پاک افغان تعلقات میں نئے امکانات
پاکستان اورافغانستان کے حالیہ مذاکراتی عمل میں افغان صدر کا دورہ پاکستان اہمیت کا حامل ہے
افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کا دورہ پاکستان خصوصی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس کی ٹائمنگ بھی اہم ۔کیونکہ اس وقت پوری دنیا کی نظریں افغان حکومت، افغان طالبان اورامریکا کے درمیان جاری مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے پر ہے ۔ پاکستان کا کردار امریکا ، افغان حکومت اورطالبان کے درمیان ثالثی کا ہے اور پاکستان کے فعال کردار کے بغیر افغان مسئلہ کا حل کی تلاش ممکن نہیں۔ ماضی میں بڑی طاقتوں نے پاکستان کو نظر انداز کرکے افغانستان کا حل تلاش کرنے کی جو کوشش کی تھی وہ ناکام ہوئی اوراس کے بعد امریکا سمیت دیگر طاقتوں کو بھی اس بات کا اندازہ ہے کہ پاکستان کی حمایت اور عملی تعاون کے بغیر کچھ ممکن نہیں ہوگا۔
امریکی نمایندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد افغان مسئلہ کے حل میں بہت سرگرم ہیں۔ افغانستان ، قطر ، پاکستان سمیت دیگر ممالک میں وہ بلواسطہ یا بلاواسطہ اسی مشن پر کام کررہے ہیں ۔ زلمے خلیل زاد کا بہت زیادہ انحصار پاکستان پر ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا افغان طالبان پر بہت زیادہ اثر ہے اور وہ طالبان کو ہر شرائط پر راضی کرسکتے ہیں۔جب کہ پاکستان کا موقف ہے کہ ہم نے سب فریقین کو ایک میز پر بٹھادیا ہے، ہمیں افغان طالبان کی حیثیت کو قبول کرنا ہوگا کیونکہ افغان طالبان کووہ تمام شرائط قبول نہیں جو افغان حکومت ان پر مسلط کرنا چاہتی ہے ۔
امریکی نمایندہ زلمے خلیل کے بقول افغانستان کا جو بھی حل نکلے گا، وہ محض امریکا ، افغان حکومت اورطالبان تک محدود نہیں ہوگا بلکہ اس مسئلہ کے حل میں ایک اور معاہدہ کابل اور اسلام آباد کے درمیان ہوگا جس کا مقصدپاکستان میں افغانستان کا تعمیری کردار ہوگا ۔کیونکہ پاکستان کی موثر اور فعال کردار کے بغیر افغان امن ممکن نہیں ہوگا۔لیکن زلمے خلیل زاد کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ جس طرح افغانستان کا حل براہ راست عملا پاکستان کی داخلی سلامتی سے جڑا ہوا ہے ، اسی طرح پاک بھارت تعلقات میں بہتری اور اعتماد سازی کے بغیر بھی پاک افغان حل کا کوئی بڑا مثبت نتیجہ نہیں نکل سکے گا۔کیونکہ افغان اوربھارت انٹیلی جنس ایجنسی سمیت بھارت اورافغانستان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کسی بھی طور پر پاک افغان مسئلہ کے حل کے حامی نہیں۔ اس مسئلہ کے حل میں ایک بڑا چیلنج افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان بداعتمادی کی فضا ہے ۔ طالبان سمجھتے ہیں کہ افغان حکومت پر انحصار کرنے کے بجائے براہ راست معاملات امریکا سے کریں۔ کیونکہ طالبان کے بقول افغان حکومت کی کوئی حیثیت نہیں اوراصل حیثیت امریکا کی ہی ہے ۔اہم بات یہ ہے کہ افغان طالبان بھی مسئلہ کا حل چاہتے ہیں ۔
امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا اگلہ مرحلہ دوحہ میں شروع ہوچکا ہے اورامریکا سمیت فریقین کو یقین ہے کہ مسئلہ کا حل نکلے گا۔ مگر یہ بات امریکا بھی سمجھتا ہے کہ مذاکرات کا نتیجہ خیز ہونا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اورجو بھی فارمولہ طے ہوگا اس پر عملدرآمد کا ہونا بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ امریکا نتیجہ چاہتا ہے لیکن اصل مسئلہ بداعتمادی ہے اورفریقین آسانی سے ایک دوسرے پر اعتبار کے لیے تیار نہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ بعض سیاسی پنڈتوں کے بقول افغان حل اتنا سادہ نہیںجتنا بہت سے لوگ سوچ رہے ہیں ۔بداعتمادی کو اعتماد سازی میں بدلنے کے لیے ابھی بہت سے موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔
پچھلے دنوں سینٹر فار پیس اینڈ ریسرچ لاہور کے تعاون سے مری بھوربن میں پاک افغان تعلقات میں بہتری کے تناظر میں ایک بڑی میز کو سجایا گیا ۔ اس تقریب کے اصل روح رواں سابق سیکریٹری خارجہ اور معروف بین الااقوامی امور کے ماہر دانشور شمشاد احمد خان تھے جو ملک کے سیاسی، علمی اورفکری حلقوںمیں ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کانفرنس میں افغانستان کی 18ممتاز شخصیات سمیت 57مندوبین شامل تھے۔ افغانستان سے جو لوگ آئے ان میں گلبدین حکمت یار، کریم خلیلی، عطا نور محمد ،فوزیہ کوفی ، محمد محقق، محمد یونس قانونی ، اسماعیل خان اورحنیف اتمار نمایاں تھے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کانفرنس میں شریک بیشتر شرکا پاک افغان تعلقات کی بہتری میں پاکستان کے کردار پر تحفظات رکھتے تھے اوران میں سے بیشتر کا تعلق غیر پشتون سے تھا ۔لیکن گلبدین حکمت یار سمیت بہت سے لوگوں نے اس کانفرنس میں یہ اعتراف کیا کہ افغانستان میں جاری کشیدگی کے خاتمہ کے لیے پاکستان کا کردار اہم ہے اور وہ بہت آگے جاکر معاملات کو درست کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔گلبدین حکمت یار نے کہا کہ نہ صرف ہم بلکہ امریکا بھی پاکستان کے کردار کی نہ صرف تعریف کررہا ہے بلکہ اس کا حد سے زیادہ انحصار بھی پاکستان پر ہی ہے ۔
سابق سیکریٹری خارجہ اورکانفرنس کے روح رواں شمشاد احمد خان کے بقول ان کی کوشش تھی کہ وہ کسی نہ کسی طرح پاکستان اورافغانستان کے درمیان امن کے ایجنڈے کو آگے بڑھائیں ۔ اگرچہ یہ کام دونوں حکومتوں نے کرنا ہے لیکن ہماری کوشش ہے کہ ہم پاک افغان تناظر میں خطہ سمیت ملک میں ایک ایسے کلچر کو فروغ دیں جو تمام فریقین کے درمیان مکالمہ کے کلچر کو فروغ دیں۔کیونکہ ابھی بھی دونوں اطراف میں ایک دوسرے کے بارے میں بہت زیادہ بداعتمادی پائی جاتی ہے اوراس مسئلہ کا حل مذاکرات اورمکالمہ سے ہی جڑا ہوا ہے۔ شمشاد احمدکے بقول اس حالیہ کانفرنس میں پاکستان اور افغانستان کے لوگوں نے جو واضح اورشفاف پیغام دیا ہے وہ دونوں ممالک میں تعلقات کی بہتری سے جڑا ہوا ہے۔یہ کام ریاستی اور حکومتی سمیت سول سوسائٹی یا تھنک ٹینک کی سطح پر بھی بھی ہونا چاہیے اورخاص طور پر میڈیا کا اہم کردار ہے کہ وہ معاملات کے حل میں اپنا موثر اورمثبت کردار پیش کرے ۔
بنیادی طور پر پاک افغان مسئلہ کا حل دو باتوں سے جڑا ہوا ہے۔ اول ریاستی و حکومتی سطح پر دو طرفہ بات چیت اورمذاکرات سمیت عملی طورپر ایسے اقدامات کو فروغ دینا جو مثبت ہوں۔ دوئم سول سوسائٹی ، میڈیا ، پارلیمنٹرینز اورسیاسی جماعتوں سمیت مختلف تھنک ٹینک اور دانشوروں کی سطح پر دو طرفہ بات چیت اور باہمی رابطوں کا فروغ درکار ہے ۔ کیونکہ بدقسمتی سے بھارت کا عمومی رویہ اورخاص طورپر اس کے میڈیا کا جارحانہ اور سخت گیر مزاج تعلقا ت میں اعتماد سازی کی بحالی میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ دونوں ممالک براہ راست دہشتگردی کا شکار ہیں اور ان کے درمیان مشترکہ انسداد دہشتگردی میکنزم کی تشکیل اورتعاون کے بغیر کچھ ممکن نہیں ہوگا۔ الزامات دونوں اطراف سے موجود ہیں اور اس کا حل سیاسی الزام تراشی یا ایک دوسرے کے لیے دروازے بند کرنا نہیں بلکہ مذاکرات اور راستے کھولنے سے جڑا ہوا ہے اور یہ ہی حکمت عملی ہمیںدرکار ہے ۔
پاکستان اورافغانستان کے حالیہ مذاکراتی عمل میں افغان صدر کا دورہ پاکستان اہمیت کا حامل ہے ۔ دونوں اطراف کی سیاسی اورعسکری سطح پر موجود قیاد ت کو سمجھنا ہوگا کہ مسئلہ کا حل مذاکرات سے جڑا ہے اورافغان طالبان سمیت افغان حکومت کے درمیان معاملات کا طے ہونا ہی افغان امن لیے کنجی کی حیثیت رکھتا ہے ۔افغان صدر کو یہ کہہ کر کہ پاکستان کی پالیسی افغان مداخلت سے جڑی ہے درست حکمت عملی نہیں۔کیونکہ مسئلہ افغانستان کا ہی نہیں خود پاکستان کی داخلی سلامتی کا ہے جو افغان حل سے جڑا ہوا ہے۔ اس لیے پاکستان اس مسئلہ کا پرامن حل چاہتا ہے اورافغان فریقین اس مسئلہ میں پاکستان کے ساتھ مل کر خطہ کی سیاست میں ایک بڑا مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں ۔
امریکی نمایندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد افغان مسئلہ کے حل میں بہت سرگرم ہیں۔ افغانستان ، قطر ، پاکستان سمیت دیگر ممالک میں وہ بلواسطہ یا بلاواسطہ اسی مشن پر کام کررہے ہیں ۔ زلمے خلیل زاد کا بہت زیادہ انحصار پاکستان پر ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا افغان طالبان پر بہت زیادہ اثر ہے اور وہ طالبان کو ہر شرائط پر راضی کرسکتے ہیں۔جب کہ پاکستان کا موقف ہے کہ ہم نے سب فریقین کو ایک میز پر بٹھادیا ہے، ہمیں افغان طالبان کی حیثیت کو قبول کرنا ہوگا کیونکہ افغان طالبان کووہ تمام شرائط قبول نہیں جو افغان حکومت ان پر مسلط کرنا چاہتی ہے ۔
امریکی نمایندہ زلمے خلیل کے بقول افغانستان کا جو بھی حل نکلے گا، وہ محض امریکا ، افغان حکومت اورطالبان تک محدود نہیں ہوگا بلکہ اس مسئلہ کے حل میں ایک اور معاہدہ کابل اور اسلام آباد کے درمیان ہوگا جس کا مقصدپاکستان میں افغانستان کا تعمیری کردار ہوگا ۔کیونکہ پاکستان کی موثر اور فعال کردار کے بغیر افغان امن ممکن نہیں ہوگا۔لیکن زلمے خلیل زاد کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ جس طرح افغانستان کا حل براہ راست عملا پاکستان کی داخلی سلامتی سے جڑا ہوا ہے ، اسی طرح پاک بھارت تعلقات میں بہتری اور اعتماد سازی کے بغیر بھی پاک افغان حل کا کوئی بڑا مثبت نتیجہ نہیں نکل سکے گا۔کیونکہ افغان اوربھارت انٹیلی جنس ایجنسی سمیت بھارت اورافغانستان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کسی بھی طور پر پاک افغان مسئلہ کے حل کے حامی نہیں۔ اس مسئلہ کے حل میں ایک بڑا چیلنج افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان بداعتمادی کی فضا ہے ۔ طالبان سمجھتے ہیں کہ افغان حکومت پر انحصار کرنے کے بجائے براہ راست معاملات امریکا سے کریں۔ کیونکہ طالبان کے بقول افغان حکومت کی کوئی حیثیت نہیں اوراصل حیثیت امریکا کی ہی ہے ۔اہم بات یہ ہے کہ افغان طالبان بھی مسئلہ کا حل چاہتے ہیں ۔
امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا اگلہ مرحلہ دوحہ میں شروع ہوچکا ہے اورامریکا سمیت فریقین کو یقین ہے کہ مسئلہ کا حل نکلے گا۔ مگر یہ بات امریکا بھی سمجھتا ہے کہ مذاکرات کا نتیجہ خیز ہونا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اورجو بھی فارمولہ طے ہوگا اس پر عملدرآمد کا ہونا بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ امریکا نتیجہ چاہتا ہے لیکن اصل مسئلہ بداعتمادی ہے اورفریقین آسانی سے ایک دوسرے پر اعتبار کے لیے تیار نہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ بعض سیاسی پنڈتوں کے بقول افغان حل اتنا سادہ نہیںجتنا بہت سے لوگ سوچ رہے ہیں ۔بداعتمادی کو اعتماد سازی میں بدلنے کے لیے ابھی بہت سے موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔
پچھلے دنوں سینٹر فار پیس اینڈ ریسرچ لاہور کے تعاون سے مری بھوربن میں پاک افغان تعلقات میں بہتری کے تناظر میں ایک بڑی میز کو سجایا گیا ۔ اس تقریب کے اصل روح رواں سابق سیکریٹری خارجہ اور معروف بین الااقوامی امور کے ماہر دانشور شمشاد احمد خان تھے جو ملک کے سیاسی، علمی اورفکری حلقوںمیں ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کانفرنس میں افغانستان کی 18ممتاز شخصیات سمیت 57مندوبین شامل تھے۔ افغانستان سے جو لوگ آئے ان میں گلبدین حکمت یار، کریم خلیلی، عطا نور محمد ،فوزیہ کوفی ، محمد محقق، محمد یونس قانونی ، اسماعیل خان اورحنیف اتمار نمایاں تھے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کانفرنس میں شریک بیشتر شرکا پاک افغان تعلقات کی بہتری میں پاکستان کے کردار پر تحفظات رکھتے تھے اوران میں سے بیشتر کا تعلق غیر پشتون سے تھا ۔لیکن گلبدین حکمت یار سمیت بہت سے لوگوں نے اس کانفرنس میں یہ اعتراف کیا کہ افغانستان میں جاری کشیدگی کے خاتمہ کے لیے پاکستان کا کردار اہم ہے اور وہ بہت آگے جاکر معاملات کو درست کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔گلبدین حکمت یار نے کہا کہ نہ صرف ہم بلکہ امریکا بھی پاکستان کے کردار کی نہ صرف تعریف کررہا ہے بلکہ اس کا حد سے زیادہ انحصار بھی پاکستان پر ہی ہے ۔
سابق سیکریٹری خارجہ اورکانفرنس کے روح رواں شمشاد احمد خان کے بقول ان کی کوشش تھی کہ وہ کسی نہ کسی طرح پاکستان اورافغانستان کے درمیان امن کے ایجنڈے کو آگے بڑھائیں ۔ اگرچہ یہ کام دونوں حکومتوں نے کرنا ہے لیکن ہماری کوشش ہے کہ ہم پاک افغان تناظر میں خطہ سمیت ملک میں ایک ایسے کلچر کو فروغ دیں جو تمام فریقین کے درمیان مکالمہ کے کلچر کو فروغ دیں۔کیونکہ ابھی بھی دونوں اطراف میں ایک دوسرے کے بارے میں بہت زیادہ بداعتمادی پائی جاتی ہے اوراس مسئلہ کا حل مذاکرات اورمکالمہ سے ہی جڑا ہوا ہے۔ شمشاد احمدکے بقول اس حالیہ کانفرنس میں پاکستان اور افغانستان کے لوگوں نے جو واضح اورشفاف پیغام دیا ہے وہ دونوں ممالک میں تعلقات کی بہتری سے جڑا ہوا ہے۔یہ کام ریاستی اور حکومتی سمیت سول سوسائٹی یا تھنک ٹینک کی سطح پر بھی بھی ہونا چاہیے اورخاص طور پر میڈیا کا اہم کردار ہے کہ وہ معاملات کے حل میں اپنا موثر اورمثبت کردار پیش کرے ۔
بنیادی طور پر پاک افغان مسئلہ کا حل دو باتوں سے جڑا ہوا ہے۔ اول ریاستی و حکومتی سطح پر دو طرفہ بات چیت اورمذاکرات سمیت عملی طورپر ایسے اقدامات کو فروغ دینا جو مثبت ہوں۔ دوئم سول سوسائٹی ، میڈیا ، پارلیمنٹرینز اورسیاسی جماعتوں سمیت مختلف تھنک ٹینک اور دانشوروں کی سطح پر دو طرفہ بات چیت اور باہمی رابطوں کا فروغ درکار ہے ۔ کیونکہ بدقسمتی سے بھارت کا عمومی رویہ اورخاص طورپر اس کے میڈیا کا جارحانہ اور سخت گیر مزاج تعلقا ت میں اعتماد سازی کی بحالی میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ دونوں ممالک براہ راست دہشتگردی کا شکار ہیں اور ان کے درمیان مشترکہ انسداد دہشتگردی میکنزم کی تشکیل اورتعاون کے بغیر کچھ ممکن نہیں ہوگا۔ الزامات دونوں اطراف سے موجود ہیں اور اس کا حل سیاسی الزام تراشی یا ایک دوسرے کے لیے دروازے بند کرنا نہیں بلکہ مذاکرات اور راستے کھولنے سے جڑا ہوا ہے اور یہ ہی حکمت عملی ہمیںدرکار ہے ۔
پاکستان اورافغانستان کے حالیہ مذاکراتی عمل میں افغان صدر کا دورہ پاکستان اہمیت کا حامل ہے ۔ دونوں اطراف کی سیاسی اورعسکری سطح پر موجود قیاد ت کو سمجھنا ہوگا کہ مسئلہ کا حل مذاکرات سے جڑا ہے اورافغان طالبان سمیت افغان حکومت کے درمیان معاملات کا طے ہونا ہی افغان امن لیے کنجی کی حیثیت رکھتا ہے ۔افغان صدر کو یہ کہہ کر کہ پاکستان کی پالیسی افغان مداخلت سے جڑی ہے درست حکمت عملی نہیں۔کیونکہ مسئلہ افغانستان کا ہی نہیں خود پاکستان کی داخلی سلامتی کا ہے جو افغان حل سے جڑا ہوا ہے۔ اس لیے پاکستان اس مسئلہ کا پرامن حل چاہتا ہے اورافغان فریقین اس مسئلہ میں پاکستان کے ساتھ مل کر خطہ کی سیاست میں ایک بڑا مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں ۔