پانی کا قدرتی راستوں سے نکاس
ہرسال کے مون سون سیزن کے اخبارات کی فائلیں اٹھا کر دیکھ لیں کراچی میں جب بھی بارش ہوئی
ہمیشہ کی طرح اس برس بھی مون سون کی ابتدا کے ساتھ ہی ملک کے طول وارض میں موسم خوشگوار ہوگیا ،آسمان پر گھٹاؤں نے ڈیرے ڈال لیے اور وقفے وقفے سے بارشوں کے سلسلے کا آغاز ہوگیا۔عروس البلاد کراچی میں بھی روایت کے مطابق خاصی کم لیکن پھر بھی بارش ہوئی اور محض چند گھنٹوں کی بارش نے پورے شہر کو جل تھل کر دیا ۔ سڑکیں ندیوں ، نالوں کا منظر پیش کرنے لگیں اور محلے اورگلیاں نہروں اور تالابوں میں تبدیل ہوگئے ،ہر طرف پانی ہی پانی ہوگیا ، سڑکوں پر چلتی گاڑیوں کے انجن کئی کئی فٹ کھڑے پانی میں ڈوب جانے کے باعث بے حس و حرکت ہوگئے، پیدل چلنے والے بھی سڑکوں اور راستوں پر پانی میں ڈوبے گڑہوں میں گرتے پڑتے بمشکل اپنی منزل کو بڑھ پارہے تھے، اس مشکل صورتحال سے دوچار لوگوں کو ایک اور خطرہ بھی ہلکان کیے دے رہا تھا کہ بارش کے باعث کہیں بجلی کے کھمبوں اور تاروں سے برقی رو پانی میں داخل ہوکر شدید نقصانات کا سبب نہ بن جائے ، پانی کی سطح کم ہونے کے بجائے بلند ہوتی جارہی تھی، نشیبی بستیوں میں پانی گھروں میں داخل ہو کر پریشانی کا سبب بنا ۔ سعدی ٹاؤن ،امروہہ سوسائٹی اور ملحقہ علاقے تھدو ڈیم کا بند ٹوٹ جانے کے باعث ڈوب گئے اور بعض مکینوں کو مالی کے ساتھ ساتھ دلدوز جانی نقصانات کا بھی سامنا کر نا پڑا۔
ہرسال کے مون سون سیزن کے اخبارات کی فائلیں اٹھا کر دیکھ لیں کراچی میں جب بھی بارش ہوئی اس کے اگلے روز کے اخبارات کی شہ سرخیاں اور ذیلی سرخیاں بارش سے ہونے والی تباہی اور بربادی کی خبروں سے عبارت ملیں گی اور برسات کے سبب ہونیوالے اس ابتلا میں ہر دور کے ارباب بست و کشاد کی جانب سے وہی روایتی ،ہنگامی او ر ٹھوس اقدامات ، احکامات اور ہدایات کی خبریں بھی ساتھ ساتھ موجود نظر آئیں گی۔ سوال یہ ہے کہ اس شہر روزگار میں بارش جو یہاں سال میں خال خال اور ایک آدھ بار ہی ہوتی ہے کے پانی کے نکاس کے لیے کوئی قابل رشک اور دیر پا اقدام اب تک کیوں نہیں کیا گیا۔کیوں شہریوں کو محض بارش رک جانے کی دعائیں کرتے رہنے اور گھروں ، گلیوں اور محلوں سے پانی کے نکاس کرتے رہنے کی تھکا دینے والی جدوجہد پر مجبور رکھا گیا ہے ۔
ظاہر ہے کہ پورے شہر کے بارش کے پانی کا نکاس کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں بلکہ یہ امر نیک نیتی اور صدق دل کے ساتھ دیر پا اور با مقصد منصوبہ بندی کا متقاضی ہے ۔محض بارشوں کے موقعے پر چند مشینوں اور آٹھ دس انچ کے پائپوں کے ذریعے شہر کی کچھ سڑکوں سے پانی کا نکاس کیا جانا صرف ایک نمائشی اقدام سے زیادہ اور کوئی معانی نہیں رکھتا۔ کراچی میں بارش کے پانی کے نکاس کے لیے اگر کوئی پلاننگ کرنی ہے تو تقسیم سے قبل کے انگریز دور کی منصوبہ بندی سے خاطر خواہ سبق حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ اس مقصد کے لیے صرف اس ایک امر کو ملاحظہ کیجئے کہ کراچی سے ملک کے بالائی علاقوں کو جانے والی ریلوے لائن کو بچھاتے وقت اس بات کا کتنا خیال رکھا گیا کہ ہر وہ جگہ اور ہر وہ مقام جہاں بارش کے پانی کا نالہ، ندی، گذرگاہ اور حتیٰ کہ بارش کے پانی کے بہاؤ کے سبب پیدا ہوجانے والا نشیب موجود تھا کو بھی نظر رکھا گیا ۔
اور ریل کی پٹریاں بچھاتے وقت ان جگہوں کو مٹی اور پتھر بھر کر ختم نہیں کیا گیا بلکہ کمال ذمے داری اور دور اندیشی کے ساتھ ہر اس مقام پر جہاں سے بارش کے پانی کا گذر ہوتا تھا وہاں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ خوبصورت پل اور پلیائیں بنائی گئیں۔۔۔ مذکورہ ریلوے لائن کو بچھاتے وقت کی اس کمال ذمے داری کا مظاہرہ دیکھنا ہو تو محض کراچی کے سٹی ریلوے اسٹیشن سے لے کر گھگھر پھاٹک تک کی ہی ریلوے لائن کے نیچے سے گذرنے والی ندیوں،نالوں اور پانی کی گذر گاہوں پر پیلے رنگ کے پہاڑی پتھروں کی عمدگی کے ساتھ تراش کر بنائے گئے خوبصورت پلوں اور پلیاؤں کوملاحظہ کرلیں ۔
اس وقت کی ریلوے لائن بچھانے والے منصوبہ سازوں کی دور اندیشی ، حب الوطنی اور دیانت داری کوسلام پیش کرنا پڑتا ہے ۔ یاد رہے کہ قیام پاکستان کے وقت کراچی محض تین لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی کا شہر تھا ، آج کی آبادی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو گویا 'ویرانہ'تھا اور قیام پاکستان سے بھی کہیں قبل اس 'ویرانے' میں بھی جس وقت ریلوے لائن بچھائی گئی تو کس درجہ ذمے داری اور دور اندیشی کاثبوت دیا گیا۔ پانی کے نکاس کے ہر راستے ، ہر نشیب کا مکمل احترام کیا گیا۔ ریل کی پٹریاں بچھانے کی خاطر ان گذر گاہوں کو بند نہیں کیا گیا بلکہ ان پرخوبصورت چھوٹے بڑے پل بنا کرپانی کو اس کے گذرنے کی مکمل راہداری اورآزادی دی گئی ۔
اب آئیے تقسیم کے بعد کے ادوار میں پانی کی ان قدرتی گذر گاہوں کا احوال دیکھتے ہیں ۔فی الحال صرف کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن سے گھگر پھاٹک تک کی ریلوے لائن سے متصل علاقوں کی صورتحال پر نظر رکھیں تواندازہ ہوگا کہ پانی کی یہ قدرتی گذرگاہیں اب محض ریل کی پٹریوں کے نیچے ہی محفوظ رہ پائی ہیں ۔ ریلوے لائن کے دائیں بائیں پانی کے ان قدرتی راستوں کے آگے اورپیچھے نہایت بے دردی اور بد ترین بد نظمی کے ذریعے کثیرالمنزلہ عمارات کھڑی کرکے پانی کی ان قدرتی گذر گاہوں کو دفنادیا گیا ۔ جہاں کہیں پانی کی یہ گذر گاہیں موجودبھی ہیں تو تجاوزات کے سبب چوڑے چوڑے نالوں کے بجائے یہ محض نالیاں بن کے رہ گئی ہیں۔ ان میں بھی کوڑا کرکٹ ، مٹی پتھر کے ڈھیر بھرے ہوئے ہیں، کسی کو خیال نہیں آتا کہ جس پانی کا راستہ ہم روک رہے ہیں وہ غضبناک ہو کر بپھرے گا تو ہمیں ہی لے کر ڈوبے گا ۔ !!
سو سال سے زیادہ قدیم ریلوے لائن کے نیچے سے گذرنے والی پانی کی ان قدرتی گذر گاہوں کے مشاہدے کے بعد شہر کے ندی ، نالوں کا جائزہ لیں تو تجاوزات کروانے اور کرنے والوں کے مابین یہاں بھی مثالی اتفاق و اتحاد نظر آئے گا۔شہر کے بیچوں بیچ سے گذرنے والی لیاری ندی اور ملیر ندی کے کشادہ اور چوڑے پاٹوں جو بارشوں کے بعد لہلہاتے سبزہ زار کا منظر پیش کرتے تھے کو بے ہنگم تعمیرات کے ذریعے اس بے دردی سے سکیڑا گیا ہے جیسے کوئی طاقتور کسی کمزور کا گلا گھونٹتا ہے ۔ یہ ندیاں بعض مقامات پرنالیاں بن چکی ہیں اور نالیاں کچرے کے ڈھیر ۔ جس میں کوئی ڈوب جائے تو ہفتوں نہیں مل پاتا۔ پھر بھی بے حسی ہے کہ ختم ہونے کو نہیں آتی۔
شہر کا ایک بڑا نالہ چکورا نالہ ہے جو کراچی ائر پورٹ کے پیچھے سے شروع ہو کر ناتھا خان گوٹھ پر شارع فیصل کے نیچے سے گذرتا ، شاہ فیصل کالونی کو عبور کرتا ملیر ندی میں جا ملتا ہے ۔ گلستان جوہر اور ائرپورٹ کے سنگم پر اس نالے کے بالکل کنارے پر ہوتی ہوئی تعمیرات کے سبب اس کا پاٹ انتہائی تنگ ہوگیا ہے ۔ یہی حال اس سے پیچھے اور آگے کے مقامات پر بھی ہے ائیرپورٹ کے علاقے کے برساتی نالوں کے چکورا نالے کے ساتھ ملاپ کے تقریبا تمام راستوں کو تجاوزات کے ذریعے غائب کردیاگیاہے نتیجتاًجب بارش ہوتی ہے تو ناتھا خان گوٹھ سے لے کرچھوٹاگیٹ تک کے قرب وجوارکا تمام علاقہ دریاکا منظرپیش کررہاہوتاہے۔ شہر کی آبادیوں میں تین تین چار چار فٹ گہرے اور آٹھ فٹ اور اس سے بھی زیادہ چوڑے نالے جو عرصہ دراز سے موجود تھے اور گندے پانی کے ساتھ ساتھ بوقت ضرورت بارش کے پانی کی روانی سے نکاسی کے منتظم کی حیثیت کے بھی حامل تھے۔
ان میں سے بھی اکثر کو پاٹ کر ان کی جگہ پر بارہ انچ ، سولہ انچ قطر کی نکاسی آب کی لائینیں ڈال دی گئی ہیں ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان لائنوں کو زمین میں بچھانے کے لیے جن مزدوروں سے گڑھے کھدوائے جاتے ہیں وہی مزدور ان لائنوں کوبچھانے کی انجینئرنگ کے فرائض انجام دیتے ہیں۔چونکہ ان لائنوں کو ایسی شاہکار انجینئرنگ کے ذریعے زمین کے نیچے دبایا گیا ہے لہذا پتا ہی نہیں چلتا کہ ان میں سے کہاں پانی گذر رہا ہے اور کہاںرکا کھڑا ہے۔ چنانچہ ان لائنوں سے پانی کے نکاس نہ ہونے کے سبب آس پاس کی سڑکیں سابقہ نالوں کی صورت اختیار کر جاتی ہیں ، مصیبت ظاہر ہے کہ شہریوں کوہی اٹھانی پرتی ہے۔
اگر کراچی کے شہریوں کو ابر رحمت سے فیضیاب کرنا مقصو د ہے تو سب سے پہلے پانی کی ان تمام قدیم اور قدرتی گذرگاہوں کو ان کی قدیمی یعنی اصلی شکل میں واپس لانا ہوگا۔ چاہے ان قدرتی گذر گاہوں کی اصل شکل میں بحالی کے لیے کتنی ہی تجاوزات اور مفادات کوڈھانا پڑے، بصورت دیگر گذرے ہوئے برسوں کی طرح آیندہ ہر برسات کے بعد تباہی اور بربادی کی خبریں اخباروں کی سرخیاں بن کر ہمیں تاریخ کا افسوسناک حصہ بناتی رہیں گی۔۔۔!!!
ہرسال کے مون سون سیزن کے اخبارات کی فائلیں اٹھا کر دیکھ لیں کراچی میں جب بھی بارش ہوئی اس کے اگلے روز کے اخبارات کی شہ سرخیاں اور ذیلی سرخیاں بارش سے ہونے والی تباہی اور بربادی کی خبروں سے عبارت ملیں گی اور برسات کے سبب ہونیوالے اس ابتلا میں ہر دور کے ارباب بست و کشاد کی جانب سے وہی روایتی ،ہنگامی او ر ٹھوس اقدامات ، احکامات اور ہدایات کی خبریں بھی ساتھ ساتھ موجود نظر آئیں گی۔ سوال یہ ہے کہ اس شہر روزگار میں بارش جو یہاں سال میں خال خال اور ایک آدھ بار ہی ہوتی ہے کے پانی کے نکاس کے لیے کوئی قابل رشک اور دیر پا اقدام اب تک کیوں نہیں کیا گیا۔کیوں شہریوں کو محض بارش رک جانے کی دعائیں کرتے رہنے اور گھروں ، گلیوں اور محلوں سے پانی کے نکاس کرتے رہنے کی تھکا دینے والی جدوجہد پر مجبور رکھا گیا ہے ۔
ظاہر ہے کہ پورے شہر کے بارش کے پانی کا نکاس کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں بلکہ یہ امر نیک نیتی اور صدق دل کے ساتھ دیر پا اور با مقصد منصوبہ بندی کا متقاضی ہے ۔محض بارشوں کے موقعے پر چند مشینوں اور آٹھ دس انچ کے پائپوں کے ذریعے شہر کی کچھ سڑکوں سے پانی کا نکاس کیا جانا صرف ایک نمائشی اقدام سے زیادہ اور کوئی معانی نہیں رکھتا۔ کراچی میں بارش کے پانی کے نکاس کے لیے اگر کوئی پلاننگ کرنی ہے تو تقسیم سے قبل کے انگریز دور کی منصوبہ بندی سے خاطر خواہ سبق حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ اس مقصد کے لیے صرف اس ایک امر کو ملاحظہ کیجئے کہ کراچی سے ملک کے بالائی علاقوں کو جانے والی ریلوے لائن کو بچھاتے وقت اس بات کا کتنا خیال رکھا گیا کہ ہر وہ جگہ اور ہر وہ مقام جہاں بارش کے پانی کا نالہ، ندی، گذرگاہ اور حتیٰ کہ بارش کے پانی کے بہاؤ کے سبب پیدا ہوجانے والا نشیب موجود تھا کو بھی نظر رکھا گیا ۔
اور ریل کی پٹریاں بچھاتے وقت ان جگہوں کو مٹی اور پتھر بھر کر ختم نہیں کیا گیا بلکہ کمال ذمے داری اور دور اندیشی کے ساتھ ہر اس مقام پر جہاں سے بارش کے پانی کا گذر ہوتا تھا وہاں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ خوبصورت پل اور پلیائیں بنائی گئیں۔۔۔ مذکورہ ریلوے لائن کو بچھاتے وقت کی اس کمال ذمے داری کا مظاہرہ دیکھنا ہو تو محض کراچی کے سٹی ریلوے اسٹیشن سے لے کر گھگھر پھاٹک تک کی ہی ریلوے لائن کے نیچے سے گذرنے والی ندیوں،نالوں اور پانی کی گذر گاہوں پر پیلے رنگ کے پہاڑی پتھروں کی عمدگی کے ساتھ تراش کر بنائے گئے خوبصورت پلوں اور پلیاؤں کوملاحظہ کرلیں ۔
اس وقت کی ریلوے لائن بچھانے والے منصوبہ سازوں کی دور اندیشی ، حب الوطنی اور دیانت داری کوسلام پیش کرنا پڑتا ہے ۔ یاد رہے کہ قیام پاکستان کے وقت کراچی محض تین لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی کا شہر تھا ، آج کی آبادی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو گویا 'ویرانہ'تھا اور قیام پاکستان سے بھی کہیں قبل اس 'ویرانے' میں بھی جس وقت ریلوے لائن بچھائی گئی تو کس درجہ ذمے داری اور دور اندیشی کاثبوت دیا گیا۔ پانی کے نکاس کے ہر راستے ، ہر نشیب کا مکمل احترام کیا گیا۔ ریل کی پٹریاں بچھانے کی خاطر ان گذر گاہوں کو بند نہیں کیا گیا بلکہ ان پرخوبصورت چھوٹے بڑے پل بنا کرپانی کو اس کے گذرنے کی مکمل راہداری اورآزادی دی گئی ۔
اب آئیے تقسیم کے بعد کے ادوار میں پانی کی ان قدرتی گذر گاہوں کا احوال دیکھتے ہیں ۔فی الحال صرف کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن سے گھگر پھاٹک تک کی ریلوے لائن سے متصل علاقوں کی صورتحال پر نظر رکھیں تواندازہ ہوگا کہ پانی کی یہ قدرتی گذرگاہیں اب محض ریل کی پٹریوں کے نیچے ہی محفوظ رہ پائی ہیں ۔ ریلوے لائن کے دائیں بائیں پانی کے ان قدرتی راستوں کے آگے اورپیچھے نہایت بے دردی اور بد ترین بد نظمی کے ذریعے کثیرالمنزلہ عمارات کھڑی کرکے پانی کی ان قدرتی گذر گاہوں کو دفنادیا گیا ۔ جہاں کہیں پانی کی یہ گذر گاہیں موجودبھی ہیں تو تجاوزات کے سبب چوڑے چوڑے نالوں کے بجائے یہ محض نالیاں بن کے رہ گئی ہیں۔ ان میں بھی کوڑا کرکٹ ، مٹی پتھر کے ڈھیر بھرے ہوئے ہیں، کسی کو خیال نہیں آتا کہ جس پانی کا راستہ ہم روک رہے ہیں وہ غضبناک ہو کر بپھرے گا تو ہمیں ہی لے کر ڈوبے گا ۔ !!
سو سال سے زیادہ قدیم ریلوے لائن کے نیچے سے گذرنے والی پانی کی ان قدرتی گذر گاہوں کے مشاہدے کے بعد شہر کے ندی ، نالوں کا جائزہ لیں تو تجاوزات کروانے اور کرنے والوں کے مابین یہاں بھی مثالی اتفاق و اتحاد نظر آئے گا۔شہر کے بیچوں بیچ سے گذرنے والی لیاری ندی اور ملیر ندی کے کشادہ اور چوڑے پاٹوں جو بارشوں کے بعد لہلہاتے سبزہ زار کا منظر پیش کرتے تھے کو بے ہنگم تعمیرات کے ذریعے اس بے دردی سے سکیڑا گیا ہے جیسے کوئی طاقتور کسی کمزور کا گلا گھونٹتا ہے ۔ یہ ندیاں بعض مقامات پرنالیاں بن چکی ہیں اور نالیاں کچرے کے ڈھیر ۔ جس میں کوئی ڈوب جائے تو ہفتوں نہیں مل پاتا۔ پھر بھی بے حسی ہے کہ ختم ہونے کو نہیں آتی۔
شہر کا ایک بڑا نالہ چکورا نالہ ہے جو کراچی ائر پورٹ کے پیچھے سے شروع ہو کر ناتھا خان گوٹھ پر شارع فیصل کے نیچے سے گذرتا ، شاہ فیصل کالونی کو عبور کرتا ملیر ندی میں جا ملتا ہے ۔ گلستان جوہر اور ائرپورٹ کے سنگم پر اس نالے کے بالکل کنارے پر ہوتی ہوئی تعمیرات کے سبب اس کا پاٹ انتہائی تنگ ہوگیا ہے ۔ یہی حال اس سے پیچھے اور آگے کے مقامات پر بھی ہے ائیرپورٹ کے علاقے کے برساتی نالوں کے چکورا نالے کے ساتھ ملاپ کے تقریبا تمام راستوں کو تجاوزات کے ذریعے غائب کردیاگیاہے نتیجتاًجب بارش ہوتی ہے تو ناتھا خان گوٹھ سے لے کرچھوٹاگیٹ تک کے قرب وجوارکا تمام علاقہ دریاکا منظرپیش کررہاہوتاہے۔ شہر کی آبادیوں میں تین تین چار چار فٹ گہرے اور آٹھ فٹ اور اس سے بھی زیادہ چوڑے نالے جو عرصہ دراز سے موجود تھے اور گندے پانی کے ساتھ ساتھ بوقت ضرورت بارش کے پانی کی روانی سے نکاسی کے منتظم کی حیثیت کے بھی حامل تھے۔
ان میں سے بھی اکثر کو پاٹ کر ان کی جگہ پر بارہ انچ ، سولہ انچ قطر کی نکاسی آب کی لائینیں ڈال دی گئی ہیں ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان لائنوں کو زمین میں بچھانے کے لیے جن مزدوروں سے گڑھے کھدوائے جاتے ہیں وہی مزدور ان لائنوں کوبچھانے کی انجینئرنگ کے فرائض انجام دیتے ہیں۔چونکہ ان لائنوں کو ایسی شاہکار انجینئرنگ کے ذریعے زمین کے نیچے دبایا گیا ہے لہذا پتا ہی نہیں چلتا کہ ان میں سے کہاں پانی گذر رہا ہے اور کہاںرکا کھڑا ہے۔ چنانچہ ان لائنوں سے پانی کے نکاس نہ ہونے کے سبب آس پاس کی سڑکیں سابقہ نالوں کی صورت اختیار کر جاتی ہیں ، مصیبت ظاہر ہے کہ شہریوں کوہی اٹھانی پرتی ہے۔
اگر کراچی کے شہریوں کو ابر رحمت سے فیضیاب کرنا مقصو د ہے تو سب سے پہلے پانی کی ان تمام قدیم اور قدرتی گذرگاہوں کو ان کی قدیمی یعنی اصلی شکل میں واپس لانا ہوگا۔ چاہے ان قدرتی گذر گاہوں کی اصل شکل میں بحالی کے لیے کتنی ہی تجاوزات اور مفادات کوڈھانا پڑے، بصورت دیگر گذرے ہوئے برسوں کی طرح آیندہ ہر برسات کے بعد تباہی اور بربادی کی خبریں اخباروں کی سرخیاں بن کر ہمیں تاریخ کا افسوسناک حصہ بناتی رہیں گی۔۔۔!!!