سیلانی ٹرسٹ کو درپیش مشکلات
پاکستان میں حکومتیں خود ٹیکس لینا ہی نہیں چاہتیں کیونکہ ٹیکس دینے میں انتہائی مشکلات حائل کردی گئی ہیں
PESHAWAR:
اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک اسلامی ملک ضرور ہے مگر ریاست مدینہ کی طرح ایک فلاحی ریاست نہیں ہے۔ فلاحی ریاستیں غیر مسلم ملکوں میں تو ضرور ملیں گی مگر اسلام کا ایک اہم جز زکوٰۃ ادا کرنے مسلم ممالک میں بھی ایک بھی فلاحی ریاست نہیں ہے جب کہ غیر ممالک میں غیر مسلم حکومتوں نے بھی اپنے شہریوں بلکہ اپنے ملک میں رہنے والے لوگوں کو وہ سہولتیں دے رکھی ہیں جس کا مسلم ریاستوں میں تصور نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا جانے والا نظریاتی ملک ہے جسکی ہر حکومت کو شکایت رہی ہے کہ پاکستانی عوام ٹیکس نہیں دیتے جب کہ غیر مسلم ممالک کو ٹیکس نہ ملنے کی کوئی شکایت نہیں ہے اور عوام سے حاصل کیے گئے ٹیکسوں سے ہی وہ اپنے عوام کو وہ سہولتیں فراہم کرتے ہیں جس کا مسلم ملک پاکستان میں تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ٹیکس نہ ملنے کی شکایات بھی ملک میں غلط و بے بنیاد ہیں کیونکہ پاکستان میں ایک بھی شخص نہیں ہے جس سے ملک میں ٹیکس نہ لیا جاتا ہو۔ پاکستان میں ٹیکس وصول کرنیوالے تمام محکموں میں کرپشن کی بھر مار ہے اور وہاں کام کرنیوالے تمام سرکاری ملازمین کی شروع سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ حکومت پاکستان کو ٹیکس نہ ملے اور اگر ملے تو کم ملے اسی لیے ٹیکس دینے کے خواہش مندوں کو ٹیکس میں چوری کے خفیہ راستے بھی ٹیکس لینے والے کرپٹ افسر خود دکھاتے ہیں اور صلے میں اپنی جیبیں بھرتے ہیں اور ہر حکومت روتی رہتی ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے جو دیتے ہیں وہ پورا نہیں دیتے ۔اسی لیے حکومت کی آمدنی کم ہے اور ان کے پاس اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے رقم نہیں بچتی تو وہ عوام کو فلاحی سہولتیں کیسے دیں۔ غیر مسلم ممالک اپنے رہنے والوں کو تعلیمی، طبی، مواصلاتی اور بنیادی سہولتیں ہی نہیں بلکہ بیروزگاری الاؤنس تک دیتی ہیں اور وہاں کوئی علاج کے بغیر مرتا ہے نہ لوگ بے روزگاری کے باعث خودکشیاں کرتے ہیں۔
پاکستان میں خودکشیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ بے روزگاری، مہنگائی اور ظلم و ناانصافیوں کے خلاف کہیں شنوائی نہ ہونا ہے ، جس کی تازہ مثال فیصل آباد کے 32 سالہ نوجوان کی خودکشی ہے جس نے بجلی کا ایک لاکھ 24 ہزار روپے کا بل ملنے کے بعد ہر جگہ دہائی دی مگر کہیں شنوائی نہ ہوئی تو اس کے پاس خودکشی کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا اور ایسے واقعات اب مسلسل بڑھ رہے ہیں جس کے سو فیصد ذمے دار حکومت اور سرکاری ادارے ہیں۔
پاکستان میں حکومتیں خود ٹیکس لینا ہی نہیں چاہتیں کیونکہ ٹیکس دینے میں انتہائی مشکلات حائل کردی گئی ہیں اور ان مشکلات کے باعث ہی لوگ ٹیکس دے کر مزید پھنسنا نہیں چاہتے اور یہ مشکلات ہی ٹیکس افسروں کی کمائی کا ذریعہ ہیں۔ اگر سرکاری مشکلات آسان ہوجائیں تو ٹیکس افسروں کی آمدنی ختم اور حکومتی آمدنی بڑھ سکتی ہے۔
آمدنی نہ ہونے سے حکومت جو فلاحی کام نہیں کر رہی وہ ملک میں فلاحی ادارے کر رہے ہیں جن کے پاس رشوت کھانے والا عملہ ہے نہ ہراساں کرنے کا اختیار اور لوگ انھیں دل کھول کر عطیات دیتے ہیں اور فلاحی ادارے وہ کام کر رہے ہیں جو حکومت کے کرنے کے ہیں اور عوام ان فلاحی اداروں کو اتنے عطیات خوش دلی سے دیتے ہیں جتنا ٹیکس وہ حکومت کو مجبوری میں نہیں دیتے ہیں۔ حکومت کی بجائے عوام فلاحی اداروں پر اعتماد کرتے ہیں اور دل کھول کر عطیات دیتے ہیں کہ انھیں پتا ہے کہ فلاحی اداروں کو دیے گئے عطیات کا درست استعمال ہوگا اور کرپشن نہیں ہوگی اور مستحقین تک پہنچیں گے۔ملک میں یوں تو ہزاروں فلاحی ادارے کام کر رہے ہیں مگر چند ادارے عالمی سطح پر سماجی خدمات مختلف شعبوں میں سرانجام دے رہے ہیں جن میں ایک بڑا نام سیلانی انٹرنیشنل ٹرسٹ کا ہے جسکے بانی مولانا محمد بشیر فاروقی ہیں اور سیلانی ٹرسٹ پورے پاکستان کے بعد عالمی سطح پر بھی اپنی پہچان بنا چکا ہے جسکے ملک و بیرون ملک تین ہزار سے زائد ملازمین ڈیڑھ سو سے زائد برانچوں کے ذریعے خوراک، صحت، تعلیم اور دیگر تقریباً 63 سے زائد شعبہ جات میں روزانہ تقریباً سوا لاکھ افراد کی خدمت کر رہا ہے اور مشہور سماجی این جی اوز میں منفرد ادارہ بن چکا ہے۔
سیلانی ٹرسٹ سالانہ تقریباً چار ارب روپے اپنی مختلف خدمات پر خرچ کر رہا ہے اور ملک سے باہر کا کوئی عطیہ قبول نہیں کرتا اور اتنے بڑے یہ اخراجات ملک بھر میں موجود اپنے ان مخیر حضرات کے عطیات سے پورے کر رہے ہیں جو سیلانی پر اعتماد کرتے ہیں۔
سیلانی ٹرسٹ کے لیے خود کو وقف کردینے والے مولانا بشیر فاروقی ایک مذہبی شخصیت بھی ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا اب عوام کی بلا امتیاز خدمت ہے۔ اتنا بڑا فلاحی ادارہ چلانے والے بشیر فاروقی ایک سادہ مزاج شخصیت کے حامل ہیں جو ٹرسٹ کے ہیڈ آفس بہادر آباد کی مسجد میں امامت کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں اور روزانہ ظہر کی نماز کے بعد اپنے مختلف مسائل کے حل کے لیے مدد کے خواہش مندوں سے ملتے ہیں اور واضح طور پر کہتے ہیں کہ ٹرسٹ یا ٹرسٹ کے کسی بھی ملازم سے متعلق کوئی بھی شکایت ہو تو نشاندہی کریں تاکہ رفع کی جاسکے۔
سیلانی ٹرسٹ نے کراچی میں غریبوں کو مفت دو وقت کا کھانا کھلانے کے لیے سیلانی دستر خوان شروع کیا تھا جہاں روزانہ ساٹھ ہزار غریبوں کے لیے بہترین کھانے کا انتظام ہوتا ہے اور سیلانی کے بڑے کچن میں حفظان صحت کے معیاری اصولوں کے مطابق کھانا تیار کرکے شہر کے مختلف علاقوں میں خصوصاً گرین بیلٹ پر عارضی طور پر دریاں بچھا کر سیلانی رضا کار فٹ پاتھوں سے کھانے کا سامان سمیٹ لیتے تھے اور غریبوں کو دو وقت کا کھانا مفت مل جاتا تھا۔
عدالت عظمیٰ نے سڑکوں، فٹ پاتھوں اور گرین بیلٹس سے تجاوزات ہٹانے کا حکم سب کے لیے دیا تھا مگر کے ایم سی نے عمل صرف فلاحی اداروں پر کیا کیونکہ دوسرے بڑے اداروں کے آگے وہ بے بس تھی اور نزلہ سیلانی پر بھی گرا۔ اس ظلم پر مولانا فاروقی وزیر بلدیات سے ملے تو جواز عدالتی حکم کو بنالیا تو انھوں نے کمشنر سے متبادل جگہ دینے کی اپیل کی ہے۔ مولانا نے راقم کو بتایا کہ ہم غریبوں کو مفت کھانا کھلانے کے ساتھ ہنر بھی سکھا رہے ہیں اور تربیت مکمل ہونے پر انھیں 18 ہزار روپے ماہانہ کی تنخواہ پر ملازمت بھی دلا رہے ہیں ہمارا مقصد بھکاریوں کا فروغ نہیں انھیں باعزت مقام دلانا بھی ہے کیونکہ خیرات مانگنے کی اجازت ہمارے نبی نے نہیں دی تھی اور انھیں محنت کرنے کی تلقین کی تھی۔ مفت کھانے سے جو رقم بچتی ہے وہ اسے دیگر گھریلو اخراجات میں استعمال کرلیتے ہیں مگر انتظامیہ کو ہمارا یہ اقدام پسند نہیں اور ہمیں ہٹا کر ظلم کیا گیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک اسلامی ملک ضرور ہے مگر ریاست مدینہ کی طرح ایک فلاحی ریاست نہیں ہے۔ فلاحی ریاستیں غیر مسلم ملکوں میں تو ضرور ملیں گی مگر اسلام کا ایک اہم جز زکوٰۃ ادا کرنے مسلم ممالک میں بھی ایک بھی فلاحی ریاست نہیں ہے جب کہ غیر ممالک میں غیر مسلم حکومتوں نے بھی اپنے شہریوں بلکہ اپنے ملک میں رہنے والے لوگوں کو وہ سہولتیں دے رکھی ہیں جس کا مسلم ریاستوں میں تصور نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا جانے والا نظریاتی ملک ہے جسکی ہر حکومت کو شکایت رہی ہے کہ پاکستانی عوام ٹیکس نہیں دیتے جب کہ غیر مسلم ممالک کو ٹیکس نہ ملنے کی کوئی شکایت نہیں ہے اور عوام سے حاصل کیے گئے ٹیکسوں سے ہی وہ اپنے عوام کو وہ سہولتیں فراہم کرتے ہیں جس کا مسلم ملک پاکستان میں تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ٹیکس نہ ملنے کی شکایات بھی ملک میں غلط و بے بنیاد ہیں کیونکہ پاکستان میں ایک بھی شخص نہیں ہے جس سے ملک میں ٹیکس نہ لیا جاتا ہو۔ پاکستان میں ٹیکس وصول کرنیوالے تمام محکموں میں کرپشن کی بھر مار ہے اور وہاں کام کرنیوالے تمام سرکاری ملازمین کی شروع سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ حکومت پاکستان کو ٹیکس نہ ملے اور اگر ملے تو کم ملے اسی لیے ٹیکس دینے کے خواہش مندوں کو ٹیکس میں چوری کے خفیہ راستے بھی ٹیکس لینے والے کرپٹ افسر خود دکھاتے ہیں اور صلے میں اپنی جیبیں بھرتے ہیں اور ہر حکومت روتی رہتی ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے جو دیتے ہیں وہ پورا نہیں دیتے ۔اسی لیے حکومت کی آمدنی کم ہے اور ان کے پاس اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے رقم نہیں بچتی تو وہ عوام کو فلاحی سہولتیں کیسے دیں۔ غیر مسلم ممالک اپنے رہنے والوں کو تعلیمی، طبی، مواصلاتی اور بنیادی سہولتیں ہی نہیں بلکہ بیروزگاری الاؤنس تک دیتی ہیں اور وہاں کوئی علاج کے بغیر مرتا ہے نہ لوگ بے روزگاری کے باعث خودکشیاں کرتے ہیں۔
پاکستان میں خودکشیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ بے روزگاری، مہنگائی اور ظلم و ناانصافیوں کے خلاف کہیں شنوائی نہ ہونا ہے ، جس کی تازہ مثال فیصل آباد کے 32 سالہ نوجوان کی خودکشی ہے جس نے بجلی کا ایک لاکھ 24 ہزار روپے کا بل ملنے کے بعد ہر جگہ دہائی دی مگر کہیں شنوائی نہ ہوئی تو اس کے پاس خودکشی کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا اور ایسے واقعات اب مسلسل بڑھ رہے ہیں جس کے سو فیصد ذمے دار حکومت اور سرکاری ادارے ہیں۔
پاکستان میں حکومتیں خود ٹیکس لینا ہی نہیں چاہتیں کیونکہ ٹیکس دینے میں انتہائی مشکلات حائل کردی گئی ہیں اور ان مشکلات کے باعث ہی لوگ ٹیکس دے کر مزید پھنسنا نہیں چاہتے اور یہ مشکلات ہی ٹیکس افسروں کی کمائی کا ذریعہ ہیں۔ اگر سرکاری مشکلات آسان ہوجائیں تو ٹیکس افسروں کی آمدنی ختم اور حکومتی آمدنی بڑھ سکتی ہے۔
آمدنی نہ ہونے سے حکومت جو فلاحی کام نہیں کر رہی وہ ملک میں فلاحی ادارے کر رہے ہیں جن کے پاس رشوت کھانے والا عملہ ہے نہ ہراساں کرنے کا اختیار اور لوگ انھیں دل کھول کر عطیات دیتے ہیں اور فلاحی ادارے وہ کام کر رہے ہیں جو حکومت کے کرنے کے ہیں اور عوام ان فلاحی اداروں کو اتنے عطیات خوش دلی سے دیتے ہیں جتنا ٹیکس وہ حکومت کو مجبوری میں نہیں دیتے ہیں۔ حکومت کی بجائے عوام فلاحی اداروں پر اعتماد کرتے ہیں اور دل کھول کر عطیات دیتے ہیں کہ انھیں پتا ہے کہ فلاحی اداروں کو دیے گئے عطیات کا درست استعمال ہوگا اور کرپشن نہیں ہوگی اور مستحقین تک پہنچیں گے۔ملک میں یوں تو ہزاروں فلاحی ادارے کام کر رہے ہیں مگر چند ادارے عالمی سطح پر سماجی خدمات مختلف شعبوں میں سرانجام دے رہے ہیں جن میں ایک بڑا نام سیلانی انٹرنیشنل ٹرسٹ کا ہے جسکے بانی مولانا محمد بشیر فاروقی ہیں اور سیلانی ٹرسٹ پورے پاکستان کے بعد عالمی سطح پر بھی اپنی پہچان بنا چکا ہے جسکے ملک و بیرون ملک تین ہزار سے زائد ملازمین ڈیڑھ سو سے زائد برانچوں کے ذریعے خوراک، صحت، تعلیم اور دیگر تقریباً 63 سے زائد شعبہ جات میں روزانہ تقریباً سوا لاکھ افراد کی خدمت کر رہا ہے اور مشہور سماجی این جی اوز میں منفرد ادارہ بن چکا ہے۔
سیلانی ٹرسٹ سالانہ تقریباً چار ارب روپے اپنی مختلف خدمات پر خرچ کر رہا ہے اور ملک سے باہر کا کوئی عطیہ قبول نہیں کرتا اور اتنے بڑے یہ اخراجات ملک بھر میں موجود اپنے ان مخیر حضرات کے عطیات سے پورے کر رہے ہیں جو سیلانی پر اعتماد کرتے ہیں۔
سیلانی ٹرسٹ کے لیے خود کو وقف کردینے والے مولانا بشیر فاروقی ایک مذہبی شخصیت بھی ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا اب عوام کی بلا امتیاز خدمت ہے۔ اتنا بڑا فلاحی ادارہ چلانے والے بشیر فاروقی ایک سادہ مزاج شخصیت کے حامل ہیں جو ٹرسٹ کے ہیڈ آفس بہادر آباد کی مسجد میں امامت کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں اور روزانہ ظہر کی نماز کے بعد اپنے مختلف مسائل کے حل کے لیے مدد کے خواہش مندوں سے ملتے ہیں اور واضح طور پر کہتے ہیں کہ ٹرسٹ یا ٹرسٹ کے کسی بھی ملازم سے متعلق کوئی بھی شکایت ہو تو نشاندہی کریں تاکہ رفع کی جاسکے۔
سیلانی ٹرسٹ نے کراچی میں غریبوں کو مفت دو وقت کا کھانا کھلانے کے لیے سیلانی دستر خوان شروع کیا تھا جہاں روزانہ ساٹھ ہزار غریبوں کے لیے بہترین کھانے کا انتظام ہوتا ہے اور سیلانی کے بڑے کچن میں حفظان صحت کے معیاری اصولوں کے مطابق کھانا تیار کرکے شہر کے مختلف علاقوں میں خصوصاً گرین بیلٹ پر عارضی طور پر دریاں بچھا کر سیلانی رضا کار فٹ پاتھوں سے کھانے کا سامان سمیٹ لیتے تھے اور غریبوں کو دو وقت کا کھانا مفت مل جاتا تھا۔
عدالت عظمیٰ نے سڑکوں، فٹ پاتھوں اور گرین بیلٹس سے تجاوزات ہٹانے کا حکم سب کے لیے دیا تھا مگر کے ایم سی نے عمل صرف فلاحی اداروں پر کیا کیونکہ دوسرے بڑے اداروں کے آگے وہ بے بس تھی اور نزلہ سیلانی پر بھی گرا۔ اس ظلم پر مولانا فاروقی وزیر بلدیات سے ملے تو جواز عدالتی حکم کو بنالیا تو انھوں نے کمشنر سے متبادل جگہ دینے کی اپیل کی ہے۔ مولانا نے راقم کو بتایا کہ ہم غریبوں کو مفت کھانا کھلانے کے ساتھ ہنر بھی سکھا رہے ہیں اور تربیت مکمل ہونے پر انھیں 18 ہزار روپے ماہانہ کی تنخواہ پر ملازمت بھی دلا رہے ہیں ہمارا مقصد بھکاریوں کا فروغ نہیں انھیں باعزت مقام دلانا بھی ہے کیونکہ خیرات مانگنے کی اجازت ہمارے نبی نے نہیں دی تھی اور انھیں محنت کرنے کی تلقین کی تھی۔ مفت کھانے سے جو رقم بچتی ہے وہ اسے دیگر گھریلو اخراجات میں استعمال کرلیتے ہیں مگر انتظامیہ کو ہمارا یہ اقدام پسند نہیں اور ہمیں ہٹا کر ظلم کیا گیا ہے۔