سائنس اور جدید ریسرچ خلافِ اسلام
سادہ لوح مسلمان اب بھی سائنسی تحقیق اور ترقی کو کفر سمجھتے ہیں
کتنی عجیب بات ہے کہ سادہ لوح مسلمان سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید ریسرچ سے صرف اس لئے دور ہیں کہ وہ جدید تعلیم و ریسرچ کو اسلامی تعلیمات کے منافی سمجھتے ہیں۔
سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کے متعلق ان کا گمان ہے کہ یہ انسان کو اللہ سے دُور کرتی ہے۔ عام مسلمانو ں میں اس قسم کے تصورات اب بھی پائے جاتے ہیں۔ شائد اس کی وجہ وہ جاہل اور نام نہاد پیر ہیں کہ جن کا دین کے بارے میں علم نہایت محدود ہے، یا انھوں نے دین کی اساس و بنیاد کو سمجھنا ہی نہیں چاہا ۔
سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید ریسرچ میں عبور حاصل کر نا غیر مسلموں کا اثاثہ نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کی میراث بھی ہے اور فرض بھی، اسلام کے وہ بنیادی تصورات اور تعلیم جس سے تقریباً ہر مسلمان واقف ہے، جدید ریسرچ پر ہی زور دیتے ہیں ۔ اسلام کا بنیادی تصور حضرت آدمؑ سے شروع ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں تو فرشتے بھی تذبذب کا شکار ہوگئے کہ سجدہ تو اللہ کے سوا کسی کو جائز ہی نہیں مگر وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ صرف اپنے حکم کی تعمیل چاہتا ہے، مخلوق میں کسی کو بھی اجازت نہیں ہے کہ وہ اس کے حکم سے انحراف کرے، مگر اللہ نے سوال کرنے کی اجازت بھی دے رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کا تذبذب دیکھ کر آدم کو کچھ چیزوں کے نام بتائے، یہ وہ علِم تھا کہ جس میں انسان کی بنیادی ضروریات کی اشیاء سے لیکر روزقیامت تک کیلئے آدم کو علِم دیا اس علِم میں کائناتی اسرار کو بھی آشکار کیا گیا۔
قیامت تک جو چیز بھی ایجاد ہوگی یا دریافت ہوگی اس کا علِم آدم کو دیدیا گیا ہے، آدم کی اولاد تک یہ علِم درجہ بدرجہ شعور کی ترقی کے ساتھ پہنچا دیا ہے ۔ سب سے پہلے انسان نے اپنی بنیادی ضروریات پر توجہ دی ۔ دھاتوں کو اپنے استعمال میں لایا پھر آہستہ آہستہ سائنسی ایجادات کی دنیا میں داخل ہوا اب ہر لمحہ نِت نئی ایجادات ہو رہی ہیں، مگر یہ سارا علِم وہ ہے کہ جو آدم کو اللہ کا نائب ڈکلیئر کرنے سے پہلے ہی عطا کر دیا گیا تھا۔
نبی کریمﷺ کی ولادت کے وقت مکہ کے آس پاس تجلیات کا انوار دیکھا گیا، آپؐ کا زمانہ قرون وسطٰی کہلاتا ہے یعنی درمیان کے زمانہ میں تہذیب انسانی کا ارتقائی سفر جاری تھا۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں(انبیاء) نے انسان کی روحانی تربیت بھی کی اور تہذیبی بھی۔آپؐ سے پہلے کے زمانے میں انسان کی توجہ ضروریات زندگی کی اشیاء بنانے کی جانب تھی۔ مگر جب آپؐ کو اس دنیا میں بھیجا گیا تو کائناتی اسرار کا علِم بھی آپؐ کو دیدیا گیا تھا۔آپؐ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔آپؐ نے نبی نوع آدم کو آخرت میں کامیابی اللہ کی رضا اور جہنم سے بچنے کا راستہ بتایا ۔ آپؐ کا وجود تمام جہانوں کی مخلوقات کیلئے سراپا رحمت ہے، مگر آپؐ کی آمد کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو سہولت اور آسانیاں پیدا کرنے کیلئے وہ تمام کائناتی اسرار آشکار کر دئیے کہ جو جدید سائنس کی بنیاد بنے ہیں۔ ابھی تو سائنس ارتقائی مراحل میں ہے آنے والے وقتوں میں سائنسی ترقی اس مقام تک پہنچے گی کہ جہاں کائنات کی مقناطیسی لہروں کی مدد سے انسان کی زندگی اس قدر آسان ہوجائے گی کہ جس کا ابھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔
ایک حدیث ہے کہ ''میںؐ علِم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہیں'' زیادہ تر افراد اس علِم کو روحانیت قرار دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ نقشبندی سلسلِے کے علاوہ روحانیت کے تمام سلسلِے حضرت علیؓ تک پہنچتے ہیں۔ مگر روحانیت کے یہ سلسلِے ہی جدید تعلیم اور سائنس و ریسرچ کی بنیاد ہیں۔ ہمارا کائناتی نظام لہروں سے مربوط ہے،کشف اور روحانی کمالات کا تعلق بھی کائناتی لہروں کے اس نظام کے ساتھ منسلک ہے۔ چنانچہ اسلام کے اولین دور میں ہی علِم جفراور دوسرے علوم کے ساتھ مسلمان سائنسدانوں نے سائنس پر ریسرچ کرنی شروع کردی تھی۔ مسلمان سائنسدانوں کی اس سائنسی ریسرچ کا تعلق روحانیت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ جب تک مسلمانوں نے سائنس کو دین اور روحانیت کا حصہ سمجھا وہ علِمی اور سائنسی ترقی میں دوسری اقوام سے بہت آگے نِکل گئے ۔ مگر بعد میں کچھ جہالت کے مارے مولویوں کی وجہ سے اسلامی تعلیمات کا غلط تصور پیش کردیا گیا۔
مسلمانوں کو ''وضو''جیسے مسائل میں اُلجھا دیا گیا، اسلامی تعلیمات کا وہ حصہ جو عبادات سے متعلق تھا،اسی کو ہی دین قرار دے د یا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں آ نے والے مسلم حکمرانوں نے نہ تو حقوق اللہ کی جانب توجہ دی اور نہ ہی حقوق العباد کی جانب، مغل حکمرانوں نے ہندوستان میں تاریخی عمارات تو بنادیں مگر ایک بھی یونیورسٹی یا تحقیقی مرکز نہیں بنائی۔ بعض مسلمان حکمرانوںنے عبادات اور حقوق العباد کی جانب توجہ تو دی، بیت المال کو امانت سمجھا ، عوام کو انصاف فراہم کرنے کیلئے سخت قوانین بھی بنائے، مساجد بھی تعمیر کروائیں مگر جدید علوم کو پھر بھی نظر انداز کیا ۔
جب حضو ر اکرم ﷺ پر وحی نازل ہوئی تو پہلا لفظ ''اقراء'' یعنی پڑھ تھا، اب بھی مبلغین، علماء کرام اور صوفیاء انسان کو کردار سازی کی تعلیم ہی دیتے ہیں وہ اپنے پیروکاروں کو عبادات کی جانب راغب کرتے ہیں، جبکہ جدید تعلیم سے کوسوں دُور رہنے کی تلقین بھی کرتے ہیں ۔ یہ تصور قرآنی تعلیمات کے بھی برعکس ہے۔
اسلامی تعلیمات کے دو حصے ہیں، پہلا حصہ اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لانا، اللہ اور رسولؐ کے تمام احکامات پر عمل کرنا،اپنی زندگیاں اسلام کے سانچے میں ڈھالنا جبکہ دوسرا حصہ تخلیق کائنات پر غور کرنا، یعنی کائناتی اسراروں جنہیں اب جدید سائنس کہا جاتا ہے،کو سمجھنا ہے۔ پھر اس نظام سے نوع انسان کی زندگیوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنا ہے۔آپ ؐکی رحمت تمام انسانوں کیلئے یہ ہے کہ انسان مرنے کے بعد بھی اللہ کے انعامات کا حقدار بنے اور آخرت کی لازوال زندگی جنت میں گزارے اور وہ اپنی زندگی میں بھی ایک آسودہ اور آرام دہ زندگی گزارے، تمام مسلمان ایک دوسرے کا احساس کریں اور پوری اُمت ایک جان بن کر زندگی بسر کرے، انسانوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کی جائیں ۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور علِم سے عام انسانوں کو زیادہ سے زیادہ ُسکھ پہنچایا جائے۔
جدید میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے سے بیمار افراد کو صحت وتندرستی اور نئی زندگی دی جا سکتی ہے۔ جدید سفری سہولتوں سے انسان کیلئے آسانیاں پیدا کی جا سکتی ہیں، میڈیا کو دین کی تبلیغ کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہوائی سفر حاجیوں اور عمرہ کرنے والوں کو بے پناہ سہولت دی ہے۔ انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم کی وجہ سے انسانوں کی زندگیوں میں بہت ساری آسانیاں پیداہوئی ہیں، ہر پہلو میں انسان کو آسانی اور سہولت میسر آرہی ہے۔ علامہ اقبالؒ اور کئی دوسرے علم اکابرین نے ''رہبانیت''جیسے طرز زندگی کو سخت ناپسند فرمایا ہے۔کسی بھی انسان کی زندگی کیلئے آسانی پیدا کرنا بہت بڑا ثواب کا کام ہے، یہی اسلام کا بنیادی تصور ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مسلمان کم ازکم ایک ہزار سال سے محلاتی سازشوں میں اُلجھے ہوئے ہیں۔دانا اور زیرک افراد کو ساتھ ملانے کی بجائے مفادپرست اور ابن الوقت افراد کے گروہ ساتھ ملا کرریاستوں پر حکومتیں کی جاتی ہیں۔حکمران ٹولہ تو خوب عیش و عشرت کی زندگی گزاررہاہے مگر عوام کی حالت غلاموں سے بھی بدتر ہوئی ہے۔ ریاستی وسائل اور دولت کو اپنے ذاتی مصرف میں لایا جاتا ہے۔ اب بھی پاکستان سمیت تمام مسلم ریاستوں کے حکمرانوں اور عوام کو دیکھا جائے تو ''بادشاہ سلامت'' اور ''ابن غلام ''والا ماحول اور کلچر نظر آتا ہے۔
اب تو مسلم ریاستوں کی صورتحال اور بھی گھمبیر ہو چکی ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں دوسری ریاستوں کو تسخیر کرکے مال غنیمت اسلامی ریاستوں میں لایا گیاجس سے مسلمانوں کے طرز زندگی میں خوشحالی اور مثبت اثرات مرتب ہوئے، مگر اب اپنے ہی مالک سے ''مال غنیمت '' لوٹ کر دوسرے ممالک میں جمع کروادیا جاتا ہے جس سے اُن ممالک کے عوام کی خوشحالی اور آسودہ زندگی نظر آتی ہے۔ مسلمان ضروریات زندگی اور ٹیکنالوجی کیلئے ترقی یافتہ ممالک کے محتاج ہیں اور اپنی اس محتاجی کی وجہ سے غیر مسلم اقوام کی ہرذلت برداشت کرنے پر مجبور ہیں،حتیٰ کہ اپنی بقاء کیلئے اسلحہ بھی انہی ممالک سے خریدا جاتا ہے ۔کئی خلیجی ممالک نے تو اپنے دفاع کا ''ٹھیکہ'' ان ہی بین الاقوامی قوتوں کو دے رکھا ہے۔
جدید تعلیم سائنس وٹیکنالوجی اور جدید ریسرچ کو اسلام کے منافی قرار دینے والے ''پیشواؤں'' کے خیالات اور نظریات کو فروغ دینے اور ان کی تشہیر کرنے کی بجائے انھیں میڈیا میں محدود کیا جائے۔ ان علماء کرام کو تبلیغ کا موقع دینا چاہیے کہ جو دین اسلام کے تمام پہلوؤں سے بخوبی واقف ہو،مسلمانوں کو فروعی اختلافات میں اُلجھانے والے اور مالک کے مابین خلیج پیدا کرنے والے مبلغین اور علماء کرام پر بھی پابندی لگنی چاہیے۔
دین کا یہ پہلو اہم ہے کہ اگر مسلمان کسی بھی معاملے میں اغیار کے محتاج ہوںتو تمام مسلمان گناہ گار ہونگے، دین اسلام ایک مکمل دین ہے اور زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے، انسانی ضروریات زندگی کے تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ ایک مسلمان کی اصل زندگی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو حاضروناظر جانتے ہوئے اپنی قوم کی خوشحالی اور ترقی کیلئے اپنی زندگی صرف کرے۔ مگر اب یہ سوچ عام ہوچکی ہے کہ مسلمانوں کو فرض عبادات کے علاوہ ہر چیز معاف ہے جس کی وجہ سے ہم جہالت اور پسماندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں گِر رہے ہیں۔
اس وقت دنیا بھر میں روائتی جنگوں کا تصور تبدیل ہورہا ہے، اب معاشی واقتصادی جنگیں لڑی جارہی ہیں، خلا میں بالادستی قائم کرنے والی قوم ہی اقوام عالم میں ممتاز مقام حاصل کرسکتی ہے۔ سیٹلائٹ ٹیکنالوجی نے ایک نئی جہت پیدا کی ہے۔ ابھی تا سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کا آغاز ہے، یہ ٹیکنالوجی کہاں تک پہنچے گی ابھی اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ۔کیونکہ سائنسدانوں نے اس حقیقت کو تلاش کر لیا ہے کہ کائنات کا سارا نظام ہی لہروں سے چل رہا ہے، ہر ستارے اور سیارے کی حرکت سے جوارتعاش پیدا ہورہا ہے اسکے اثرات ہماری زمین اور دوسرے سیاروں پر بھی پڑتے ہیں اب سائنس ان بنیادوں پر کام کر رہی ہے کہ جس کا قرآن پاک میں بھی ذکر ہے۔
چونکہ محض دینی علم حاصل کرنے والے علماء کو جدید علوم کا ادراک نہیں ہے۔ انکا ذہین اس کائناتی نظام کو سمجھنے سے ہی قاصر ہے کہ جو لہروں ،کشش ثقل اور مادوںکا ایک دوسرے سے مربوہونے سے تعلق رکھتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنے دماغ کو سائنس کے گورکھ دھندوں میں اُلجھانے کی بجائے دینی مسائل میں اُلجھے رہتے ہیں اور اُلجھائے رکھتے ہیں ۔جب نیل آراسٹرانگ نے چاند پر پہلا قدم رکھا تو مولویوں نے اسے شِرک قرار دیا اور کہا کہ سورج چاند اللہ تعالیٰ کے پوشیدہ راز ہیں بھلا کوئی وہاں تک کیسے پہنچ سکتا ہے مگر اب سائنس اس قدر ترقی کر چکی ہے کہ کائنات کی وسعت کا اندازہ لگایا جارہا ہے۔ ہماری کہکشاں گلیکسی وے میں سورج جیسے اربوں ستارے ہیں ان کے اپنے نظام شمسی ہیں ۔سورج سے ہزاروں گُنا بڑے ستارے بھی ہماری کہکشاں میں موجود ہیں۔ہماری کہکشاں سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں گُنا بڑی کئی کہکشائیں دریافت ہوچکی ہیں۔ کائنات میں کھربوں میل کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ٹائم اینڈاسپیس(وقت اور حد) انسانی ذہین کے محدود اندازے ہیں انسان نے اپنی حیثیت کے مطابق نہایت محدود پیمانے پر ''وقت اور حد'' تک تعین کیا ہے۔ وگرنہ زمین کے مدار سے نکلتے ہی ہر چیز لامحدود ہوجاتی ہے۔
مدرسوں کے علماء کرام جہاد کی فضلیت توبتاتے ہیں مگر علِمی جہاد کی اہمیت سے آگاہ نہیں کرتے ۔اس وقت تلواروں اور خنجروں اور تیروں سے دوسری اقوام کو زیر نہیں کیا جاسکتا ۔بلکہ سائنس و ٹیکنالوجی میں دسترس حاصل کرکے ہی دوسری اقوام کو زیر کیا جا سکتا ہے۔ اگر قرآن پاک کو اسکی اصل روح کے مطابق سمجھا جائے ،نبی کریم ﷺ کی احادیث پر غور کیا جائے اور اولیاء کرام کے حالات ِزندگی کا جائزہ لیا جائے تو فوراً یہ بات سمجھ آجاتی ہے کہ حضورؐ کی آمد کے فوراً بعد کائناتی نظام کاعلِم خاص انسانوں تک منتقل کردیا گیا تھا۔ جب تک مسلمان اس علِم کے ساتھ جڑے رہے وہ سائنس میں ترقی کرتے رہے جیسے ہی انھوں نے اپنے ذہین کو محدود کیا وہ دنیا میں ہی محدود ہوگئے۔
اب وقت آگیا ہے کہ حضور اکرامﷺ کے اُمتی دوسری اقوام کی محتاجی سے نِکلنے کیلئے خود جدید علوم کیلئے اپنے آپ کو وقف کریں۔اس وقت یہی اصل جہاد ہے کہ اپنی دولت سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید ریسرچ پر خرچ کریں۔
سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کے متعلق ان کا گمان ہے کہ یہ انسان کو اللہ سے دُور کرتی ہے۔ عام مسلمانو ں میں اس قسم کے تصورات اب بھی پائے جاتے ہیں۔ شائد اس کی وجہ وہ جاہل اور نام نہاد پیر ہیں کہ جن کا دین کے بارے میں علم نہایت محدود ہے، یا انھوں نے دین کی اساس و بنیاد کو سمجھنا ہی نہیں چاہا ۔
سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید ریسرچ میں عبور حاصل کر نا غیر مسلموں کا اثاثہ نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کی میراث بھی ہے اور فرض بھی، اسلام کے وہ بنیادی تصورات اور تعلیم جس سے تقریباً ہر مسلمان واقف ہے، جدید ریسرچ پر ہی زور دیتے ہیں ۔ اسلام کا بنیادی تصور حضرت آدمؑ سے شروع ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں تو فرشتے بھی تذبذب کا شکار ہوگئے کہ سجدہ تو اللہ کے سوا کسی کو جائز ہی نہیں مگر وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ صرف اپنے حکم کی تعمیل چاہتا ہے، مخلوق میں کسی کو بھی اجازت نہیں ہے کہ وہ اس کے حکم سے انحراف کرے، مگر اللہ نے سوال کرنے کی اجازت بھی دے رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کا تذبذب دیکھ کر آدم کو کچھ چیزوں کے نام بتائے، یہ وہ علِم تھا کہ جس میں انسان کی بنیادی ضروریات کی اشیاء سے لیکر روزقیامت تک کیلئے آدم کو علِم دیا اس علِم میں کائناتی اسرار کو بھی آشکار کیا گیا۔
قیامت تک جو چیز بھی ایجاد ہوگی یا دریافت ہوگی اس کا علِم آدم کو دیدیا گیا ہے، آدم کی اولاد تک یہ علِم درجہ بدرجہ شعور کی ترقی کے ساتھ پہنچا دیا ہے ۔ سب سے پہلے انسان نے اپنی بنیادی ضروریات پر توجہ دی ۔ دھاتوں کو اپنے استعمال میں لایا پھر آہستہ آہستہ سائنسی ایجادات کی دنیا میں داخل ہوا اب ہر لمحہ نِت نئی ایجادات ہو رہی ہیں، مگر یہ سارا علِم وہ ہے کہ جو آدم کو اللہ کا نائب ڈکلیئر کرنے سے پہلے ہی عطا کر دیا گیا تھا۔
نبی کریمﷺ کی ولادت کے وقت مکہ کے آس پاس تجلیات کا انوار دیکھا گیا، آپؐ کا زمانہ قرون وسطٰی کہلاتا ہے یعنی درمیان کے زمانہ میں تہذیب انسانی کا ارتقائی سفر جاری تھا۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں(انبیاء) نے انسان کی روحانی تربیت بھی کی اور تہذیبی بھی۔آپؐ سے پہلے کے زمانے میں انسان کی توجہ ضروریات زندگی کی اشیاء بنانے کی جانب تھی۔ مگر جب آپؐ کو اس دنیا میں بھیجا گیا تو کائناتی اسرار کا علِم بھی آپؐ کو دیدیا گیا تھا۔آپؐ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔آپؐ نے نبی نوع آدم کو آخرت میں کامیابی اللہ کی رضا اور جہنم سے بچنے کا راستہ بتایا ۔ آپؐ کا وجود تمام جہانوں کی مخلوقات کیلئے سراپا رحمت ہے، مگر آپؐ کی آمد کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو سہولت اور آسانیاں پیدا کرنے کیلئے وہ تمام کائناتی اسرار آشکار کر دئیے کہ جو جدید سائنس کی بنیاد بنے ہیں۔ ابھی تو سائنس ارتقائی مراحل میں ہے آنے والے وقتوں میں سائنسی ترقی اس مقام تک پہنچے گی کہ جہاں کائنات کی مقناطیسی لہروں کی مدد سے انسان کی زندگی اس قدر آسان ہوجائے گی کہ جس کا ابھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔
ایک حدیث ہے کہ ''میںؐ علِم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہیں'' زیادہ تر افراد اس علِم کو روحانیت قرار دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ نقشبندی سلسلِے کے علاوہ روحانیت کے تمام سلسلِے حضرت علیؓ تک پہنچتے ہیں۔ مگر روحانیت کے یہ سلسلِے ہی جدید تعلیم اور سائنس و ریسرچ کی بنیاد ہیں۔ ہمارا کائناتی نظام لہروں سے مربوط ہے،کشف اور روحانی کمالات کا تعلق بھی کائناتی لہروں کے اس نظام کے ساتھ منسلک ہے۔ چنانچہ اسلام کے اولین دور میں ہی علِم جفراور دوسرے علوم کے ساتھ مسلمان سائنسدانوں نے سائنس پر ریسرچ کرنی شروع کردی تھی۔ مسلمان سائنسدانوں کی اس سائنسی ریسرچ کا تعلق روحانیت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ جب تک مسلمانوں نے سائنس کو دین اور روحانیت کا حصہ سمجھا وہ علِمی اور سائنسی ترقی میں دوسری اقوام سے بہت آگے نِکل گئے ۔ مگر بعد میں کچھ جہالت کے مارے مولویوں کی وجہ سے اسلامی تعلیمات کا غلط تصور پیش کردیا گیا۔
مسلمانوں کو ''وضو''جیسے مسائل میں اُلجھا دیا گیا، اسلامی تعلیمات کا وہ حصہ جو عبادات سے متعلق تھا،اسی کو ہی دین قرار دے د یا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں آ نے والے مسلم حکمرانوں نے نہ تو حقوق اللہ کی جانب توجہ دی اور نہ ہی حقوق العباد کی جانب، مغل حکمرانوں نے ہندوستان میں تاریخی عمارات تو بنادیں مگر ایک بھی یونیورسٹی یا تحقیقی مرکز نہیں بنائی۔ بعض مسلمان حکمرانوںنے عبادات اور حقوق العباد کی جانب توجہ تو دی، بیت المال کو امانت سمجھا ، عوام کو انصاف فراہم کرنے کیلئے سخت قوانین بھی بنائے، مساجد بھی تعمیر کروائیں مگر جدید علوم کو پھر بھی نظر انداز کیا ۔
جب حضو ر اکرم ﷺ پر وحی نازل ہوئی تو پہلا لفظ ''اقراء'' یعنی پڑھ تھا، اب بھی مبلغین، علماء کرام اور صوفیاء انسان کو کردار سازی کی تعلیم ہی دیتے ہیں وہ اپنے پیروکاروں کو عبادات کی جانب راغب کرتے ہیں، جبکہ جدید تعلیم سے کوسوں دُور رہنے کی تلقین بھی کرتے ہیں ۔ یہ تصور قرآنی تعلیمات کے بھی برعکس ہے۔
اسلامی تعلیمات کے دو حصے ہیں، پہلا حصہ اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لانا، اللہ اور رسولؐ کے تمام احکامات پر عمل کرنا،اپنی زندگیاں اسلام کے سانچے میں ڈھالنا جبکہ دوسرا حصہ تخلیق کائنات پر غور کرنا، یعنی کائناتی اسراروں جنہیں اب جدید سائنس کہا جاتا ہے،کو سمجھنا ہے۔ پھر اس نظام سے نوع انسان کی زندگیوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنا ہے۔آپ ؐکی رحمت تمام انسانوں کیلئے یہ ہے کہ انسان مرنے کے بعد بھی اللہ کے انعامات کا حقدار بنے اور آخرت کی لازوال زندگی جنت میں گزارے اور وہ اپنی زندگی میں بھی ایک آسودہ اور آرام دہ زندگی گزارے، تمام مسلمان ایک دوسرے کا احساس کریں اور پوری اُمت ایک جان بن کر زندگی بسر کرے، انسانوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کی جائیں ۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور علِم سے عام انسانوں کو زیادہ سے زیادہ ُسکھ پہنچایا جائے۔
جدید میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے سے بیمار افراد کو صحت وتندرستی اور نئی زندگی دی جا سکتی ہے۔ جدید سفری سہولتوں سے انسان کیلئے آسانیاں پیدا کی جا سکتی ہیں، میڈیا کو دین کی تبلیغ کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہوائی سفر حاجیوں اور عمرہ کرنے والوں کو بے پناہ سہولت دی ہے۔ انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم کی وجہ سے انسانوں کی زندگیوں میں بہت ساری آسانیاں پیداہوئی ہیں، ہر پہلو میں انسان کو آسانی اور سہولت میسر آرہی ہے۔ علامہ اقبالؒ اور کئی دوسرے علم اکابرین نے ''رہبانیت''جیسے طرز زندگی کو سخت ناپسند فرمایا ہے۔کسی بھی انسان کی زندگی کیلئے آسانی پیدا کرنا بہت بڑا ثواب کا کام ہے، یہی اسلام کا بنیادی تصور ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مسلمان کم ازکم ایک ہزار سال سے محلاتی سازشوں میں اُلجھے ہوئے ہیں۔دانا اور زیرک افراد کو ساتھ ملانے کی بجائے مفادپرست اور ابن الوقت افراد کے گروہ ساتھ ملا کرریاستوں پر حکومتیں کی جاتی ہیں۔حکمران ٹولہ تو خوب عیش و عشرت کی زندگی گزاررہاہے مگر عوام کی حالت غلاموں سے بھی بدتر ہوئی ہے۔ ریاستی وسائل اور دولت کو اپنے ذاتی مصرف میں لایا جاتا ہے۔ اب بھی پاکستان سمیت تمام مسلم ریاستوں کے حکمرانوں اور عوام کو دیکھا جائے تو ''بادشاہ سلامت'' اور ''ابن غلام ''والا ماحول اور کلچر نظر آتا ہے۔
اب تو مسلم ریاستوں کی صورتحال اور بھی گھمبیر ہو چکی ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں دوسری ریاستوں کو تسخیر کرکے مال غنیمت اسلامی ریاستوں میں لایا گیاجس سے مسلمانوں کے طرز زندگی میں خوشحالی اور مثبت اثرات مرتب ہوئے، مگر اب اپنے ہی مالک سے ''مال غنیمت '' لوٹ کر دوسرے ممالک میں جمع کروادیا جاتا ہے جس سے اُن ممالک کے عوام کی خوشحالی اور آسودہ زندگی نظر آتی ہے۔ مسلمان ضروریات زندگی اور ٹیکنالوجی کیلئے ترقی یافتہ ممالک کے محتاج ہیں اور اپنی اس محتاجی کی وجہ سے غیر مسلم اقوام کی ہرذلت برداشت کرنے پر مجبور ہیں،حتیٰ کہ اپنی بقاء کیلئے اسلحہ بھی انہی ممالک سے خریدا جاتا ہے ۔کئی خلیجی ممالک نے تو اپنے دفاع کا ''ٹھیکہ'' ان ہی بین الاقوامی قوتوں کو دے رکھا ہے۔
جدید تعلیم سائنس وٹیکنالوجی اور جدید ریسرچ کو اسلام کے منافی قرار دینے والے ''پیشواؤں'' کے خیالات اور نظریات کو فروغ دینے اور ان کی تشہیر کرنے کی بجائے انھیں میڈیا میں محدود کیا جائے۔ ان علماء کرام کو تبلیغ کا موقع دینا چاہیے کہ جو دین اسلام کے تمام پہلوؤں سے بخوبی واقف ہو،مسلمانوں کو فروعی اختلافات میں اُلجھانے والے اور مالک کے مابین خلیج پیدا کرنے والے مبلغین اور علماء کرام پر بھی پابندی لگنی چاہیے۔
دین کا یہ پہلو اہم ہے کہ اگر مسلمان کسی بھی معاملے میں اغیار کے محتاج ہوںتو تمام مسلمان گناہ گار ہونگے، دین اسلام ایک مکمل دین ہے اور زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے، انسانی ضروریات زندگی کے تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ ایک مسلمان کی اصل زندگی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو حاضروناظر جانتے ہوئے اپنی قوم کی خوشحالی اور ترقی کیلئے اپنی زندگی صرف کرے۔ مگر اب یہ سوچ عام ہوچکی ہے کہ مسلمانوں کو فرض عبادات کے علاوہ ہر چیز معاف ہے جس کی وجہ سے ہم جہالت اور پسماندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں گِر رہے ہیں۔
اس وقت دنیا بھر میں روائتی جنگوں کا تصور تبدیل ہورہا ہے، اب معاشی واقتصادی جنگیں لڑی جارہی ہیں، خلا میں بالادستی قائم کرنے والی قوم ہی اقوام عالم میں ممتاز مقام حاصل کرسکتی ہے۔ سیٹلائٹ ٹیکنالوجی نے ایک نئی جہت پیدا کی ہے۔ ابھی تا سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کا آغاز ہے، یہ ٹیکنالوجی کہاں تک پہنچے گی ابھی اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ۔کیونکہ سائنسدانوں نے اس حقیقت کو تلاش کر لیا ہے کہ کائنات کا سارا نظام ہی لہروں سے چل رہا ہے، ہر ستارے اور سیارے کی حرکت سے جوارتعاش پیدا ہورہا ہے اسکے اثرات ہماری زمین اور دوسرے سیاروں پر بھی پڑتے ہیں اب سائنس ان بنیادوں پر کام کر رہی ہے کہ جس کا قرآن پاک میں بھی ذکر ہے۔
چونکہ محض دینی علم حاصل کرنے والے علماء کو جدید علوم کا ادراک نہیں ہے۔ انکا ذہین اس کائناتی نظام کو سمجھنے سے ہی قاصر ہے کہ جو لہروں ،کشش ثقل اور مادوںکا ایک دوسرے سے مربوہونے سے تعلق رکھتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنے دماغ کو سائنس کے گورکھ دھندوں میں اُلجھانے کی بجائے دینی مسائل میں اُلجھے رہتے ہیں اور اُلجھائے رکھتے ہیں ۔جب نیل آراسٹرانگ نے چاند پر پہلا قدم رکھا تو مولویوں نے اسے شِرک قرار دیا اور کہا کہ سورج چاند اللہ تعالیٰ کے پوشیدہ راز ہیں بھلا کوئی وہاں تک کیسے پہنچ سکتا ہے مگر اب سائنس اس قدر ترقی کر چکی ہے کہ کائنات کی وسعت کا اندازہ لگایا جارہا ہے۔ ہماری کہکشاں گلیکسی وے میں سورج جیسے اربوں ستارے ہیں ان کے اپنے نظام شمسی ہیں ۔سورج سے ہزاروں گُنا بڑے ستارے بھی ہماری کہکشاں میں موجود ہیں۔ہماری کہکشاں سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں گُنا بڑی کئی کہکشائیں دریافت ہوچکی ہیں۔ کائنات میں کھربوں میل کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ٹائم اینڈاسپیس(وقت اور حد) انسانی ذہین کے محدود اندازے ہیں انسان نے اپنی حیثیت کے مطابق نہایت محدود پیمانے پر ''وقت اور حد'' تک تعین کیا ہے۔ وگرنہ زمین کے مدار سے نکلتے ہی ہر چیز لامحدود ہوجاتی ہے۔
مدرسوں کے علماء کرام جہاد کی فضلیت توبتاتے ہیں مگر علِمی جہاد کی اہمیت سے آگاہ نہیں کرتے ۔اس وقت تلواروں اور خنجروں اور تیروں سے دوسری اقوام کو زیر نہیں کیا جاسکتا ۔بلکہ سائنس و ٹیکنالوجی میں دسترس حاصل کرکے ہی دوسری اقوام کو زیر کیا جا سکتا ہے۔ اگر قرآن پاک کو اسکی اصل روح کے مطابق سمجھا جائے ،نبی کریم ﷺ کی احادیث پر غور کیا جائے اور اولیاء کرام کے حالات ِزندگی کا جائزہ لیا جائے تو فوراً یہ بات سمجھ آجاتی ہے کہ حضورؐ کی آمد کے فوراً بعد کائناتی نظام کاعلِم خاص انسانوں تک منتقل کردیا گیا تھا۔ جب تک مسلمان اس علِم کے ساتھ جڑے رہے وہ سائنس میں ترقی کرتے رہے جیسے ہی انھوں نے اپنے ذہین کو محدود کیا وہ دنیا میں ہی محدود ہوگئے۔
اب وقت آگیا ہے کہ حضور اکرامﷺ کے اُمتی دوسری اقوام کی محتاجی سے نِکلنے کیلئے خود جدید علوم کیلئے اپنے آپ کو وقف کریں۔اس وقت یہی اصل جہاد ہے کہ اپنی دولت سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید ریسرچ پر خرچ کریں۔