مسٹر ٹرمپ کی خوش بختی
ایک بار اگر اپنے اصولوں پر مصلحت کی چادر چڑھا دی جائے تو پھر اصول اصول نہیں رہتے۔
نیم ترقی یافتہ یا غیر ترقی پذیر معاشروں کی ایک بنیادی خرابی یہ بھی ہوتی ہے، ان کے یہاں کرپشن عام ہوتی ہے۔ ہر سطح ہر قسم اور ہر مرحلے پر بلاتفریق کرپشن ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
ایسے معاشرے میں جس میں ہم پاکستانی بھی شامل ہیں کرپشن عام ہوتی ہے اور ایک گدھا گاڑی چلانے والے سے لے کر 22 گریڈ کے سرکاری افسر تک اس میں ملوث ہوتے ہیں اور ایک یہی قدر مشترک ہے جو گدھا گاڑی چلانے والے اور 22 گریڈ کے حامل فرعون صفت انسان کو ایک ہی صف میں کھڑا کر کے محمود و ایاز کے فرق کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ ہم کرپشن کے اس آسیب سے جان نہیں چھڑا سکے ہیں۔ کتنی کوششیں کر لیں مگرکرپشن سے نجات مل سکی نہ ترقی کی صورت پیدا ہو سکی۔
دعوے تو ہر حکومت یہی کرتی آئی ہے کہ ہم کرپشن کا خاتمہ کر کے دکھائیں گے مگر اب تک کسی حکومت کی ضرب کلیمی سمندر کا سینہ چاک کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔
دوسری طرف مغربی معاشروں کو دیکھ لیجیے۔ ان میں جو چیزیں حلال ہیں وہ حلال ہیں اور جو حرام ہیں وہ حرام ہی رہتی ہیں۔ کرپشن ان کے معاشرے میں حرام ہے اور وہ سختی سے اس پر کاربند ہیں اور ہم ان کے ان اوصاف حمیدہ کی تعریف کرتے نہیں تھکتے مگر ان کو اختیار کرنے کی ہمت ہم میں نہیں اس لیے ترقی نے ہم سے منہ موڑ لیا ہے اور ہم کشکول گدائی لیے پھرتے ہیں اور پر شرمسار نہیں۔
مغرب میں ہر وہ عمل حلال ہے جسے اسلام نے حرام قرار دیا ہے۔ سود، زنا، شراب نوشی، قمار بازی سب کچھ حلال ہے اور وہ اسے حلال سمجھ کر کرتے ہیں مگر رشوت لینا، مالی بدعنوانی کرنا، اجتماعی امور میں خیانت کا ارتکاب کرنا یا عام انسانی اخلاق سے روگردانی کرنا ان کے معاشرے میں حرام ہے اور وہ اسے حرام سمجھ کر اختیار نہیں کرتے گویا وہ اپنے معاملات میں منافقت نہیں برتتے۔ ہم ہر اس عمل کو جو ہمارے یہاں حرام ہے حیلے بہانوں سے جائزکر لیتے ہیں اور اسے شیر مادرکی طرح حلال کر کے کھاتے پیتے یا اختیار کرتے ہیں۔ یہی فرق ہے جو انھیں ترقی کی بلندیوں پر لے جا رہا ہے اور ہمیں تنزلی کی ذلت آمیز حد تک پہنچا رہا ہے۔ مغرب کی ترقی کی وجوہات متعدد ہوں گی مگر جو صورتحال ہم نے بیان کی وہ سب وجوہات پر بھاری ہے۔ ابھی نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کے ساتھ جو حادثہ ہوا اور اس پر وہاں کی وزیر اعظم نے جس ردعمل کا اظہار کیا وہ ان کی اخلاقی سربلندی کی روشن مثال ہے۔
لیکن جب مسلم دشمنی کا مسئلہ درپیش ہو تو معلوم نہیں کیونکر بیشتر مغربی معاشروں کو فرنجک ہوجاتی ہے اور وہ مسلم دشمنی میں اپنی روشن خیالی اور وسیع النظری کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔
ہم کہ کچلے ہوئے، ٹھکرائے ہوئے اور اپنے اعمال کے نتائج بھگتنے والے لوگ ہیں جب کبھی مغرب میں زوال کے مظاہر دیکھ پاتے ہیں تو اپنی اصلاح کریں یا نہ کریں ان کے آنے والے دنوں کی خوش خبری سے ہمیں تسکین ملتی ہے کیونکہ ہم اپنی پامالی کو اپنے اعمال سے زیادہ ان کی فتنہ پرور ذہانت کی دین سمجھتے ہیں۔
مسٹر ٹرمپ جب صدر منتخب ہوئے تو چند خواتین نے دعویٰ کیا کہ وہ ماضی میں ان کو جنسی طور پر ہراساں کرتے رہے ہیں مگر یہ خبر آنے پر بھی صدر ٹرمپ کے خلاف کوئی کارروائی تو در کنار کوئی موثر آواز بھی نہیں اٹھی حالانکہ اس سے کم تر ایک الزام نے امریکی صدر مسٹر کلنٹن کو اپنا عہدہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔
اب ایک بار پھر ایک خاتون منظر عام پر آئی ہیں اور انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ماضی میں صدر ٹرمپ نے ان کو بھی جنسی طور پر ہراساں کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک شاپنگ مال کے چینجنگ روم میں تھیں کہ ٹرمپ اس میں گھس آئے اور دست درازی کی کوشش کی۔
مغربی معاشرے میں جنسی آلودگی اگر بالرضا ہو تو کوئی مضائقہ نہیں بلکہ ہر ہوش مند آدمی ایک نہ ایک گرل فرینڈ اور ہر عورت ایک بوائے فرینڈ ضرور رکھتی ہے جو شوہر سے زائد ایک چیز ہوتی ہے مگر بالجبر جنسی طور پر کسی سطح پر ملوث ہونا اس معاشرے میں بھی حرام ہے ۔ مگر ایسی تمام خبروں کو امریکی اشاعتی ادارے شایع اور نشر کر کے چپ سادھ لیتے ہیں۔
شاید اس معاشرے میں بھی اسٹیبلشمنٹ نام کی کوئی چیز ہوتی ہو گی جس نے جب چاہا صدر کلنٹن کو اپنی ایک دفتری کارکن سے رضامندانہ جنسی تلذذ کے نتیجے میں نکال باہر کیا تھا مگر صدر ٹرمپ کے بارے میں متعدد شکایات موصول ہونے کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکی بلکہ ایسے الزامات کو قابل اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ گویا وہاں کے ارباب حل و عقد نے جو ہمیشہ پس پردہ ہوتے ہیں ابھی مسٹر ٹرمپ کو امریکی حکمرانی کے لیے ضروری سمجھا ہے۔
مگر یہی دوغلا پن اور منافقانہ پالیسی زوال کی ابتدائی علامت ہوتی ہے۔ آج مسٹر ٹرمپ کے نامہ اعمال سے ان کے گناہ کیوں ڈی لیٹ کیے جا رہے ہیں اور کب تک کیے جاتے رہیں گے۔ یہ دو رخی پالیسی وہی منافقت ہے جو ہم جیسے زوال آمادہ معاشروں کا طرہ امتیاز ہے۔ اب اگر یہ طرہ امریکی معاشرے کی ٹوپی کو زیب دے رہا ہے تو ہمارے لیے اطمینان کا سبب ہے کہ وہ ہماری صف میں آگئے ہیں۔
ایک بار اگر اپنے اصولوں پر مصلحت کی چادر چڑھا دی جائے تو پھر اصول اصول نہیں رہتے۔ بار بار ان کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور طرح طرح ہوتی ہے۔ اب امریکی معاشرہ اسی ڈگر پر چل پڑا ہے۔ اب ہماری باری ہے کہ ہم اپنا میٹر لے کر امریکی زوال کی قدر کو ناپ سکیں اور ان کو ان کے زوال پر کم از کم متوجہ ضرور کر سکیں۔ خوش ہونے سے توکچھ حاصل نہیں ہوتا البتہ عبرت پکڑنا کام آ سکتا ہے۔
ایسے معاشرے میں جس میں ہم پاکستانی بھی شامل ہیں کرپشن عام ہوتی ہے اور ایک گدھا گاڑی چلانے والے سے لے کر 22 گریڈ کے سرکاری افسر تک اس میں ملوث ہوتے ہیں اور ایک یہی قدر مشترک ہے جو گدھا گاڑی چلانے والے اور 22 گریڈ کے حامل فرعون صفت انسان کو ایک ہی صف میں کھڑا کر کے محمود و ایاز کے فرق کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ ہم کرپشن کے اس آسیب سے جان نہیں چھڑا سکے ہیں۔ کتنی کوششیں کر لیں مگرکرپشن سے نجات مل سکی نہ ترقی کی صورت پیدا ہو سکی۔
دعوے تو ہر حکومت یہی کرتی آئی ہے کہ ہم کرپشن کا خاتمہ کر کے دکھائیں گے مگر اب تک کسی حکومت کی ضرب کلیمی سمندر کا سینہ چاک کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔
دوسری طرف مغربی معاشروں کو دیکھ لیجیے۔ ان میں جو چیزیں حلال ہیں وہ حلال ہیں اور جو حرام ہیں وہ حرام ہی رہتی ہیں۔ کرپشن ان کے معاشرے میں حرام ہے اور وہ سختی سے اس پر کاربند ہیں اور ہم ان کے ان اوصاف حمیدہ کی تعریف کرتے نہیں تھکتے مگر ان کو اختیار کرنے کی ہمت ہم میں نہیں اس لیے ترقی نے ہم سے منہ موڑ لیا ہے اور ہم کشکول گدائی لیے پھرتے ہیں اور پر شرمسار نہیں۔
مغرب میں ہر وہ عمل حلال ہے جسے اسلام نے حرام قرار دیا ہے۔ سود، زنا، شراب نوشی، قمار بازی سب کچھ حلال ہے اور وہ اسے حلال سمجھ کر کرتے ہیں مگر رشوت لینا، مالی بدعنوانی کرنا، اجتماعی امور میں خیانت کا ارتکاب کرنا یا عام انسانی اخلاق سے روگردانی کرنا ان کے معاشرے میں حرام ہے اور وہ اسے حرام سمجھ کر اختیار نہیں کرتے گویا وہ اپنے معاملات میں منافقت نہیں برتتے۔ ہم ہر اس عمل کو جو ہمارے یہاں حرام ہے حیلے بہانوں سے جائزکر لیتے ہیں اور اسے شیر مادرکی طرح حلال کر کے کھاتے پیتے یا اختیار کرتے ہیں۔ یہی فرق ہے جو انھیں ترقی کی بلندیوں پر لے جا رہا ہے اور ہمیں تنزلی کی ذلت آمیز حد تک پہنچا رہا ہے۔ مغرب کی ترقی کی وجوہات متعدد ہوں گی مگر جو صورتحال ہم نے بیان کی وہ سب وجوہات پر بھاری ہے۔ ابھی نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کے ساتھ جو حادثہ ہوا اور اس پر وہاں کی وزیر اعظم نے جس ردعمل کا اظہار کیا وہ ان کی اخلاقی سربلندی کی روشن مثال ہے۔
لیکن جب مسلم دشمنی کا مسئلہ درپیش ہو تو معلوم نہیں کیونکر بیشتر مغربی معاشروں کو فرنجک ہوجاتی ہے اور وہ مسلم دشمنی میں اپنی روشن خیالی اور وسیع النظری کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔
ہم کہ کچلے ہوئے، ٹھکرائے ہوئے اور اپنے اعمال کے نتائج بھگتنے والے لوگ ہیں جب کبھی مغرب میں زوال کے مظاہر دیکھ پاتے ہیں تو اپنی اصلاح کریں یا نہ کریں ان کے آنے والے دنوں کی خوش خبری سے ہمیں تسکین ملتی ہے کیونکہ ہم اپنی پامالی کو اپنے اعمال سے زیادہ ان کی فتنہ پرور ذہانت کی دین سمجھتے ہیں۔
مسٹر ٹرمپ جب صدر منتخب ہوئے تو چند خواتین نے دعویٰ کیا کہ وہ ماضی میں ان کو جنسی طور پر ہراساں کرتے رہے ہیں مگر یہ خبر آنے پر بھی صدر ٹرمپ کے خلاف کوئی کارروائی تو در کنار کوئی موثر آواز بھی نہیں اٹھی حالانکہ اس سے کم تر ایک الزام نے امریکی صدر مسٹر کلنٹن کو اپنا عہدہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔
اب ایک بار پھر ایک خاتون منظر عام پر آئی ہیں اور انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ماضی میں صدر ٹرمپ نے ان کو بھی جنسی طور پر ہراساں کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک شاپنگ مال کے چینجنگ روم میں تھیں کہ ٹرمپ اس میں گھس آئے اور دست درازی کی کوشش کی۔
مغربی معاشرے میں جنسی آلودگی اگر بالرضا ہو تو کوئی مضائقہ نہیں بلکہ ہر ہوش مند آدمی ایک نہ ایک گرل فرینڈ اور ہر عورت ایک بوائے فرینڈ ضرور رکھتی ہے جو شوہر سے زائد ایک چیز ہوتی ہے مگر بالجبر جنسی طور پر کسی سطح پر ملوث ہونا اس معاشرے میں بھی حرام ہے ۔ مگر ایسی تمام خبروں کو امریکی اشاعتی ادارے شایع اور نشر کر کے چپ سادھ لیتے ہیں۔
شاید اس معاشرے میں بھی اسٹیبلشمنٹ نام کی کوئی چیز ہوتی ہو گی جس نے جب چاہا صدر کلنٹن کو اپنی ایک دفتری کارکن سے رضامندانہ جنسی تلذذ کے نتیجے میں نکال باہر کیا تھا مگر صدر ٹرمپ کے بارے میں متعدد شکایات موصول ہونے کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکی بلکہ ایسے الزامات کو قابل اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ گویا وہاں کے ارباب حل و عقد نے جو ہمیشہ پس پردہ ہوتے ہیں ابھی مسٹر ٹرمپ کو امریکی حکمرانی کے لیے ضروری سمجھا ہے۔
مگر یہی دوغلا پن اور منافقانہ پالیسی زوال کی ابتدائی علامت ہوتی ہے۔ آج مسٹر ٹرمپ کے نامہ اعمال سے ان کے گناہ کیوں ڈی لیٹ کیے جا رہے ہیں اور کب تک کیے جاتے رہیں گے۔ یہ دو رخی پالیسی وہی منافقت ہے جو ہم جیسے زوال آمادہ معاشروں کا طرہ امتیاز ہے۔ اب اگر یہ طرہ امریکی معاشرے کی ٹوپی کو زیب دے رہا ہے تو ہمارے لیے اطمینان کا سبب ہے کہ وہ ہماری صف میں آگئے ہیں۔
ایک بار اگر اپنے اصولوں پر مصلحت کی چادر چڑھا دی جائے تو پھر اصول اصول نہیں رہتے۔ بار بار ان کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور طرح طرح ہوتی ہے۔ اب امریکی معاشرہ اسی ڈگر پر چل پڑا ہے۔ اب ہماری باری ہے کہ ہم اپنا میٹر لے کر امریکی زوال کی قدر کو ناپ سکیں اور ان کو ان کے زوال پر کم از کم متوجہ ضرور کر سکیں۔ خوش ہونے سے توکچھ حاصل نہیں ہوتا البتہ عبرت پکڑنا کام آ سکتا ہے۔