ننانوے کا پھیر
اصل میں ہم کچھ تھوڑا خود اورکچھ اغیارکی مہربانیوں سے ننانوے کے پھیر میں خود کو پھنسا بیٹھے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بے چینی ، الجھنیں ، پریشانیاں اور مسائل ہیں اور بہت ہیں۔ مانا کہ مہنگائی بھی بہت ہے۔گرمی بھی بہت ہے، بیروزگاری بھی کم نہیں، بجلی پانی کی بھی قلت ہے ڈالر بھی اونچی پرواز کر رہا ہے اور روپے کی ڈی ویلیو ایشن سے پریشانیاں بھی ہیں اور دجیگر بہت سے مسائل ہیں جو کہ ایک عام آدمی نیز مقتدر حلقوں اورکسی حد تک اس ملک کی مخلص اشرافیہ کو بھی جکڑے ہوئے اور گھیرے ہوئے ہیں۔
لوگ فی الحال سرکارکی معاشی حکمتِ عملیوں اور اقدامات کو آیندہ کچھ اچھا ہونے کی امید پرابھی تک توچاروناچار برداشت کررہے ہیں اور ہنوز پرامید ہیں کہ آنے والا کل بہتر ہوگا۔ ملکی اور بین الاقوامی سطح پرکچھ غیر معمولی واقعات رونما ہورہے ہیں ان بین الاقوامی حالات وواقعات کا براہ راست اثر ہمارے ملکی معاملات اور حالات پر پڑ رہا ہے لیکن ان سب باتوں کے باوجود اگر ہم مایوس ہونے کی بجائے مثبت سوچ کو اپنائیں اور گلاس کو آدھا خالی ہونے کی بجائے آدھا بھرا ہونے والے طریقے اور نکتہ نظر سے دیکھنا شروع کریں تو یقین مانیں کہ شکرکرنے کا دل چاہنے لگے گا۔ بس ذرا احساس کرنے کی بات ہے اور زاویہ نظر تبدیل کرنا درکار ہے۔
اصل میں ہم کچھ تھوڑا خود اورکچھ اغیارکی مہربانیوں سے ننانوے کے پھیر میں خود کو پھنسا بیٹھے ہیں۔ ننانوے کا پھیر ایک قدیم اردو محاورہ یا کہاوت ہے جو کہ اردو کا جنازہ نکلنے سے پہلے بہت حد تک روزمرہ میں مستعمل تھی لیکن اب یاد دلانا پڑتی ہے۔ اور جس طرح قفلی کو قلفی کہا اور لکھا جانے لگا ہے اور اسی طرح کے کئی غلط العام الفاظ اب مسلسل استعمال کی وجہ سے درست قرار پائے ہیں، بلکل اسی طرح سے ننانوے کے پھیر کا عمومی مفہوم پیسہ بنانے سے کیا جانے لگا ہے یعنی فلاں شخص تو بھئی ننانوے کے پھیر میں پڑا ہوا ہے یعنی پیسہ بنا رہا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ عام فہم مفہوم بھی درست ہو مگر اس بات کے یعنی ننانوے کے پھیر کے ایک اور معنی بھی ہیں جو کہ درج ذیل حکایت سے شاید واضح ہوپائیں۔
کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک بادشاہ سلامت نے اپنے وزیر با تدبیرکو طلب کیا اور دیر تک امور سلطنت کے مسائل اور امور زیر بحث رہے ، اس دوران بادشاہ کی نظر اپنے کچھ غلاموں یا شاہی نوکروں پر پڑی جو دور ہنسی کھیل میں مشغول خوش باش نظر آرہے تھے اورآپس میں خوب چہلیں کر رہے تھے۔ ان کے چہرے خوشی اور بے فکری سے تمتما رہے تھے۔ بادشاہ بار بار ان کو دیکھا کیا اور بالاآخر تلملا کر وزیر اعظم سے کہا کہ ہم اس ملک کے بادشاہ ہیں سب چیزیں ہماری دسترس میں ہیں لیکن ہم پریشان ہیں اور یہ غلام ناہنجار دو ٹکے کے ملازم ہیں مگر ہر وقت خوش باش نظر آتے ہیں۔یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ اس کی کیا وجہ اور سبب ہے؟ وزیر اعظم بڑا دانا و بینا اور گرگ باراں دیدہ قسم کا انسان تھا ورنہ اس منصبِ جلیلہ پر کیونکر فائز ہوپاتا۔
بادشاہ کا سوال سن کے کہنے لگا عالی جاہ! انھیں ننانوے کے پھیر میں ڈال دیجیے سب مسکراہٹ اور بے فکری ہوا ہوجائے گی۔ بادشاہ نے حیران ہوکرکہا کہ وہ کیسے؟ وزیر نے کہا کہ ان سب میں سے سب سے زیادہ خوش باش کون سا غلام ہے؟ بادشاہ نے ایک کی طرف اشارہ کردیا۔ وزیر اعظم نے ایک منقش صراحی منگوائی اور اس کے اندرگن کر ننانوے اشرفیاں ڈال کر صراحی کو سربہ مہر کردیا اور اس پر لکھوادیا کہ آپ کے لیے سو اشرفیاں ایک محبت کرنے والے کی جانب سے ہدیہ ہیں۔ اور بادشاہ سے کہا کہ جناب عالی یہ اشرفیاں علی الصبح اس غلام کے گھر کے دروازے پر رکھوادیں جب وہ محل میں آنے کے لیے گھر سے نکلتا ہو۔ چناچہ اشرفیاں رکھوادی گئیں۔
اس صبح جب غلام محل میں اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے جانے کے واسطے نکلا تو دروازے پر خوبصورت منقش صراحی دیکھی، اٹھائی تو اس پر لکھی تحریر پر نظر پڑی بڑا خوش ہوا بھاگا ہوا گھر میں آیا اور اہل خانہ کو سو اشرفیاں ملنے کی خوشخبری سناتے ہوئے ایک چادر پر صراحی کو خالی کیا۔ جب گنا تو ننانوے اشرفیاں تھیں سب گھر والوں نے بار بارگنا کہ لکھا تو سو ہے یہ نناوے کیسے ہوگئیں ایک کہاں گئی؟ سب ڈھونڈنے میں لگ گئے دروازے کے آس پاس جہاں صراحی ملی تھی،گلی میں بھی دور تک دیکھا،گھر میں بھی ڈھونڈتے رہے مگر وہ نہ ملنی تھی نہ ملی کہ وہ تو تھیں ہی ننانوے۔
آخر غلام دیر ہونے کی وجہ سے سب چھوڑ چھاڑکر محل پہنچا اور آج جب بادشاہ نے دیکھا تو وہ پژمردہ الجھا الجھا اور چپ چپ نظر آیا۔ بادشاہ نے وزیرکی تحسین بھی کی اور سارا رمز پوچھا تو وزیر نے عرض کی کہ بادشاہ سلامت آپ یہ دیکھیں کہ اس غلام کو مفت میں ننانوے اشرفیاں مل گئیں لیکن اسے اس کے ملنے کی خوشی کو چھوڑکر ایک اشرفی کم ہوجانے کا غم لگ گیا کہ گئی تو گئی کہاں۔ اسی کو ننانوے کا پھیرکہتے ہیں کہ ہم اپنے پاس موجود ننانوے نعمتوں پر خوش نہیں ہوتے شکر ادا نہیں کرتے بلکہ کسی ایک نقصان ایک نعمت ایک خوشی کے کھوجانے یا چلے جانے پر اداس اور افسردہ ہوجاتے ہیں۔ اس غلام کو یہی روگ لگ گیا ہے۔
تو صاحبو! ان روایات اورکہاوتوں میں بڑے اسباق پوشیدہ ہوتے ہیں جو مشرقی دانش کا خاصہ ہے۔ غورکیجیے کہ الا ماشااللہ بحیثیت قوم کیا آج ہم بھی اسی کیفیت سے نہیں گزر رہے۔ یہ ننانوے کا پھیر جس لازمی نتیجہ بے چینی گھبراہٹ اور پریشانی ہے اور جو ناشکری کے جذبات کو فروغ دینے کا باعث بنتا ہے کیا آج ہم نے خود پر طاری نہیں کیا ہوا؟ ہمیں ملی ہوئی بے شمار آسانیوں اور نعمتوں کو فراموش کرکے ہم نا معلوم اور ناقابل حصول چیزوں کے لیے خود کو پریشان نہیں کیے ہوئے؟ اگر ہم موجود اور میسر پردھیان دیتے ہوئے شکر گزاری کی ادائیگی کی مشق شروع کردیں تو یہ قانون قدرت ہے کہ شکرکرنے والوں کو عطا کردہ نعمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ آج اگر مسائل اور الجھنیں ہیں توکل بہتری بھی آئے گی کہ ہر رات کے بعد سویرا ضرور آتا ہے تویقین مانیں کہ یہ رات بھی کٹنے ہی والی ہے۔
اس سرزمیں پر اسں ملک میں جسے ہم کچھ کچھ ناقدری کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں، ہمیں آزادی جیسی بیش بہا اور ہزار نعمتوں سے افضل نعمت ہمیں حاصل ہے کہ نہیں۔ یہ کیا کم ہے؟ پوچھیں کشمیر افغانستان، انڈیا اور کئی دیگر علاقوں کے مسلمانوں سے کہ آزادی کتنی بڑی نعمت ہے اور وہ کس طرح اس کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ پھر دیگر ثانوی نوعیت کے مسائل کا حل بھی تلاش کیا جا رہا ہے اور ایک طویل عرصے کے بعد صحیح سمت میں کام برائے حصولِ بہتری کا آغاز ہوتا نظرآ رہا ہے۔ تو ناامیدی اور ناشکرگزاری سے دامن بچائیے اور شکرکی عادت اپنائیے بہت سے بڑوں بزرگوں سے سنا اور بہت سی کتابوں میں پڑھا کہ شکر اسم اعظم ہے مگر شکر گزاری رسمی یا بناوٹی نہ ہو بلکہ دل کی گہرائیوں سے احساس شکر گزاری پھوٹے تو پھر اس کا اثر لازمی ہے ہمیشہ ہوتا ہے اور ہوگا، نعمتوں کی فراوانی لانے والا ہے۔ تو نناوے کے پھیر سے اور ان وسوسوں خناسوں سے جو ناشکری اورگھٹن آپ کے اندر پیدا کرتے ہیں باہر نکلیں اور صبروشکرکرنا شروع کریں، دیکھیں کیسے کرشمے رونما ہونا شروع ہوجائیں گے۔
لوگ فی الحال سرکارکی معاشی حکمتِ عملیوں اور اقدامات کو آیندہ کچھ اچھا ہونے کی امید پرابھی تک توچاروناچار برداشت کررہے ہیں اور ہنوز پرامید ہیں کہ آنے والا کل بہتر ہوگا۔ ملکی اور بین الاقوامی سطح پرکچھ غیر معمولی واقعات رونما ہورہے ہیں ان بین الاقوامی حالات وواقعات کا براہ راست اثر ہمارے ملکی معاملات اور حالات پر پڑ رہا ہے لیکن ان سب باتوں کے باوجود اگر ہم مایوس ہونے کی بجائے مثبت سوچ کو اپنائیں اور گلاس کو آدھا خالی ہونے کی بجائے آدھا بھرا ہونے والے طریقے اور نکتہ نظر سے دیکھنا شروع کریں تو یقین مانیں کہ شکرکرنے کا دل چاہنے لگے گا۔ بس ذرا احساس کرنے کی بات ہے اور زاویہ نظر تبدیل کرنا درکار ہے۔
اصل میں ہم کچھ تھوڑا خود اورکچھ اغیارکی مہربانیوں سے ننانوے کے پھیر میں خود کو پھنسا بیٹھے ہیں۔ ننانوے کا پھیر ایک قدیم اردو محاورہ یا کہاوت ہے جو کہ اردو کا جنازہ نکلنے سے پہلے بہت حد تک روزمرہ میں مستعمل تھی لیکن اب یاد دلانا پڑتی ہے۔ اور جس طرح قفلی کو قلفی کہا اور لکھا جانے لگا ہے اور اسی طرح کے کئی غلط العام الفاظ اب مسلسل استعمال کی وجہ سے درست قرار پائے ہیں، بلکل اسی طرح سے ننانوے کے پھیر کا عمومی مفہوم پیسہ بنانے سے کیا جانے لگا ہے یعنی فلاں شخص تو بھئی ننانوے کے پھیر میں پڑا ہوا ہے یعنی پیسہ بنا رہا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ عام فہم مفہوم بھی درست ہو مگر اس بات کے یعنی ننانوے کے پھیر کے ایک اور معنی بھی ہیں جو کہ درج ذیل حکایت سے شاید واضح ہوپائیں۔
کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک بادشاہ سلامت نے اپنے وزیر با تدبیرکو طلب کیا اور دیر تک امور سلطنت کے مسائل اور امور زیر بحث رہے ، اس دوران بادشاہ کی نظر اپنے کچھ غلاموں یا شاہی نوکروں پر پڑی جو دور ہنسی کھیل میں مشغول خوش باش نظر آرہے تھے اورآپس میں خوب چہلیں کر رہے تھے۔ ان کے چہرے خوشی اور بے فکری سے تمتما رہے تھے۔ بادشاہ بار بار ان کو دیکھا کیا اور بالاآخر تلملا کر وزیر اعظم سے کہا کہ ہم اس ملک کے بادشاہ ہیں سب چیزیں ہماری دسترس میں ہیں لیکن ہم پریشان ہیں اور یہ غلام ناہنجار دو ٹکے کے ملازم ہیں مگر ہر وقت خوش باش نظر آتے ہیں۔یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ اس کی کیا وجہ اور سبب ہے؟ وزیر اعظم بڑا دانا و بینا اور گرگ باراں دیدہ قسم کا انسان تھا ورنہ اس منصبِ جلیلہ پر کیونکر فائز ہوپاتا۔
بادشاہ کا سوال سن کے کہنے لگا عالی جاہ! انھیں ننانوے کے پھیر میں ڈال دیجیے سب مسکراہٹ اور بے فکری ہوا ہوجائے گی۔ بادشاہ نے حیران ہوکرکہا کہ وہ کیسے؟ وزیر نے کہا کہ ان سب میں سے سب سے زیادہ خوش باش کون سا غلام ہے؟ بادشاہ نے ایک کی طرف اشارہ کردیا۔ وزیر اعظم نے ایک منقش صراحی منگوائی اور اس کے اندرگن کر ننانوے اشرفیاں ڈال کر صراحی کو سربہ مہر کردیا اور اس پر لکھوادیا کہ آپ کے لیے سو اشرفیاں ایک محبت کرنے والے کی جانب سے ہدیہ ہیں۔ اور بادشاہ سے کہا کہ جناب عالی یہ اشرفیاں علی الصبح اس غلام کے گھر کے دروازے پر رکھوادیں جب وہ محل میں آنے کے لیے گھر سے نکلتا ہو۔ چناچہ اشرفیاں رکھوادی گئیں۔
اس صبح جب غلام محل میں اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے جانے کے واسطے نکلا تو دروازے پر خوبصورت منقش صراحی دیکھی، اٹھائی تو اس پر لکھی تحریر پر نظر پڑی بڑا خوش ہوا بھاگا ہوا گھر میں آیا اور اہل خانہ کو سو اشرفیاں ملنے کی خوشخبری سناتے ہوئے ایک چادر پر صراحی کو خالی کیا۔ جب گنا تو ننانوے اشرفیاں تھیں سب گھر والوں نے بار بارگنا کہ لکھا تو سو ہے یہ نناوے کیسے ہوگئیں ایک کہاں گئی؟ سب ڈھونڈنے میں لگ گئے دروازے کے آس پاس جہاں صراحی ملی تھی،گلی میں بھی دور تک دیکھا،گھر میں بھی ڈھونڈتے رہے مگر وہ نہ ملنی تھی نہ ملی کہ وہ تو تھیں ہی ننانوے۔
آخر غلام دیر ہونے کی وجہ سے سب چھوڑ چھاڑکر محل پہنچا اور آج جب بادشاہ نے دیکھا تو وہ پژمردہ الجھا الجھا اور چپ چپ نظر آیا۔ بادشاہ نے وزیرکی تحسین بھی کی اور سارا رمز پوچھا تو وزیر نے عرض کی کہ بادشاہ سلامت آپ یہ دیکھیں کہ اس غلام کو مفت میں ننانوے اشرفیاں مل گئیں لیکن اسے اس کے ملنے کی خوشی کو چھوڑکر ایک اشرفی کم ہوجانے کا غم لگ گیا کہ گئی تو گئی کہاں۔ اسی کو ننانوے کا پھیرکہتے ہیں کہ ہم اپنے پاس موجود ننانوے نعمتوں پر خوش نہیں ہوتے شکر ادا نہیں کرتے بلکہ کسی ایک نقصان ایک نعمت ایک خوشی کے کھوجانے یا چلے جانے پر اداس اور افسردہ ہوجاتے ہیں۔ اس غلام کو یہی روگ لگ گیا ہے۔
تو صاحبو! ان روایات اورکہاوتوں میں بڑے اسباق پوشیدہ ہوتے ہیں جو مشرقی دانش کا خاصہ ہے۔ غورکیجیے کہ الا ماشااللہ بحیثیت قوم کیا آج ہم بھی اسی کیفیت سے نہیں گزر رہے۔ یہ ننانوے کا پھیر جس لازمی نتیجہ بے چینی گھبراہٹ اور پریشانی ہے اور جو ناشکری کے جذبات کو فروغ دینے کا باعث بنتا ہے کیا آج ہم نے خود پر طاری نہیں کیا ہوا؟ ہمیں ملی ہوئی بے شمار آسانیوں اور نعمتوں کو فراموش کرکے ہم نا معلوم اور ناقابل حصول چیزوں کے لیے خود کو پریشان نہیں کیے ہوئے؟ اگر ہم موجود اور میسر پردھیان دیتے ہوئے شکر گزاری کی ادائیگی کی مشق شروع کردیں تو یہ قانون قدرت ہے کہ شکرکرنے والوں کو عطا کردہ نعمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ آج اگر مسائل اور الجھنیں ہیں توکل بہتری بھی آئے گی کہ ہر رات کے بعد سویرا ضرور آتا ہے تویقین مانیں کہ یہ رات بھی کٹنے ہی والی ہے۔
اس سرزمیں پر اسں ملک میں جسے ہم کچھ کچھ ناقدری کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں، ہمیں آزادی جیسی بیش بہا اور ہزار نعمتوں سے افضل نعمت ہمیں حاصل ہے کہ نہیں۔ یہ کیا کم ہے؟ پوچھیں کشمیر افغانستان، انڈیا اور کئی دیگر علاقوں کے مسلمانوں سے کہ آزادی کتنی بڑی نعمت ہے اور وہ کس طرح اس کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ پھر دیگر ثانوی نوعیت کے مسائل کا حل بھی تلاش کیا جا رہا ہے اور ایک طویل عرصے کے بعد صحیح سمت میں کام برائے حصولِ بہتری کا آغاز ہوتا نظرآ رہا ہے۔ تو ناامیدی اور ناشکرگزاری سے دامن بچائیے اور شکرکی عادت اپنائیے بہت سے بڑوں بزرگوں سے سنا اور بہت سی کتابوں میں پڑھا کہ شکر اسم اعظم ہے مگر شکر گزاری رسمی یا بناوٹی نہ ہو بلکہ دل کی گہرائیوں سے احساس شکر گزاری پھوٹے تو پھر اس کا اثر لازمی ہے ہمیشہ ہوتا ہے اور ہوگا، نعمتوں کی فراوانی لانے والا ہے۔ تو نناوے کے پھیر سے اور ان وسوسوں خناسوں سے جو ناشکری اورگھٹن آپ کے اندر پیدا کرتے ہیں باہر نکلیں اور صبروشکرکرنا شروع کریں، دیکھیں کیسے کرشمے رونما ہونا شروع ہوجائیں گے۔