جہاز داخل کرنے کی اجازت نہ تھی۔ چنانچہ انہوں نے 1840ء میں لندن کنونشن کے ذریعے ترکی پر دباؤ ڈالا اور اس سے روس کے لئے مراعات منسوخ کرا لیں اور1914ء تک یہ نظام رائج رہا۔ پہلی جنگ عظیم میں اتحادی طاقتوں نے درہ دانیال فتح کرنے کی کوشش کی مگر منہ کی کھائی۔ جنگ کے خاتمے پر اتحادیوں نے گیلی پولی کا ساحل یونان کو دے دیا اور اس آبنائے کو نہتا کر دیا۔1922ء میں ترک حکومت نے اسے یونان سے واپس لے لیا۔4 اگست 1923ء کو اسے ایک معاہدہ (لوزان) کے تحت بین الاقوامی تحویل میں دے دیا گیا۔ 30 جولائی 1936ء کو مانٹروکنونشن کی رو سے اس پر عملاً ترکی کا اختیار تسلیم کر لیا گیا۔
آبنائے ملا کا
(STRAIT OF MALACCA)
آبنائے ملا کا انڈونیشیاء کے صوبے سماٹرا کو جزیرہ نما ملائیشیا سے جداکرتی ہے اور بحرالکاہل کو بحرِ ہند سے ملاتی ہے۔ جزیرہ نما ملائیشیا اور انڈونیشیاء کے جزیرے سماٹرا کے درمیان ایک آبی گزرگاہ ہے۔ محل وقوع اور اقتصادی لحاظ سے یہ نہر سویز اور نہر پانامہ کی طرح دنیا کی اہم ترین بحری گزر گاہوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ بحر ہند اور بحرالکاہل کے درمیان بحری جہازوں کو گزرنے کا مرکزی راستہ فراہم کرتی ہے اور اس طرح دنیا کے 3 گنجان آباد ترین ممالک بھارت' انڈونیشیاء اور چین کو منسلک کرتی ہے۔ اس آبنائے سے سالانہ 50 ہزار جہاز گزرتے ہیں جودنیا کے کل تجارتی حصے کا ایک پانچواں یا ایک چوتھائی حصہ ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں تیل کی ترسیل کا ایک چوتھائی حصہ اس گزر گاہ سے گزرتا ہے اور 2003ء میں اندازاً 11 ملین بیرل تیل روزانہ اس آبنائے سے گزرا۔ 805 کلو میٹر (500) میل رود بار سنگا پور کے قریب رودبار فلپس کے مقام پر محض 1.5 بحری میل (2.8 کلو میٹر) چوڑی ہے یہ اس کا تنگ ترین علاقہ ہے اس کی وجہ سے ذرائع نقل و حمل کے لئے دنیا کی اہم ترین راہ یعنی درّہ (Botttle Nech) بننا ہے۔ اس راستے سے گزرنے کے لئے جہاز کے زیادہ سے زیادہ حجم کو (ملا کا میکس) گہرا جاتا ہے۔
آبنائے ڈوور
(Dover)
ڈوور نامی یہ آبنائے انگلستان اور فرانس کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے اور انگلش چینل کو بحیرہ شمالی سے ملاتی ہے، یہ 21 سے 36 میل چوڑی ہے۔ اس کا نام ساحل انگلستان کی بندرگاہ ڈوور پر رکھا گیا ہے۔ یہاں سے فرانس کا فاصلہ بہت کم ہے۔ تعمیرات کا عظیم شاہکار چینل ٹنل اسی کے نیچے سے سمندر میں گزرتی ہے اور فرانس اور برطانیہ کے درمیان زیر آب زمینی راستے کا کام دیتی ہے۔
رود بار انگلستان
(انگلش چینل)
رود بار انگلستان یا انگلش چینل بحراوقیانوس کا ایک حصہ ہے، جو برطانیہ کو شمالی فرانس سے جدا اور بحیرہ شمالی کو بحر اوقیانوس سے منسلک کرتا ہے۔ یہ 563 کلو میٹر (350 میل) طویل اور زیادہ سے زیادہ 240 کلو میٹر (150 میل) چوڑی ہے۔ آبنائے ڈوور اس کاسب سے کم چوڑا مقام ہے جو محض 34 کلومیٹر (21میل) ہے اور رود بار انگلستان کے مشرقی کنارے پر واقع ہے۔ رومی سلطنت کے دور میں یہ رودبار (Oceanus Britannicus) کہلاتی تھی۔ اور1549ء تک اسے بحیرہ برٹش کہا جاتا تھا۔ یہ رود بار انگلستان کی قدرتی محافظ ہے اور کئی جنگوں کی شاہد رہ چکی ہے جن میں زمانہ جدید کی نپولین کی جنگیں، دوسری جنگ عظیم میں نازی جنگیں اور زمانہ قدیم میں رومیوں کی فتح برطانیہ،1066ء میں نارمن فتوحات اور 1588ء میں ہسپانوی یلغار شامل ہیں۔
برطانیہ اور فرانس کی جانب سے رودبار کے دونوں جانب واقع شہروں کے لئے کشتیوں اور جہازوں کے ذریعے سفری خدمات مہیا کی گئی ہیں جبکہ دونوں ممالک کے دارالحکومت (لندن اور پیرس) کے درمیان فاصلہ گھٹانے کے لئے رودبار انگلستان کے نیچے سے ایک سرنگ تعمیر کی گئی جسے ''چینل ٹنل'' یعنی رود بار سرنگ کہا جاتا ہے۔ یہ پہلی بار 1994ء میں کھولی گئی اور اس کے ذریعے پہلی مرتبہ برطانیہ سے کوئی ریل گاڑی فرانس پہنچی۔ پیرس، برسلز اور لندن آج کل ''یوروسٹار'' نامی ریل گاڑی کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔