دفاع کیسا
6 ستمبر کو ہر سال ہم یوم دفاع مناتے ہیں… ان شہیدوں کی یاد میں کہ جنھوں نے اس مادر وطن کی حفاظت کی خاطر۔۔۔
لاہور:
6 ستمبر کو ہر سال ہم یوم دفاع مناتے ہیں... ان شہیدوں کی یاد میں کہ جنھوں نے اس مادر وطن کی حفاظت کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ ان کے لہو کی سرخی مادر وطن کے چہرے و رخسار کا غازہ ہے، انھوں نے اپنی جان پر کھیل کر اس ملک کی ناموس پر آنچ نہ آنے دی۔ ہمارے وہ پیارے جن کا تعلق فوج سے ہے، پولیس سے یا دیگر سیکیورٹی اداروں سے ہے، وہ حب وطن کی شمع کے پروانے کہ جنھوں نے اپنی جانیں اس لیے نثار کیں تا کہ اس ملک کا ہر باسی امن اور سکون کے ساتھ، اپنے مذہبی اور معاشرتی عقائد کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکے، یہاں کھیت کھلیان لہلہائیں اور دریا نغمے گائیں، وادیاں جنت نظیر ہوں اور نظارے دنیا بھر سے سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہوں۔
یہاں کسی کو جان کا خطرہ ہو نہ عزت و ناموس کے تحفظ کی فکر... اکثریت مسلمانوں کے ہونے کے باعث امن اور بھائی چارے کی فضا ہو، لوگ ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے شریک اور پورا ملک ایک گھر کی طرح ہو جہاں ہر فرد دوسرے کے ساتھ ایک مضبوط رشتے سے بندھا ہوا ہو۔ جہاں ایک ''عضو '' کو تکلیف ہو تو سارا بدن تڑپ اٹھے، جہاں ایک شخص کی عزت سب کی عزت اور اس کی بے عزتی سب کی بے عزتی ہو، بیٹیاں بھی سانجھی ہوں اور ان کی ناموس بھی، ان کی چادر کو بھی کوئی میلی نگاہ سے نہ دیکھے۔ جہاں بیٹا ملازمت کی خاطر بھی گھر سے نکلے تو ماں یہ دعائیں نہ کرتی ہو کہ وہ زندہ سلامت واپس آ جائے اور تمام وقت اس کا دل لرزتا رہے کہ جانے کون سی اندھی گولی اس کا وجود چاٹ جائے گی۔
معصوم بچوں کو گھروں سے بھیجتے وقت ماں ان کی واپسی کی راہ تو تکے مگر اس کا دن اس گمان میں نہ گزرے کہ اس کا لال کسی دہشت گردی کا نشانہ نہ بن جائے۔ جہاں گھر سے باہر قدم نکالتے ہی قدم قدم پر موت گھات لگائے نہ دکھائی دیتی ہو، جہاں پھول معصوموں کے لہو کی لالی کا رنگ لیے ہوئے ہوں اور فضا میں چہار اطراف بارود کی بو نہ ہو۔
اس ملک کی بقا کی خاطر اپنی جانیں قربان کرنے والے، پاک فوج کے جیالے ... کیا وہ کبھی سوچ سکتے تھے کہ جو وردی کبھی عزت اور اعزاز کا نشان ہوتی تھی، کبھی وہی وردی نشانہ بنے گی اور اس وردی کو پہننا مشکل ہو جائے گا؟ جس پیشے سے وابستہ ہونا، ایک عام انسان کو اس کے درجے سے بلند کر کے آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دے گا، اس پیشے کی اس قدر ہتک کی جائے گی کہ اس سے وابستہ لوگ خود سے اور اپنے شہداء کی روحوں سے شرمندہ ہوں گے؟
یہ ملک ان لوگوں کی سر زمین ہے کہ جن کی مٹی میں وفا ہے... جن کا خمیر ہی محبت میں گندھا ہوا ہے اور جو اپنے لہو کا ایک ایک قطرہ قربان کرنے کو ہر گھڑی تیار ہوتے ہیں، خواہ ان کا وجود کسی وردی میں لپٹا ہوا ہو یا وہ کسی عام علاقائی لباس میں ملبوس ہوں، ان میں سے کوئی اپنی ماں کے لیے گالی سننے کو تیار نہیں ہوتا اور اغیار کہتے ہیں کہ ... ہم چند ڈالر کے لیے اپنی ماں کو بھی بیچنے کو تیار ہو جاتے ہیں!!!
کتنی جلدی ہمارا دشمن یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ ہم چند ٹکوں میں بکنے والے لوگ ہیں، شاید وہ بھول چکا ہے کہ کیپٹن سرور شہید، میجر طفیل شہید، میجر عزیز بھٹی شہید، پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید، میجر شبیر شریف شہید، لانس نائیک محمد محفوظ شہید، میجر راجہ اکرم، سوار محمد حسین شہید، کیپٹن کرنل شیرخان شہید، حوالدار لالک جان شہید، نائیک سیف علی شہید وہ لوگ ہیں جنھوں نے اسی دھرتی کے بطن سے جنم لیا اور اسی کی کوکھ میں ، اسی کی حفاظت کی خاطر جان قربان کر کے اعلی ترین اعزازات سینوں پر سجائے بعد از شہادت بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ صرف ان ہی پر اکتفا نہیں ، اس کے بعد بھی مادر وطن نے جہاں جس کو پکارا ہے ، ہر کسی نے لبیک کہا ہے، شہدائے کارگل ہیں اور تقریبا گیارہ برس سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تو شہداء کا کوئی شمار ہی نہیں ہے۔
ایک طرف تو یہ دھرتی ایسے سپوت اب بھی پیدا کر رہی ہے اور کرتی رہے گی تو دوسری طرف ہمارے ایک اہم صوبے بلوچستان، ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے بعد اب ملک کے دیگر شہروں میں بڑھتے ہوئے جرائم اور دہشت گردی کے واقعات نے ہمارے اذہان میں اس سوالیہ نشان کو جنم دیا ہے ... کیسادفاع اور کیسا یوم دفاع...
جہاں دفاع کرنے والے ہی سب سے زیادہ زیر عتاب ہیں۔ جن قوموں نے اپنے شہداء کی قدر نہیں کی اور اغیار کے اشاروں پر اپنوں کو غلط سمجھا ، کہا، لکھا اور ان کے حوصلے پست کیے، اسے نہ قوم کہلانے کا حق ہے نہ اس بات کا حق ہے کہ کوئی ان کا تحفظ کرے، احسان فراموشی، شہداء کے ساتھ کیا جانے والا سب سے بڑا ظلم ہے۔
کیا ہمیں معلوم نہیں کہ اس ملک کے حصول کی جدوجہد کیسے ہوئی اور کن مشقتوں سے اسے معرض وجود میںلایا گیا، کتنی جانوں اور عزتوں کی قربانیاں اس ملک کی بنیادوں میں شامل ہیں۔ اپنے ملک کے حصول کے متوالوں نے تن ، من اور دھن وار کر اس کے حصول کو ممکن بنایا اور کیا ہمارا فرض نہ تھا کہ ہم اسے چھیاسٹھ برسوں میں دنیا میں ایک ایسے مقام پر لا کھڑا کرتے کہ لوگ ہماری مثالیں دیتے... مگر ہم تو اس نکمے طالب علم کی طرح ہیں جو اسکول نہیں جانا چاہتا تھا اور جب گھنٹوں لیٹ اسکول پہنچا تو استاد سے کہنے لگا کہ بارش کی وجہ سے راستہ پھسلواں ہو گیا تھا اور میں ایک قدم آگے بڑھاتا تھا تو پھسل کر دو قدم پیچھے چلا جاتا تھا، ہم نے بھی اس کی طرح چھیاسٹھ برسوں میں ماضی کی طرف سفر کیا ہے، آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی طرف جاتے ہوئے، ہر لحاظ سے۔
ہم اپنی معاشی اور معاشرتی ترقی کی مثال لیں یا اخلاقی پستی کی، ہم مسلسل زوال کی طرف سفر میں ہیں اور اپنے حال میں مست بھی۔ کون جانتا ہے آج کل کی نسل میں سے کہ یوم دفاع کیا ہے؟ چند برس پہلے تک یوم دفاع کو سرکاری چھٹی ہوتی تھی تو پھر بھی لوگوں کو کچھ خوشی ہوتی تھی کیونکہ ہم کام نہ کرنے کے جواز تلاش کرنے میں ماہر ہیں۔ ان چند برسوں سے اس دن کی چھٹی کا خاتمہ کر دیا گیا ہے تو کسی کو یہ علم بھی نہیں ہوتا کہ یوم دفاع آیا اور آ کر گزر بھی گیا، کوئی کسی شہید کے لیے تعریف کے طور پر کچھ سوچتا تک نہیں ۔ آج بچوں سے پوچھیں تو وہ دنیا بھر کے ہر کھیل کے کھلاڑیوں کو جانتے ہیں، ہر فلم اور فلمی ستاروں کے ذاتی حالات تک سے واقف ہیں، گاڑیوں، ٹیلی فونوں اور ملبوسات کے برانڈز کی تفصیلات جاننا ہوں تو ان سے پوچھیں، ہر چیز پوری تفصیل کے ساتھ بتا دینگے... اگلا سوال پوچھیں کہ ہمارے کتنے شہیدوں کو نشان حیدر ملا اور کون ... یقین کریں شاید وہ گیارہ میں سے چار نام بھی نہ گنوا سکیں!!
ہر شہر میں کنٹونمنٹ کے علاقوں میں مختلف سڑکیں اور چوک انیس سو اڑتالیس سے لے کر آج تک ہونے والے سیکڑوں شہداء کے ناموں سے منسوب کیے گئے ہیں۔ کاش کوئی اتناکر دے کہ کسی اہم جگہ پر، خواہ وہ کوئی کاروباری مرکز ہو یا تفریحی مقام، ایک تختی اس شہید کے اس کارنامے کی تفصیل کی لگا دے کہ جس کے باعث وہ سڑک اس سے منسوب کی گئی، کوئی نہ کوئی تو ان تختیوں کی طرف متوجہ ہو گا، کسی کے دل سے تو ان کے لیے تعریف اور توصیف کے کلمات نکلیں گے... ورنہ آج کی نوجوان نسل تو فقط اسی پر یقین کرتی ہے جو انھیں میڈیا پر ٹاک شوز کے ذریعے بتایا جاتا ہے، اور ہم سب جانتے ہیں کہ ان ٹاک شوز میں بیٹھ کر ہمارے مفکروں اور رہنماؤں کے خلاف بولنے والوں کے منہ میں زبانیں تک اپنی نہیں ہیں، بلکہ انھوں نے اپنے ضمیر کہیں اور گروی رکھ چھوڑے ہیں اور ہمارے سامنے بیٹھ کر میزیں بجا بجا کر اور آستینیں چڑھا کر، منہ سے کف جھاڑ جھاڑ کر بولتے ہوئے... ان کی زبانوں سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ ...کوئی نہ کوئی قیمت رکھتا ہے!! مت بھولیں کہ احسان فراموشوں کو کوئی ماں معاف نہیں کرتی خواہ وہ مادر وطن ہی کیوں نہ ہو۔
6 ستمبر کو ہر سال ہم یوم دفاع مناتے ہیں... ان شہیدوں کی یاد میں کہ جنھوں نے اس مادر وطن کی حفاظت کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ ان کے لہو کی سرخی مادر وطن کے چہرے و رخسار کا غازہ ہے، انھوں نے اپنی جان پر کھیل کر اس ملک کی ناموس پر آنچ نہ آنے دی۔ ہمارے وہ پیارے جن کا تعلق فوج سے ہے، پولیس سے یا دیگر سیکیورٹی اداروں سے ہے، وہ حب وطن کی شمع کے پروانے کہ جنھوں نے اپنی جانیں اس لیے نثار کیں تا کہ اس ملک کا ہر باسی امن اور سکون کے ساتھ، اپنے مذہبی اور معاشرتی عقائد کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکے، یہاں کھیت کھلیان لہلہائیں اور دریا نغمے گائیں، وادیاں جنت نظیر ہوں اور نظارے دنیا بھر سے سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہوں۔
یہاں کسی کو جان کا خطرہ ہو نہ عزت و ناموس کے تحفظ کی فکر... اکثریت مسلمانوں کے ہونے کے باعث امن اور بھائی چارے کی فضا ہو، لوگ ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے شریک اور پورا ملک ایک گھر کی طرح ہو جہاں ہر فرد دوسرے کے ساتھ ایک مضبوط رشتے سے بندھا ہوا ہو۔ جہاں ایک ''عضو '' کو تکلیف ہو تو سارا بدن تڑپ اٹھے، جہاں ایک شخص کی عزت سب کی عزت اور اس کی بے عزتی سب کی بے عزتی ہو، بیٹیاں بھی سانجھی ہوں اور ان کی ناموس بھی، ان کی چادر کو بھی کوئی میلی نگاہ سے نہ دیکھے۔ جہاں بیٹا ملازمت کی خاطر بھی گھر سے نکلے تو ماں یہ دعائیں نہ کرتی ہو کہ وہ زندہ سلامت واپس آ جائے اور تمام وقت اس کا دل لرزتا رہے کہ جانے کون سی اندھی گولی اس کا وجود چاٹ جائے گی۔
معصوم بچوں کو گھروں سے بھیجتے وقت ماں ان کی واپسی کی راہ تو تکے مگر اس کا دن اس گمان میں نہ گزرے کہ اس کا لال کسی دہشت گردی کا نشانہ نہ بن جائے۔ جہاں گھر سے باہر قدم نکالتے ہی قدم قدم پر موت گھات لگائے نہ دکھائی دیتی ہو، جہاں پھول معصوموں کے لہو کی لالی کا رنگ لیے ہوئے ہوں اور فضا میں چہار اطراف بارود کی بو نہ ہو۔
اس ملک کی بقا کی خاطر اپنی جانیں قربان کرنے والے، پاک فوج کے جیالے ... کیا وہ کبھی سوچ سکتے تھے کہ جو وردی کبھی عزت اور اعزاز کا نشان ہوتی تھی، کبھی وہی وردی نشانہ بنے گی اور اس وردی کو پہننا مشکل ہو جائے گا؟ جس پیشے سے وابستہ ہونا، ایک عام انسان کو اس کے درجے سے بلند کر کے آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دے گا، اس پیشے کی اس قدر ہتک کی جائے گی کہ اس سے وابستہ لوگ خود سے اور اپنے شہداء کی روحوں سے شرمندہ ہوں گے؟
یہ ملک ان لوگوں کی سر زمین ہے کہ جن کی مٹی میں وفا ہے... جن کا خمیر ہی محبت میں گندھا ہوا ہے اور جو اپنے لہو کا ایک ایک قطرہ قربان کرنے کو ہر گھڑی تیار ہوتے ہیں، خواہ ان کا وجود کسی وردی میں لپٹا ہوا ہو یا وہ کسی عام علاقائی لباس میں ملبوس ہوں، ان میں سے کوئی اپنی ماں کے لیے گالی سننے کو تیار نہیں ہوتا اور اغیار کہتے ہیں کہ ... ہم چند ڈالر کے لیے اپنی ماں کو بھی بیچنے کو تیار ہو جاتے ہیں!!!
کتنی جلدی ہمارا دشمن یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ ہم چند ٹکوں میں بکنے والے لوگ ہیں، شاید وہ بھول چکا ہے کہ کیپٹن سرور شہید، میجر طفیل شہید، میجر عزیز بھٹی شہید، پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید، میجر شبیر شریف شہید، لانس نائیک محمد محفوظ شہید، میجر راجہ اکرم، سوار محمد حسین شہید، کیپٹن کرنل شیرخان شہید، حوالدار لالک جان شہید، نائیک سیف علی شہید وہ لوگ ہیں جنھوں نے اسی دھرتی کے بطن سے جنم لیا اور اسی کی کوکھ میں ، اسی کی حفاظت کی خاطر جان قربان کر کے اعلی ترین اعزازات سینوں پر سجائے بعد از شہادت بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ صرف ان ہی پر اکتفا نہیں ، اس کے بعد بھی مادر وطن نے جہاں جس کو پکارا ہے ، ہر کسی نے لبیک کہا ہے، شہدائے کارگل ہیں اور تقریبا گیارہ برس سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تو شہداء کا کوئی شمار ہی نہیں ہے۔
ایک طرف تو یہ دھرتی ایسے سپوت اب بھی پیدا کر رہی ہے اور کرتی رہے گی تو دوسری طرف ہمارے ایک اہم صوبے بلوچستان، ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے بعد اب ملک کے دیگر شہروں میں بڑھتے ہوئے جرائم اور دہشت گردی کے واقعات نے ہمارے اذہان میں اس سوالیہ نشان کو جنم دیا ہے ... کیسادفاع اور کیسا یوم دفاع...
جہاں دفاع کرنے والے ہی سب سے زیادہ زیر عتاب ہیں۔ جن قوموں نے اپنے شہداء کی قدر نہیں کی اور اغیار کے اشاروں پر اپنوں کو غلط سمجھا ، کہا، لکھا اور ان کے حوصلے پست کیے، اسے نہ قوم کہلانے کا حق ہے نہ اس بات کا حق ہے کہ کوئی ان کا تحفظ کرے، احسان فراموشی، شہداء کے ساتھ کیا جانے والا سب سے بڑا ظلم ہے۔
کیا ہمیں معلوم نہیں کہ اس ملک کے حصول کی جدوجہد کیسے ہوئی اور کن مشقتوں سے اسے معرض وجود میںلایا گیا، کتنی جانوں اور عزتوں کی قربانیاں اس ملک کی بنیادوں میں شامل ہیں۔ اپنے ملک کے حصول کے متوالوں نے تن ، من اور دھن وار کر اس کے حصول کو ممکن بنایا اور کیا ہمارا فرض نہ تھا کہ ہم اسے چھیاسٹھ برسوں میں دنیا میں ایک ایسے مقام پر لا کھڑا کرتے کہ لوگ ہماری مثالیں دیتے... مگر ہم تو اس نکمے طالب علم کی طرح ہیں جو اسکول نہیں جانا چاہتا تھا اور جب گھنٹوں لیٹ اسکول پہنچا تو استاد سے کہنے لگا کہ بارش کی وجہ سے راستہ پھسلواں ہو گیا تھا اور میں ایک قدم آگے بڑھاتا تھا تو پھسل کر دو قدم پیچھے چلا جاتا تھا، ہم نے بھی اس کی طرح چھیاسٹھ برسوں میں ماضی کی طرف سفر کیا ہے، آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی طرف جاتے ہوئے، ہر لحاظ سے۔
ہم اپنی معاشی اور معاشرتی ترقی کی مثال لیں یا اخلاقی پستی کی، ہم مسلسل زوال کی طرف سفر میں ہیں اور اپنے حال میں مست بھی۔ کون جانتا ہے آج کل کی نسل میں سے کہ یوم دفاع کیا ہے؟ چند برس پہلے تک یوم دفاع کو سرکاری چھٹی ہوتی تھی تو پھر بھی لوگوں کو کچھ خوشی ہوتی تھی کیونکہ ہم کام نہ کرنے کے جواز تلاش کرنے میں ماہر ہیں۔ ان چند برسوں سے اس دن کی چھٹی کا خاتمہ کر دیا گیا ہے تو کسی کو یہ علم بھی نہیں ہوتا کہ یوم دفاع آیا اور آ کر گزر بھی گیا، کوئی کسی شہید کے لیے تعریف کے طور پر کچھ سوچتا تک نہیں ۔ آج بچوں سے پوچھیں تو وہ دنیا بھر کے ہر کھیل کے کھلاڑیوں کو جانتے ہیں، ہر فلم اور فلمی ستاروں کے ذاتی حالات تک سے واقف ہیں، گاڑیوں، ٹیلی فونوں اور ملبوسات کے برانڈز کی تفصیلات جاننا ہوں تو ان سے پوچھیں، ہر چیز پوری تفصیل کے ساتھ بتا دینگے... اگلا سوال پوچھیں کہ ہمارے کتنے شہیدوں کو نشان حیدر ملا اور کون ... یقین کریں شاید وہ گیارہ میں سے چار نام بھی نہ گنوا سکیں!!
ہر شہر میں کنٹونمنٹ کے علاقوں میں مختلف سڑکیں اور چوک انیس سو اڑتالیس سے لے کر آج تک ہونے والے سیکڑوں شہداء کے ناموں سے منسوب کیے گئے ہیں۔ کاش کوئی اتناکر دے کہ کسی اہم جگہ پر، خواہ وہ کوئی کاروباری مرکز ہو یا تفریحی مقام، ایک تختی اس شہید کے اس کارنامے کی تفصیل کی لگا دے کہ جس کے باعث وہ سڑک اس سے منسوب کی گئی، کوئی نہ کوئی تو ان تختیوں کی طرف متوجہ ہو گا، کسی کے دل سے تو ان کے لیے تعریف اور توصیف کے کلمات نکلیں گے... ورنہ آج کی نوجوان نسل تو فقط اسی پر یقین کرتی ہے جو انھیں میڈیا پر ٹاک شوز کے ذریعے بتایا جاتا ہے، اور ہم سب جانتے ہیں کہ ان ٹاک شوز میں بیٹھ کر ہمارے مفکروں اور رہنماؤں کے خلاف بولنے والوں کے منہ میں زبانیں تک اپنی نہیں ہیں، بلکہ انھوں نے اپنے ضمیر کہیں اور گروی رکھ چھوڑے ہیں اور ہمارے سامنے بیٹھ کر میزیں بجا بجا کر اور آستینیں چڑھا کر، منہ سے کف جھاڑ جھاڑ کر بولتے ہوئے... ان کی زبانوں سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ ...کوئی نہ کوئی قیمت رکھتا ہے!! مت بھولیں کہ احسان فراموشوں کو کوئی ماں معاف نہیں کرتی خواہ وہ مادر وطن ہی کیوں نہ ہو۔