بے قابو ڈالر اور عمران خان
عمران خان کو چاہیے کہ معیشت کا باریک بینی سے جائزہ خود لیں اور روپے کی قدر مستحکم کرنے کے لیے کچھ کریں۔
جولائی آن پہنچاہے،یہ وہی ''مبارک '' مہینہ ہے جس مہینے میں اقتدار کا 'ہما'تحریک انصاف کے سر پر سجا تھا۔یعنی حکومت کو اقتدار میں آئے کم و بیش ایک سال ہوگیا۔
اس ایک سال میں پاکستان کے عوام نے کسی نہ کسی طرح تبدیلی کو ''محسوس'' ضرور کیا ہے۔ کرتے بھی کیوں نہ ، جب گزشتہ سال مئی کے آخر میں ن لیگ نے اقتدار چھوڑا تو ڈالر 115روپے تھا، پھر 25جولائی کو جنرل الیکشن ہوئے تو ان دو مہینوں میں ڈالر کی قیمت میں 15روپے کا اضافہ ہوا ۔ اس کے بعد ڈالر نے ایسی چھلانگیں لگائیں کہ عمران خان کی ٹیم نے ہاتھ کھڑے کر دیے اور اب ڈالر 164کے آس پاس مل رہا ہے۔
سابقہ حکومتوں نے ملکی معیشت کے ساتھ کیا سلوک کیا، یہ ایک الگ داستان ہے لیکن آگے بڑھنے سے پہلے اس پر روشنی ڈالتے ہیں کہ ڈالر کیسے بڑھتا ہے؟ کہاں بڑھتا ہے؟ اسٹیٹ بینک کا کیا کردار ہے؟ اور ڈالر کے اتار چڑھاؤ میں حکومت کیا کردار ہوتا ہے۔
مارکیٹ میں جس طرح کسی چیز کی مانگ میں اضافہ ہو جائے اور پیدوار بڑھ جائے تو اُس کی قیمت بڑھ جاتی ہے ، بالکل اسی طرح جب جب ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہو گا اس کی قیمت بڑھے گی اور ہم یہی کہیں گے کہ روپے کی قدر میں کمی ہوئی ہے۔مسلم لیگ ن کی حکومت نے 1997 میں پاکستان کے مرکزی بینک یعنی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو ایک قانون کے ذریعے خو مختار حیثیت دی تھی۔ اس کے لیے جو قواعد تیار کیے گئے ان میں صاف طور پر لکھا ہے کہ غیر ملکی کرنسیوں کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر پر نظر رکھنا (یا اسے مینیج کرنا) اسٹیٹ بینک کی ذمے داری ہے۔
ادھر کراچی میں ایک ''سسٹم''ہے جسے ''انٹر بینک ''مارکیٹ کہا جاتا ہے۔ اس نظام میں تمام نجی و سرکاری بینک منسلک ہوتے ہیں۔ یہاں پر روپے کی قیمت یا یوں کہیے کہ ڈالر کی قیمت طے ہو رہی ہوتی ہے۔ اس مارکیٹ کو سبزی منڈی سمجھ لیجیے جہاں ہر صبح مختلف سبزیوں کے ٹرکوں کی نیلامی ہوتی ہے جہاں پر بنیادی طور پر اس سبزی کی قیمت طے ہو جاتی ہے۔ انٹر بینک مارکیٹ میں تقریباً یہی ہو رہا ہوتا ہے اور نجی و سرکاری بینک، کرنسی ایکسچینج کمپنیاں اور درآمد اور برآمد کنندگان آڑھتیوں کا کردار ادا کرتے ہیں۔
اگر اچانک ملک کی دو تین بڑی درآمد کنندگان، یعنی امپورٹرز کو بڑے ٹھیکے مل جاتے ہیں اور انھیں اچانک بہت سے ڈالرز کی ضرورت پڑ جاتی ہے تو وہ اسی انٹر بینک مارکیٹ سے ڈالر خریدنے کا آرڈر بک کرائے گا۔ مثلاً بین الاقوامی منڈی سے تیل خریدنے کے لیے ایک کمپنی نے ایک بڑا آرڈر بک کرایا اور انٹر بینک مارکیٹ سے ایک ہفتے بعد دو کروڑ ڈالر خریدنے کا آرڈر بک کرا دیا۔ اس دوران ایک اور کمپنی نے کچھ اور مال درآمد کرنے کے لیے مزید دو کروڑ ڈالر خرید لیے تو پاکستانی مارکیٹ میں موجود ڈالرز کم ہو جائیں گے اور اس کی قیمت اچانک دباؤ کا شکار ہو کر بڑھ جائے گی۔
اب پرانی حکومتیں اس موقع پر اسٹیٹ بینک کو زبانی کلامی آرڈر جاری کرتی تھیں کہ چند لاکھ ڈالر مارکیٹ میں پھینک دے تاکہ روپے پر مزید دباؤ نہ پڑے۔ اسٹیٹ بینک بھی ہو بہو یہی کام کرتا ہے جس سے ڈالر کو مزید بڑھنے سے روک دیا جاتا ۔ اب معاشی ماہرین کے مطابق نئی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل میں یہ بات سب سے اوپر رکھی تھی کہ اسٹیٹ بینک اس قسم کی مداخلت سے باز رہے۔ لہٰذااگر یہی حال رہا تو عمران خان کے دور میں ڈالر 200روپے پر بھی جانے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
اب اگر کوئی حکومتی وزیر یہ کہے کہ '' ڈالر پر حکومت کا اختیار نہیںاور ویسے بھی پاکستان کی 90فیصد عوام کا ڈالر سے کوئی لینا دینا نہیں ''تو یقین مانیں عوام کا غصہ جائز ہے، کیوں کہ پاکستان میں موجود 83فیصد اشیائے ضروریہ بیرون ملک سے درآمد کی جاتی ہیں، اس لیے ہر چیز مہنگی ہونا فطری عمل ہے اور عمران خان اقتدار سے باہر بیٹھ کر خود کہا کرتے تھے کہ اگر ڈالر کے مقابلے میں ایک روپیہ کم ہوتا ہے بیٹھے بٹھائے 7ارب روپے کا قرضہ چڑھ جاتا ہے۔ لیکن آج افسوس کا مقام ہے کہ حکومتی عہدیدار خود کہہ رہے ہیں کہ ڈالر کے بڑھنے کا انھیں بھی ٹی وی ہی سے معلوم ہوا ہے۔ ویسے بھی سوشل میڈیا کے ذریعے یہ مہم چلائی جا رہی ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے میں لین دین کریں اور حب الوطنی کا ثبوت دیں۔ یہ انتہائی گھناؤنا مذاق ہے کہ حب الوطنی کی آڑ میں ہم لوگ ملک کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج ہماری کرنسی ایشیا کی کمزور ترین کرنسیوں میں شمار ہو رہی ہے۔
ڈالر کی اہمیت جاننے کے لیے اتنا جاننا ضروری ہے کہ ایک وقت تھا کہ روسی کرنسی دنیا کی مضبوط ترین کرنسی تھی، 1984ء میں چار ڈالروں کا ایک روبل تھا، سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ایک ڈالر کے عوض 1350روبل ہوگئے۔ اس کے بعد روس نے اپنی کرنسی کو مضبوط کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر اس وقت بھی ایک ڈالر تقریباً63روبل کا ہے۔ڈالر کے خلاف کئی ممالک برسرِپیکار ہیں۔ڈالر کی حاکمیت سے تنگ آکر یورپ نے اپنی کرنسی ''یورو'' شروع کرلی ہے۔ڈالر کے ساتھ ترکی کا لیرابھی مسلسل حالتِ جنگ میں ہے۔1990 میں ترکی کا لیرا بھی 4000کے برابر ایک ڈالر تھا ۔
ترکی نے بڑی محنت کے ساتھ لیرے کی قدر میں اضافہ کیا مگر اس وقت پھر لیرا مسلسل گر رہا ہے مگر روپے کی طرح نہیں۔اس وقت بھی ایک لیرا خریدنے کے لیے 27 روپے دینے پڑتے ہیں۔ترکی کے سینٹرل بینک کی جانب سے ملک کی کرنسی لیرا کی قدر میں ہونے والی کمی کو روکنے میں ناکامی کے بعد ترک صدر رجب طیب اردوان نے امریکا پراُن کے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچانے کاالزام عائد کیا ہے۔ یعنی کرنسی کی قدر جب گرتی ہے تو زندہ قوموں کو کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ڈالر کے مقابلے میں لیرا کو مستحکم کرنے کے لیے جب اردوان نے اپیل کی تھی کہ جہاں تک ممکن ہوسکے ڈالر کو چھوڑ کر لیرا میں کاروبار کیجیے تو سب سے پہلے قطر نے کہا تھا کہ وہ لیرا میں تیل فروخت کرے گا۔پاکستان نے بھی چین کے ساتھ ڈالر کے بجائے یوآن اور روپے میں کاروبار کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔لیکن ڈالر ہے کہ کسی طرح ٹس سے مس ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ حالات تو یہ ہیں کہ پاکستان میں بعض فائیو اسٹار ہوٹلوں نے اپنے گاہکوں سے روپے کے بجائے ڈالروں میں بل لینا شروع کر دیا ہے۔ یعنی انھیں پاکستان کی کرنسی پر اعتبار نہیں رہا۔
بہرکیف نہ جانے کب تک روپے کی قدر میں گراوٹ آتی رہے گی۔عوام پریشان ہیں کہ کوئی وزیر مشیر اس حوالے سے تسلی بھی نہیں دے رہا، تحریک انصاف کی بچی کچھی معاشی ٹیم ٹیکس ریکوری کے لیے دن رات کیے ہوئے ہے۔ بندہ پوچھے جب کاروبار ہی نہیں رہے گا تو کیسی ٹیکس ریکوری ؟ اس لیے نہ جانے کب تک قرضوں کا عفریت آیندہ نسلوں کو نگلتا رہے گا ۔کب تک دشتِ غربت میں ہڈیاں اگتی رہیں گی۔ کب تک جھونپڑیوں میں دیے بجھتے رہیں گے۔کب تک بنگلوں میں شادیانے بجتے رہیں گے۔کیا واقعی آسمان ہم سے مایوس ہو گیا ہے۔نہیں نہیں۔ ہماری معیشت کوئی مردہ معیشت نہیں، اُس کی رگوں میں خون کی گردش جاری ہے۔ ہماری کرنسی کے قدم کسی ایسی ڈھلوان پر نہیں جہاں پاؤں جمانا ممکن ہی نہ ہو۔ مجھے یقین ہے روپیہ کی قدر میں اب اور کمی نہیں آئے گی اور حکومت ہوش کے ناخن لے گی ۔
عمران خان کو چاہیے کہ معیشت کا باریک بینی سے جائزہ خود لیں اور روپے کی قدر مستحکم کرنے کے لیے کچھ کریں اوریہ جو اپوزیشن تحریک چلانے کا سوچ رہی ہے۔ اِس کی فکر نہ کریں۔اگر اس میں کوئی جان ہوتی تو اس کی سربراہی مولانا فضل الرحمن کے پاس نہ ہوتی۔اپوزیشن حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ لوگ کم از کم پانچ سال تک انتظار کریں گے اورپھر بھی اِن کے کہنے پر باہر نہیں آئیں گے۔اِن کا زمانہ بیت چکا ہے۔عوام جان چکے ہیں کہ ان کی جیب کس نے کاٹی ہے۔قوم کو اسد عمر یہ بھی بتاچکے ہیں کہ ملک ڈیفالٹ ہوچکا تھا۔
بس اتنی سی بات ہے کہ ہم نے اعلان نہیں کیااور خاموشی سے آئی ایم ایف کے پاس چلے گئے۔مگر یہ بھی طے ہے کہ ملک کواس مقام پر صرف شریف اور زرداری فیملی نے نہیں پہنچایا۔ملک کو لوٹنے والے اور بھی ہزاروں ہیں۔دکھ یہی ہے کہ ابھی تک انھیں کچھ نہیں کہا گیا۔ صرف اُن سے ٹیکس دینے کی اپیلیں کی گئی ہیں۔ان افراد میں آپ کی حکومت کے لوگ بھی ہو سکتے ہیں ، جو آپ کو اندھیرے میں رکھے ہوئے ہیں، انشاء اﷲ اس پر گزشتہ روز کسی دن کالم لکھوں گا کہ آخر کیوں حکومتی وزراء کے چہرے پر انتہائی برے معاشی حالات میں بھی سنجیدگی دکھائی نہیں دے رہی؟ یقینا یہ عمران خان کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہر طرف مایوسی کے بادل کیوں چھا رہے ہیں اور اب اگر عمران خان اگلے 5سال تک ڈالر کو یہیں مستحکم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یقینا یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی!
اس ایک سال میں پاکستان کے عوام نے کسی نہ کسی طرح تبدیلی کو ''محسوس'' ضرور کیا ہے۔ کرتے بھی کیوں نہ ، جب گزشتہ سال مئی کے آخر میں ن لیگ نے اقتدار چھوڑا تو ڈالر 115روپے تھا، پھر 25جولائی کو جنرل الیکشن ہوئے تو ان دو مہینوں میں ڈالر کی قیمت میں 15روپے کا اضافہ ہوا ۔ اس کے بعد ڈالر نے ایسی چھلانگیں لگائیں کہ عمران خان کی ٹیم نے ہاتھ کھڑے کر دیے اور اب ڈالر 164کے آس پاس مل رہا ہے۔
سابقہ حکومتوں نے ملکی معیشت کے ساتھ کیا سلوک کیا، یہ ایک الگ داستان ہے لیکن آگے بڑھنے سے پہلے اس پر روشنی ڈالتے ہیں کہ ڈالر کیسے بڑھتا ہے؟ کہاں بڑھتا ہے؟ اسٹیٹ بینک کا کیا کردار ہے؟ اور ڈالر کے اتار چڑھاؤ میں حکومت کیا کردار ہوتا ہے۔
مارکیٹ میں جس طرح کسی چیز کی مانگ میں اضافہ ہو جائے اور پیدوار بڑھ جائے تو اُس کی قیمت بڑھ جاتی ہے ، بالکل اسی طرح جب جب ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہو گا اس کی قیمت بڑھے گی اور ہم یہی کہیں گے کہ روپے کی قدر میں کمی ہوئی ہے۔مسلم لیگ ن کی حکومت نے 1997 میں پاکستان کے مرکزی بینک یعنی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو ایک قانون کے ذریعے خو مختار حیثیت دی تھی۔ اس کے لیے جو قواعد تیار کیے گئے ان میں صاف طور پر لکھا ہے کہ غیر ملکی کرنسیوں کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر پر نظر رکھنا (یا اسے مینیج کرنا) اسٹیٹ بینک کی ذمے داری ہے۔
ادھر کراچی میں ایک ''سسٹم''ہے جسے ''انٹر بینک ''مارکیٹ کہا جاتا ہے۔ اس نظام میں تمام نجی و سرکاری بینک منسلک ہوتے ہیں۔ یہاں پر روپے کی قیمت یا یوں کہیے کہ ڈالر کی قیمت طے ہو رہی ہوتی ہے۔ اس مارکیٹ کو سبزی منڈی سمجھ لیجیے جہاں ہر صبح مختلف سبزیوں کے ٹرکوں کی نیلامی ہوتی ہے جہاں پر بنیادی طور پر اس سبزی کی قیمت طے ہو جاتی ہے۔ انٹر بینک مارکیٹ میں تقریباً یہی ہو رہا ہوتا ہے اور نجی و سرکاری بینک، کرنسی ایکسچینج کمپنیاں اور درآمد اور برآمد کنندگان آڑھتیوں کا کردار ادا کرتے ہیں۔
اگر اچانک ملک کی دو تین بڑی درآمد کنندگان، یعنی امپورٹرز کو بڑے ٹھیکے مل جاتے ہیں اور انھیں اچانک بہت سے ڈالرز کی ضرورت پڑ جاتی ہے تو وہ اسی انٹر بینک مارکیٹ سے ڈالر خریدنے کا آرڈر بک کرائے گا۔ مثلاً بین الاقوامی منڈی سے تیل خریدنے کے لیے ایک کمپنی نے ایک بڑا آرڈر بک کرایا اور انٹر بینک مارکیٹ سے ایک ہفتے بعد دو کروڑ ڈالر خریدنے کا آرڈر بک کرا دیا۔ اس دوران ایک اور کمپنی نے کچھ اور مال درآمد کرنے کے لیے مزید دو کروڑ ڈالر خرید لیے تو پاکستانی مارکیٹ میں موجود ڈالرز کم ہو جائیں گے اور اس کی قیمت اچانک دباؤ کا شکار ہو کر بڑھ جائے گی۔
اب پرانی حکومتیں اس موقع پر اسٹیٹ بینک کو زبانی کلامی آرڈر جاری کرتی تھیں کہ چند لاکھ ڈالر مارکیٹ میں پھینک دے تاکہ روپے پر مزید دباؤ نہ پڑے۔ اسٹیٹ بینک بھی ہو بہو یہی کام کرتا ہے جس سے ڈالر کو مزید بڑھنے سے روک دیا جاتا ۔ اب معاشی ماہرین کے مطابق نئی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل میں یہ بات سب سے اوپر رکھی تھی کہ اسٹیٹ بینک اس قسم کی مداخلت سے باز رہے۔ لہٰذااگر یہی حال رہا تو عمران خان کے دور میں ڈالر 200روپے پر بھی جانے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
اب اگر کوئی حکومتی وزیر یہ کہے کہ '' ڈالر پر حکومت کا اختیار نہیںاور ویسے بھی پاکستان کی 90فیصد عوام کا ڈالر سے کوئی لینا دینا نہیں ''تو یقین مانیں عوام کا غصہ جائز ہے، کیوں کہ پاکستان میں موجود 83فیصد اشیائے ضروریہ بیرون ملک سے درآمد کی جاتی ہیں، اس لیے ہر چیز مہنگی ہونا فطری عمل ہے اور عمران خان اقتدار سے باہر بیٹھ کر خود کہا کرتے تھے کہ اگر ڈالر کے مقابلے میں ایک روپیہ کم ہوتا ہے بیٹھے بٹھائے 7ارب روپے کا قرضہ چڑھ جاتا ہے۔ لیکن آج افسوس کا مقام ہے کہ حکومتی عہدیدار خود کہہ رہے ہیں کہ ڈالر کے بڑھنے کا انھیں بھی ٹی وی ہی سے معلوم ہوا ہے۔ ویسے بھی سوشل میڈیا کے ذریعے یہ مہم چلائی جا رہی ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے میں لین دین کریں اور حب الوطنی کا ثبوت دیں۔ یہ انتہائی گھناؤنا مذاق ہے کہ حب الوطنی کی آڑ میں ہم لوگ ملک کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج ہماری کرنسی ایشیا کی کمزور ترین کرنسیوں میں شمار ہو رہی ہے۔
ڈالر کی اہمیت جاننے کے لیے اتنا جاننا ضروری ہے کہ ایک وقت تھا کہ روسی کرنسی دنیا کی مضبوط ترین کرنسی تھی، 1984ء میں چار ڈالروں کا ایک روبل تھا، سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ایک ڈالر کے عوض 1350روبل ہوگئے۔ اس کے بعد روس نے اپنی کرنسی کو مضبوط کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر اس وقت بھی ایک ڈالر تقریباً63روبل کا ہے۔ڈالر کے خلاف کئی ممالک برسرِپیکار ہیں۔ڈالر کی حاکمیت سے تنگ آکر یورپ نے اپنی کرنسی ''یورو'' شروع کرلی ہے۔ڈالر کے ساتھ ترکی کا لیرابھی مسلسل حالتِ جنگ میں ہے۔1990 میں ترکی کا لیرا بھی 4000کے برابر ایک ڈالر تھا ۔
ترکی نے بڑی محنت کے ساتھ لیرے کی قدر میں اضافہ کیا مگر اس وقت پھر لیرا مسلسل گر رہا ہے مگر روپے کی طرح نہیں۔اس وقت بھی ایک لیرا خریدنے کے لیے 27 روپے دینے پڑتے ہیں۔ترکی کے سینٹرل بینک کی جانب سے ملک کی کرنسی لیرا کی قدر میں ہونے والی کمی کو روکنے میں ناکامی کے بعد ترک صدر رجب طیب اردوان نے امریکا پراُن کے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچانے کاالزام عائد کیا ہے۔ یعنی کرنسی کی قدر جب گرتی ہے تو زندہ قوموں کو کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ڈالر کے مقابلے میں لیرا کو مستحکم کرنے کے لیے جب اردوان نے اپیل کی تھی کہ جہاں تک ممکن ہوسکے ڈالر کو چھوڑ کر لیرا میں کاروبار کیجیے تو سب سے پہلے قطر نے کہا تھا کہ وہ لیرا میں تیل فروخت کرے گا۔پاکستان نے بھی چین کے ساتھ ڈالر کے بجائے یوآن اور روپے میں کاروبار کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔لیکن ڈالر ہے کہ کسی طرح ٹس سے مس ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ حالات تو یہ ہیں کہ پاکستان میں بعض فائیو اسٹار ہوٹلوں نے اپنے گاہکوں سے روپے کے بجائے ڈالروں میں بل لینا شروع کر دیا ہے۔ یعنی انھیں پاکستان کی کرنسی پر اعتبار نہیں رہا۔
بہرکیف نہ جانے کب تک روپے کی قدر میں گراوٹ آتی رہے گی۔عوام پریشان ہیں کہ کوئی وزیر مشیر اس حوالے سے تسلی بھی نہیں دے رہا، تحریک انصاف کی بچی کچھی معاشی ٹیم ٹیکس ریکوری کے لیے دن رات کیے ہوئے ہے۔ بندہ پوچھے جب کاروبار ہی نہیں رہے گا تو کیسی ٹیکس ریکوری ؟ اس لیے نہ جانے کب تک قرضوں کا عفریت آیندہ نسلوں کو نگلتا رہے گا ۔کب تک دشتِ غربت میں ہڈیاں اگتی رہیں گی۔ کب تک جھونپڑیوں میں دیے بجھتے رہیں گے۔کب تک بنگلوں میں شادیانے بجتے رہیں گے۔کیا واقعی آسمان ہم سے مایوس ہو گیا ہے۔نہیں نہیں۔ ہماری معیشت کوئی مردہ معیشت نہیں، اُس کی رگوں میں خون کی گردش جاری ہے۔ ہماری کرنسی کے قدم کسی ایسی ڈھلوان پر نہیں جہاں پاؤں جمانا ممکن ہی نہ ہو۔ مجھے یقین ہے روپیہ کی قدر میں اب اور کمی نہیں آئے گی اور حکومت ہوش کے ناخن لے گی ۔
عمران خان کو چاہیے کہ معیشت کا باریک بینی سے جائزہ خود لیں اور روپے کی قدر مستحکم کرنے کے لیے کچھ کریں اوریہ جو اپوزیشن تحریک چلانے کا سوچ رہی ہے۔ اِس کی فکر نہ کریں۔اگر اس میں کوئی جان ہوتی تو اس کی سربراہی مولانا فضل الرحمن کے پاس نہ ہوتی۔اپوزیشن حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ لوگ کم از کم پانچ سال تک انتظار کریں گے اورپھر بھی اِن کے کہنے پر باہر نہیں آئیں گے۔اِن کا زمانہ بیت چکا ہے۔عوام جان چکے ہیں کہ ان کی جیب کس نے کاٹی ہے۔قوم کو اسد عمر یہ بھی بتاچکے ہیں کہ ملک ڈیفالٹ ہوچکا تھا۔
بس اتنی سی بات ہے کہ ہم نے اعلان نہیں کیااور خاموشی سے آئی ایم ایف کے پاس چلے گئے۔مگر یہ بھی طے ہے کہ ملک کواس مقام پر صرف شریف اور زرداری فیملی نے نہیں پہنچایا۔ملک کو لوٹنے والے اور بھی ہزاروں ہیں۔دکھ یہی ہے کہ ابھی تک انھیں کچھ نہیں کہا گیا۔ صرف اُن سے ٹیکس دینے کی اپیلیں کی گئی ہیں۔ان افراد میں آپ کی حکومت کے لوگ بھی ہو سکتے ہیں ، جو آپ کو اندھیرے میں رکھے ہوئے ہیں، انشاء اﷲ اس پر گزشتہ روز کسی دن کالم لکھوں گا کہ آخر کیوں حکومتی وزراء کے چہرے پر انتہائی برے معاشی حالات میں بھی سنجیدگی دکھائی نہیں دے رہی؟ یقینا یہ عمران خان کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہر طرف مایوسی کے بادل کیوں چھا رہے ہیں اور اب اگر عمران خان اگلے 5سال تک ڈالر کو یہیں مستحکم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یقینا یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی!