قہر میں بدلتی زندگی
ہر حکمران اپنے پیشرو سے برا ہی ثابت ہوتا ہے۔
عوام کی زندگی میں مسائل اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ ہم جو روز سیاست پر لکھ کر صفحے کالے کرتے ہیں،دل یہ کرتا ہے کہ جن لوگوں کی سیاست پر عمر بھر لکھتے رہے اب عوام کے مسائل پر لکھ کر ان لوگوں کے منہ کالے کیے جائیں کہ انھوں نے ایک امیر ملک اور خوشحال قوم کو زندگی سے بیزار کر دیا ہے۔
حالات یہ ہیں کہ جب بھی کوئی نئی حکومت آتی ہے تو ہم عوام بڑی خوش دلی سے اس کا استقبال کرتے ہیں کہ شائد یہی وہی لوگ ہوں جو ہمارے دکھوں کا مداوا کریں یا اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ فرض سونپا ہے کہ وہ عوام کی خدمت کریں لیکن شو مئی قسمت کہ ہر دفعہ ہمارے اعتبار کا خون ہو جاتا ہے۔ یعنی ہر حکمران اپنے پیشرو سے برا ہی ثابت ہوتا ہے۔ جب سے موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے تو جو امیدکے دیے عوام نے روشن کر لیے تھے ان کی لوئیں آہستہ آہستہ بجھتی جا رہی ہیں اور مجھے خطرہ ہے کہ کہیں وہ وقت نہ آ جائے کہ جب امید کا یہ دیا بھی بجھ جائے، اس سے زیادہ بد قسمتی پاکستانی عوام کی کوئی اور نہیں ہو گی۔
ادھر کچھ عرصہ سے ہمارے ایک کمزور دل دوست کا یہ معمول بن گیا ہے کہ جب انھیں کوئی بل موصول ہوتا ہے تو وہ اسے دیکھنے کی جرات کیے بغیر اسے الگ سے رکھ دیتے ہیں اور اپنے اندر حوصلہ اور ایسی ہمت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اس بل کو دیکھ سکیں۔ پھر وہ کانپتے ہاتھوں سے بل اٹھاتے ہیں، عینک صاف کرتے ہیں، آنکھوں کو پونچھتے ہیں اور دل کڑا کر کے اس بل کی رقم کو دیکھتے ہیں ۔ اس جانکاہ مرحلے سے گزرنے کے بعد وہ اپنے ماہانہ اخراجات میں سے اس بل کی رقم نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی بل چونکہ اکیلا نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ کم از کم دو تین بل اور بھی ہوتے ہیں اس لیے وہ موصول ہونے والے اور موصول شدہ بلوں کی رقم جوڑتے ہیں ۔
آنے والے بلوں کا وہ صرف مبالغہ آمیز اندازہ لگا سکتے ہیں لیکن جب وہ بل موصول ہوتے ہیں تو ان کے سارے اندازے غلط ہو جاتے ہیں ،اس لیے اب وہ اللہ کا نام لے کر ایک معقول رقم اپنے روز مرہ اخراجات میں سے الگ کر لیتے ہیں جس کے بعد ان کی جیب تقریباً خالی ہو جاتی ہے اور اس خالی جیب کی پہلی ضرب باورچی خانے پر پڑتی ہے دوسری ان کی بیوی پر جس کو کپڑے پہلے سے زیادہ دھونے پڑتے ہیں اور ڈانٹ ڈپٹ میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ بلوں کا غصہ اس بے چاری پر نکلتا ہے اور یوں پورا مہینہ ایک برہمی کی کیفیت میں گزر جاتا ہے۔
مسلسل فاقہ زدگی کسی اچانک خرچے کا خوف اور بعض ضروری اشیائے صرف اور ادویہ سے محرومی۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان کی سخت جانی کا مجھے اب اندازہ ہو اہے ۔ خدا کا یہ فرمان یاد آتا ہے کہ اگر میں اپنے کلام کو پہاڑوں پر نازل کرتا تو وہ ریزہ ریزہ ہو جاتے ۔ پورا مہینہ اسی اعصاب شکن کیفیت میں گزر جاتا ہے اور پھر دوسرا مہینہ آ جاتا ہے۔ نئے بل نئے اخراجات اور نئی مہنگائی ، ہر آنے والا مہینہ پہلے سے زیادہ سخت ہوتا ہے ، ہر مہینہ قہر درویش بر جان درویش بن کر آتا ہے اور درویش کو دوسرے مہینے کے قہر کے حوالے کر کے گزر جاتا ہے۔
مجھے اپنے اس دوست میں اپنی تصویر نظر آتی ہے اس دفعہ سردیوں میں تو جو گیس کے بلوں نے کڑاکے نکالے وہ اپنی جگہ لیکن گرمیوں میں بھی گیس کے بل کسی قہر سے کم نہیں آ رہے ۔ بجلی گیس پانی اور ٹیلی فون یہ ایسی ضرورتیں ہیں جن کے بغیر زندگی کا تصور مشکل ہے اور یہ ایسی ضروریات ہیں جن کے بلوں کے ساتھ زندگی کا تصور مشکل ہے۔
انسانی ضروریات فراہم کرنے والے ان محکموں میں میرے کئی مہربان موجود ہیں، میں جب اپنی تسلی کے لیے ان سے بلوں کی تفصیلات پوچھتا ہوں تو ان کا حساب کتاب میری سمجھ میں نہیں آتا البتہ ان کا ایک جواب میری سمجھ میں ضرور آتا ہے کہ یہ بڑی زیادتی ہے، اس کے خلاف ٹکا کر لکھو۔ اس پر میں قہقہہ بلند کر کے ٹیلی فون بند کر دیتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ میرے دوست میرے قہقہے کی تلخی کو محسوس کریں۔
اس سال میں نے حکومتی ارادوں کو بھانپتے ہوئے گرمیوں کے آغاز میں ہی اپنے پرانے کولر کی مرمت کرا لی تا کہ جب تک کولر قابل استعمال ہو سکتا ہے اس کی ٹھنڈی اور تازہ ہوا سے لطف اٹھاتا رہوں اور بجلی کے بل کی مد میں کچھ بچت بھی کر لوں لیکن جب بل موصول ہوئے ہیں تو ہر طرف گرم ہواؤں کے جھونکے ہیں اور گزشتہ برس کی نسبت کم یونٹ استعمال کرنے کے باوجود بل بڑھ چکا ہے اور وہ بھی ایئرکنڈیشنر کے بغیر۔ اب جب لاہور میں حبس کا موسم شروع ہو گیا ہے تو چار و ناچار ایئر کنڈیشنر کا استعمال شروع کر دیا ہے۔ بل کا احوال اگلے مہینے بتاؤں گا۔ بجلی کے بلوں کو دیکھتے ہوئے مجھے اپنا گاؤں یاد آتا ہے۔
وہاں موسم کی مہربانی کی وجہ سے بجلی کا استعمال کم ہوتا ہے، اس لیے بل بھی کم آتا ہے اور کھانا پینا تو چلتا ہی رہتا ہے۔ گاؤں کی زندگی میں کوئی بھوکا نہیں ہوتا ۔ پنجاب کے ایک زمیندار نواب کالا باغ کہا کرتے تھے کہ زمین پر مالک کا قدم کھاد ہوتا ہے۔ میں جب گاؤں میں رہوں گا تو ظاہر ہے زمین کی رکھوالی بھی کروں گا اور جلد ہی اس پوزیشن میں ہوں گا کہ لاہور میں رہنے والے بلوں کے مارے ہوئے اپنے دوستوں کی مالی مدد بھی کر سکوں گا۔ عین ممکن ہے کہ میرا یہ دوست جس کا ہر مہینہ بلوں کے قہر میں گزرتا ہے، زیادہ نہیں تو سال بھر میں دو چار ماہ اس قہر سے نجات پا سکے۔
لاہور میں رہ کر میں صرف ایک کالم لکھتا ہوں لیکن اس کالم کا کوئی اثر میں نے آج تک نہیں دیکھا ۔ مرحوم صدر ضیاء الحق نے ایک بار لاہور میں ایک تقریر میں کہا تھا کہ قادر حسن کے کسی نہ کسی کالم کا اثر دو تین ماہ تک رہتا ہے لیکن ان کی ذات گرامی پر میرے کالم کا اثر کبھی ایک دن بھی نہیں رہا اور اگر کسی پر میرا کالم اثر کر بھی دے تو وہ اکثر ایسا شخص ہوتا ہے جو حالات کے قہر میں خود گرفتار ہوتا ہے۔ کبھی کبھار اگر کسی بڑے آدمی پر کسی کالم کا کوئی اثر ہو جائے تو وہ اس کو اپنی ذات تک ہی محدود رکھتا ہے ان کے علاوہ جو قارئین ہیں وہ ایسے افتادگان خاک اور خاک بسر لوگ ہیں جو ہم سے بھی زیادہ کشتہ تیغ ستم ہیں۔
میں اپنے حکمرانوں سے مودبانہ پوچھتا ہوں کہ کیا کسی شہر میں رہنا کوئی جرم ہے۔ انھوں نے ہم لوگوں پر خدا کی دی ہوئی زندگی کو قہر میں کیوں بدل دیا ہے۔
حالات یہ ہیں کہ جب بھی کوئی نئی حکومت آتی ہے تو ہم عوام بڑی خوش دلی سے اس کا استقبال کرتے ہیں کہ شائد یہی وہی لوگ ہوں جو ہمارے دکھوں کا مداوا کریں یا اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ فرض سونپا ہے کہ وہ عوام کی خدمت کریں لیکن شو مئی قسمت کہ ہر دفعہ ہمارے اعتبار کا خون ہو جاتا ہے۔ یعنی ہر حکمران اپنے پیشرو سے برا ہی ثابت ہوتا ہے۔ جب سے موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے تو جو امیدکے دیے عوام نے روشن کر لیے تھے ان کی لوئیں آہستہ آہستہ بجھتی جا رہی ہیں اور مجھے خطرہ ہے کہ کہیں وہ وقت نہ آ جائے کہ جب امید کا یہ دیا بھی بجھ جائے، اس سے زیادہ بد قسمتی پاکستانی عوام کی کوئی اور نہیں ہو گی۔
ادھر کچھ عرصہ سے ہمارے ایک کمزور دل دوست کا یہ معمول بن گیا ہے کہ جب انھیں کوئی بل موصول ہوتا ہے تو وہ اسے دیکھنے کی جرات کیے بغیر اسے الگ سے رکھ دیتے ہیں اور اپنے اندر حوصلہ اور ایسی ہمت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اس بل کو دیکھ سکیں۔ پھر وہ کانپتے ہاتھوں سے بل اٹھاتے ہیں، عینک صاف کرتے ہیں، آنکھوں کو پونچھتے ہیں اور دل کڑا کر کے اس بل کی رقم کو دیکھتے ہیں ۔ اس جانکاہ مرحلے سے گزرنے کے بعد وہ اپنے ماہانہ اخراجات میں سے اس بل کی رقم نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی بل چونکہ اکیلا نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ کم از کم دو تین بل اور بھی ہوتے ہیں اس لیے وہ موصول ہونے والے اور موصول شدہ بلوں کی رقم جوڑتے ہیں ۔
آنے والے بلوں کا وہ صرف مبالغہ آمیز اندازہ لگا سکتے ہیں لیکن جب وہ بل موصول ہوتے ہیں تو ان کے سارے اندازے غلط ہو جاتے ہیں ،اس لیے اب وہ اللہ کا نام لے کر ایک معقول رقم اپنے روز مرہ اخراجات میں سے الگ کر لیتے ہیں جس کے بعد ان کی جیب تقریباً خالی ہو جاتی ہے اور اس خالی جیب کی پہلی ضرب باورچی خانے پر پڑتی ہے دوسری ان کی بیوی پر جس کو کپڑے پہلے سے زیادہ دھونے پڑتے ہیں اور ڈانٹ ڈپٹ میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ بلوں کا غصہ اس بے چاری پر نکلتا ہے اور یوں پورا مہینہ ایک برہمی کی کیفیت میں گزر جاتا ہے۔
مسلسل فاقہ زدگی کسی اچانک خرچے کا خوف اور بعض ضروری اشیائے صرف اور ادویہ سے محرومی۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان کی سخت جانی کا مجھے اب اندازہ ہو اہے ۔ خدا کا یہ فرمان یاد آتا ہے کہ اگر میں اپنے کلام کو پہاڑوں پر نازل کرتا تو وہ ریزہ ریزہ ہو جاتے ۔ پورا مہینہ اسی اعصاب شکن کیفیت میں گزر جاتا ہے اور پھر دوسرا مہینہ آ جاتا ہے۔ نئے بل نئے اخراجات اور نئی مہنگائی ، ہر آنے والا مہینہ پہلے سے زیادہ سخت ہوتا ہے ، ہر مہینہ قہر درویش بر جان درویش بن کر آتا ہے اور درویش کو دوسرے مہینے کے قہر کے حوالے کر کے گزر جاتا ہے۔
مجھے اپنے اس دوست میں اپنی تصویر نظر آتی ہے اس دفعہ سردیوں میں تو جو گیس کے بلوں نے کڑاکے نکالے وہ اپنی جگہ لیکن گرمیوں میں بھی گیس کے بل کسی قہر سے کم نہیں آ رہے ۔ بجلی گیس پانی اور ٹیلی فون یہ ایسی ضرورتیں ہیں جن کے بغیر زندگی کا تصور مشکل ہے اور یہ ایسی ضروریات ہیں جن کے بلوں کے ساتھ زندگی کا تصور مشکل ہے۔
انسانی ضروریات فراہم کرنے والے ان محکموں میں میرے کئی مہربان موجود ہیں، میں جب اپنی تسلی کے لیے ان سے بلوں کی تفصیلات پوچھتا ہوں تو ان کا حساب کتاب میری سمجھ میں نہیں آتا البتہ ان کا ایک جواب میری سمجھ میں ضرور آتا ہے کہ یہ بڑی زیادتی ہے، اس کے خلاف ٹکا کر لکھو۔ اس پر میں قہقہہ بلند کر کے ٹیلی فون بند کر دیتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ میرے دوست میرے قہقہے کی تلخی کو محسوس کریں۔
اس سال میں نے حکومتی ارادوں کو بھانپتے ہوئے گرمیوں کے آغاز میں ہی اپنے پرانے کولر کی مرمت کرا لی تا کہ جب تک کولر قابل استعمال ہو سکتا ہے اس کی ٹھنڈی اور تازہ ہوا سے لطف اٹھاتا رہوں اور بجلی کے بل کی مد میں کچھ بچت بھی کر لوں لیکن جب بل موصول ہوئے ہیں تو ہر طرف گرم ہواؤں کے جھونکے ہیں اور گزشتہ برس کی نسبت کم یونٹ استعمال کرنے کے باوجود بل بڑھ چکا ہے اور وہ بھی ایئرکنڈیشنر کے بغیر۔ اب جب لاہور میں حبس کا موسم شروع ہو گیا ہے تو چار و ناچار ایئر کنڈیشنر کا استعمال شروع کر دیا ہے۔ بل کا احوال اگلے مہینے بتاؤں گا۔ بجلی کے بلوں کو دیکھتے ہوئے مجھے اپنا گاؤں یاد آتا ہے۔
وہاں موسم کی مہربانی کی وجہ سے بجلی کا استعمال کم ہوتا ہے، اس لیے بل بھی کم آتا ہے اور کھانا پینا تو چلتا ہی رہتا ہے۔ گاؤں کی زندگی میں کوئی بھوکا نہیں ہوتا ۔ پنجاب کے ایک زمیندار نواب کالا باغ کہا کرتے تھے کہ زمین پر مالک کا قدم کھاد ہوتا ہے۔ میں جب گاؤں میں رہوں گا تو ظاہر ہے زمین کی رکھوالی بھی کروں گا اور جلد ہی اس پوزیشن میں ہوں گا کہ لاہور میں رہنے والے بلوں کے مارے ہوئے اپنے دوستوں کی مالی مدد بھی کر سکوں گا۔ عین ممکن ہے کہ میرا یہ دوست جس کا ہر مہینہ بلوں کے قہر میں گزرتا ہے، زیادہ نہیں تو سال بھر میں دو چار ماہ اس قہر سے نجات پا سکے۔
لاہور میں رہ کر میں صرف ایک کالم لکھتا ہوں لیکن اس کالم کا کوئی اثر میں نے آج تک نہیں دیکھا ۔ مرحوم صدر ضیاء الحق نے ایک بار لاہور میں ایک تقریر میں کہا تھا کہ قادر حسن کے کسی نہ کسی کالم کا اثر دو تین ماہ تک رہتا ہے لیکن ان کی ذات گرامی پر میرے کالم کا اثر کبھی ایک دن بھی نہیں رہا اور اگر کسی پر میرا کالم اثر کر بھی دے تو وہ اکثر ایسا شخص ہوتا ہے جو حالات کے قہر میں خود گرفتار ہوتا ہے۔ کبھی کبھار اگر کسی بڑے آدمی پر کسی کالم کا کوئی اثر ہو جائے تو وہ اس کو اپنی ذات تک ہی محدود رکھتا ہے ان کے علاوہ جو قارئین ہیں وہ ایسے افتادگان خاک اور خاک بسر لوگ ہیں جو ہم سے بھی زیادہ کشتہ تیغ ستم ہیں۔
میں اپنے حکمرانوں سے مودبانہ پوچھتا ہوں کہ کیا کسی شہر میں رہنا کوئی جرم ہے۔ انھوں نے ہم لوگوں پر خدا کی دی ہوئی زندگی کو قہر میں کیوں بدل دیا ہے۔