شمالی برصغیر
اورنگ زیب عالمگیر نے 1677 میں امیر خان کو کابل کا گورنر مقررکیا
ISLAMABAD:
اورنگ زیب عالمگیر نے میر جملہ کو بنگال کا صوبے دار مقررکیا، وہ ایک کامیاب منتظم تھا، بنگال کو قابو میں لانے کے بعد اس نے کوچ بہار اور آسام کی طرف توجہ دی کیونکہ وہاں کے راجہ نے خانہ جنگی کے دوران مغل علاقوں کو دبا لیا تھا۔ 1661 کے آخر میں میر جملہ شاہی فوج اور کشتیوں کے ہمراہ روانہ ہوا، راستے کی دشواریوں کے باوجود اس نے کوچ بہار کو فتح کرلیا اور راجہ نے راہ فرار اختیار کی۔ بعدازاں میر جملہ آسام کی طرف بڑھا، موسم برسات کی وجہ سے مہم میں بڑی دشواریاں پیدا ہوئیں لیکن برسات کے اختتام پر اس نے پیش قدمی شروع کردی یہاں تک کہ آسامی قبائل نے اطاعت قبول کرلی، واپسی پر راستے میں میر جملہ نے وفات پائی (مارچ 1663)۔
میر جملہ کی وفات پر شائستہ خان بنگال کا صوبیدار مقرر ہوا، اس زمانے میں چاٹگام شاہ ارکان کے تحت تھا۔ یہ شہر بحری قزاقوں، جن میں ماگھ اور فرنگی شامل تھے کا اڈہ تھا۔ 1666 میں شائستہ خان نے حملہ کرکے قزاقوں کا صفایا کر دیا اور چاٹگام اور جزیرہ سندیپ کو مغل حکومت میں شامل کردیا۔
پنجاب اور کابل کے درمیان جنگجو افغان قبائل تھے مغل حکومت کو اکثر ان کی سرکشی سے دوچار ہونا پڑتا تھا۔ ان کی شورش سے کابل کا راستہ مسدود ہوجانے کا خطرہ لاحق ہوجاتا تھا، 1667 میں یوسف زئیوں نے شورش بپا کردی اور اٹک پار کرکے لوٹ مار کا آغاز کیا۔ اس پر میر جملہ کے لڑکے محمد امین خان کے تحت شاہی فوجیں حرکت میں آئیں شورش کو دبا دیا گیا۔ 1672 میں آفریدیوں نے بغاوت کردی اور دوسرے قبائل کو ساتھ ملا کر اس قدر قوت پکڑی کہ درہ خیبر میں علی مسجد کے قریب شاہی سالار محمد امین خان کو بھاری نقصان کے ساتھ زک اٹھانا پڑی۔ اس پر یہ مہم مہابت خان کے سپرد ہوئی بعد میں شجاعت خان اور راجہ جسونت سنگھ کو مزید کمک کے ساتھ اس کی امداد کو روانہ کیا گیا۔ اورنگ زیب عالمگیر خود بھی 1674 میں حسن ابدال آیا بالآخر بغاوت کا خاتمہ ہوگیا لیکن خٹک قبیلے کا سردار خوشحال خان خٹک ایک مدت تک سرکش رہا وہ پشتو کا نامور شاعر بھی تھا، اپنے اشعار سے قبائلیوں کو بھڑکاتا رہا آخر میں اس کوگرفتارکرلیا گیا۔
اورنگ زیب عالمگیر نے 1677 میں امیر خان کو کابل کا گورنر مقررکیا، وہ بیس سال تک اس عہدے پر فائز رہا۔ اس نے بڑی دانشمندی سے قبائلیوں کو مایوس رکھا، وفادار قبائلی سرداروں کو حکومت وقت وظائف دیتی رہی۔ افغان قبائل کی شورش کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ عرصے کے لیے حکومت کی توجہ اور فوجی قوت اس علاقے پر اثرانداز رہی جس سے دکن میں سیواجی مرہٹہ کو اپنی طاقت مستحکم کرنے کا موقع ملا۔
اورنگ زیب عالمگیر عہد کے اس حصے میں کئی غیر مسلم فرقوں نے سر اٹھایا اور چھوٹے پیمانے پر بغاوتیں پھیلائیں۔ غیر مسلم مورخین اورنگزیب عالمگیر کے تعصب کو ان بغاوتوں کا سبب قرار دیتے ہیں تاہم قابل غور ہے کہ یہ بغاوتیں رونما ہوئیں جب کہ ابھی جزیہ وغیرہ دوبارہ عائد نہیں کیا گیا تھا، اصل بات یہ ہے کہ ہندوؤں نے کبھی دل سے مسلم حکومت کی حمایت نہیں کی تھی۔ اکبر کے حسن سلوک سے ان کی ہمت بڑھی اور رفتہ رفتہ ان کا طرز عمل جارحانہ ہونے لگا۔ شاہجہان عہد کے آخری حصے کو کمزور اور پھر خانہ جنگی نے ان لوگوں کے باغیانہ عزائم کو مہمیز لگائی اور جب اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں نظم و نسق دوبارہ مستحکم ہونے لگا تو یہ لوگ اسے برداشت نہ کرسکے۔
1۔ متھرا کے جاٹ شروع سے مالیہ کی ادائیگی میں شامل رہنے لگے 1669 میں ان کی ہٹ دھرمی نے باقاعدہ بغاوت کی صورت اختیار کرلی۔
2۔ متھرا کا جوجدار عبدالنبی مارا گیا اور جاٹوں کی تعداد بیس ہزار تک پہنچ گئی۔ عالمگیر خود فوج لے کر دہلی سے نکلا، بغاوت کو کچل دیا، 1681 پھر 1688 میں دوبارہ شورش ہوئی لیکن مقامی حکام نے اسے دبا دیا۔
3۔ ست نامی بظاہر ہندو جوگیوں کا ایک فرقہ تھا لیکن یہ لوگ درپردہ بڑے منظم تھے، یہ ہمیشہ مسلح رہتے تھے۔ دہلی سے 75 میل جنوب مغرب میں نارنول کا مقام ان کا مرکز تھا۔
4۔ 1672 میں ایک ست نامی اور فوجی پیادہ میں جھگڑا ہوگیا اس پر ست نامی فرقے نے علم بغاوت بلند کر دیا۔ مقامی فوج کو شکست دی اور پھر مالیہ وصول کرنے، مساجد کو منہدم کرنے اور لوٹ مار مچانے لگے۔ انھوں نے بغاوت کو مذہبی رنگ دیا اور یہ بات مشہور ہوگئی کہ ان کے پاس جادو کی طاقت ہے جس سے ان پر ہتھیار اثر نہیں کرتے۔ اورنگزیب عالمگیر جوکہ خود زندہ پیر کہلاتا ، شاہی فوج کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک تصویر کو علم سے باندھا، لڑائی میں بہت نامی، ناموروں کو شکست ہوئی اور ان کا مکمل استحصال کردیا گیا۔
5۔ جب سکھوں کے ابتدائی چار گروؤں نے مذہبی زندگی کو اپنا شعار بنائے رکھا وہ سیاست سے کنارہ کش رہے۔ سب سے پہلے پانچویں گرو ارجن نے سیاست میں دخل دیا اس نے شہزادہ خسرو کی بغاوت میں حصہ لیا جس کی پاداش میں جہانگیر نے اسے قتل کردیا۔
6۔ بعد میں اگرچہ سکھوں کے جذبات حکومت کے بارے میں وفادارانہ نہ رہے لیکن کچھ عرصے تک انھوں نے حکومت سے ٹکر نہ لی۔ ساتویں گرو ہر رائے نے سموگڑھ کے معرکے سے پہلے دارا کو فتح مند ہونے کی دعا دی لیکن اورنگزیب عالمگیر نے اس بات کو اہمیت نہ دی۔ یہاں تک کہ جب آٹھویں گرو کے انتخاب میں جھگڑا ہوا اور فریقین نے بادشاہ سے رجوع کیا پھر بھی اورنگزیب نے کوئی مداخلت نہ کی۔
7۔ عالمگیر کے اس طرز عمل کے باوجود جب 1664 میں شیخ بہادر نواں گرو گدی نشین ہوا تو اس نے باغیانہ رویہ اختیار کیا۔ پہلے وہ شاہی فوج میں شریک رہا، بعد میں پنجاب، کشمیر میں بغاوت پھیلا کر لوٹ مار شروع کرنے پر شاہی لشکر نے اسے گرفتارکرلیا۔ 1675 میں اسے بغاوت کے جرم میں قتل کردیا گیا۔
8۔ سکھوں کا دسواں اور آخری گرو گوبند سنگھ تھا، اس نے سکھوں کے اپنے پیروؤں کے جوش انتقام کو خوب بھڑکایا وہ خود بڑے امیرانہ ٹھاٹھ سے رہتا تھا، اس نے سکھ فرقے کو خالصا کا نام دیکر فوجی تنظیم میں بدل دیا۔ اس کے لیے گیس (بال)، کرپان (چھوٹی تلوار)، کنگھا کرچھا (مکی اور کڑا) (لوہے کا کنگن) لازمی قرار دیے۔ قلعے تعمیر کرائے اور اسی ہزار کی جمعیت اکٹھی کرلی، متواتر اشتعال پر جب شاہی فوج حرکت میں آئی لیکن اسے شکست ہوئی، بادشاہ کے بلانے پر دکن روانہ ہوا مگر ابھی وہ راستے میں تھا کہ عالمگیر کی وفات کی خبر ملی چنانچہ وہ اس کے جانشین بہادر شاہ کے دربار میں حاضر ہوا اور اس کے ساتھ رہا۔
اس وقت تین قابل ذکر راجپوت ریاستیں تھیں میواڑ (اودسا پور)، مارواڑ (گردھ پور) اور امبر (جے پور)۔ امبر کے راجہ جے سنگھ اور اس کا جانشین رام سنگھ ہمیشہ عالمگیر کے مطیع رہے اور انھیں اعلیٰ منصب عطا کیے گئے۔ مارواڑ کے راجہ جسونت سنگھ نے متعدد بار عالمگیر سے غداری کی، ہر بار عالمگیر نے اسے معاف کیا ۔آخر میں اسے کابل کا گورنر مقرر کیا۔ جسونت سنگھ نے 1678 میں جمرود کے مقام پر وفات پائی راجہ کی اولاد نہ تھی اس لیے بادشاہ اجمیر پہنچا، مارواڑ میں نظم و نسق بحال رکھنے کے لیے شاہی حکام مقرر کیے اور جسونت سنگھ کے ایک رشتے دار اندر سنگھ کو جودھ پور کی گدی پر بٹھادیا۔
اورنگزیب عالمگیر نے راجپوتوں کو پایہ تخت میں طلب کیا لیکن وہ کئی ماہ تک پس و پیش کرتے رہے اس سے پہلے اٹک پارکرتے وقت وہ میر بحر سے لڑ پڑے اس کے کئی آدمیوں کو قتل کردیا۔ ان کے اس طرز عمل سے بادشاہ کے دل میں شکوک کا پیدا ہونا لازمی تھا چنانچہ جب وہ رانیوں اور راجہ کے بچے جس کا نام اجیت رکھا گیا تھا، سمیت دہلی آئے تو انھیں احتیاطاً انھیں شہر سے باہر ٹھہرایا گیا اور ان پر پہرہ بٹھادیا گیا۔ کچھ دن بعد چند راجپوتوں نے مارواڑ جانے کی درخواست کی تو بادشاہ نے منظوری دے دی۔ بادشاہ نے وعدہ کیا کہ اجیت کے سن بلوغت کو پہنچنے پر اس کی گدی اور منصب بحال کر دیے جائینگے۔
اورنگ زیب عالمگیر نے میر جملہ کو بنگال کا صوبے دار مقررکیا، وہ ایک کامیاب منتظم تھا، بنگال کو قابو میں لانے کے بعد اس نے کوچ بہار اور آسام کی طرف توجہ دی کیونکہ وہاں کے راجہ نے خانہ جنگی کے دوران مغل علاقوں کو دبا لیا تھا۔ 1661 کے آخر میں میر جملہ شاہی فوج اور کشتیوں کے ہمراہ روانہ ہوا، راستے کی دشواریوں کے باوجود اس نے کوچ بہار کو فتح کرلیا اور راجہ نے راہ فرار اختیار کی۔ بعدازاں میر جملہ آسام کی طرف بڑھا، موسم برسات کی وجہ سے مہم میں بڑی دشواریاں پیدا ہوئیں لیکن برسات کے اختتام پر اس نے پیش قدمی شروع کردی یہاں تک کہ آسامی قبائل نے اطاعت قبول کرلی، واپسی پر راستے میں میر جملہ نے وفات پائی (مارچ 1663)۔
میر جملہ کی وفات پر شائستہ خان بنگال کا صوبیدار مقرر ہوا، اس زمانے میں چاٹگام شاہ ارکان کے تحت تھا۔ یہ شہر بحری قزاقوں، جن میں ماگھ اور فرنگی شامل تھے کا اڈہ تھا۔ 1666 میں شائستہ خان نے حملہ کرکے قزاقوں کا صفایا کر دیا اور چاٹگام اور جزیرہ سندیپ کو مغل حکومت میں شامل کردیا۔
پنجاب اور کابل کے درمیان جنگجو افغان قبائل تھے مغل حکومت کو اکثر ان کی سرکشی سے دوچار ہونا پڑتا تھا۔ ان کی شورش سے کابل کا راستہ مسدود ہوجانے کا خطرہ لاحق ہوجاتا تھا، 1667 میں یوسف زئیوں نے شورش بپا کردی اور اٹک پار کرکے لوٹ مار کا آغاز کیا۔ اس پر میر جملہ کے لڑکے محمد امین خان کے تحت شاہی فوجیں حرکت میں آئیں شورش کو دبا دیا گیا۔ 1672 میں آفریدیوں نے بغاوت کردی اور دوسرے قبائل کو ساتھ ملا کر اس قدر قوت پکڑی کہ درہ خیبر میں علی مسجد کے قریب شاہی سالار محمد امین خان کو بھاری نقصان کے ساتھ زک اٹھانا پڑی۔ اس پر یہ مہم مہابت خان کے سپرد ہوئی بعد میں شجاعت خان اور راجہ جسونت سنگھ کو مزید کمک کے ساتھ اس کی امداد کو روانہ کیا گیا۔ اورنگ زیب عالمگیر خود بھی 1674 میں حسن ابدال آیا بالآخر بغاوت کا خاتمہ ہوگیا لیکن خٹک قبیلے کا سردار خوشحال خان خٹک ایک مدت تک سرکش رہا وہ پشتو کا نامور شاعر بھی تھا، اپنے اشعار سے قبائلیوں کو بھڑکاتا رہا آخر میں اس کوگرفتارکرلیا گیا۔
اورنگ زیب عالمگیر نے 1677 میں امیر خان کو کابل کا گورنر مقررکیا، وہ بیس سال تک اس عہدے پر فائز رہا۔ اس نے بڑی دانشمندی سے قبائلیوں کو مایوس رکھا، وفادار قبائلی سرداروں کو حکومت وقت وظائف دیتی رہی۔ افغان قبائل کی شورش کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ عرصے کے لیے حکومت کی توجہ اور فوجی قوت اس علاقے پر اثرانداز رہی جس سے دکن میں سیواجی مرہٹہ کو اپنی طاقت مستحکم کرنے کا موقع ملا۔
اورنگ زیب عالمگیر عہد کے اس حصے میں کئی غیر مسلم فرقوں نے سر اٹھایا اور چھوٹے پیمانے پر بغاوتیں پھیلائیں۔ غیر مسلم مورخین اورنگزیب عالمگیر کے تعصب کو ان بغاوتوں کا سبب قرار دیتے ہیں تاہم قابل غور ہے کہ یہ بغاوتیں رونما ہوئیں جب کہ ابھی جزیہ وغیرہ دوبارہ عائد نہیں کیا گیا تھا، اصل بات یہ ہے کہ ہندوؤں نے کبھی دل سے مسلم حکومت کی حمایت نہیں کی تھی۔ اکبر کے حسن سلوک سے ان کی ہمت بڑھی اور رفتہ رفتہ ان کا طرز عمل جارحانہ ہونے لگا۔ شاہجہان عہد کے آخری حصے کو کمزور اور پھر خانہ جنگی نے ان لوگوں کے باغیانہ عزائم کو مہمیز لگائی اور جب اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں نظم و نسق دوبارہ مستحکم ہونے لگا تو یہ لوگ اسے برداشت نہ کرسکے۔
1۔ متھرا کے جاٹ شروع سے مالیہ کی ادائیگی میں شامل رہنے لگے 1669 میں ان کی ہٹ دھرمی نے باقاعدہ بغاوت کی صورت اختیار کرلی۔
2۔ متھرا کا جوجدار عبدالنبی مارا گیا اور جاٹوں کی تعداد بیس ہزار تک پہنچ گئی۔ عالمگیر خود فوج لے کر دہلی سے نکلا، بغاوت کو کچل دیا، 1681 پھر 1688 میں دوبارہ شورش ہوئی لیکن مقامی حکام نے اسے دبا دیا۔
3۔ ست نامی بظاہر ہندو جوگیوں کا ایک فرقہ تھا لیکن یہ لوگ درپردہ بڑے منظم تھے، یہ ہمیشہ مسلح رہتے تھے۔ دہلی سے 75 میل جنوب مغرب میں نارنول کا مقام ان کا مرکز تھا۔
4۔ 1672 میں ایک ست نامی اور فوجی پیادہ میں جھگڑا ہوگیا اس پر ست نامی فرقے نے علم بغاوت بلند کر دیا۔ مقامی فوج کو شکست دی اور پھر مالیہ وصول کرنے، مساجد کو منہدم کرنے اور لوٹ مار مچانے لگے۔ انھوں نے بغاوت کو مذہبی رنگ دیا اور یہ بات مشہور ہوگئی کہ ان کے پاس جادو کی طاقت ہے جس سے ان پر ہتھیار اثر نہیں کرتے۔ اورنگزیب عالمگیر جوکہ خود زندہ پیر کہلاتا ، شاہی فوج کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک تصویر کو علم سے باندھا، لڑائی میں بہت نامی، ناموروں کو شکست ہوئی اور ان کا مکمل استحصال کردیا گیا۔
5۔ جب سکھوں کے ابتدائی چار گروؤں نے مذہبی زندگی کو اپنا شعار بنائے رکھا وہ سیاست سے کنارہ کش رہے۔ سب سے پہلے پانچویں گرو ارجن نے سیاست میں دخل دیا اس نے شہزادہ خسرو کی بغاوت میں حصہ لیا جس کی پاداش میں جہانگیر نے اسے قتل کردیا۔
6۔ بعد میں اگرچہ سکھوں کے جذبات حکومت کے بارے میں وفادارانہ نہ رہے لیکن کچھ عرصے تک انھوں نے حکومت سے ٹکر نہ لی۔ ساتویں گرو ہر رائے نے سموگڑھ کے معرکے سے پہلے دارا کو فتح مند ہونے کی دعا دی لیکن اورنگزیب عالمگیر نے اس بات کو اہمیت نہ دی۔ یہاں تک کہ جب آٹھویں گرو کے انتخاب میں جھگڑا ہوا اور فریقین نے بادشاہ سے رجوع کیا پھر بھی اورنگزیب نے کوئی مداخلت نہ کی۔
7۔ عالمگیر کے اس طرز عمل کے باوجود جب 1664 میں شیخ بہادر نواں گرو گدی نشین ہوا تو اس نے باغیانہ رویہ اختیار کیا۔ پہلے وہ شاہی فوج میں شریک رہا، بعد میں پنجاب، کشمیر میں بغاوت پھیلا کر لوٹ مار شروع کرنے پر شاہی لشکر نے اسے گرفتارکرلیا۔ 1675 میں اسے بغاوت کے جرم میں قتل کردیا گیا۔
8۔ سکھوں کا دسواں اور آخری گرو گوبند سنگھ تھا، اس نے سکھوں کے اپنے پیروؤں کے جوش انتقام کو خوب بھڑکایا وہ خود بڑے امیرانہ ٹھاٹھ سے رہتا تھا، اس نے سکھ فرقے کو خالصا کا نام دیکر فوجی تنظیم میں بدل دیا۔ اس کے لیے گیس (بال)، کرپان (چھوٹی تلوار)، کنگھا کرچھا (مکی اور کڑا) (لوہے کا کنگن) لازمی قرار دیے۔ قلعے تعمیر کرائے اور اسی ہزار کی جمعیت اکٹھی کرلی، متواتر اشتعال پر جب شاہی فوج حرکت میں آئی لیکن اسے شکست ہوئی، بادشاہ کے بلانے پر دکن روانہ ہوا مگر ابھی وہ راستے میں تھا کہ عالمگیر کی وفات کی خبر ملی چنانچہ وہ اس کے جانشین بہادر شاہ کے دربار میں حاضر ہوا اور اس کے ساتھ رہا۔
اس وقت تین قابل ذکر راجپوت ریاستیں تھیں میواڑ (اودسا پور)، مارواڑ (گردھ پور) اور امبر (جے پور)۔ امبر کے راجہ جے سنگھ اور اس کا جانشین رام سنگھ ہمیشہ عالمگیر کے مطیع رہے اور انھیں اعلیٰ منصب عطا کیے گئے۔ مارواڑ کے راجہ جسونت سنگھ نے متعدد بار عالمگیر سے غداری کی، ہر بار عالمگیر نے اسے معاف کیا ۔آخر میں اسے کابل کا گورنر مقرر کیا۔ جسونت سنگھ نے 1678 میں جمرود کے مقام پر وفات پائی راجہ کی اولاد نہ تھی اس لیے بادشاہ اجمیر پہنچا، مارواڑ میں نظم و نسق بحال رکھنے کے لیے شاہی حکام مقرر کیے اور جسونت سنگھ کے ایک رشتے دار اندر سنگھ کو جودھ پور کی گدی پر بٹھادیا۔
اورنگزیب عالمگیر نے راجپوتوں کو پایہ تخت میں طلب کیا لیکن وہ کئی ماہ تک پس و پیش کرتے رہے اس سے پہلے اٹک پارکرتے وقت وہ میر بحر سے لڑ پڑے اس کے کئی آدمیوں کو قتل کردیا۔ ان کے اس طرز عمل سے بادشاہ کے دل میں شکوک کا پیدا ہونا لازمی تھا چنانچہ جب وہ رانیوں اور راجہ کے بچے جس کا نام اجیت رکھا گیا تھا، سمیت دہلی آئے تو انھیں احتیاطاً انھیں شہر سے باہر ٹھہرایا گیا اور ان پر پہرہ بٹھادیا گیا۔ کچھ دن بعد چند راجپوتوں نے مارواڑ جانے کی درخواست کی تو بادشاہ نے منظوری دے دی۔ بادشاہ نے وعدہ کیا کہ اجیت کے سن بلوغت کو پہنچنے پر اس کی گدی اور منصب بحال کر دیے جائینگے۔