کراچی کے 65 ملین گیلن یومیہ پانی کے منصوبے میں تاخیر کا خدشہ
منصوبے کیلیے 11 ارب کی ضرورت ہے، آئندہ بجٹ میں محض 50 کروڑ مختص، رواں سال صرف 15 کروڑ جاری ہوئے
فراہمی آب کے دیگر منصوبوں کی طرح اہم ترین منصوبہ 65 ملین گیلن یومیہ (ایم جی ڈی) میں بھی غیر معمولی تاخیر کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔
کراچی میں پانی کے منصوبے کی تکمیل کے لیے11 ارب روپے کی ضرورت ہے لیکن سندھ حکومت نے اگلے مالی سال میں صرف 50 کروڑ روپے مختص کیے ہیں جبکہ رواں مالی سال میں مختص کردہ 60کروڑ میں سے صرف پندرہ کروڑ جاری کیے گئے ہیں۔
پانی کی مقدار کا یہ کوٹہ 1985ء میں منظور ہونے والے 650ایم جی ڈی کا حصہ ہے، اگر اسے 13سال قبل کینجھر جھیل سے شہر کراچی تک کینالوں اور کنڈیوٹ تعمیر کرکے فراہم کردیا جاتا تو آج شہر میں پانی کا اتنا بڑا بحران پیدا نہ ہوتا۔
سندھ حکومت نے ڈیڑھ سال سے 11ارب روپے کی نظرثانی شدہ پی سی ون منظور نہیں کی اور اوریجنل پی سی ون 5.9ارب میں سے ضرورت کے مطابق فنڈنگ نہیں کی جبکہ واٹر بورڈ کے غیر ذمہ دار افسران کی وجہ سے منصوبہ پر تعمیراتی کام 2018ء میں تقریبا 10 ماہ تک مکمل طور پر بند رہے۔
منصوبے پر تعمیراتی کام 2017ء میں شروع ہوا تھا اور اسے 18ماہ میں مکمل کیا جانا تھا لیکن دو سال کے عرصے میں صرف15فیصد ترقیاتی کام ہوسکا ہے۔
واٹر بورڈ کے متعلقہ افسران کے مطابق کراچی شہر میں پانی کی رسد و طلب میں بہت زیادہ فرق ہے، ان دنوں کینجھر جھیل اور حب ڈیم سے مجموعی طور پر 600ملین گیلن یومیہ پانی بلک واٹر ڈسٹری بیوشن سسٹم تک فراہم ہورہا ہے تاہم پانی کی چوری، لائنوں میں رساؤ، آبی بخارات اور پمپس کی استعداد میں کمی کی وجہ سے شہر کو صرف 420ملین گیلن یومیہ پانی کی فراہمی ہورہا ہے۔
دھابیجی پمپنگ اسٹیشن پر پمپس کی استعداد کو بڑھانے والا منصوبہ بھی تاخیر کا شکار ہے۔ آبادی کے اعتبار سے شہر کی ضرورت 1100ایم جی ڈی ہے ، اسطرح شارٹ فال 780ایم جی ڈی ہے۔
کراچی میں پانی کے منصوبے کی تکمیل کے لیے11 ارب روپے کی ضرورت ہے لیکن سندھ حکومت نے اگلے مالی سال میں صرف 50 کروڑ روپے مختص کیے ہیں جبکہ رواں مالی سال میں مختص کردہ 60کروڑ میں سے صرف پندرہ کروڑ جاری کیے گئے ہیں۔
پانی کی مقدار کا یہ کوٹہ 1985ء میں منظور ہونے والے 650ایم جی ڈی کا حصہ ہے، اگر اسے 13سال قبل کینجھر جھیل سے شہر کراچی تک کینالوں اور کنڈیوٹ تعمیر کرکے فراہم کردیا جاتا تو آج شہر میں پانی کا اتنا بڑا بحران پیدا نہ ہوتا۔
سندھ حکومت نے ڈیڑھ سال سے 11ارب روپے کی نظرثانی شدہ پی سی ون منظور نہیں کی اور اوریجنل پی سی ون 5.9ارب میں سے ضرورت کے مطابق فنڈنگ نہیں کی جبکہ واٹر بورڈ کے غیر ذمہ دار افسران کی وجہ سے منصوبہ پر تعمیراتی کام 2018ء میں تقریبا 10 ماہ تک مکمل طور پر بند رہے۔
منصوبے پر تعمیراتی کام 2017ء میں شروع ہوا تھا اور اسے 18ماہ میں مکمل کیا جانا تھا لیکن دو سال کے عرصے میں صرف15فیصد ترقیاتی کام ہوسکا ہے۔
واٹر بورڈ کے متعلقہ افسران کے مطابق کراچی شہر میں پانی کی رسد و طلب میں بہت زیادہ فرق ہے، ان دنوں کینجھر جھیل اور حب ڈیم سے مجموعی طور پر 600ملین گیلن یومیہ پانی بلک واٹر ڈسٹری بیوشن سسٹم تک فراہم ہورہا ہے تاہم پانی کی چوری، لائنوں میں رساؤ، آبی بخارات اور پمپس کی استعداد میں کمی کی وجہ سے شہر کو صرف 420ملین گیلن یومیہ پانی کی فراہمی ہورہا ہے۔
دھابیجی پمپنگ اسٹیشن پر پمپس کی استعداد کو بڑھانے والا منصوبہ بھی تاخیر کا شکار ہے۔ آبادی کے اعتبار سے شہر کی ضرورت 1100ایم جی ڈی ہے ، اسطرح شارٹ فال 780ایم جی ڈی ہے۔