حکومتی اقدامات کے بعد کھلے دودھ کے بیوپاریوں نے بھی پاسچرائزیشن شروع کردی

پنجاب فوڈاتھارٹی نے 2022 تک کھلے دودھ کی فروخت پرپابندی کی ڈیڈلائن دے رکھی ہے

پاکستان دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے فوٹو: ایکسپریس

پنجاب میں کھلے دودھ پر پابندی اور پاسچرائشرائزڈ دودھ کی فروخت کے فیصلے کے بعد برسوں سے کھلا دودھ فروخت کرنے والے برانڈز نے دودھ کی پاسچرائزیشن کی طرف منتقل ہونا شروع کردیا ہے۔

پنجاب فوڈاتھارٹی نے لاہورکے مختلف علاقوں پاسچرائزڈدودھ کی ڈیمانڈ کا جائزہ لینے کے لیے سروے شروع کررکھاہے جبکہ دوسری طرف شہرمیں کئی برسوں سے کھلادودھ فروخت کرنیوالے کئی برانڈزنے ملک پاسچرائزیشن پلانٹ لگادیئے ہیں۔پنجاب فوڈاتھارٹی کی معاونت سے مانگارائیونڈروڈپرواقع ایک معروف برانڈکے ملک پاسچرائزیشن یونٹ کا دورہ کیاگیا جہاں دودھ لائے جانے سے اس کی پاسچرائزیشن ، پیکنگ اور ترسیل سمیت دیگرمراحل سے متعلق تفصیل سے بتایا گیا۔

پاسچرائزیشن یونٹ پلانٹ کے پروڈکشن منیجرغلام سرور نے بتایا کہ انہوں نے شہرکے مختلف علاقوں میں دودھ کلیکشن سینٹر بنا رکھے ہیں،وہاں جمع ہونے والے دودھ کو کنٹینرز کے ذریعے لایا جاتا ہے، یہاں لائے گئے دودھ کا سب سے پہلے لیبارٹری میں تجزیہ ہوتاہے ۔ ہر کینٹنرمیں دودھ کے لیب ٹیسٹ کی رپورٹ رکھی جاتی ہے۔ دودھ میں اگر پانی یا کوئی بھی کیمیکل شامل کیا گیا ہو تو اس کا فوری علم ہوجاتا ہے۔ مقررہ معیار پر پورا نہ اترنے والے دودوھ کو ضائع کردیا جاتا ہے۔ لیب ٹیسٹ کے بعد دودھ پاسچرائزیشن یونٹ میں منتقل کردیا جاتا ہے ، جہاں خودکار مشینوں کے ذریعے پہلے دودھ کو 76 ڈگری تک گرم کیا جاتا ہے اور پھر4 ڈگری پر ٹھنڈا کردیا جاتا ہے۔ اس دوران دودھ میں شامل خطرناک بیکٹریا ختم ہوجاتے ہیں۔اس ٹھنڈے دودھ کو پھر پیکنگ مشین کی مدد سے پاؤچ میں پیک کردیا جاتا ہے، پاؤچ میں پیک یہ دودھ مقررہ درجہ حرارت میں رکھنے پر پانچ سے چھ دن تک کارآمد رہ سکتا ہے۔



ایک اورملک برانڈ کے جی ایم سیلزاینڈ مارکیٹنگ فرحان یاسین نے بتایا کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی نے 3 سال قبل جب پنجاب میں کھلے دودھ پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا تو ہم نے اسی وقت تیاری شروع کردی تھی اور اب ہم مارکیٹ میں پاسچرائزڈ دودھ فروخت کررہے ہیں ،2022 میں جب فوڈاتھارٹی کی ڈیڈلائن ختم ہوگی تو ہم پوری طرح سے پاسچرائزڈ دودھ کی فراہمی کے لئے تیار ہوں گے۔


لاہورمیں دودھ کے کاروبارسے جڑے ایک برانڈ کے مالک نے بتایا کہ وہ پاسچرائزڈ دودھ کے حق میں ہیں گوکہ وہ خود برسوں سے کھلا دودھ فروخت کررہے ہیں لیکن اب ہم نے پاسچرائزیشن شروع کردی ہے۔ ہمارے اس اقدام سے کھلا دودھ فروخت کرنے والے کئی بڑے نام ان کے خلاف ہوگئے ہیں اور وہ پاسچرائزڈ دودھ کے منصوبے کو ناکام بنانا چاہتے ہیں تاہم ان کی کوشش ہے کہ آنیوالی نسلوں کو صحت مند بنانے کے لئے یہ اقدام اٹھانا ہوگا۔



ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی کیپٹن (ر) محمدعثمان نے بتایا کہ کیمیکل سے تیاردودھ پاسچرائزڈہی نہیں کیاجاسکتا،جیسے ہی کیمیکل سے تیاردودھ یونٹ میں جائے گا اس میں شامل پانی اورکیمیکل الگ ہوجائیں گے۔انہوں نے مزیدکہا کہ پاسچرائزڈ دودھ میں اگرکوئی ملاوٹ ہوگی توہم فورااس کمپنی کوپکڑیں گے۔کھلے دودھ میں یہ ثابت کرناخاصامشکل تھا کہ دودھ میں ملاوٹ کس مرحلے پرکی گئی تھی۔ انہوں نے کہا ایک گھنٹے میں ایک ہزارلٹردودھ پاسچرائزڈ کرنیوالاغیرملکی پلانٹ تقریبا سواکروڑ روپے جبکہ مقامی سطح پر تیار کیا جانے والا پلانٹ 70 سے 75 لاکھ میں لگایاجاسکتاہے۔ پنجاب میں ڈیڑھ لاکھ دودھ کے فارمرزکوچیک کرنے کی بجائے پاسچرائزڈ یونٹس کو چیک کرنا زیادہ آسان ہوگا۔



دودھ کی پاسچرائزیشن سے فی لیٹردودھ کی قیمت میں 7 روپے تک اضافہ ہوگا اوراس میں وقت گزرنے کے ساتھ کمی آئے گی۔ ایک لیٹردودھ کی پاسچرائزیشن پر 2 روپے جبکہ اس کی پیکنگ کا خرچ 5 روپے ہوگا۔ دودھ کی ترسیل کا خرچہ پہلے جتنا ہی رہے گا۔ عام شہری کو فی لیٹر دودھ سرکاری ریٹ کے مطابق 80 روپے سے کم قیمت پر مل سکے گا۔ اس وقت کھلے دودھ کی فی لیٹر قیمت 70 روپے ہے۔

محکمہ لائیو اسٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ بورڈ کے ذرائع کے مطابق پاکستان دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے جہاں دودھ کی پیداوار 41.6 ملین ٹن ہے ،62 فیصد دودھ پنجاب سے حاصل ہوتاہے۔ ہر سال 35 سے 40 ارب روپے کی مالیت کا دودھ استعمال میں آئے بغیر ضائع ہو جاتا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران ملک میں دودھ پراسیس کرنے والے تقریباً بیس بڑے پلانٹ قائم ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود ان تمام پلانٹس میں پراسیس ہونے والا دودھ ملک میں پیدا ہونے والے کل دودھ کا تقریباً 1.7 فیصد حصہ ہے۔
Load Next Story