صرف ایک بڑا آدمی
سرکاری ملازمت، خواہ وہ کسی بھی طرز کی ہو، انسانی فکر کو منتشر اور کسی حد تک غلامانہ کر دیتی ہے۔
KARACHI:
سرکاری ملازمت، خواہ وہ کسی بھی طرز کی ہو، انسانی فکر کو منتشر اور کسی حد تک غلامانہ کر دیتی ہے۔ اس صحرا میں ہر شخص آبلہ پا رہتے ہوئے ہمہ وقت گردش میں رہتا ہے۔ آپ کو کئی بڑے لوگ ملتے ہیں، مگر آپ ان کے ساتھ دس منٹ گفتگو سے قاصر ہوتے ہیں۔ وہ معتبر شخص، اس ملک کی قسمت کے فیصلے کرتے ہیں۔ وہ خود جس قسم کے ہیں، ان کے فیصلے، ان کی شخصیت کی عین تصویر ہوتے ہیں۔ امیر سے امیر تر ہونے کی پاگل پن کی حد تک خواہش پیہم، آپ کو ان لوگوں میں ایک بیماری کی حد تک نظر آتی ہے۔
میرے پاس سینکٹروں مثالیں ہیں، مگر میں نام لینے سے قاصر ہوں۔ان کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ اگر آپ ان سے اس دوڑ کی وجہ دریافت کرنے کی ہمت کریں، تو ایک بنا بنایا جواب ایک دم آپ کی سمع خراشی کے لیے تیار ہو گا،'' جناب، ہماری تو گزر گئی، یہ تو میں صرف اپنی اولاد کے لیے کر رہا ہوں۔ بھئی، یہ تو میرا فرض ہے''۔ اس میرا تھون(marathon) ریس میں تمام طبقات کے لوگ بلا تمیز شامل ہیں۔کچھ حکومتی عمال بن کر، کچھ اکابرین حکومت بن کر، کچھ دین کی چادر لپیٹ کر، اور کچھ حکومت وقت کے دربار میں، قصیدہ گو بن کر۔ میں روز اس ملک کے کئی بڑے بلکہ بہت بڑے لوگوں سے ملتا ہوں۔ گفتگو ہوتی ہے، پھر کچھ دیر کے بعد خاموش ہو جاتا ہوں۔ اس پر اکثر میں اپنے آپ سے بھی خفا رہتا ہوں۔
بابائے اُردو، کا دیو مالائی کام یقیناً بڑا تھا لیکن کیا تندور پر 60 ڈگری کی حرارت میں روٹیاں لگانے والا شخص چھوٹا آدمی ہے؟ کیا ایک پی ٹی سی استاد جو بارہ میل کا سفر طے کر کے، ایک اسکول میں بچوں کو پڑھاتا ہے، واقعی غور کرنے کے قابل نہیں؟ کیا ایک سیکریٹری یا کمشنر، جو پچھلی شام کے خمار میں، انتہائی عاجزانہ شکل بنا کراگلی صبح دفتر میں بناوٹی باتیں کرتا ہے، واقعی اس نظام میں بڑا آدمی ہے؟ میرے پاس ان تمام چیزوں کا جواب ہے۔ لیکن میں جواب دوں گا نہیں، اس کے لیے میں آپ کو ایک کہانی سناتا ہوں۔ کہانی اس کے لیے نامناسب لفظ ہے، میں یہ لفظ، واپس لیتا ہوں اور عرض کرنا چاہتا ہوںکہ یہ ایک حقیقی بلکہ عین حقیقی واقعہ ہے جس سے آپ کسی کو بتا سکتے ہیں کہ بڑا آدمی کس طرح کا ہوتا ہے بلکہ، بڑا آدمی کون ہوتا ہے۔
1930ء میں ایک بچہ امریکا کے ایک گمنام سے شہر اوماہا میں پیدا ہوتا ہے۔ اُس کا والد اوسط درجہ کا سیاست دان ہے۔ امریکی کانگریس میں ممبر بننا اس کا خواب ہے اور وہ ممبر بن جاتا ہے۔ اپنے والد کا اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے، باپ اسے سیاست میں لانا چاہتا ہے۔ اس کے والدکی تلخی واشنگٹن میں خارجہ پالیسی کو مسلسل تنقید بنانے میں ظاہر رہتی ہے۔ اُس کی دو بیٹیاں اپنے والد کے خواب پر پورا اترنے کی کوشش کرتی ہیں مگر اس کا اکلوتا بیٹا عجیب سا بچہ ہے۔
اصل میں وہ ایک امریکی خاندان نہیں تھا۔ اس کے والد کے بزرگ، سکینڈے نیویا Scandanavia سے ہجرت کر کے امریکا آئے۔ والدہ کے بزرگ اسٹونیا یا آج کے سپین سے تعلق رکھتے ہیں۔ مگر وہ بچہ سارے خاندان سے مختلف ہے۔ نوسال کی عمر میں وہ بچہ ڈالر کمانے شروع کر دیتا ہے۔ وہ گھر گھر جا کر کوکا کولا، اخبار اور چیونگ گم بیچنا شروع کر دیتا ہے۔ اسکول میں پڑھتے ہوئے، وہ گالف کی استعمال شدہ گیندیں، ٹکٹیں، اور گاڑیاں بیچنا شروع کر دیتا ہے۔
دس سال کی عمر میں، جب ہمارے ملک میں مائیںاپنے بچوں کو اکیلا باہر نہیں جانے دیتیں، وہ بچہ ایک اور عجیب کام کرتا ہے۔ وہ دس برس کی عمر میں، نیو یارک اسٹاک ایکسچینج(exchange) میں گھنٹوں بیٹھا رہتا تھا۔ وہ ہر چیز کو سمجھنے کی کوشش کرتا تھا۔ مگر 1940ء کی اسٹاک ایکسچینج بہت دشوار اور ایک بچے کی فہم سے بہت اونچی تھی، وہ واپس اپنے شہر میں آ جاتا ہے۔
گیارہ سال کی عمر میں وہ اپنے اور اپنی چھوٹی بہن کے لیے مقامی کمپنی کے صرف تین شیئرز خریدتا ہے۔ اسکول کی تعلیم کے دوران وہ اپنے والد کے ساتھ کاروبار کرتا ہے اور والد کی کمپنی میں معمولی سی سرمایہ کاری کرتا ہے۔ چند مہینوں میں وہ ایک زرعی زمین کے قطعہ کا مالک بن جاتا ہے جس میں ایک مزدور کام کر رہا ہوتا ہے۔1945ء میں وہ اور اس کا ایک دوست 25 ڈالر کی ایک استعمال شدہ مشین ایک نائی کی دکان پر رکھ دیتا ہے، یہ دکان اس کے گھر کے بالکل نزدیک ہوتی ہے۔ چند ماہ کی قلیل مدت میں اس کے شہر کے اکثر بال تراشنے والوں کی دکانوں پر اس بچے کی مشین پڑی ہوتی ہے۔1944ء میں وہ 14 سال کی عمر میں محکمہ انکم ٹیکس سے 35 ڈالر کی رعایت حاصل کرتا ہے جو اُسے اس بنیاد پر ملتی ہے کہ وہ سائیکل چلاتا ہے اور اپنے رستہ پر چلتا ہے۔
یہ بچہ، واقعی حیرت انگیز کام کرتا ہے۔ صرف بیس سال کی عمر میں وہ کاروبار کر کے 9800 ڈالر جمع کر لیتا ہے۔ مگر یہ کام اسے کسی طرح سے بڑا آدمی کہلانے کا مستحق نہیں بناتا۔ یہ تو شائد کئی اوربچے یا نوجوان کر سکتے ہیں۔ شائد؟
اُس بچے کو احساس ہوتا ہے کہ وہ صحیح بول نہیں سکتا۔ ایک عجب احساس کمتری اسے کھائے جاتا ہے۔ اس احساس کو ختم کرنے کے لیے وہ ایک مقامی درس گاہ میں خود اعتمادی سے گفتگو کرنے کا کورس لے لیتا ہے۔ یوں اسے تھوڑا سا اطمینان ہوتا ہے۔ کہ وہ بول سکتا ہے اور ہر جگہ بول سکتا ہے۔ مگر قدرت کو کچھ اور منظور ہوتا ہے۔ اور آسمانوں پر اُس کے متعلق حیرت انگیز فیصلے ہو رہے ہیں۔ وہ ایک عجیب سی حرکت کرتا ہے، وہ اپنے قصبہ اوماہا میں ایک مقامی یونیوسٹی میں دولت اور روزگار پر لیکچر دینا شروع کر دیتا ہے۔ اس کے تمام شاگرد اس سے دوگنی عمر کے ہیں۔ مگر وہ بول بول کر اپنے احساس کمتری کو ختم کر دیتا ہے۔32 سال، یعنی عین جوانی میں وہ کروڑ پتی ہو جاتا ہے۔ وہ شیئرز کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بننے کی طرف تیز رفتاری سفر کرنا شروع کر دیتا ہے۔ 1990ء میں وہ ارب پتی ہو جاتا ہے۔ 2008ء میں وہ دنیا کا امیر ترین شخص بن جاتا ہے۔ اس کی دولت 62 بلین ڈالر یعنی پاکستان کی کرنسی کے حساب سے 6400 ارب روپے ہو جاتی ہے۔Forbes، فوربس رسالے کی رو سے وہ بل گیٹس کی تیرہ سالہ امیر ترین حیثیت کو ختم کر دیتا ہے۔ اور روئے زمین پر امیر ترین شخص ہونے کی سند حاصل کر لیتا ہے۔
مگر 2008ء میں وہ شخص بہت عجیب بلکہ عقل کو دنگ کرنے والی حرکت کرتا ہے۔ وہ اپنی دولت کا بیشتر حصہ یعنی 30.7 بلین ڈالر غریب اور مسکین لوگوں کے لیے مختص فائونڈیشن کو دے دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ تمام پیسہ جو 3400 ارب پاکستانی روپے بنتا ہے، عام لوگوں کی صحت، تعلیم اور فلاح بہبود پر لگنا چاہیے۔ وہ اپنے تین بچوں میں صرف اتنی دولت تقسیم کرتا ہے جس سے وہ اپنی مرضی کا کاروبار کر سکیں۔
وارن بوفے آج بھی زندہ ہے، وہ آج بھی پانچ کمروں کے اُس مکان میں رہتا ہے جو اس نے 1958ء میں 31,500 ڈالر میں خریدا ہوا تھا۔ وہ آج بھی ایک لاکھ امریکی ڈالر تنخواہ لیتا ہے، جو اس کی بنیادی ضرورتیں پوری کر دیتی ہے۔ وہ دو بلین ڈالر یعنی 200 ارب روپے اپنی ریاست کو دیتا ہے تا کہ وہ سورج کی روشنی سے بجلی بنائیں یا ہوا سے بجلی پیدا کریں۔
اس کی آنکھ میں آج بھی خواب ہیں۔ 83 سال کی عمر میں وہ لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہے اور واقعی کر رہا ہے۔ وارن بوفے کے 3400 ارب کی خیرات سے ہمارے ملک کے بیشتر مسئلے حل ہو سکتے ہیں۔ ہمارے پورے ملک کا تعلیمی یا صحت یا صاف پانی کا بجٹ اس رقم سے کہیں کم ہے۔ اس ملک میں جائز اور ناجائز ذرایع سے امیر ہونے والے کھرب پتی موجود ہیں، کاروبار ی اشخاص، سرکاری اہلکار، سیاست دان اور دیگر لوگ ہر صوبے میں موجود ہیں۔ ہمارے ملک کے امیر لوگ ملک سے باہر کے بینکوں میں اپنی دولت کو محفوظ رکھتے ہیں۔ مگر کیا ان تمام لوگوں میں سے کسی کو بھی یہ کہتے سنا گیا ہے کہ اس بار پاکستان کے ایک صوبے کی تعلیم کا بجٹ وہ دے گا؟کیا کسی نے آج تک یہ کہا ہے کہ میں اپنی دولت میں سے اس بار اس صوبے کے تمام اسپتالوں میں مفت دوائی دوں گا؟ صوبہ چھوڑیے، کیا کسی نے کبھی یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ پاکستان کے صرف ایک شہر میں پینے کا صاف پانی مہیا کرے گا؟ میں اپنی پوری زندگی میں اس طرح کے ایک بھی شخص کو تلاش نہیں کر پایا۔ شائد آپ کر سکیں۔ ہو سکتا ہے کہ میں غلط ہوں لیکن میرا سوال اپنی جگہ پر قائم ہے، کہ بڑا آدمی کون ہے؟ ہمارے ملک میں واقعتاً کتنے بڑے لوگ ہیں؟ شائد بہت سے مگر شائد کوئی بھی نہیں؟
سرکاری ملازمت، خواہ وہ کسی بھی طرز کی ہو، انسانی فکر کو منتشر اور کسی حد تک غلامانہ کر دیتی ہے۔ اس صحرا میں ہر شخص آبلہ پا رہتے ہوئے ہمہ وقت گردش میں رہتا ہے۔ آپ کو کئی بڑے لوگ ملتے ہیں، مگر آپ ان کے ساتھ دس منٹ گفتگو سے قاصر ہوتے ہیں۔ وہ معتبر شخص، اس ملک کی قسمت کے فیصلے کرتے ہیں۔ وہ خود جس قسم کے ہیں، ان کے فیصلے، ان کی شخصیت کی عین تصویر ہوتے ہیں۔ امیر سے امیر تر ہونے کی پاگل پن کی حد تک خواہش پیہم، آپ کو ان لوگوں میں ایک بیماری کی حد تک نظر آتی ہے۔
میرے پاس سینکٹروں مثالیں ہیں، مگر میں نام لینے سے قاصر ہوں۔ان کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ اگر آپ ان سے اس دوڑ کی وجہ دریافت کرنے کی ہمت کریں، تو ایک بنا بنایا جواب ایک دم آپ کی سمع خراشی کے لیے تیار ہو گا،'' جناب، ہماری تو گزر گئی، یہ تو میں صرف اپنی اولاد کے لیے کر رہا ہوں۔ بھئی، یہ تو میرا فرض ہے''۔ اس میرا تھون(marathon) ریس میں تمام طبقات کے لوگ بلا تمیز شامل ہیں۔کچھ حکومتی عمال بن کر، کچھ اکابرین حکومت بن کر، کچھ دین کی چادر لپیٹ کر، اور کچھ حکومت وقت کے دربار میں، قصیدہ گو بن کر۔ میں روز اس ملک کے کئی بڑے بلکہ بہت بڑے لوگوں سے ملتا ہوں۔ گفتگو ہوتی ہے، پھر کچھ دیر کے بعد خاموش ہو جاتا ہوں۔ اس پر اکثر میں اپنے آپ سے بھی خفا رہتا ہوں۔
بابائے اُردو، کا دیو مالائی کام یقیناً بڑا تھا لیکن کیا تندور پر 60 ڈگری کی حرارت میں روٹیاں لگانے والا شخص چھوٹا آدمی ہے؟ کیا ایک پی ٹی سی استاد جو بارہ میل کا سفر طے کر کے، ایک اسکول میں بچوں کو پڑھاتا ہے، واقعی غور کرنے کے قابل نہیں؟ کیا ایک سیکریٹری یا کمشنر، جو پچھلی شام کے خمار میں، انتہائی عاجزانہ شکل بنا کراگلی صبح دفتر میں بناوٹی باتیں کرتا ہے، واقعی اس نظام میں بڑا آدمی ہے؟ میرے پاس ان تمام چیزوں کا جواب ہے۔ لیکن میں جواب دوں گا نہیں، اس کے لیے میں آپ کو ایک کہانی سناتا ہوں۔ کہانی اس کے لیے نامناسب لفظ ہے، میں یہ لفظ، واپس لیتا ہوں اور عرض کرنا چاہتا ہوںکہ یہ ایک حقیقی بلکہ عین حقیقی واقعہ ہے جس سے آپ کسی کو بتا سکتے ہیں کہ بڑا آدمی کس طرح کا ہوتا ہے بلکہ، بڑا آدمی کون ہوتا ہے۔
1930ء میں ایک بچہ امریکا کے ایک گمنام سے شہر اوماہا میں پیدا ہوتا ہے۔ اُس کا والد اوسط درجہ کا سیاست دان ہے۔ امریکی کانگریس میں ممبر بننا اس کا خواب ہے اور وہ ممبر بن جاتا ہے۔ اپنے والد کا اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے، باپ اسے سیاست میں لانا چاہتا ہے۔ اس کے والدکی تلخی واشنگٹن میں خارجہ پالیسی کو مسلسل تنقید بنانے میں ظاہر رہتی ہے۔ اُس کی دو بیٹیاں اپنے والد کے خواب پر پورا اترنے کی کوشش کرتی ہیں مگر اس کا اکلوتا بیٹا عجیب سا بچہ ہے۔
اصل میں وہ ایک امریکی خاندان نہیں تھا۔ اس کے والد کے بزرگ، سکینڈے نیویا Scandanavia سے ہجرت کر کے امریکا آئے۔ والدہ کے بزرگ اسٹونیا یا آج کے سپین سے تعلق رکھتے ہیں۔ مگر وہ بچہ سارے خاندان سے مختلف ہے۔ نوسال کی عمر میں وہ بچہ ڈالر کمانے شروع کر دیتا ہے۔ وہ گھر گھر جا کر کوکا کولا، اخبار اور چیونگ گم بیچنا شروع کر دیتا ہے۔ اسکول میں پڑھتے ہوئے، وہ گالف کی استعمال شدہ گیندیں، ٹکٹیں، اور گاڑیاں بیچنا شروع کر دیتا ہے۔
دس سال کی عمر میں، جب ہمارے ملک میں مائیںاپنے بچوں کو اکیلا باہر نہیں جانے دیتیں، وہ بچہ ایک اور عجیب کام کرتا ہے۔ وہ دس برس کی عمر میں، نیو یارک اسٹاک ایکسچینج(exchange) میں گھنٹوں بیٹھا رہتا تھا۔ وہ ہر چیز کو سمجھنے کی کوشش کرتا تھا۔ مگر 1940ء کی اسٹاک ایکسچینج بہت دشوار اور ایک بچے کی فہم سے بہت اونچی تھی، وہ واپس اپنے شہر میں آ جاتا ہے۔
گیارہ سال کی عمر میں وہ اپنے اور اپنی چھوٹی بہن کے لیے مقامی کمپنی کے صرف تین شیئرز خریدتا ہے۔ اسکول کی تعلیم کے دوران وہ اپنے والد کے ساتھ کاروبار کرتا ہے اور والد کی کمپنی میں معمولی سی سرمایہ کاری کرتا ہے۔ چند مہینوں میں وہ ایک زرعی زمین کے قطعہ کا مالک بن جاتا ہے جس میں ایک مزدور کام کر رہا ہوتا ہے۔1945ء میں وہ اور اس کا ایک دوست 25 ڈالر کی ایک استعمال شدہ مشین ایک نائی کی دکان پر رکھ دیتا ہے، یہ دکان اس کے گھر کے بالکل نزدیک ہوتی ہے۔ چند ماہ کی قلیل مدت میں اس کے شہر کے اکثر بال تراشنے والوں کی دکانوں پر اس بچے کی مشین پڑی ہوتی ہے۔1944ء میں وہ 14 سال کی عمر میں محکمہ انکم ٹیکس سے 35 ڈالر کی رعایت حاصل کرتا ہے جو اُسے اس بنیاد پر ملتی ہے کہ وہ سائیکل چلاتا ہے اور اپنے رستہ پر چلتا ہے۔
یہ بچہ، واقعی حیرت انگیز کام کرتا ہے۔ صرف بیس سال کی عمر میں وہ کاروبار کر کے 9800 ڈالر جمع کر لیتا ہے۔ مگر یہ کام اسے کسی طرح سے بڑا آدمی کہلانے کا مستحق نہیں بناتا۔ یہ تو شائد کئی اوربچے یا نوجوان کر سکتے ہیں۔ شائد؟
اُس بچے کو احساس ہوتا ہے کہ وہ صحیح بول نہیں سکتا۔ ایک عجب احساس کمتری اسے کھائے جاتا ہے۔ اس احساس کو ختم کرنے کے لیے وہ ایک مقامی درس گاہ میں خود اعتمادی سے گفتگو کرنے کا کورس لے لیتا ہے۔ یوں اسے تھوڑا سا اطمینان ہوتا ہے۔ کہ وہ بول سکتا ہے اور ہر جگہ بول سکتا ہے۔ مگر قدرت کو کچھ اور منظور ہوتا ہے۔ اور آسمانوں پر اُس کے متعلق حیرت انگیز فیصلے ہو رہے ہیں۔ وہ ایک عجیب سی حرکت کرتا ہے، وہ اپنے قصبہ اوماہا میں ایک مقامی یونیوسٹی میں دولت اور روزگار پر لیکچر دینا شروع کر دیتا ہے۔ اس کے تمام شاگرد اس سے دوگنی عمر کے ہیں۔ مگر وہ بول بول کر اپنے احساس کمتری کو ختم کر دیتا ہے۔32 سال، یعنی عین جوانی میں وہ کروڑ پتی ہو جاتا ہے۔ وہ شیئرز کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بننے کی طرف تیز رفتاری سفر کرنا شروع کر دیتا ہے۔ 1990ء میں وہ ارب پتی ہو جاتا ہے۔ 2008ء میں وہ دنیا کا امیر ترین شخص بن جاتا ہے۔ اس کی دولت 62 بلین ڈالر یعنی پاکستان کی کرنسی کے حساب سے 6400 ارب روپے ہو جاتی ہے۔Forbes، فوربس رسالے کی رو سے وہ بل گیٹس کی تیرہ سالہ امیر ترین حیثیت کو ختم کر دیتا ہے۔ اور روئے زمین پر امیر ترین شخص ہونے کی سند حاصل کر لیتا ہے۔
مگر 2008ء میں وہ شخص بہت عجیب بلکہ عقل کو دنگ کرنے والی حرکت کرتا ہے۔ وہ اپنی دولت کا بیشتر حصہ یعنی 30.7 بلین ڈالر غریب اور مسکین لوگوں کے لیے مختص فائونڈیشن کو دے دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ تمام پیسہ جو 3400 ارب پاکستانی روپے بنتا ہے، عام لوگوں کی صحت، تعلیم اور فلاح بہبود پر لگنا چاہیے۔ وہ اپنے تین بچوں میں صرف اتنی دولت تقسیم کرتا ہے جس سے وہ اپنی مرضی کا کاروبار کر سکیں۔
وارن بوفے آج بھی زندہ ہے، وہ آج بھی پانچ کمروں کے اُس مکان میں رہتا ہے جو اس نے 1958ء میں 31,500 ڈالر میں خریدا ہوا تھا۔ وہ آج بھی ایک لاکھ امریکی ڈالر تنخواہ لیتا ہے، جو اس کی بنیادی ضرورتیں پوری کر دیتی ہے۔ وہ دو بلین ڈالر یعنی 200 ارب روپے اپنی ریاست کو دیتا ہے تا کہ وہ سورج کی روشنی سے بجلی بنائیں یا ہوا سے بجلی پیدا کریں۔
اس کی آنکھ میں آج بھی خواب ہیں۔ 83 سال کی عمر میں وہ لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہے اور واقعی کر رہا ہے۔ وارن بوفے کے 3400 ارب کی خیرات سے ہمارے ملک کے بیشتر مسئلے حل ہو سکتے ہیں۔ ہمارے پورے ملک کا تعلیمی یا صحت یا صاف پانی کا بجٹ اس رقم سے کہیں کم ہے۔ اس ملک میں جائز اور ناجائز ذرایع سے امیر ہونے والے کھرب پتی موجود ہیں، کاروبار ی اشخاص، سرکاری اہلکار، سیاست دان اور دیگر لوگ ہر صوبے میں موجود ہیں۔ ہمارے ملک کے امیر لوگ ملک سے باہر کے بینکوں میں اپنی دولت کو محفوظ رکھتے ہیں۔ مگر کیا ان تمام لوگوں میں سے کسی کو بھی یہ کہتے سنا گیا ہے کہ اس بار پاکستان کے ایک صوبے کی تعلیم کا بجٹ وہ دے گا؟کیا کسی نے آج تک یہ کہا ہے کہ میں اپنی دولت میں سے اس بار اس صوبے کے تمام اسپتالوں میں مفت دوائی دوں گا؟ صوبہ چھوڑیے، کیا کسی نے کبھی یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ پاکستان کے صرف ایک شہر میں پینے کا صاف پانی مہیا کرے گا؟ میں اپنی پوری زندگی میں اس طرح کے ایک بھی شخص کو تلاش نہیں کر پایا۔ شائد آپ کر سکیں۔ ہو سکتا ہے کہ میں غلط ہوں لیکن میرا سوال اپنی جگہ پر قائم ہے، کہ بڑا آدمی کون ہے؟ ہمارے ملک میں واقعتاً کتنے بڑے لوگ ہیں؟ شائد بہت سے مگر شائد کوئی بھی نہیں؟