شکرگذار ہونا چاہیے

آج ایسے لوگ موجود ہیں جو ظالمانہ نظام کے خلاف جب چاہیں سینہ سپر ہوسکتے ہیں۔

mnoorani08@gmail.com

مورخہ 20 جون 2019ء کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے مشہور و معروف العزیزیہ ریفرنس میں میاں صاحب کو طبی بنیادوں پر سزا معطلی کی درخواست مسترد کر دی۔اِس سے پہلے بھی اِسی عدالت نے تمام میڈیکل رپورٹس کو دیکھتے ہوئے اُنہیں ایسا کوئی ریلیف دینے سے انکار کیا تھا لیکن نجانے میاں صاحب بار بار بیرون ملک علاج کی درخواست لے کر عدالت کیوں پہنچ جاتے ہیں جب کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ فی الحال نہ حالات اُن کے لیے اتنے سازگار ہیں اور نہ اُن کی صحت اتنی تشویشناک ہے کہ عدالت اُنہیں اپنے طور پرکوئی ریلیف دیدے ۔

وہ ایسا کرکے خود اپنے لیے بھی سبکی کا سامان پیدا کرتے ہیں اور اپنے چاہنے والوں کے لیے بھی۔سپریم کورٹ اپنے ایک فیصلے کے تحت میاں صاحب کو پہلے ہی 6 ہفتوں کے لیے ضمانت پر عارضی ریلیف دے چکی ہے جسکے دوران میاں صاحب کسی اسپتال میں اپنا علاج کروانے کی بجائے صرف اپنے ٹیسٹ ہی کرواتے رہے۔ پورے چھ ہفتے اِس تشخیصی عمل میں گذر گئے اورکسی لمحہ اسپتال میں داخل ہونے کی حاجت اور ضرورت محسوس نہیں ہوئی لہٰذا اب ایک بار پھر علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی درخواست ویسے ہی بے معنی ہوکر رہ گئی تھی۔ ایسی صورتحال میں دیکھا جائے تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جو فیصلہ سنایا ہے، وہ خلاف توقع ہرگزنہ تھا۔

میاں صاحب آج قیدوبند کی جن صعوبتوں سے گذر رہے ہیں وہ اُن کے لیے کوئی نئی نہیں ہیں۔ وہ اِس سے پہلے بھی 1999ء میں ایسی ہی بلکہ اِس سے بھی سخت سزاؤں کو بھگت چکے ہیں۔ اُنہیں تو شکرگذار ہونا چاہیے کہ اِس وقت ملک میں کوئی غیر جمہوری حکومت نہیں ہے۔ باقاعدہ جمہوری انتخابات کی نتیجے میں ایک ایسی سویلین حکومت برسر اقتدار ہے جس نے ملکی قوانین اور آئین ودستورکی پاسداری کا حلف اُٹھایا ہوا ہے۔ وہ مروجہ قوانین اور دستور سے ماورا کوئی اقدام کر ہی نہیں سکتی۔ ہماری عدالتیں اپنے دائرہ اختیارکے اندر ر ہتے ہوئے آزادانہ اور خود مختارانہ فیصلے کرنے کی کلی طور پر مجاز ہیں ۔

میاں صاحب آج گرچہ اپنے کچھ کردہ اور ناکردہ گناہوں کے سبب عدلیہ کی تاریخ کے ایک فیصلے کے تحت دس سالوں کے لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیے گئے ہیں لیکن اِسکے باوجود اُن کے شعور اور لاشعور میں ایک آس و اُمید ہر وقت لگی رہتی ہے کہ اُنہیں اگر کچھ ریلیف ملا تووہ بھی اِنہی عدالتوں سے ملے گا۔ 1999ء میں تو میاں صاحب کو ایوان وزیراعظم سے اُٹھاکے سیدھا کسی ایسے نامعلوم مقام پر بھیج دیا گیا تھا جہاں سے کسی دوست احباب کو توکیا اُنکے اپنے گھر والوں کو بھی کوئی شدھ بدھ اورخبر نہ تھی۔

وہ اٹک کے کسی سنسان قلعہ میں کئی ہفتوں کے لیے ڈال د یے گئے جہاں پرندوں کی آواز بھی سنائی نہیں دیتی تھی، خدا کا شکر ہے آج ویسی صورتحال نہیں ہے۔ وہ اپنی مرضی و منشاء سے کوٹ لکھپت جیل میں ایئرکنڈیشن کمرے میں بند ہیں جہاں اُنکے گھر والے ہر ہفتے اُنکی خیریت دریافت کرنے آجاسکتے ہیں۔

ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ اُس وقت کے مطلق العنان حکمراں پرویز مشرف سے ایک پریس کانفرنس میں کسی نڈر اور بیباک صحافی نے یہ پوچھنے کی جسارت کردی کہ سابق وزیراعظم اِن دنوں کہاں قید ہیں تو جواباً بڑی رعونت اور تکبر سے ارشاد فرمایا کہ ''جہاں بھی قید ہیں ہمیں آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے '' کوٹ لکھپت میں قید ہونا، دور آمریت میں اٹک کے قلعہ میں قید ہو جانے سے کئی درجہ بہتر ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قید تو آپ نے خود اپنی مرضی سے قبول فرمائی ہے۔ جب اعلیٰ عدالت کا فیصلہ آیا تو آپ اپنی زوجہ محترمہ کی بیماری کی غرض سے لندن میں قیام پذیر تھے۔


آپ چاہتے تو بہانہ بناکر واپس آنے سے انکار بھی کرسکتے تھے لیکن آپ نے کچھ سوچ کر ہی واپس آنے کا فیصلہ کیا ہوگا۔ الیکشن سے صرف چند دن پہلے وطن واپسی کا فیصلہ کر کے جہاں آپ نے اپنے نڈر اور دلیر ہونے کا ثبوت دیا ہے تو دوسری جانب اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا سامنا عدالتوں میں کرکے ملکی عدلیہ پر اپنے اعتماد کا اظہار بھی کیا ہے حالانکہ آپ کو معلوم تھا کہ جن قوتوں نے نااہل قرار دلوا کر وزارت عظمیٰ سے معزول کیا ہے وہ آپکو آپکی سرکشی اور بغاوت کا پورا پورا مزہ بھی چکھانا چاہتی ہیں لیکن آپ پھر بھی واپس آئے اور بخوشی قید وبند کی مصیبتوں کو گلے لگایا۔

میاں صاحب کو شکرگذار ہونا چاہیے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قید ہیں قطع نظر اِس کے کہ آپ پر لگائے گئے الزامات کتنے سچے اوردرست تھے ورنہ تیسری دنیا کے کئی ملکوں میں آپکی طرح اپنے ضمیروں کے کئی قیدی آج بھی زندگی و موت کی کشمکش سے دوچار ہیں جن کی کوئی خبر کسی اخبار یا الیکٹرانک چینل پر لائی بھی نہیں جاتی۔ مصر کے سابق صدر محمد مرسی بھی ایسے ہی قیدیوں میں سے ایک قیدی تھے۔ وہ چھ سال سے اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا خاموشی سے برداشت کر رہے تھے۔

اُن کی اکا دکا خبرکبھی کبھار اخبارات کی زینت بن جایا کرتی تھی لیکن انسانی حقوق کی کوئی تنظیم اُن کے لیے آواز اُٹھانے کو تیار نہ تھی۔ اُن کا جرم کیا تھا، وہ بھی عوام کی تائیدوحمایت سے برسر اقتدار آئے تھے اور اُسی زعم میں اپنے ملک کو اُن قوتوں سے آزاد کروانا چاہتے تھے۔ وہ اُس نظام کو بدلنا چاہتے تھے جس نے ایک عرصہ سے اُنکے ملک کو جکڑ رکھا ہے۔ وہ بھی شاید ووٹ کو عزت دلوانا چاہتے تھے لیکن شاید غلطی کر گئے اُنہیں شاید معلوم نہ تھا کہ اُنکے عوام ابھی اِس کام کے لیے ابھی تیار نہ تھے۔ وہ غلامی کے دور سے ابھی نکلنا نہیں چاہتے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ 51 فیصد ووٹوں سے جیت جانے کے باوجود کوئی شخص اُنکی مدد کو نہیں آیا ۔ صرف ایک سال میں وہ تخت سے معزول بھی ہوئے اور سزائے موت کے حقدار بھی قرار دیدیے گئے۔ وہ جب اپنے ملک کی ایسی ہی کسی عدالت کے روبرو زندگی و موت کی کشمکش سے گذر رہے تھے اور اپنے بیگناہ ہونے کی صفائیاں پیش کر رہے تھے تو خدا کو اُن پر ترس آگیا اور اُنہیں عدالتوں سے انصاف کی بھیک مانگنے کی بجائے اپنی عدالت میں بلا لیا لیکن اِن سارے دلخراش واقعات پر حیران کن طور پر اُنکے اپنے ملک میں کوئی معمولی سا احتجاج بھی نہیں ہوا ۔

اُن کی موت پرکسی نے آنسو نہیں بہائے ۔کسی نے سوگ نہیں منایا ۔ ایسی بے بسی اور لاچارگی کی موت شاید ہی کسی کی ہو ۔ میاں صاحب اِس لحاظ سے بڑے خوش قسمت ہیں کہ یہاں اُنہیں اُن حالات کا سامنا نہیں ہے جن حالات کاسامنا محمد مرسی کو تھا ۔ یہاں آج بھی عدل و انصاف کا کوئی مؤثر نظام رائج ہے ۔ یہاں میڈیا پر وہ قدغنیں نہیں لگی ہوئی ہیں جیسے محمد مرسی کے دیس میں لگی ہوئی ہیں ۔ یہاں عوام کی ایک بہت بڑی تعداد آپ کو اپنا لیڈر اور رہنما مانتی ہے اورآپ کے لیے آج بھی سڑکوں پر نکلنے کو تیار بیٹھی ہیں ۔ میاں صاحب کے لیے چاہنے والوں اور جاں نثاروں کی کوئی کمی نہیں۔

آج ایسے لوگ موجود ہیں جو ظالمانہ نظام کے خلاف جب چاہیں سینہ سپر ہوسکتے ہیں۔ وہ ڈٹ جاتے ہیں اور ضمیر کا سودا نہیں کرتے۔ مارشل لا دور میں کئی ہمارے کئی منصفوں نے اپنے منصب اور اختیارات کے چھن جانے کی پرواہ نہ کی لیکن حق بات کہنے سے باز نہ آئے۔ میاں صاحب کوکوئی این آر او دے یا نہ دے لیکن اُن کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ اپنا کیس اور مقدمہ عدالتوں کے روبرو لڑکر ہی سرخرو اور کامیاب ہوں ۔ اس کے علاوہ ریلیف کے تمام آپشنزمبہم ، مشکوک اور ناپائیدار ہی رہیں گے۔ اُنہیں اگر عوام کی نظروں میں سرخرو اور سر بلند ہونا ہے تو عدالتوں میں صحت کے ایشو کو بنیاد بنا کر رہائی سے بہتر ہے کہ مقدمہ کے قانونی تقاضوں کو پورا کر کے عدالتوں سے انصاف حاصل کیا جائے۔
Load Next Story