ڈاکٹر لٹنر پنجاب کے لیے جن کی تعلیمی خدمات بے مثال ہیں
ڈاکٹر لٹنر گورنمنٹ کالج لاہور کے پہلے پرنسپل،اورینٹل کالج اور یونیورسٹی آف پنجاب، جیسے اداروں کے بانی تھے۔
''پڑھے لکھے لوگوں کا سرمایہ افتخار ان کی خدمات ہیں۔'' لندن کے علاقے ووکنگ کے مشہور قبرستان کے ایک کتبے پر اس مفہوم کی انگریزی عبارت درج ہے۔
یہ ڈاکٹر گٹلیب لٹنر کا مدفن ہے، جو گورنمنٹ کالج لاہور (موجودہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی) کے پہلے پرنسپل،اورینٹل کالج اور یونیورسٹی آف دی پنجاب، لاہور جیسے اداروں کے بانی تھے۔ انہوں نے تعلیمی نظام میں اصلاحات، مشرقی علوم کے فروغ اور پنجاب میں یونیورسٹی کے قیام کے لیے ایک طویل جدوجہد کی۔حال ہی میں پنجاب ا سمبلی میں پیش کیے جانے والے پرائیویٹ ممبر بل میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ لاہور کے کچہری روڈ کا نام ڈاکٹر لٹنر سے منسوب کیا جائے لیکن پنجاب اسمبلی کے ممبران نے یہ تجویز رد کرتے ہوئے کہا کہ کسی غیر مسلم کے نام پر سڑک کا نام نہیں رکھا جا سکتا۔معلوم نہیں ڈاکٹر لٹنر نے اس ''حقیقت'' کو نظرانداز کرتے ہوئے کیوں اپنی تمام تر توانائیاں ایک دوسرے مذہب کے ملک میں صرف کر دیں۔ اس سے پہلے کہ ہم آپ کو ان کی پنجاب کے لیے تعلیمی خدمات کی تفصیل سے آگاہ کریں، ایک نظر ان کے ابتدائی حالاتِ زندگی پر ڈال لیتے ہیں۔
وہ 14اکتوبر 1940ء کو ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپسٹ کے ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں ہی مختلف زبانوں کو سیکھنے اور سمجھنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس رجحان کے پیش نظر آٹھ برس کی عمر میں لٹنر کو عربی اور ترکی زبان سیکھنے کے لئے قسطنطنیہ بھیج دیا گیا۔ دس برس کی عمر میں ان دونوں زبانوں میں مہارت حاصل کر لی۔
دیگر یورپی زبانوں میں مہارت وہ اپنی ذاتی جدوجہد سے حاصل کرتے رہے۔ زبان دانی میں گہری استعداد کی وجہ سے صرف 15 برس کی عمر میں کریمیا میں برطانوی سفارتی نمائندے کے مترجم درجہ اول کی حیثیت سے تقرر ہو گیا، جس میں کرنل کے عہدے کے مساوی تنخواہ اور مراعات حاصل تھیں۔ کریمیائی جنگ ختم ہوئی تو لٹنر کنگز کالج لندن سے منسلک ہو گئے۔ محض 19 برس کی عمر میں انہیں کنگز کالج میں عربی' ترکی اور جدید یونانی زبانوں کا لکچرار مقرر کر دیا گیا۔ چار برس بعد اسی کالج میں عربی اور مسلم قانون کے پروفیسر بن گئے۔ یہ وہی دور ہے جب لاہور میں گورنمنٹ کالج قائم کیا جا رہا تھا۔ اب ان کا اگلا پڑاؤ لاہور میں تھا، جہاں حکومت برطانیہ نے ان کا تقرر گورنمنٹ کالج لاہور کے پہلے پرنسپل کی حیثیت سے کر دیا تھا۔ آئیے ڈاکٹر لٹنر کے ساتھ لاہور چلتے ہیں۔
_________
گورنمنٹ کالج لاہور کا قیام یکم جنوری 1864ء کو عمل میں آیا، جس کی منظوری لیفٹیننٹ گورنر نے 1863ء کے بجٹ میں دی تھی۔ 15 اپریل 1864ء کو سپریم گورنمنٹ نے اس کی توثیق کی اور اسی سال ادارے کو کلکتہ یونیورسٹی کے ماتحت کردیا گیا۔ ڈاکٹر جی ڈبلیو لٹنر کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے جو اس وقت کنگز کالج لندن میں عربی اور مسلم لاء کے پروفیسر تھے۔ ڈاکٹر لٹنر نے 1864ء سے 1886ء تک گورنمنٹ کالج لاہور میں پرنسپل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔
آغاز میں ڈاکٹر لٹنر کو گورنمنٹ کالج میں مختلف تدریسی اور انتظامی مسائل کا سامنا رہا۔ وہ کلکتہ یونیورسٹی کے مقرر کیے ہوئے نصاب کے سخت خلاف تھے، کیونکہ یہ طالب علموں کو مجبور کرتا تھا کہ وہ محض سبق رٹتے رہیں اور اس نظام کے خلاف ان کی نہ ختم ہونے والی جنگ پہلے دن سے لے کر 1868ء کے آخر تک جاری رہی، جب وہ بالآخر کالج کو کلکتہ یونیورسٹی کے بعض ناپسندیدہ قوانین سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کی سفارش پر نصاب میں انگریزی سے دوسری زبانوں میں اور دوسری زبانوں سے انگریزی میں ترجمہ، تلخیص اور مضمون نگاری وغیرہ شامل کیے گئے۔
یہ صرف ڈاکٹر لٹنر ہی نہیں تھے جو ان امور پر اپنی الگ الگ رائے رکھتے تھے بلکہ یہاں کے شعبہ تدریس سے وابستہ لوگوں کی یہ عمومی رائے تھے، چنانچہ 13 دسمبر 1867ء کو گورنمنٹ کالج دہلی کے پرنسپل ویلموٹ کی طرف سے بھیجی جانے والی رپورٹ میں لکھا گیا ''جیسا کہ پہلے بھی کہا گیا ہے کہ ہمارے طالب علموں کی اکثریت انگریزی یا دوسرے مضامین کا، جن کو وہ اس زبان میں پڑھتے ہیں، صرف سطحی علم حاصل کرتی ہے اور ان کی ذہنی صلاحیتوں کو نقالی اور رٹنے میں ضائع کیاجارہاہے، جس سے کسی بھی قوم میں بڑی اور آزادانہ سوچ پیدا نہیں ہوسکتی۔''
انہی وجوہات کی بنیاد پر ڈاکٹر لٹنر نے 21 جنوری 1865ء کو انجمن پنجاب کی شکل میں ایک مقامی ادبی سوسائٹی کی بنیاد رکھی اور اس کے سیکرٹری کے فرائض انجام دینے لگے۔ انجمن کے مقاصد یہ تھے:
(1) مشرقی تہذیب کے علم کو از سر نو زندہ کرنا۔
(2) عہد حاضر کے مقبول علم کی مقامی زبانوں میں ترویج۔
(3) صنعت اور تجارت کا فروغ۔
(4) دلچسپی کے سماجی، ادبی، سائنسی اور سیاسی موضوعات پر بحث ۔
(5) صوبے کے پڑھے لکھے اور بااثر طبقات کے حکومتی عہدے داروں سے رابطے قائم کرنا۔
انجمن کے قیام کے پہلے سال میں ہی ایک پبلک لائبریری، مطالعے کا کمرہ، مقامی اور کلاسیکی زبانوں کے تراجم کے ساتھ لاہور میں ایک اورینٹل سکول بھی قائم کر لیا گیا۔ اسی طرح کی سوسائٹیز امرتسر، گورداسپور اور راولپنڈی میں قائم کی گئیں۔ ڈاکٹر لٹنر نے انجمن پنجاب کے سرکردہ رکن کی حیثیت سے پنجاب میں پنجایتوں کے قیام کی تجویز دی اور اس معاملے پر لوگوں سے آراء بھی مانگیں۔ انجمن کے مقاصد میں لوگوں کی حقیقی دلچسپی پیدا ہوئی جن کے ساتھ لیفٹیننٹ گورنر سرڈونلڈ میکلوڈ نے گرمجوش ہمدردی ظاہر کی۔
1865ء میں گورنمنٹ کالج میں ڈاکٹر لٹنر نے ڈبیٹنگ اور مضمون نگاری (Essay) کے ساتھ، مقامی زبان کے ذریعے علم کے فروغ کے لیے بھی ایک سوسائٹی قائم کی جسے "Diffusion of Useful Knowledge" کا نام دیا گیا۔ لیفٹیننٹ گورنر نے کالج میں ان اداروں کے قیام کا ذاتی طور پر خیر مقدم کیا۔ چنانچہ پنجاب حکومت کے سیکرٹری مسٹر ٹی ایچ تھارنٹن نے اپنے ریمارکس میں لکھا: ''علم کے فروغ کے لیے ڈاکٹر لٹنر کی طرف سے "Society for Diffusion of Useful Knowledge" کی تشکیل قابل ستائش ہے۔ ڈبیٹنگ اور مضمون نگاری کی سوسائٹیز سے طلباء کو انگریزی سمجھنے اور بولنے میں مدد ملے گی، جس کی سرکاری تعلیمی اداروں میں اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔''
10 جون 1865ء کو سرڈونلڈ میکلوڈ نے ڈاکٹر لٹنر (ڈائریکٹر آف پبلک انسٹرکشن) کو کہا کہ وہ مقامی زبانوں میں علمی کاموں کی ترویج، ان سے استفادے اور ان زبانوں میں مغرب کی سائنسی اور علمی تحریروں کو پہنچانے کے لیے تجاویز حاصل کرکے جمع کرائیں۔ ڈاکٹر لٹنر نے لیفٹیننٹ گورنر کی تجویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے فوری طور پر مختلف اداروں کے سربراہوں، سرکردہ افراد اور عام لوگوں کی اگست میں ایک میٹنگ بلائی اور ان کے سامنے لاہور میں ایک اورینٹل یونیورسٹی کے قیام کی تجویز رکھی تاکہ مشرقی زبانوں اور لٹریچر کے فروغ کے لیے کام کیا جاسکے۔ اس کے بعد 11 ستمبر کو ایک دوسری میٹنگ ہوئی، جس میں لاہور اور امرتسر سے سرکردہ افراد شریک ہوئے۔
اس میں ڈاکٹر لٹنر نے اپنی مجوزہ ''اورینٹل یونیورسٹی آف اپر انڈیا'' کا تنظیمی خاکہ اور تدریسی منصوبہ پیش کیا۔ ان کاکہنا تھا ''اس یونیورسٹی کے قیام سے ہم ایک نئے دور میں داخل ہوں گے، جس میں سائنس اور تعلیم کے مکمل نتائج تمام لوگوں تک پہنچ سکیں گے۔'' اس تحریک کو چند نمایاں انگریزوں کی عملی مدد بھی حاصل ہوگی، جن میں ایچی سن اور گرفمین جیسے نام شامل ہیں، جبکہ گورنر جنرل جان لارنس نے اپنی معاونت اور سالانہ امداد کا وعدہ کیا۔ کپور تھلہ اور کشمیر کے راجاؤں نے بھی آگے چل کر سالانہ مالی معاونت کی پیشکش کی۔ مگر اس سب کے باوجود حکومت مختلف وجوہات کے پیش نظر پنجاب میں ایک مکمل یونیورسٹی کے قیام کے لیے آمادہ نہ ہوئی۔
اس تمام عرصے کے دوران مختلف سطحوں پر یہ جدوجہد جاری رہی اور بالآخر انجمن پنجاب کے قیام کے ساڑھے پانچ سال بعد 1870ء میں پنجاب یونیورسٹی کالج کا قیام عمل میں آیا جوکہ مکمل یونیورسٹی کی طرف ایک قدم تھا۔
1870-71ء کے دوران کالج میں طلباء کی تعداد 45 تک پہنچ گئی۔ اس دور تک کالج کے طلباء کو ڈگری کے حصول کے لیے کلکتہ یونیورسٹی کے امتحان میں شامل ہونا پڑتا تھا، جس پر کالج انتظامیہ اور طلباء کو اعتراضات تھے۔ ایک تو کلکتہ لاہور سے بہت دور تھا، امتحان کا دورانیہ بھی طویل ہوتا تھا اور اس کے علاوہ کلکتہ یونیورسٹی کی طرف سے جو کورسز تجویز کیے گئے تھے وہ پنجاب کے کالجوں میں زیادہ مقبول نہ تھے۔ 1870ء میں پنجاب یونیورسٹی کالج کا قیام عمل میں لایا گیا اور پنجاب کے کالجوں کو اس سے منسلک کردیا گیا۔
اگرچہ یہ درست سمت کی طرف ایک قدم تھا۔ لیکن سپریم گورنمنٹ نے صوبے میں تعلیم کی غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر اسے ڈگری جاری کرنے کی اجازت نہ دی بلکہ اسے صرف اتنا اختیار دیا گیا کہ یہ سرٹیفکیٹس آف میرٹ اور طلباء کو وظائف و غیرہ جاری کرسکے۔ نیز موجودہ کالجوں کی بہتری کے لیے ان پر رقوم خرچ کرسکے۔ اس کی وجہ سے یونیورسٹی کالج کی تدریسی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی لاہور کالج کے سٹاف کے کندھوں پر آن پڑا اور طلباء کو بھی یونیورسٹی کالج اور کلکتہ یونیورسٹی کی صورت میں دوہرے امتحانات کا سامنا کرنا پڑا۔ دونوں جگہ پر سال کے مختلف حصوں میں امتحان ہوتے اور ان کی نوعیت بھی مختلف ہوتی تھی، اس لیے کالج کا تدریسی عمل بے ربط ہوگیا اور اس کی کارکردگی بھی متاثر ہونے لگی۔ آنے والے برسوں میں مختلف پرنسپلوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رپورٹوں سے بھی کالج کی مشکلات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
1876ء کے سرما میں دہلی کالج کو لاہور کالج میں ضم کردیا گیا، چنانچہ دہلی کالج کے طلباء کی ایک بڑی تعداد لاہور کالج آگئی، جس سے کالج کے طلباء کی تعداد 101 تک پہنچ گئی۔ یہ ڈاکٹر لٹنر ہی تھے جنہوں نے 1876ء میں لارڈ لٹن، وائسرائے ہند اور گورنر جنرل کے گورنمنٹ کالج میں دورے کے موقع پر ان سے وعدہ لیا کہ پنجاب یونیورسٹی کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے جس کی اگلے برس 1877ء دلی دربار کے تاریخی موقع پر باقاعدہ توثیق کی گئی۔
14اکتوبر 1882ء کو یونیورسٹی آف پنجاب کا قیام عمل میں آیا۔ 18 نومبر کو یونیورسٹی کا افتتاحی کنونشن منعقد ہوا جس کی صدارت نئی یونیورسٹی کے سرپرست کی حیثیت سے وائسرائے ہند نے کی۔ اس موقع پر طلباء میں ڈگریاں تقسیم کی گئیں اور ڈاکٹر لٹنر کو بھی یونیورسٹی کی طرف سے ڈاکٹر آف اورینٹل لرننگ کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔ پنجاب یونیورسٹی برصغیر کی چوتھی یونیورسٹی تھی جسے انگریزوں نے اپنے ہندوستانی نو آبادیاتی علاقوں میں قائم کیا۔ انگریزوں نے پہلی تین یونیورسٹیاں اپنے ابتدائی مضبوط مراکز بمبئے، مدراس اور کلکتہ میں قائم کیں جبکہ پنجاب یونیورسٹی کا قیام 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد پنجاب کے لوگوں کی طرف سے مسلسل جدوجہد کے بعد عمل میں آیا۔
پہلی تینوں یونیورسٹیوں کا کردار صرف امتحان لینے اور ڈگریاں جاری کرنے تک محدود تھا۔ لیکن ان کے برعکس پنجاب یونیورسٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے پہلے دن سے ہی امتحانی مرکز کے علاوہ تدریسی مرکز کی حیثیت سے بھی کام کیا۔1882ء میں اپنے قیام سے 1947ء میں پاکستان کے وجود میں آنے تک، پنجاب یونیورسٹی نے متحدہ پنجاب اور شمالی ہندوستان کے وسیع علاقے میں تعلیمی ضروریات کو پورا کیا۔ ڈاکٹر لٹنر پنجاب یونیورسٹی کے بانی اور پہلے رجسٹرار تھے۔ گورنمنٹ کالج کے پرنسپل کی ذمہ داریوں کے باوجود ڈاکٹر لٹنر نے پنجاب یونیورسٹی اور اورینٹل کالج کے امور میں گہری دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ ڈاکٹر لٹنر نے بہت سی تحقیقی کتابیں بھی تصنیف کیں۔
_________
ڈاکٹر لٹنر 1886ء میں انڈین سول سروس سے ریٹائر ہوئے۔ گورنمنٹ کالج کی پرنسپل شب کے دوران وہ تعلیمی کانفرنسوں میں شرکت اور کئی دوسری سرکاری اور نجی مصروفیات کی وجہ سے مختلف وقفوں کے لیے رخصت پر جاتے رہے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ یورپ میں مشرقی زبانوں و ثقافت اور تاریخ پر تحقیق کا مرکز قائم کریں۔ 1881میں برطانیہ کی کاونٹی سرے میں ووکنگ کے مقام پر انہیں ایک عمارت نظر آئی۔ یہ رائل ڈرامیٹک کالج کی عمارت تھی جو فنڈز نہ ہونے کے باعث ویران پڑی تھی۔ ڈاکٹر لٹنر نے اپنی جیب سے یہ عمارت خرید لی۔
1883ء میں اس کی تزئین و آرائش کا کام شروع ہوا۔ ڈاکٹر لٹنر نے اپنی طویل سیاحت کے دوران جتنے بھی نوادرات اور تاریخی اہمیت کی حامل اشیاء جمع کیں تھیں سب کی سب اسے نئے مرکز میں سجا دیئے ۔ یہاں ایک عجائب گھر بھی بنایا گیا۔ 1890ء میں یہ مرکز ڈگری کا اجراء کر رہا تھا کیونکہ اس کا الحاق پنجاب یورنیورسٹی کے ساتھ تھا۔ ڈاکٹر لٹنر کی خواہش تھی کہ ان کے سنٹر کو خود مختار یونیورسٹی کا درجہ مل جائے۔ 1899ء میں ڈاکٹر لٹنر کا انتقال ہو گیا لیکن آج ووکنگ میں ڈاکٹر لٹنر کی کوششوں سے بننے والی مسجد شاہ جہاں اور یورپ کا پہلا اسلامک سنٹر کام کر رہا ہے۔ ڈاکٹر لٹنر کے لوح مزار کے نیچے عربی میں لکھا ہے:
العلم خیر من المال (علم، مال سے بہتر ہے۔)
ان کی زندگی اس کی عملی تفسیر ہے۔
یہ ڈاکٹر گٹلیب لٹنر کا مدفن ہے، جو گورنمنٹ کالج لاہور (موجودہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی) کے پہلے پرنسپل،اورینٹل کالج اور یونیورسٹی آف دی پنجاب، لاہور جیسے اداروں کے بانی تھے۔ انہوں نے تعلیمی نظام میں اصلاحات، مشرقی علوم کے فروغ اور پنجاب میں یونیورسٹی کے قیام کے لیے ایک طویل جدوجہد کی۔حال ہی میں پنجاب ا سمبلی میں پیش کیے جانے والے پرائیویٹ ممبر بل میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ لاہور کے کچہری روڈ کا نام ڈاکٹر لٹنر سے منسوب کیا جائے لیکن پنجاب اسمبلی کے ممبران نے یہ تجویز رد کرتے ہوئے کہا کہ کسی غیر مسلم کے نام پر سڑک کا نام نہیں رکھا جا سکتا۔معلوم نہیں ڈاکٹر لٹنر نے اس ''حقیقت'' کو نظرانداز کرتے ہوئے کیوں اپنی تمام تر توانائیاں ایک دوسرے مذہب کے ملک میں صرف کر دیں۔ اس سے پہلے کہ ہم آپ کو ان کی پنجاب کے لیے تعلیمی خدمات کی تفصیل سے آگاہ کریں، ایک نظر ان کے ابتدائی حالاتِ زندگی پر ڈال لیتے ہیں۔
وہ 14اکتوبر 1940ء کو ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپسٹ کے ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں ہی مختلف زبانوں کو سیکھنے اور سمجھنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس رجحان کے پیش نظر آٹھ برس کی عمر میں لٹنر کو عربی اور ترکی زبان سیکھنے کے لئے قسطنطنیہ بھیج دیا گیا۔ دس برس کی عمر میں ان دونوں زبانوں میں مہارت حاصل کر لی۔
دیگر یورپی زبانوں میں مہارت وہ اپنی ذاتی جدوجہد سے حاصل کرتے رہے۔ زبان دانی میں گہری استعداد کی وجہ سے صرف 15 برس کی عمر میں کریمیا میں برطانوی سفارتی نمائندے کے مترجم درجہ اول کی حیثیت سے تقرر ہو گیا، جس میں کرنل کے عہدے کے مساوی تنخواہ اور مراعات حاصل تھیں۔ کریمیائی جنگ ختم ہوئی تو لٹنر کنگز کالج لندن سے منسلک ہو گئے۔ محض 19 برس کی عمر میں انہیں کنگز کالج میں عربی' ترکی اور جدید یونانی زبانوں کا لکچرار مقرر کر دیا گیا۔ چار برس بعد اسی کالج میں عربی اور مسلم قانون کے پروفیسر بن گئے۔ یہ وہی دور ہے جب لاہور میں گورنمنٹ کالج قائم کیا جا رہا تھا۔ اب ان کا اگلا پڑاؤ لاہور میں تھا، جہاں حکومت برطانیہ نے ان کا تقرر گورنمنٹ کالج لاہور کے پہلے پرنسپل کی حیثیت سے کر دیا تھا۔ آئیے ڈاکٹر لٹنر کے ساتھ لاہور چلتے ہیں۔
_________
گورنمنٹ کالج لاہور کا قیام یکم جنوری 1864ء کو عمل میں آیا، جس کی منظوری لیفٹیننٹ گورنر نے 1863ء کے بجٹ میں دی تھی۔ 15 اپریل 1864ء کو سپریم گورنمنٹ نے اس کی توثیق کی اور اسی سال ادارے کو کلکتہ یونیورسٹی کے ماتحت کردیا گیا۔ ڈاکٹر جی ڈبلیو لٹنر کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے جو اس وقت کنگز کالج لندن میں عربی اور مسلم لاء کے پروفیسر تھے۔ ڈاکٹر لٹنر نے 1864ء سے 1886ء تک گورنمنٹ کالج لاہور میں پرنسپل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔
آغاز میں ڈاکٹر لٹنر کو گورنمنٹ کالج میں مختلف تدریسی اور انتظامی مسائل کا سامنا رہا۔ وہ کلکتہ یونیورسٹی کے مقرر کیے ہوئے نصاب کے سخت خلاف تھے، کیونکہ یہ طالب علموں کو مجبور کرتا تھا کہ وہ محض سبق رٹتے رہیں اور اس نظام کے خلاف ان کی نہ ختم ہونے والی جنگ پہلے دن سے لے کر 1868ء کے آخر تک جاری رہی، جب وہ بالآخر کالج کو کلکتہ یونیورسٹی کے بعض ناپسندیدہ قوانین سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کی سفارش پر نصاب میں انگریزی سے دوسری زبانوں میں اور دوسری زبانوں سے انگریزی میں ترجمہ، تلخیص اور مضمون نگاری وغیرہ شامل کیے گئے۔
یہ صرف ڈاکٹر لٹنر ہی نہیں تھے جو ان امور پر اپنی الگ الگ رائے رکھتے تھے بلکہ یہاں کے شعبہ تدریس سے وابستہ لوگوں کی یہ عمومی رائے تھے، چنانچہ 13 دسمبر 1867ء کو گورنمنٹ کالج دہلی کے پرنسپل ویلموٹ کی طرف سے بھیجی جانے والی رپورٹ میں لکھا گیا ''جیسا کہ پہلے بھی کہا گیا ہے کہ ہمارے طالب علموں کی اکثریت انگریزی یا دوسرے مضامین کا، جن کو وہ اس زبان میں پڑھتے ہیں، صرف سطحی علم حاصل کرتی ہے اور ان کی ذہنی صلاحیتوں کو نقالی اور رٹنے میں ضائع کیاجارہاہے، جس سے کسی بھی قوم میں بڑی اور آزادانہ سوچ پیدا نہیں ہوسکتی۔''
انہی وجوہات کی بنیاد پر ڈاکٹر لٹنر نے 21 جنوری 1865ء کو انجمن پنجاب کی شکل میں ایک مقامی ادبی سوسائٹی کی بنیاد رکھی اور اس کے سیکرٹری کے فرائض انجام دینے لگے۔ انجمن کے مقاصد یہ تھے:
(1) مشرقی تہذیب کے علم کو از سر نو زندہ کرنا۔
(2) عہد حاضر کے مقبول علم کی مقامی زبانوں میں ترویج۔
(3) صنعت اور تجارت کا فروغ۔
(4) دلچسپی کے سماجی، ادبی، سائنسی اور سیاسی موضوعات پر بحث ۔
(5) صوبے کے پڑھے لکھے اور بااثر طبقات کے حکومتی عہدے داروں سے رابطے قائم کرنا۔
انجمن کے قیام کے پہلے سال میں ہی ایک پبلک لائبریری، مطالعے کا کمرہ، مقامی اور کلاسیکی زبانوں کے تراجم کے ساتھ لاہور میں ایک اورینٹل سکول بھی قائم کر لیا گیا۔ اسی طرح کی سوسائٹیز امرتسر، گورداسپور اور راولپنڈی میں قائم کی گئیں۔ ڈاکٹر لٹنر نے انجمن پنجاب کے سرکردہ رکن کی حیثیت سے پنجاب میں پنجایتوں کے قیام کی تجویز دی اور اس معاملے پر لوگوں سے آراء بھی مانگیں۔ انجمن کے مقاصد میں لوگوں کی حقیقی دلچسپی پیدا ہوئی جن کے ساتھ لیفٹیننٹ گورنر سرڈونلڈ میکلوڈ نے گرمجوش ہمدردی ظاہر کی۔
1865ء میں گورنمنٹ کالج میں ڈاکٹر لٹنر نے ڈبیٹنگ اور مضمون نگاری (Essay) کے ساتھ، مقامی زبان کے ذریعے علم کے فروغ کے لیے بھی ایک سوسائٹی قائم کی جسے "Diffusion of Useful Knowledge" کا نام دیا گیا۔ لیفٹیننٹ گورنر نے کالج میں ان اداروں کے قیام کا ذاتی طور پر خیر مقدم کیا۔ چنانچہ پنجاب حکومت کے سیکرٹری مسٹر ٹی ایچ تھارنٹن نے اپنے ریمارکس میں لکھا: ''علم کے فروغ کے لیے ڈاکٹر لٹنر کی طرف سے "Society for Diffusion of Useful Knowledge" کی تشکیل قابل ستائش ہے۔ ڈبیٹنگ اور مضمون نگاری کی سوسائٹیز سے طلباء کو انگریزی سمجھنے اور بولنے میں مدد ملے گی، جس کی سرکاری تعلیمی اداروں میں اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔''
10 جون 1865ء کو سرڈونلڈ میکلوڈ نے ڈاکٹر لٹنر (ڈائریکٹر آف پبلک انسٹرکشن) کو کہا کہ وہ مقامی زبانوں میں علمی کاموں کی ترویج، ان سے استفادے اور ان زبانوں میں مغرب کی سائنسی اور علمی تحریروں کو پہنچانے کے لیے تجاویز حاصل کرکے جمع کرائیں۔ ڈاکٹر لٹنر نے لیفٹیننٹ گورنر کی تجویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے فوری طور پر مختلف اداروں کے سربراہوں، سرکردہ افراد اور عام لوگوں کی اگست میں ایک میٹنگ بلائی اور ان کے سامنے لاہور میں ایک اورینٹل یونیورسٹی کے قیام کی تجویز رکھی تاکہ مشرقی زبانوں اور لٹریچر کے فروغ کے لیے کام کیا جاسکے۔ اس کے بعد 11 ستمبر کو ایک دوسری میٹنگ ہوئی، جس میں لاہور اور امرتسر سے سرکردہ افراد شریک ہوئے۔
اس میں ڈاکٹر لٹنر نے اپنی مجوزہ ''اورینٹل یونیورسٹی آف اپر انڈیا'' کا تنظیمی خاکہ اور تدریسی منصوبہ پیش کیا۔ ان کاکہنا تھا ''اس یونیورسٹی کے قیام سے ہم ایک نئے دور میں داخل ہوں گے، جس میں سائنس اور تعلیم کے مکمل نتائج تمام لوگوں تک پہنچ سکیں گے۔'' اس تحریک کو چند نمایاں انگریزوں کی عملی مدد بھی حاصل ہوگی، جن میں ایچی سن اور گرفمین جیسے نام شامل ہیں، جبکہ گورنر جنرل جان لارنس نے اپنی معاونت اور سالانہ امداد کا وعدہ کیا۔ کپور تھلہ اور کشمیر کے راجاؤں نے بھی آگے چل کر سالانہ مالی معاونت کی پیشکش کی۔ مگر اس سب کے باوجود حکومت مختلف وجوہات کے پیش نظر پنجاب میں ایک مکمل یونیورسٹی کے قیام کے لیے آمادہ نہ ہوئی۔
اس تمام عرصے کے دوران مختلف سطحوں پر یہ جدوجہد جاری رہی اور بالآخر انجمن پنجاب کے قیام کے ساڑھے پانچ سال بعد 1870ء میں پنجاب یونیورسٹی کالج کا قیام عمل میں آیا جوکہ مکمل یونیورسٹی کی طرف ایک قدم تھا۔
1870-71ء کے دوران کالج میں طلباء کی تعداد 45 تک پہنچ گئی۔ اس دور تک کالج کے طلباء کو ڈگری کے حصول کے لیے کلکتہ یونیورسٹی کے امتحان میں شامل ہونا پڑتا تھا، جس پر کالج انتظامیہ اور طلباء کو اعتراضات تھے۔ ایک تو کلکتہ لاہور سے بہت دور تھا، امتحان کا دورانیہ بھی طویل ہوتا تھا اور اس کے علاوہ کلکتہ یونیورسٹی کی طرف سے جو کورسز تجویز کیے گئے تھے وہ پنجاب کے کالجوں میں زیادہ مقبول نہ تھے۔ 1870ء میں پنجاب یونیورسٹی کالج کا قیام عمل میں لایا گیا اور پنجاب کے کالجوں کو اس سے منسلک کردیا گیا۔
اگرچہ یہ درست سمت کی طرف ایک قدم تھا۔ لیکن سپریم گورنمنٹ نے صوبے میں تعلیم کی غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر اسے ڈگری جاری کرنے کی اجازت نہ دی بلکہ اسے صرف اتنا اختیار دیا گیا کہ یہ سرٹیفکیٹس آف میرٹ اور طلباء کو وظائف و غیرہ جاری کرسکے۔ نیز موجودہ کالجوں کی بہتری کے لیے ان پر رقوم خرچ کرسکے۔ اس کی وجہ سے یونیورسٹی کالج کی تدریسی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی لاہور کالج کے سٹاف کے کندھوں پر آن پڑا اور طلباء کو بھی یونیورسٹی کالج اور کلکتہ یونیورسٹی کی صورت میں دوہرے امتحانات کا سامنا کرنا پڑا۔ دونوں جگہ پر سال کے مختلف حصوں میں امتحان ہوتے اور ان کی نوعیت بھی مختلف ہوتی تھی، اس لیے کالج کا تدریسی عمل بے ربط ہوگیا اور اس کی کارکردگی بھی متاثر ہونے لگی۔ آنے والے برسوں میں مختلف پرنسپلوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رپورٹوں سے بھی کالج کی مشکلات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
1876ء کے سرما میں دہلی کالج کو لاہور کالج میں ضم کردیا گیا، چنانچہ دہلی کالج کے طلباء کی ایک بڑی تعداد لاہور کالج آگئی، جس سے کالج کے طلباء کی تعداد 101 تک پہنچ گئی۔ یہ ڈاکٹر لٹنر ہی تھے جنہوں نے 1876ء میں لارڈ لٹن، وائسرائے ہند اور گورنر جنرل کے گورنمنٹ کالج میں دورے کے موقع پر ان سے وعدہ لیا کہ پنجاب یونیورسٹی کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے جس کی اگلے برس 1877ء دلی دربار کے تاریخی موقع پر باقاعدہ توثیق کی گئی۔
14اکتوبر 1882ء کو یونیورسٹی آف پنجاب کا قیام عمل میں آیا۔ 18 نومبر کو یونیورسٹی کا افتتاحی کنونشن منعقد ہوا جس کی صدارت نئی یونیورسٹی کے سرپرست کی حیثیت سے وائسرائے ہند نے کی۔ اس موقع پر طلباء میں ڈگریاں تقسیم کی گئیں اور ڈاکٹر لٹنر کو بھی یونیورسٹی کی طرف سے ڈاکٹر آف اورینٹل لرننگ کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔ پنجاب یونیورسٹی برصغیر کی چوتھی یونیورسٹی تھی جسے انگریزوں نے اپنے ہندوستانی نو آبادیاتی علاقوں میں قائم کیا۔ انگریزوں نے پہلی تین یونیورسٹیاں اپنے ابتدائی مضبوط مراکز بمبئے، مدراس اور کلکتہ میں قائم کیں جبکہ پنجاب یونیورسٹی کا قیام 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد پنجاب کے لوگوں کی طرف سے مسلسل جدوجہد کے بعد عمل میں آیا۔
پہلی تینوں یونیورسٹیوں کا کردار صرف امتحان لینے اور ڈگریاں جاری کرنے تک محدود تھا۔ لیکن ان کے برعکس پنجاب یونیورسٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے پہلے دن سے ہی امتحانی مرکز کے علاوہ تدریسی مرکز کی حیثیت سے بھی کام کیا۔1882ء میں اپنے قیام سے 1947ء میں پاکستان کے وجود میں آنے تک، پنجاب یونیورسٹی نے متحدہ پنجاب اور شمالی ہندوستان کے وسیع علاقے میں تعلیمی ضروریات کو پورا کیا۔ ڈاکٹر لٹنر پنجاب یونیورسٹی کے بانی اور پہلے رجسٹرار تھے۔ گورنمنٹ کالج کے پرنسپل کی ذمہ داریوں کے باوجود ڈاکٹر لٹنر نے پنجاب یونیورسٹی اور اورینٹل کالج کے امور میں گہری دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ ڈاکٹر لٹنر نے بہت سی تحقیقی کتابیں بھی تصنیف کیں۔
_________
ڈاکٹر لٹنر 1886ء میں انڈین سول سروس سے ریٹائر ہوئے۔ گورنمنٹ کالج کی پرنسپل شب کے دوران وہ تعلیمی کانفرنسوں میں شرکت اور کئی دوسری سرکاری اور نجی مصروفیات کی وجہ سے مختلف وقفوں کے لیے رخصت پر جاتے رہے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ یورپ میں مشرقی زبانوں و ثقافت اور تاریخ پر تحقیق کا مرکز قائم کریں۔ 1881میں برطانیہ کی کاونٹی سرے میں ووکنگ کے مقام پر انہیں ایک عمارت نظر آئی۔ یہ رائل ڈرامیٹک کالج کی عمارت تھی جو فنڈز نہ ہونے کے باعث ویران پڑی تھی۔ ڈاکٹر لٹنر نے اپنی جیب سے یہ عمارت خرید لی۔
1883ء میں اس کی تزئین و آرائش کا کام شروع ہوا۔ ڈاکٹر لٹنر نے اپنی طویل سیاحت کے دوران جتنے بھی نوادرات اور تاریخی اہمیت کی حامل اشیاء جمع کیں تھیں سب کی سب اسے نئے مرکز میں سجا دیئے ۔ یہاں ایک عجائب گھر بھی بنایا گیا۔ 1890ء میں یہ مرکز ڈگری کا اجراء کر رہا تھا کیونکہ اس کا الحاق پنجاب یورنیورسٹی کے ساتھ تھا۔ ڈاکٹر لٹنر کی خواہش تھی کہ ان کے سنٹر کو خود مختار یونیورسٹی کا درجہ مل جائے۔ 1899ء میں ڈاکٹر لٹنر کا انتقال ہو گیا لیکن آج ووکنگ میں ڈاکٹر لٹنر کی کوششوں سے بننے والی مسجد شاہ جہاں اور یورپ کا پہلا اسلامک سنٹر کام کر رہا ہے۔ ڈاکٹر لٹنر کے لوح مزار کے نیچے عربی میں لکھا ہے:
العلم خیر من المال (علم، مال سے بہتر ہے۔)
ان کی زندگی اس کی عملی تفسیر ہے۔