جواب شکوہ
وزیراعظم سے کراچی کے تاجروں نے طاقت گفتار سے شکوہ کیا ہے۔ مائل بہ کرم نواز شریف کی سرکار میں محمود...
وزیراعظم سے کراچی کے تاجروں نے طاقت گفتار سے شکوہ کیا ہے۔ مائل بہ کرم نواز شریف کی سرکار میں محمود و ایاز بن جانے والوں نے بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان پر شوخی و برہمی کا اظہار کیا۔ ان کا نالہ بے باک گورنر ہائوس کی چھت کو چیر گیا۔ انھوں نے اپنے تاجر بھائی کا وفادار بن کر ان سے دلداری کی توقع کی۔ دل سے نکلی کاروباریوں کی بات نواز شریف پر اثر کر گئی۔ سراپا گفتار احتجاج تاجروں کے نمایندوں نے کہا کہ شہر قائد میں کاروبار کرنا ممکن نہیں رہا۔ بھتہ خور اب کاروباری جگہوں کے بعد ان کے گلشن کو آتش کدہ بنائے ہوئے ہیں۔ وہ من مانا مطالبہ پورا نہ ہونے پر بھتے کی پرچیوں کے ساتھ گولیاں بھی بھیجتے ہیں۔ وہ پہلے دکانوں پر بم مارتے تھے، اب انھوں نے گھروں پر حملے کر کے ہمیں زمین بوس کر دیا ہے۔ وزیر اعظم جانتے ہیں کہ اب یہ وبا لاہور، پنڈی، فیصل آباد، پشاور اور گوجرانوالہ تک پہنچ رہی ہے۔ مالی چمن باخبر کہ اگر اس کینسر کو کراچی میں نہ روکا گیا تو یہ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی پھیل جائے گا۔ افسوس کہ شکایات کرنے والے اصل حقائق کو چھپا رہے ہیں۔
شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور
آج کا کالم تاجروں کے شکوے کا ارباب وفا کی جانب سے جواب شکوہ ہے۔ حیرت ہے کہ اہم تشخیص کسی نے نہیں کی۔ مرض کی وجہ کسی نے نہیں جانچی یا بیماری کا اصل سبب کوئی نہیں جانتا۔ تقریباً ایک سو سے زیادہ سیاسی لیڈروں و تاجروں نے وزیر اعظم تک اپنی شکایات پہنچائیں۔ ٹی وی کے حالات حاضرہ کے مباحثوں میں درجنوں چینلز پر سیکڑوں لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس کے باوجود ''خوگر حمد'' وہ سبب نہ بتا سکے جو بھتہ خوری کا اصل سبب ہے۔ کیا تاجروں و سیاست دانوں کے نمایندے ڈرتے ہیں یا مصلحت کا شکار ہیں۔
''تاجروں کے تین کام'' نامی کالم میں قصہ درد سنانے کی مجبوری کے حوالے سے کچھ کہا گیا تھا۔ تاجروں سے شرط انصاف سے کہا گیا تھا کہ جب تک وہ تین کام نہیں کریں گے تو ان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ تجویز کیا گیا تھا کہ ان کے سکون کا سبب ان کے کرنے والے تین کام ہوں گے۔ یہ مارچ کی بات ہے۔ اس دوران پہلے بجٹ آیا اور پھر رمضان و عید الفطر، تاجروں نے بے حسی کا مظاہرہ کیا اور پچاس سالہ ڈگر پر چلتے رہے۔ کاروباری حضرات کو یاد رکھنا ہو گا کہ بھتہ خوری ردعمل ہے ان کے عمل کا جو وہ سال بھر میں تین مختلف مواقع پر کرتے ہیں۔
نیوٹن کا فارمولا ہے کہ ردعمل مخالف سمت میں ہوتا ہے اور اسی رفتار سے ہوتا ہے۔ حکومت چاہے غافل پولیس کو بلائے یا ہوشیار فوج کو، کرفیو لگائے یا کیمرے، چاہے بحر ظلمات میں گھوڑے ہی کیوں نہ دوڑائے، بھتہ خوری بند نہیں ہو گی۔ یہ متبادل معیشت بن چکی ہے۔ ہزاروں لوگ اس سے وابستہ ہیں اور لاکھوں گھرانے اس کی بدولت تاجروں کی سی خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ وقتی طور پر چھپ جانے والے پھر نکل آئیں گے۔ برق گرتا نوجوان جسے کوئی دس ہزار کی نوکری نہ دے جب اس کے کاشانے پر ''رحمتیں'' برس رہی ہوں تو کوئی اس سے بھتے کا چکر کیسے چھڑائے گا؟ جب تک معمور خزانے والے تاجر تین کام نہیں کریں گے نہ انھیں سکون ملے گا نہ حور و قصور، کتنی ہی نیک نیت اور مضبوط حکومتوں کی تاجروں پر الطاف و عنایات ہوں۔ یہ کسی کی حوصلہ افزائی نہیں بلکہ حقیقت پسندی ہے۔
بھارتی فلم میں دکھایا گیا کہ بھتہ خور دکانوں پر آ کر پیسے لے جاتے ہیں، ایک دکاندار کا بھائی فوج میں میجر ہوتا ہے، وہ چھٹیوں پر گھر آیا ہوتا ہے تو بھائی کی غیر موجودگی میں دکان پر بیٹھا ہوتا ہے۔ بھتہ خور آتے ہیں تو وہ کمانڈو رقم دینے کے بجائے ان سے لڑتا ہے۔ غنڈے اس کی خوب پٹائی کرتے ہیں، فوجی اپنے دوسرے ساتھیوں کو بلا کر بھتہ خوروں سے لڑنے کے لیے ایک گروہ بنا لیتا ہے۔ وہ تاجروں سے کہتا ہے کہ ان کو بھتہ نہ دو۔ آپ جانتے ہیں کہ اس لڑائی میں دکانداروں نے کس کا ساتھ دیا؟ وہ بھتہ دینے پر تیار تھے اور لڑنے والوں کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ تم تو کل فوج میں واپس چلے جائو گے، ہمیں ان غنڈوں کے ساتھ ان ہی علاقوں میں رہنا ہے۔ یہ ہوتی ہے مقامی بھتہ خوروں کی گرفت۔
تاجروں پر بھتہ خوروں نے خوف طاری کر دیا ہے۔ نہ حوصلہ ہے نہ دل۔ نہ جان محفوظ ہے نہ مال نہ عزت و آبرو۔ کاروباری حضرات کو لطف مرنے میں ہے باقی اور نہ مزا جینے میں۔ ان کے لیے کہیں آزادی سے آنا جانا، گھومنا پھرنا حتیٰ کہ بازاروں میں جانا یا واک کے لیے پارک تک جانا مشکل ہو گیا ہے۔ گھر اجڑ رہے ہیں اور رونق محفل رہی نہیں۔ تاجروں پر یہ خوف کیوں طاری کر دیا گیا ہے؟ اگر یہ سزا ہے تو کس گناہ کی؟ اگر یہ ردعمل ہے تو کس عمل کا۔ وہ کون سے تین کام ہیں جو تاجروں نے نہیں کیے؟ کسی نے وزیر اعظم کے سامنے یہ بات نہیں رکھی کہ اگر تاجروں کا عشق آزاد ہو گا تو دوسروں کا حسن آزاد کیوں نہ ہو گا؟ کوئی کیوں نہیں کہتا کہ یہ تاجروں کا اپنا کیا دھرا ہے؟ یہ خاموشی کیوں؟ صرف شکوہ کیوں؟ جواب شکوہ کیوں نہ ہو؟ اگر گورنر ہائوس، ٹی وی اسکرین اور اخبارات کے صفحات پر صرف شکوہ ہی ہے تو ارباب وفا کو جواب شکوہ بھی سننا پڑے گا کہ اس سے ''تاجران مرحوم'' کی مشکلیں آسان ہوں گی۔
پاکستان کے تاجروں کی ٹیکس کی ادائیگی کا تناسب دنیا بھر میں سب سے کم ہے۔ پھر اس میں سے بڑا حصہ افسران ہضم کر جاتے ہیں اور رہا سہا سیاست دان۔ عوام تک پہاڑ کی صورت میں پہنچنے والی رقم رائی کے دانے کے برابر ہو جاتی ہے۔ ٹیکس نہ دینے اور نشۂ دولت میں غافل امراء کو شکوہ زیب نہیں دیتا۔ یہ پہلی بات ہے۔ زکوٰۃ کی صحیح معنوں میں ادائیگی ہو جائے تو پاکستان میں کوئی بھوکا نہ سوئے۔ مختلف حیلے بہانوں سے اس مذہبی فرض میں ڈنڈی ماری جاتی ہے۔ یہ دوسرا مجرمانہ فعل ہے جو اخوت سے گریزاں تاجر برادری کرتی ہے۔ تیسرا کام مصنوعی مہنگائی کرنا ہے۔ رمضان، عید اور بقر عید کے دنوں میں ہمارے تاجر جنس کو نایاب کرتے ہیں تا کہ ارزان نہ کرنی پڑے۔ وہ انھیں کمائی کے مہینے بنا لیتے ہیں جتنا دس گیارہ مہینے میں منفعت کرتے ہیں اتنی چالیس پچاس دنوں میں کر لیتے ہیں۔ دنیا بھر میں سراپا کردار تاجر چیزیں سستی کر دیتے ہیں۔ ایسے تاجر اوج ثریا پر مقیم ہوتے ہیں، اپنے قلب سلیم کے ساتھ یہ سب وہ اس لیے کرتے ہیں کہ محروم طبقات بھی خوشیاں منا سکیں۔
پاکستانی تاجر غریبوں کے نشیمن پر بجلیاں گراتے ہیں اور رمضان و عید کو ان کے لیے بھاری کر دیتے ہیں، اس پر گھٹیا شوبازی اور دولت کی مجرمانہ نمائش، کوئی کہے کہ کیا ایسا ہوتا ہے انداز تجارت، جہاں ایسا عمل ہو گا وہاں ویسا ہی ردعمل ہو گا۔ خوف و بھوک کا ذکر کئی مرتبہ قرآن میں ہے۔ تاجروں نے غریب عوام کے لیے بھوک تخلیق کی ہے اور وہ بھی ایک زرعی ملک میں۔ اگر 99 فیصد محروم لوگ صبر و شکر سے گزارہ کریں اور ایک فیصد بغاوت پر اتر آئیں تو؟ بھوک تخلیق کرنے والوں کے لیے خوف تخلیق ہو چکا ہے۔ اگر چند فیصد لوگ بھی کہیں کہ ہم مانگیں گے نہیں، چھینیں گے تو معاشرے بحران کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جہاں ظلم ہو وہاں امن نہیں ہوتا۔ یہ پیش گوئی چھ ماہ قبل ''عزم نو'' میں کر دی گئی تھی۔ اگلے سال بھر میں زمیندار اور وڈیرے بھی لٹیں گے، یہ وبا شہروں سے دیہاتوں تک پہنچے گی۔ آج تاجروں کا شکوہ ہے تو کل کسی گورنر ہائوس میں پگڑی باندھے جاگیردار ایسے شکوے کر رہے ہوں گے۔ شکوہ کرنے سے پہلے وجوہات دور کریں۔ آج صنعت کار تو کل زمیندار شکوہ کرے گا، اگر نہ سمجھا گیا آج کے اس جواب شکوہ کو۔
شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور
آج کا کالم تاجروں کے شکوے کا ارباب وفا کی جانب سے جواب شکوہ ہے۔ حیرت ہے کہ اہم تشخیص کسی نے نہیں کی۔ مرض کی وجہ کسی نے نہیں جانچی یا بیماری کا اصل سبب کوئی نہیں جانتا۔ تقریباً ایک سو سے زیادہ سیاسی لیڈروں و تاجروں نے وزیر اعظم تک اپنی شکایات پہنچائیں۔ ٹی وی کے حالات حاضرہ کے مباحثوں میں درجنوں چینلز پر سیکڑوں لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس کے باوجود ''خوگر حمد'' وہ سبب نہ بتا سکے جو بھتہ خوری کا اصل سبب ہے۔ کیا تاجروں و سیاست دانوں کے نمایندے ڈرتے ہیں یا مصلحت کا شکار ہیں۔
''تاجروں کے تین کام'' نامی کالم میں قصہ درد سنانے کی مجبوری کے حوالے سے کچھ کہا گیا تھا۔ تاجروں سے شرط انصاف سے کہا گیا تھا کہ جب تک وہ تین کام نہیں کریں گے تو ان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ تجویز کیا گیا تھا کہ ان کے سکون کا سبب ان کے کرنے والے تین کام ہوں گے۔ یہ مارچ کی بات ہے۔ اس دوران پہلے بجٹ آیا اور پھر رمضان و عید الفطر، تاجروں نے بے حسی کا مظاہرہ کیا اور پچاس سالہ ڈگر پر چلتے رہے۔ کاروباری حضرات کو یاد رکھنا ہو گا کہ بھتہ خوری ردعمل ہے ان کے عمل کا جو وہ سال بھر میں تین مختلف مواقع پر کرتے ہیں۔
نیوٹن کا فارمولا ہے کہ ردعمل مخالف سمت میں ہوتا ہے اور اسی رفتار سے ہوتا ہے۔ حکومت چاہے غافل پولیس کو بلائے یا ہوشیار فوج کو، کرفیو لگائے یا کیمرے، چاہے بحر ظلمات میں گھوڑے ہی کیوں نہ دوڑائے، بھتہ خوری بند نہیں ہو گی۔ یہ متبادل معیشت بن چکی ہے۔ ہزاروں لوگ اس سے وابستہ ہیں اور لاکھوں گھرانے اس کی بدولت تاجروں کی سی خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ وقتی طور پر چھپ جانے والے پھر نکل آئیں گے۔ برق گرتا نوجوان جسے کوئی دس ہزار کی نوکری نہ دے جب اس کے کاشانے پر ''رحمتیں'' برس رہی ہوں تو کوئی اس سے بھتے کا چکر کیسے چھڑائے گا؟ جب تک معمور خزانے والے تاجر تین کام نہیں کریں گے نہ انھیں سکون ملے گا نہ حور و قصور، کتنی ہی نیک نیت اور مضبوط حکومتوں کی تاجروں پر الطاف و عنایات ہوں۔ یہ کسی کی حوصلہ افزائی نہیں بلکہ حقیقت پسندی ہے۔
بھارتی فلم میں دکھایا گیا کہ بھتہ خور دکانوں پر آ کر پیسے لے جاتے ہیں، ایک دکاندار کا بھائی فوج میں میجر ہوتا ہے، وہ چھٹیوں پر گھر آیا ہوتا ہے تو بھائی کی غیر موجودگی میں دکان پر بیٹھا ہوتا ہے۔ بھتہ خور آتے ہیں تو وہ کمانڈو رقم دینے کے بجائے ان سے لڑتا ہے۔ غنڈے اس کی خوب پٹائی کرتے ہیں، فوجی اپنے دوسرے ساتھیوں کو بلا کر بھتہ خوروں سے لڑنے کے لیے ایک گروہ بنا لیتا ہے۔ وہ تاجروں سے کہتا ہے کہ ان کو بھتہ نہ دو۔ آپ جانتے ہیں کہ اس لڑائی میں دکانداروں نے کس کا ساتھ دیا؟ وہ بھتہ دینے پر تیار تھے اور لڑنے والوں کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ تم تو کل فوج میں واپس چلے جائو گے، ہمیں ان غنڈوں کے ساتھ ان ہی علاقوں میں رہنا ہے۔ یہ ہوتی ہے مقامی بھتہ خوروں کی گرفت۔
تاجروں پر بھتہ خوروں نے خوف طاری کر دیا ہے۔ نہ حوصلہ ہے نہ دل۔ نہ جان محفوظ ہے نہ مال نہ عزت و آبرو۔ کاروباری حضرات کو لطف مرنے میں ہے باقی اور نہ مزا جینے میں۔ ان کے لیے کہیں آزادی سے آنا جانا، گھومنا پھرنا حتیٰ کہ بازاروں میں جانا یا واک کے لیے پارک تک جانا مشکل ہو گیا ہے۔ گھر اجڑ رہے ہیں اور رونق محفل رہی نہیں۔ تاجروں پر یہ خوف کیوں طاری کر دیا گیا ہے؟ اگر یہ سزا ہے تو کس گناہ کی؟ اگر یہ ردعمل ہے تو کس عمل کا۔ وہ کون سے تین کام ہیں جو تاجروں نے نہیں کیے؟ کسی نے وزیر اعظم کے سامنے یہ بات نہیں رکھی کہ اگر تاجروں کا عشق آزاد ہو گا تو دوسروں کا حسن آزاد کیوں نہ ہو گا؟ کوئی کیوں نہیں کہتا کہ یہ تاجروں کا اپنا کیا دھرا ہے؟ یہ خاموشی کیوں؟ صرف شکوہ کیوں؟ جواب شکوہ کیوں نہ ہو؟ اگر گورنر ہائوس، ٹی وی اسکرین اور اخبارات کے صفحات پر صرف شکوہ ہی ہے تو ارباب وفا کو جواب شکوہ بھی سننا پڑے گا کہ اس سے ''تاجران مرحوم'' کی مشکلیں آسان ہوں گی۔
پاکستان کے تاجروں کی ٹیکس کی ادائیگی کا تناسب دنیا بھر میں سب سے کم ہے۔ پھر اس میں سے بڑا حصہ افسران ہضم کر جاتے ہیں اور رہا سہا سیاست دان۔ عوام تک پہاڑ کی صورت میں پہنچنے والی رقم رائی کے دانے کے برابر ہو جاتی ہے۔ ٹیکس نہ دینے اور نشۂ دولت میں غافل امراء کو شکوہ زیب نہیں دیتا۔ یہ پہلی بات ہے۔ زکوٰۃ کی صحیح معنوں میں ادائیگی ہو جائے تو پاکستان میں کوئی بھوکا نہ سوئے۔ مختلف حیلے بہانوں سے اس مذہبی فرض میں ڈنڈی ماری جاتی ہے۔ یہ دوسرا مجرمانہ فعل ہے جو اخوت سے گریزاں تاجر برادری کرتی ہے۔ تیسرا کام مصنوعی مہنگائی کرنا ہے۔ رمضان، عید اور بقر عید کے دنوں میں ہمارے تاجر جنس کو نایاب کرتے ہیں تا کہ ارزان نہ کرنی پڑے۔ وہ انھیں کمائی کے مہینے بنا لیتے ہیں جتنا دس گیارہ مہینے میں منفعت کرتے ہیں اتنی چالیس پچاس دنوں میں کر لیتے ہیں۔ دنیا بھر میں سراپا کردار تاجر چیزیں سستی کر دیتے ہیں۔ ایسے تاجر اوج ثریا پر مقیم ہوتے ہیں، اپنے قلب سلیم کے ساتھ یہ سب وہ اس لیے کرتے ہیں کہ محروم طبقات بھی خوشیاں منا سکیں۔
پاکستانی تاجر غریبوں کے نشیمن پر بجلیاں گراتے ہیں اور رمضان و عید کو ان کے لیے بھاری کر دیتے ہیں، اس پر گھٹیا شوبازی اور دولت کی مجرمانہ نمائش، کوئی کہے کہ کیا ایسا ہوتا ہے انداز تجارت، جہاں ایسا عمل ہو گا وہاں ویسا ہی ردعمل ہو گا۔ خوف و بھوک کا ذکر کئی مرتبہ قرآن میں ہے۔ تاجروں نے غریب عوام کے لیے بھوک تخلیق کی ہے اور وہ بھی ایک زرعی ملک میں۔ اگر 99 فیصد محروم لوگ صبر و شکر سے گزارہ کریں اور ایک فیصد بغاوت پر اتر آئیں تو؟ بھوک تخلیق کرنے والوں کے لیے خوف تخلیق ہو چکا ہے۔ اگر چند فیصد لوگ بھی کہیں کہ ہم مانگیں گے نہیں، چھینیں گے تو معاشرے بحران کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جہاں ظلم ہو وہاں امن نہیں ہوتا۔ یہ پیش گوئی چھ ماہ قبل ''عزم نو'' میں کر دی گئی تھی۔ اگلے سال بھر میں زمیندار اور وڈیرے بھی لٹیں گے، یہ وبا شہروں سے دیہاتوں تک پہنچے گی۔ آج تاجروں کا شکوہ ہے تو کل کسی گورنر ہائوس میں پگڑی باندھے جاگیردار ایسے شکوے کر رہے ہوں گے۔ شکوہ کرنے سے پہلے وجوہات دور کریں۔ آج صنعت کار تو کل زمیندار شکوہ کرے گا، اگر نہ سمجھا گیا آج کے اس جواب شکوہ کو۔