ماڈل کورٹس قابل تحسین نتائج

ان عدالتوں میں ججوں کا تقرر متعلقہ ہائی کورٹ کرتی ہے اور یہ جج تین سال تک فرائض انجام دے سکتے ہیں۔

ali.dhillon@ymail.com

جنوبی امریکا سے وینزویلا اور جنوبی افریقہ سے نائیجیریا دنیا کے وہ ملک ہیں جو تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود انتہائی غریب ہیں، ان ممالک میں غربت کی انتہا اس قدر ہے کہ وہاں کچرا چننے والے بچوں نے بھی خوراک حاصل کرنے کے لیے اپنے گینگ بنا رکھے ہیں۔ ان ممالک کی غربت کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، حال ہی میں ورلڈ بینک نے ایک کتابAfrican Poverty at the Millennium شایع کی جس میں ان ممالک میں جہاں غربت کی دیگر وجوہات شامل کی گئی ہیں وہیں سب سے بڑی وجہ انصاف کا نہ ہونا بتایا گیا ہے۔

مصنف لکھتا ہے کہ آپ کے پاس دنیا کی ہر نعمت موجود ہو مگر ''انصاف'' نہ ہوتو آپ ترقی نہیں کر سکتے۔ آپ انصاف کے بغیر دنیا کے مجبور ترین انسانوں میں شمار ہو جاتے ہیں، مصنف مزید لکھتا ہے کہ انسان اور جانور میں فرق محض نظم و ضبط اور قانون کی پاسداری کا ہے۔ اگر ہم قانون کے پاسدار نہیں ہیں تو ہم جانوروں سے بھی بدترین افراد میں شمار ہوں گے۔ یہی حال گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کا ہے جو ایٹمی طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کی بہترین مثالی فوج رکھتا ہے، اس ملک میں ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان، معدنیات، بندرگاہیں، پہاڑ، جھیلیں، سمندر، زراعت، دنیا میں نوجوانوں کی بہترین تعداد، کھلاڑی، بہترین کاروباری افراد جن کے پوری دنیا میں کاروبار موجود ہیں جیسی نعمتوں سے مالامال ہیں۔مگر ملک میں انصاف نہ ہونے کے باعث یہ سب کچھ بے کار نظر آتا ہے۔

اس ملک میں بہت سے چیف جسٹس صاحبان آئے، عدالتی نظام کو بہتر بنانے کے دعوے، وعدے کیے اور چلے گئے ۔پھر موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے منصب سنبھالا تو انھوں نے بھی عدلیہ کے نظام میں بہتری لانے کا عزم کیا، اور اگلے چند ماہ میں ''ماڈل کورٹس'' کا نمونہ پیش کیا، جس میں کچھ اصول و ضوابط عام عدالتوں سے ہٹ کر رکھے گئے، جن میں فوری فیصلے، لگاتار تفتیش اور مدعیان کی حاضری کو ضروری بنایا گیا۔ ان ماڈل کورٹس کا آغاز رواں سال اپریل میں ہوا تواُس وقت میں نے سوچا کہ ان کورٹس پر کالم لکھا جائے لیکن اُس وقت قلم نے ساتھ نہ دیاکیوں کہ میں سوچ رہا تھا کہ ہمارا عدالتی نظام اس قدر گھمبیر ہے کہ مذکورہ ماڈل کورٹس بمشکل اپنے اہداف حاصل کر سکیں گی۔

لیکن آج جب ڈھائی ماہ کی کارکردگی میرے سامنے پڑی ہے تو اسے دیکھتے ہوئے میرے تمام خدشات دور ہوگئے، کیوں کہ ان عدالتوں نے جس تیزی کے ساتھ دہائیوں پرانے مقدمات کے فیصلے کیے وہ یقینا قابل تحسین ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں قائم 110 ''ماڈل کرمنل ٹرائل کورٹس'' (ایم سی ٹی سی) نے ڈھائی ماہ کے عرصے میں اب تک قتل اور منشیات کے 5 ہزار 647 ٹرائل کیسز کا فیصلہ کیاہے، جو اوسطاََ فی دن 75کیس بنتے ہیں۔یکم اپریل 2019 سے 15 جون 2019 کے درمیان قتل کے 2 ہزار 236 اور منشیات کے 3 ہزار 411 کیسز کا فیصلہ ہوا۔175 کیسز میں سزائے موت جب کہ 535 کیسز میں عمر قید کی سزا سنائی گئی، اسی طرح ایک ہزار 352 ملزمان کو مجرم قرار دیا گیا اور سزا کے بعد ان پر 26 کروڑ روپے جرمانہ کیا گیا۔

ان عدالتوں میں ججوں کا تقرر متعلقہ ہائی کورٹ کرتی ہے اور یہ جج تین سال تک فرائض انجام دے سکتے ہیں۔ ان عدالتوں کے لیے مقدمات کا تعین بھی ہائی کورٹ ہی کرتی ہے۔یعنی ہر ضلع میں جو مقدمات پرانے سمجھے جاتے ہیں وہ ان عدالتوں کو ریفر کردیے جاتے ہیں۔ البتہ اگر کسی فریق کو فیصلہ پسند نہ ہو تو پھر ایسی صورت میں ماڈل کورٹس کے فیصلوں کو اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ چیف جسٹس فوری کیس نمٹنانے کے حوالے سے خاصی شہرت رکھتے ہیں اور عدلیہ میں اس حوالے سے انھیں نمبر ون کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے ''ای کورٹ'' قائم کرکے دنیا کی عدالتی تاریخ میں پہلی مثال قائم کی ہے۔ اب ویڈیو لنک سسٹم کے تحت کراچی کے مقدمات کی سپریم کورٹ اسلام آباد میں سماعت کی جاسکے گی جس سے کروڑوں روپے اور وقت کی بچت ہوگی اور عوام کو پاکستان کے آئین کے مطابق فوری اور سستا انصاف فراہم کرنے کے امکانات پیدا ہوں گے۔ تبھی یہ ملک ترقی کرے گا ، تبھی عوام کا اداروں پر اعتماد بحال ہوگا اور سب سے بڑھ کر تبھی بیرون ملک سرمایہ کار پاکستان آئے گا، جب اُسے علم ہوگا کہ اُس کا لگایا ہوا سرمایہ ضایع ہونے سے بچ جائے گا۔


ورنہ یہاں سیاست دان ہوں یا کاروباری افراد، وکیل ہو یا ڈاکٹر، سپاہی ہو یا عام آدمی، صحافی ہو یا اداکار آج تک پاکستان کے نظام انصاف پر کسی نے اطمینان کا اظہار نہیں کیا۔ یہاں پنجابی بھی شناخت کے بعد ذبح ہوا تو پٹھان بھی محب وطن کا سرٹیفیکیٹ ڈھونڈ رہا ہے۔بلوچ بھی غداری کا داغ لیے گھوم رہا ہے تو سندھی بھی ظلم و بربریت کے ساتھ غربت کی چکی میں پیس رہا ہے۔کشمیری بھی مظلوم ہے تو گلگت بلتستان بھی شناخت ڈھونڈ رہا ہے۔

سرائیکی بھی صوبے کی آس لیے لاہور کے چکر کاٹ رہا ہے تو ہزارہ وال بھی صوبے کی آرزو لیے جانیں قربان کر چکا ہے۔کراچی ٹیکس اکھٹا کر رہا ہے تو سندھ غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔سوئی کی گیس سے ملک چل رہا ہے تو بگٹی کے خون کس کے ہاتھ اور کیوں ہوا، آج تک معمہ ہے۔ پاکستان میں اسپتال میں جانے والا بھی خوش نہیں تو عدالت کا رخ کرنے والا بھی ساری عمر وکیلوں کی جیبیں بھرتا ہے۔سڑکیں خراب ہیں تو ریلوے کے نظام بھی فرنگی دور جیسا ہی لگتا ہے۔

پاکستان کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے یا سڑک پر چلنے والے عام شخص سے بات کی جائے تو یہی پتہ چلے گا کہ اس نظام میں انصاف نہیں ہے۔کسی بھی قوم کی ترقی وہاں انصاف پر مبنی نظام کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔درج بالا میں جتنے بھی واقعات کا ذکر کیا گیا ہے وہاں کہیں بھی انصاف کی فراہمی ممکن نہیں ہو سکی۔آج تاریخ ہمیں ایک بار پھر دولخت ہونے سے تین یا چار لخت ہونے کی جانب دھکیل رہی ہے۔

ہم بھارت، ایران، افغانستان،امریکا،اسرائیل،سعودی عرب،روس اور برطانیہ پر پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کا الزام لگا کر اپنا اپنا دامن چھڑا لیتے ہیں لیکن پاکستان کے سب سے کمزور نظام عدل وانصاف کی طرف آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔انصاف ہی کے حوالے سے ہمارے نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ تم سے پہلی امتیں اس لیے ہلاک ہوئیں کہ وہ کمزور کو تو سزا دیتی تھیں۔ قرآن مجید میں بھی لاتعداد مقامات پر قانون اور انصاف کے تقاضوں کا احترام کرنے کا حکم دیا ہے، خواہ ایسا کرنے سے ہمیں ذاتی طور پر یا ہمارے اقرباء کو نقصان پہنچتا ہو مگر بدقسمتی سے ماضی میں نظریہ ضرورت کا بار بار سہارا لیے جانے نے قانون کی حکمرانی کے تصور کو بے حد نقصان پہنچایا۔

اگر پاکستان کی سالمیت ہم سب کو عزیز ہے تو اس نظام عدل وانصاف کو بہتر ہی نہیں بلکہ بہترین بنانا ہو گا وگرنہ جس پاکستان کے قیام کے لیے لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کیا گیا تھا اسے بچانے کے لیے کروڑوں لوگوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔قومیت کو قومیت سے لڑانے کی سازشیں پورے پاکستان کی سالمیت کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔بیج بوئے جا رہے ہیں، نسلوں کو بوئے ہوئے بیجوں کی فصل کاٹنی پڑے گی۔ لہٰذاچیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ جیسی لائق شخصیت نے اگر ان مسائل کو بھانپ لیا ہے تو یقینا وہ پاکستان کے لیے ٹھیک کام کر رہے ہیںلیکن ا بھی ا س کام کی گونج عام آدمی تک نہیں پہنچ رہی ہے۔ عام آدمی کو ابھی ان ماڈل کورٹس کے افادیت سمجھ نہیں آرہی۔ ان عدالتوں کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنی چاہیے تا کہ عوام کو حقائق کا علم ہوسکے۔اور دہائیوں سے زیر التواء مقدمات سے عام آدمی کی جان چھوٹ جائے ورنہ بقول پروین شاکر وہ یونہی بھٹکتا رہے گا۔

سچ جہاں پابستہ ملزم کے کٹہرے میں ملے

اس عدالت میں سنے گا عدل کی تفسیر کون
Load Next Story