بد بدنام اور نیک نام
آپ اسے اگر اپنا نیا حصہ دے دیتے یا اس سے اس کے حصے کو نہ چھینتے تو اسے ضرورت کیا تھی یا ہے۔
ISLAMABAD:
سائنس اور ایجادات واختراعات کی تاریخ میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص کوئی چیز ایجادکرنے لگا ہوتا ہے کہ اچانک اس کوشش میں کوئی اس سے بھی بڑی اور اچھی ایجاد یا دریافت ہو جاتی ہے، کہاوت کی زبان میں کہا جاتا ہے کہ آگ لینے گئے اور مل گئی پیغمبری۔ پشتو میں اس مضمون کا ایک ٹپہ ہے کہ:
دیدن میں غوختو خولہ ئے راکڑہ
خدایا سخی جینئی تہ ورکڑے جنتونہ
یعنی میں تو اس سے ''دیدار'' مانگ رہا تھا اور اس نے ''بوسہ'' دیا۔ خدا اس ''سخی '' کو جنتیں عطا فرما۔ ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہو گیا ہے کہ ہم تو ایک مشہور عام بلکہ بدنام جہاں کہاوت۔ ''بد سے بدنام پر'' تحقیق کر رہے تھے کہ آخر یہ ''بد'' کون ہے اور ''بدنام'' کون ہے۔ مطلب یہ کہ بچارے ''چور ڈاکو'' ویسے ہی بدنام جب کہ ''بد'' کوئی اور ہے، اس کے لیے بھی پشتو کی ایک کہاوت دُم ہلا رہی ہے کہ:
کھیت اجاڑا چڑیوں نے اور بدنام ہوئے کوے
لیکن درمیان میں اچانک یہ نکتہ نکل آیا کہ ''بدنام'' اور ''بد'' دونوں کو تو ''نیب'' کی شیشے والی ''گولی'' مارے۔ اس ''نیک نام'' کا پتہ لگانا چاہیے جو ان دونوں کے پیچھے چھپ کر بیٹھا ہوا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ''بد'' اور بدنام سے زیادہ برا یہ ''نیک نام'' ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تحقیق ہے کسی لیڈر کا بیان نہیں کہ خون کے آخری قطرے اور ''پہلی ترجیح'' کا پتہ ہی نہ لگایا جائے، تحقیق میں تو ہر ہر پہلو سے دیکھنا پڑتا ہے کہ چور تو سامنے ہے لیکن ''مور'' کہاں ہے؟ اور کہیں یہ ''مور'' انگریزی کا تو نہیں کہ دل مانگے مور مور مور۔
اور اچانک ہمیں پتہ چلا کہ ''بد'' اور ''بدنام'' دونوں ہی اتنے برے نہیں جتنا ان کے پیچھے چھپا ہوا ''نیک نام'' ہے کیونکہ ''نیک نام'' بننے کے لیے صرف ایک ''بیوی'' درکار ہوتی ہے یعنی بقول ''بگ بی'' جس کی بیوی چھوٹی یا موٹی یا کالی یا سفید اور یا لمبی یا ٹھگنی ہو اس کا بڑا نام ہوتا ہے۔
اور جب ہم نے اپنا ٹٹوئے تحقیق جو ہمارا ذریعہ سفر اور وسیلہ ظفر بھی ہے اور ڈفر آف ڈفر بھی کو دوڑایا تو پتہ چلا کہ یہ ''سارا'' شر تو اس نیک نام نے پھیلایا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر وہ جو ''بابل کے کنوئیں'' میں دوگناہگار الٹے لٹکے ہوئے ہیں اگر مکار عیار اور بدکار ''زہرہ'' نہ ہوتی تو گناہ کیسے کرتے۔ اگر وہ کم بخت بوٹا یا شجر نہ ہوتا تو ہمارے دادا جان کیوں گناہگار ہوتے۔ دادا جان پر جو گزری اور گزر رہی وہ تو سب کومعلوم ہے۔ لیکن اس طرف کسی کا دھیان ہی نہیں جاتا کہ وہ بوٹی جو کچھ بھی تھی عیسائیو ں کے نزدیک اگر ایپل بھی تھی تو آج ایپل کی نیک نامی کا یہ عالم۔ ایپل فار داڈے کیپ ڈاکٹر اوے۔ اور اگر گندم تھی تو آج ''گندم'' کی نیک نامی اور قدردانی کا بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اور بچاری وہ معصوم نادان بھولی بھالی ''پنڈورا'' اگر وہ آفتوں بھرا صندوق نہ ہوتا تو وہ کیا کھولتی یا بند کرتی؟
چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے
کتنے غم تھے جو ترے غم کے بہانے نکلے
اب اصل ''نیک نام'' اور ''بدنام'' کی طرف آتے ہیں جن کا ذکرقانون کی کتابوں میں سب سے زیادہ ہوتا ہے یعنی ''چور ڈاکو لیٹرا''۔ کیا دنیا کا پہلا ''چور'' مجرم تھا؟ یا وہ نیک نام جس نے تالا لگایا تھا۔ چار دیواری بنائی یا مال اکٹھا کیا تھا۔ اس کے پاس ایسا کچھ تھا جو دوسروں کے پاس نہ تھا۔ اور اسے یہی ڈر تھا کہ میرے پاس دوسروں سے کچھ ''زیادہ'' ہے اور وہ ''زیادہ'' اس بدبخت کو ''اٹریکٹ'' کر سکتا ہے جس کا پیٹ اس کی جیب اس کا گھر اور اس کا ہاتھ سب کے سب خالی ہیں۔
کیا اس کے پانچ سر تھے دس دس ہاتھ پیر تھے قد دوسرے سے لمبا چوڑا تھا۔ آخر کیا تھا اس کے پاس؟ جو اس کے پاس زیادہ تھا اور دوسرے کے پاس تھا ہی نہیں۔ ایک اور پشتو کہاوت دُم ہلا رہی ہے کہ خالی ''میدان'' سے آندھی کیا لے جائے گی؟ کچھ ہو گا تو اڑا کر لے جا سکتی ہے۔ اب ''بد'' کی بات کرتے ہیں جو ''بدنام'' کے ساتھ جڑا ہوا ہے یعنی قانون، کوتوال، قاضی اور ریاست؟ جو اس ''بدنام'' کے ساتھ وہ سب کچھ کرتے ہیں جو ''تالا'' لگانے والے ''نیک نام'' کے ساتھ ہونا چاہیے۔
آخر اس نے وہ ''زیادہ'' کیسے جمع کیا تھا یا ہے جو اس بچارے ''بھوکے ننگے'' بدنام کے لیے پرکشش ہے اور پرکشش ہے ہی کیوں؟ اگر اس کے پاس بھی ''اتنا'' اور ایسا ہوتا تو کیا وہ پاگل ہے یا تھا جو خواہ مخواہ نیند حرام کرکے ہزار خطرے مول کر اور ''بد'' کے بدسلوک کو بھول کر چوری کرتا ہے ڈاکہ ڈالتا ہے نقب لگاتا ہے جیب تراشتا ہے رہزنی کرتا ہے۔ آپ اسے اگر اپنا نیا حصہ دے دیتے یا اس سے اس کے حصے کو نہ چھینتے تو اسے ضرورت کیا تھی یا ہے۔ جو اپنی جان اپنا مستقبل اور اپنا نام خطرے میں ڈالے۔ لیکن جناب ''بد'' صاحب نے اپنے اس نیک نام ''ساجھے دار'' کو اس طرح اپنے حفظ و امان میں رکھا ہوا جس طرح کوئی اپنے ''کماؤ پوت'' کو رکھتا ہے، اس کے تمام ''کرتوتوں'' کو اپنے دائرے سے نکالا ہوا ہے، اب آپ سوچتے رہیے اور ہمیں رخصت دیجیے کہ ''برا'' کون ہے ''بد'' یا بدنام اور نیک نام؟۔
سائنس اور ایجادات واختراعات کی تاریخ میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص کوئی چیز ایجادکرنے لگا ہوتا ہے کہ اچانک اس کوشش میں کوئی اس سے بھی بڑی اور اچھی ایجاد یا دریافت ہو جاتی ہے، کہاوت کی زبان میں کہا جاتا ہے کہ آگ لینے گئے اور مل گئی پیغمبری۔ پشتو میں اس مضمون کا ایک ٹپہ ہے کہ:
دیدن میں غوختو خولہ ئے راکڑہ
خدایا سخی جینئی تہ ورکڑے جنتونہ
یعنی میں تو اس سے ''دیدار'' مانگ رہا تھا اور اس نے ''بوسہ'' دیا۔ خدا اس ''سخی '' کو جنتیں عطا فرما۔ ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہو گیا ہے کہ ہم تو ایک مشہور عام بلکہ بدنام جہاں کہاوت۔ ''بد سے بدنام پر'' تحقیق کر رہے تھے کہ آخر یہ ''بد'' کون ہے اور ''بدنام'' کون ہے۔ مطلب یہ کہ بچارے ''چور ڈاکو'' ویسے ہی بدنام جب کہ ''بد'' کوئی اور ہے، اس کے لیے بھی پشتو کی ایک کہاوت دُم ہلا رہی ہے کہ:
کھیت اجاڑا چڑیوں نے اور بدنام ہوئے کوے
لیکن درمیان میں اچانک یہ نکتہ نکل آیا کہ ''بدنام'' اور ''بد'' دونوں کو تو ''نیب'' کی شیشے والی ''گولی'' مارے۔ اس ''نیک نام'' کا پتہ لگانا چاہیے جو ان دونوں کے پیچھے چھپ کر بیٹھا ہوا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ''بد'' اور بدنام سے زیادہ برا یہ ''نیک نام'' ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تحقیق ہے کسی لیڈر کا بیان نہیں کہ خون کے آخری قطرے اور ''پہلی ترجیح'' کا پتہ ہی نہ لگایا جائے، تحقیق میں تو ہر ہر پہلو سے دیکھنا پڑتا ہے کہ چور تو سامنے ہے لیکن ''مور'' کہاں ہے؟ اور کہیں یہ ''مور'' انگریزی کا تو نہیں کہ دل مانگے مور مور مور۔
اور اچانک ہمیں پتہ چلا کہ ''بد'' اور ''بدنام'' دونوں ہی اتنے برے نہیں جتنا ان کے پیچھے چھپا ہوا ''نیک نام'' ہے کیونکہ ''نیک نام'' بننے کے لیے صرف ایک ''بیوی'' درکار ہوتی ہے یعنی بقول ''بگ بی'' جس کی بیوی چھوٹی یا موٹی یا کالی یا سفید اور یا لمبی یا ٹھگنی ہو اس کا بڑا نام ہوتا ہے۔
اور جب ہم نے اپنا ٹٹوئے تحقیق جو ہمارا ذریعہ سفر اور وسیلہ ظفر بھی ہے اور ڈفر آف ڈفر بھی کو دوڑایا تو پتہ چلا کہ یہ ''سارا'' شر تو اس نیک نام نے پھیلایا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر وہ جو ''بابل کے کنوئیں'' میں دوگناہگار الٹے لٹکے ہوئے ہیں اگر مکار عیار اور بدکار ''زہرہ'' نہ ہوتی تو گناہ کیسے کرتے۔ اگر وہ کم بخت بوٹا یا شجر نہ ہوتا تو ہمارے دادا جان کیوں گناہگار ہوتے۔ دادا جان پر جو گزری اور گزر رہی وہ تو سب کومعلوم ہے۔ لیکن اس طرف کسی کا دھیان ہی نہیں جاتا کہ وہ بوٹی جو کچھ بھی تھی عیسائیو ں کے نزدیک اگر ایپل بھی تھی تو آج ایپل کی نیک نامی کا یہ عالم۔ ایپل فار داڈے کیپ ڈاکٹر اوے۔ اور اگر گندم تھی تو آج ''گندم'' کی نیک نامی اور قدردانی کا بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اور بچاری وہ معصوم نادان بھولی بھالی ''پنڈورا'' اگر وہ آفتوں بھرا صندوق نہ ہوتا تو وہ کیا کھولتی یا بند کرتی؟
چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے
کتنے غم تھے جو ترے غم کے بہانے نکلے
اب اصل ''نیک نام'' اور ''بدنام'' کی طرف آتے ہیں جن کا ذکرقانون کی کتابوں میں سب سے زیادہ ہوتا ہے یعنی ''چور ڈاکو لیٹرا''۔ کیا دنیا کا پہلا ''چور'' مجرم تھا؟ یا وہ نیک نام جس نے تالا لگایا تھا۔ چار دیواری بنائی یا مال اکٹھا کیا تھا۔ اس کے پاس ایسا کچھ تھا جو دوسروں کے پاس نہ تھا۔ اور اسے یہی ڈر تھا کہ میرے پاس دوسروں سے کچھ ''زیادہ'' ہے اور وہ ''زیادہ'' اس بدبخت کو ''اٹریکٹ'' کر سکتا ہے جس کا پیٹ اس کی جیب اس کا گھر اور اس کا ہاتھ سب کے سب خالی ہیں۔
کیا اس کے پانچ سر تھے دس دس ہاتھ پیر تھے قد دوسرے سے لمبا چوڑا تھا۔ آخر کیا تھا اس کے پاس؟ جو اس کے پاس زیادہ تھا اور دوسرے کے پاس تھا ہی نہیں۔ ایک اور پشتو کہاوت دُم ہلا رہی ہے کہ خالی ''میدان'' سے آندھی کیا لے جائے گی؟ کچھ ہو گا تو اڑا کر لے جا سکتی ہے۔ اب ''بد'' کی بات کرتے ہیں جو ''بدنام'' کے ساتھ جڑا ہوا ہے یعنی قانون، کوتوال، قاضی اور ریاست؟ جو اس ''بدنام'' کے ساتھ وہ سب کچھ کرتے ہیں جو ''تالا'' لگانے والے ''نیک نام'' کے ساتھ ہونا چاہیے۔
آخر اس نے وہ ''زیادہ'' کیسے جمع کیا تھا یا ہے جو اس بچارے ''بھوکے ننگے'' بدنام کے لیے پرکشش ہے اور پرکشش ہے ہی کیوں؟ اگر اس کے پاس بھی ''اتنا'' اور ایسا ہوتا تو کیا وہ پاگل ہے یا تھا جو خواہ مخواہ نیند حرام کرکے ہزار خطرے مول کر اور ''بد'' کے بدسلوک کو بھول کر چوری کرتا ہے ڈاکہ ڈالتا ہے نقب لگاتا ہے جیب تراشتا ہے رہزنی کرتا ہے۔ آپ اسے اگر اپنا نیا حصہ دے دیتے یا اس سے اس کے حصے کو نہ چھینتے تو اسے ضرورت کیا تھی یا ہے۔ جو اپنی جان اپنا مستقبل اور اپنا نام خطرے میں ڈالے۔ لیکن جناب ''بد'' صاحب نے اپنے اس نیک نام ''ساجھے دار'' کو اس طرح اپنے حفظ و امان میں رکھا ہوا جس طرح کوئی اپنے ''کماؤ پوت'' کو رکھتا ہے، اس کے تمام ''کرتوتوں'' کو اپنے دائرے سے نکالا ہوا ہے، اب آپ سوچتے رہیے اور ہمیں رخصت دیجیے کہ ''برا'' کون ہے ''بد'' یا بدنام اور نیک نام؟۔