مفت قانونی امداد کیلئے لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی کے قیام کا بل منظور
وزیر قانون فروغ نسیم نے سول ضابطے میں ترمیم کا بل بھی پیش کردیا
قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی کے قیام کا بل منظور کرلیا۔
اسلام آباد میں قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس ہوا جس میں لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی کے قیام کا بل منظور کرلیا گیا۔
وزیر قانون فروغ نسیم نے بتایا کہ اتھارٹی وزارت انسانی حقوق کے ماتحت کام کرے گی اور صرف فوجداری مقدمات میں قانونی امداد فراہم کرے گی، قانون کے تحت مستحق افراد کو مفت قانونی امداد ملے گی اور اتھارٹی معمولی جرمانہ ادا نہ کرسکنے والے قیدیوں کا جرمانہ بھی ادا کریگی۔
وزیر قانون فروغ نسیم نے اجلاس میں سول ضابطے میں ترمیم کا بل پیش کیا تاہم بل پر ووٹنگ نہ ہوسکی۔ فروغ نسیم نے کہا کہ سول مقدمات کے فیصلوں میں چالیس چالیس سال لگ جاتے ہیں، حکم امتناع مل جاتا ہے لیکن سماعت کی باری نہیں آتی، اس ترمیم سے حکم امتناع کے باوجود سماعت نہیں رک سکے گی، ایک جج اگر حکم امتناع کی درخواست سن رہا ہے تو دوسرا مرکزی کیس سنے گا، سول مقدمات میں ایک ہی اپیل ہوگی، دوسری اپیل کا حق ختم کر رہے ہیں۔
وزیر قانون نے کہا کہ نئی ترمیم کے ذریعے ججز موقع پر جا کر بھی حالات کا جائزہ لے سکیں گے، کیس میں جواب جمع کرانے سمیت ہر مرحلے کا ٹائم فریم مقرر ہوگا، نئی ترمیم سے ڈیڑھ سال میں سول مقدمات کا فیصلہ ہوجائے گا، ملک بھر کی بار کونسلز کے نمائندوں اور ججز سے بھی رائے لے چکا ہوں، سول ضابطہ میں ترمیم کا بل صرف اسلام آباد کیلئے ہوگا۔
کمیٹی میں بل پر بحث ہوئی تاہم رائے شماری نہ ہوسکی۔
اسلام آباد میں قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس ہوا جس میں لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی کے قیام کا بل منظور کرلیا گیا۔
وزیر قانون فروغ نسیم نے بتایا کہ اتھارٹی وزارت انسانی حقوق کے ماتحت کام کرے گی اور صرف فوجداری مقدمات میں قانونی امداد فراہم کرے گی، قانون کے تحت مستحق افراد کو مفت قانونی امداد ملے گی اور اتھارٹی معمولی جرمانہ ادا نہ کرسکنے والے قیدیوں کا جرمانہ بھی ادا کریگی۔
وزیر قانون فروغ نسیم نے اجلاس میں سول ضابطے میں ترمیم کا بل پیش کیا تاہم بل پر ووٹنگ نہ ہوسکی۔ فروغ نسیم نے کہا کہ سول مقدمات کے فیصلوں میں چالیس چالیس سال لگ جاتے ہیں، حکم امتناع مل جاتا ہے لیکن سماعت کی باری نہیں آتی، اس ترمیم سے حکم امتناع کے باوجود سماعت نہیں رک سکے گی، ایک جج اگر حکم امتناع کی درخواست سن رہا ہے تو دوسرا مرکزی کیس سنے گا، سول مقدمات میں ایک ہی اپیل ہوگی، دوسری اپیل کا حق ختم کر رہے ہیں۔
وزیر قانون نے کہا کہ نئی ترمیم کے ذریعے ججز موقع پر جا کر بھی حالات کا جائزہ لے سکیں گے، کیس میں جواب جمع کرانے سمیت ہر مرحلے کا ٹائم فریم مقرر ہوگا، نئی ترمیم سے ڈیڑھ سال میں سول مقدمات کا فیصلہ ہوجائے گا، ملک بھر کی بار کونسلز کے نمائندوں اور ججز سے بھی رائے لے چکا ہوں، سول ضابطہ میں ترمیم کا بل صرف اسلام آباد کیلئے ہوگا۔
کمیٹی میں بل پر بحث ہوئی تاہم رائے شماری نہ ہوسکی۔