کیا انسان موسموں پر قابو پاسکتا ہے
اگر کسی علاقے میں درجہ حرارت کو نصف درجہ بھی کم یا زیادہ کرنا ہو تو انسان کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
انسان کی کامیابیوں کا کوئی شمار نہیں۔ سمندر کی گہرائیوں سے لے کر آسمان کی بلندیوں تک اس کے قدم پہنچ چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود انسان ایک بڑی مجبور مخلوق ہے۔ کامیابیوں کی طرح اس کی ناکامی کا بھی کوئی شمار نہیں۔ کتنے ہی ایسے میدان ہیں جہاں اس نے منہ کی کھائی ہے اور کتنے ہی ایسے خیالی محل ہیں جو ایک ٹھوکر سے زمین پر آ رہے ہیں۔
موسم پر قابو پانا بھی انسان کی ایک حسرت ناکام رہی ہے۔ کسی زمانے میں اس نے جانوروں کی قربانیاں دیں، کبھی آسمان کی طرف گولے پھینکے اور کبھی بادلوں پر سلور آیوڈائڈ چھڑکتا رہا۔ اس کے باوجود موسم اس کی قوت اختیار سے باہر ہی رہا۔ موسم پر قابو پانا انسان کے لیے صرف حسرت ناکام ہی نہیں زندگی اور موت کا مسئلہ بھی ہے اس لیے خواہ اسے کتنی ہی ناکامیاں کیوں نہ ہوں ہر کوشش سعی رائیگاں بن کر ہی کیوں نہ رہ جائے اور ہر بار منہ کی کیوں نہ کھانی پڑے، انسان اس مقصد کو ترک نہیں کر سکتا۔
انسان جانتا ہے کہ اگر اس نے بارشوں اور طوفانوں جیسی موسمی رحمتوں اور زحمتوں پر قابو پا لیا تو نہ جانے کتنی بیش بہار زندگی رہ سکیں گی۔ نجانے کتنے گھر کھڑے رہیں گے اور نجانے کتنے چہروں پر مسکراہٹ سجی رہے گی۔ ایتھوپیا کا قحط اور بنگلہ دیش کے سیلاب، عفریت بن کر انسانیت کو نہ ڈس پائیں گے۔ افریقہ کی خشک مٹی پہ بوندیں برس پڑیں تو بنجر زمینوں میں بھوک نہیں روٹی اگنے لگے گی۔ اور بنگال کے زیر آب میدانوں پہ کھڑا پانی اپنی حدود کو لوٹ جائے تو گھروں کے آنگن سلامت رہیں گے۔
کیوں گردشِ مدام سے گھبرا نہ جائے دل
انسان ہوں' پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں
1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں انسان کو امید کامل تھی کہ وہ موسموں پر قابو پا لے گا۔ اس امید کی وجہ یہ تھی کہ راکٹ اور کمپیوٹر جیسے مددگاروں نے اسے فضائی بلندیوں سے ہمکنار کر ڈالا تھا۔ امریکا اور روس سمیت بہت سی ترقی یافتہ قومیں، موسمی پروگراموں میں دلچسپی لینے لگیں۔ ان پروگراموں میں بادلوں پر سلور آیوڈائیڈ کا چھڑکاؤ بھی شامل تھا تاکہ وہ کیمیائی کیفیت پیدا ہو جس سے بارش کے قطرے بنتے ہیں۔
اس کے بعد یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ آیا ان تجربات سے جو نتائج حاصل ہوئے ہیں وہ واقعی ان کا نتیجہ تھے یا قدرتی تبدیلیوں کا؟ اس سوال کا کوئی حتمی جواب حاصل کرنا ممکن نہ تھا۔ اس کی وجہ ایک امریکی ماہر موسمیات شینگون یوں دیتے ہیں کہ اگر آپ کولوریڈو میں گرنے والے دلوں میں تجرباتی کمی کی تصدیق چاہتے ہیں تو آپ کو پورے 30 برس تک تجربات کرنا ہوں گے تب کہیں جا کر تصدیق یا تردید ممکن ہو گی۔
پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں موسمی تحقیق عروج پر رہی۔ پھر بتدریج اس پر سے توجہ ہٹنے لگی۔ انسان مایوس ہونے لگا کہ یہ اس کے بس میں نہیں اس کے باوجود ستر کی دہائی تک موسمی کوششیں جاری رہیں اس دہائی میں بڑی سے بڑی کامیابی ان کا یہ تسلیم کر لینا تھی کہ وہ موسم کے متعلق بہت کم جانتا ہے۔
ستر کی دہائی کے بعد آہستہ آہستہ انسانی کوششوں کا دہانا مڑتا گیا اب اس نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ موسم کو بدل ڈالنا اس کے بس میں نہیں۔ بارشوں کو برسانا اور طوفانوں کو روک لینا اس کی طاقت سے باہر کا کھیل ہے۔ اس کے باوجود وہ پہلے سے اندازہ ضرور لگا سکتا ہے کہ موسم کیسا ہو گا؟
موسم کو بدلنے کی خواہش ترک کر کے موسم کی پیش گوئی کو اپنا مقصد بنانے کا کام انسان نے جدید اور ترقی یافتہ سپر کمپیوٹرز کے بل بوتے پر کیا۔ ان سپر کمپیوٹروں کی مدد سے سائنس دانوں نے عام دوری نمونے تشکیل دیے۔ ان نمونوں میں موسمی تعاملات کے ساتھ سمندروں اور خشک براعظموں کے تعلق کو یکجا کیا گیا، فضا کی حرکیات کا جائزہ لینے کے لیے خصوصی آلات فضا میں بھیجے گئے اور سمندروں کے درجہ حرارت اور سمندری موجوں کی حرکیات کی شماریات حاصل کی جانے لگیں۔ اس طرح زمین کے موسمی نظام کی ایک نئی تصویر انسان کے سامنے آئی یہ کام انسان کے پچھلے خیالات سے کہیں زیادہ پیچیدہ ثابت ہوا۔
موسم کے دوری نمونے بدقسمتی سے اب ایک لازمی ضرورت بن گئے ہیں۔ بالخصوص ایک ایسی کوشش کے ضمن میں امکان بے پناہ ہے جس سے موسمی تبدیلی کی امیدیں وابستہ ہیں، وہ کوشش گرین ہاؤس اثر کی مدد سے ساری زمین پر درجہ حرارت میں اضافہ ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ اثر کاری ایندھن کی بھاری مقدار جلنے سے پیدا ہوئی ہے۔ دوری نمونے اس اثر کی مکمل وضاحت کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ کمپیوٹر اس پروگرام سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے جو ان کو دیا جاتا ہے۔ دوری نمونوں کی علمی اور ریاضیاتی خامیوں کا احساس اب جڑ پکڑ چکا ہے۔ اور سائنس دان یہ تسلیم کرنے میں باک نہیں رکھتے کہ ان دوری نمونوں میں ریاضیاتی خلا موجود ہیں۔ موسم کے بنیادی عملیات کے متعلق ہی معلومات موجود نہیں۔ جیسے کہ سمندروں میں حرارت کا انجذاب و اخراج اور دنیا کے مختلف حصوں کو سمندر سے حرارتی منتقلی وغیرہ۔
اس بنا پر موسمی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ نمونوں کو زیادہ مفید اور کارگر بنانے کے لیے ضروری تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ اس مقصد کے لیے دوری نمونوں میں طویل اور مختصر مدت کے موسمی عملیات کو شامل کرنا ہو گا۔ چنانچہ اس سلسلے میں امریکا کے قومی مرکز برائے موسمی تحقیق کی سفارشات حال ہی میں سامنے آئیں۔ ان سفارشات کے اہم نکات یہ ہیں۔
1۔ سپر کمپیوٹرز کو آندھیوں اور طوفانوں کے متعلق مزید معلومات بہم پہنچائی جائے تا کہ ان کو پیدا کرنے والے عوامل کا تجربہ ہو سکے۔
2۔ دوری نمونوں کے لیے زیادہ سے زیادہ شماریاتی مواد فراہم کیا جائے۔
3۔ ڈوپلر ریڈارز کا قومی نیٹ ورک تشکیل دیا جائے۔
بہرکیف موسمی پیش گوئیوں اور موسمی تبدیلیوں میں بہت فرق ہے اور انسان کے لیے اس صدی کا ایک اہم سوال یقینا یہ رہا ہے کہ موسم پر انسانی دسترس ممکن ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں امریکا ہی کے ایک بڑے ماہر پروفیسر ایڈورڈ لورنز کا تو یہ کہنا ہے کہ انسان کے لیے موسم پر کوئی واضح اثر ڈالنا بے حد مشکل کام ہے۔ اگر کسی علاقے میں درجہ حرارت کو نصف درجہ بھی کم یا زیادہ کرنا ہو تو انسان کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
ایک چھوٹے سے کمرے یا عمارت میں تو یہ ممکن ہے لیکن وسیع و عریض رقبے کے موسم میں یہ تبدیلی پیدا کرنا بہت مشکل ہے۔ بقول پروفیسر ایڈورڈ کے ایسا کرنے کے لیے بے پناہ توانائی درکار ہے۔ ہائیڈروجن بموں کی توانائی سے بھی زیادہ۔ نظریاتی طور پر تو یہ ممکن ہے لیکن عملی طور پر ناممکن ہے۔
موسم پر قابو پانا بھی انسان کی ایک حسرت ناکام رہی ہے۔ کسی زمانے میں اس نے جانوروں کی قربانیاں دیں، کبھی آسمان کی طرف گولے پھینکے اور کبھی بادلوں پر سلور آیوڈائڈ چھڑکتا رہا۔ اس کے باوجود موسم اس کی قوت اختیار سے باہر ہی رہا۔ موسم پر قابو پانا انسان کے لیے صرف حسرت ناکام ہی نہیں زندگی اور موت کا مسئلہ بھی ہے اس لیے خواہ اسے کتنی ہی ناکامیاں کیوں نہ ہوں ہر کوشش سعی رائیگاں بن کر ہی کیوں نہ رہ جائے اور ہر بار منہ کی کیوں نہ کھانی پڑے، انسان اس مقصد کو ترک نہیں کر سکتا۔
انسان جانتا ہے کہ اگر اس نے بارشوں اور طوفانوں جیسی موسمی رحمتوں اور زحمتوں پر قابو پا لیا تو نہ جانے کتنی بیش بہار زندگی رہ سکیں گی۔ نجانے کتنے گھر کھڑے رہیں گے اور نجانے کتنے چہروں پر مسکراہٹ سجی رہے گی۔ ایتھوپیا کا قحط اور بنگلہ دیش کے سیلاب، عفریت بن کر انسانیت کو نہ ڈس پائیں گے۔ افریقہ کی خشک مٹی پہ بوندیں برس پڑیں تو بنجر زمینوں میں بھوک نہیں روٹی اگنے لگے گی۔ اور بنگال کے زیر آب میدانوں پہ کھڑا پانی اپنی حدود کو لوٹ جائے تو گھروں کے آنگن سلامت رہیں گے۔
کیوں گردشِ مدام سے گھبرا نہ جائے دل
انسان ہوں' پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں
1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں انسان کو امید کامل تھی کہ وہ موسموں پر قابو پا لے گا۔ اس امید کی وجہ یہ تھی کہ راکٹ اور کمپیوٹر جیسے مددگاروں نے اسے فضائی بلندیوں سے ہمکنار کر ڈالا تھا۔ امریکا اور روس سمیت بہت سی ترقی یافتہ قومیں، موسمی پروگراموں میں دلچسپی لینے لگیں۔ ان پروگراموں میں بادلوں پر سلور آیوڈائیڈ کا چھڑکاؤ بھی شامل تھا تاکہ وہ کیمیائی کیفیت پیدا ہو جس سے بارش کے قطرے بنتے ہیں۔
اس کے بعد یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ آیا ان تجربات سے جو نتائج حاصل ہوئے ہیں وہ واقعی ان کا نتیجہ تھے یا قدرتی تبدیلیوں کا؟ اس سوال کا کوئی حتمی جواب حاصل کرنا ممکن نہ تھا۔ اس کی وجہ ایک امریکی ماہر موسمیات شینگون یوں دیتے ہیں کہ اگر آپ کولوریڈو میں گرنے والے دلوں میں تجرباتی کمی کی تصدیق چاہتے ہیں تو آپ کو پورے 30 برس تک تجربات کرنا ہوں گے تب کہیں جا کر تصدیق یا تردید ممکن ہو گی۔
پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں موسمی تحقیق عروج پر رہی۔ پھر بتدریج اس پر سے توجہ ہٹنے لگی۔ انسان مایوس ہونے لگا کہ یہ اس کے بس میں نہیں اس کے باوجود ستر کی دہائی تک موسمی کوششیں جاری رہیں اس دہائی میں بڑی سے بڑی کامیابی ان کا یہ تسلیم کر لینا تھی کہ وہ موسم کے متعلق بہت کم جانتا ہے۔
ستر کی دہائی کے بعد آہستہ آہستہ انسانی کوششوں کا دہانا مڑتا گیا اب اس نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ موسم کو بدل ڈالنا اس کے بس میں نہیں۔ بارشوں کو برسانا اور طوفانوں کو روک لینا اس کی طاقت سے باہر کا کھیل ہے۔ اس کے باوجود وہ پہلے سے اندازہ ضرور لگا سکتا ہے کہ موسم کیسا ہو گا؟
موسم کو بدلنے کی خواہش ترک کر کے موسم کی پیش گوئی کو اپنا مقصد بنانے کا کام انسان نے جدید اور ترقی یافتہ سپر کمپیوٹرز کے بل بوتے پر کیا۔ ان سپر کمپیوٹروں کی مدد سے سائنس دانوں نے عام دوری نمونے تشکیل دیے۔ ان نمونوں میں موسمی تعاملات کے ساتھ سمندروں اور خشک براعظموں کے تعلق کو یکجا کیا گیا، فضا کی حرکیات کا جائزہ لینے کے لیے خصوصی آلات فضا میں بھیجے گئے اور سمندروں کے درجہ حرارت اور سمندری موجوں کی حرکیات کی شماریات حاصل کی جانے لگیں۔ اس طرح زمین کے موسمی نظام کی ایک نئی تصویر انسان کے سامنے آئی یہ کام انسان کے پچھلے خیالات سے کہیں زیادہ پیچیدہ ثابت ہوا۔
موسم کے دوری نمونے بدقسمتی سے اب ایک لازمی ضرورت بن گئے ہیں۔ بالخصوص ایک ایسی کوشش کے ضمن میں امکان بے پناہ ہے جس سے موسمی تبدیلی کی امیدیں وابستہ ہیں، وہ کوشش گرین ہاؤس اثر کی مدد سے ساری زمین پر درجہ حرارت میں اضافہ ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ اثر کاری ایندھن کی بھاری مقدار جلنے سے پیدا ہوئی ہے۔ دوری نمونے اس اثر کی مکمل وضاحت کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ کمپیوٹر اس پروگرام سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے جو ان کو دیا جاتا ہے۔ دوری نمونوں کی علمی اور ریاضیاتی خامیوں کا احساس اب جڑ پکڑ چکا ہے۔ اور سائنس دان یہ تسلیم کرنے میں باک نہیں رکھتے کہ ان دوری نمونوں میں ریاضیاتی خلا موجود ہیں۔ موسم کے بنیادی عملیات کے متعلق ہی معلومات موجود نہیں۔ جیسے کہ سمندروں میں حرارت کا انجذاب و اخراج اور دنیا کے مختلف حصوں کو سمندر سے حرارتی منتقلی وغیرہ۔
اس بنا پر موسمی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ نمونوں کو زیادہ مفید اور کارگر بنانے کے لیے ضروری تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ اس مقصد کے لیے دوری نمونوں میں طویل اور مختصر مدت کے موسمی عملیات کو شامل کرنا ہو گا۔ چنانچہ اس سلسلے میں امریکا کے قومی مرکز برائے موسمی تحقیق کی سفارشات حال ہی میں سامنے آئیں۔ ان سفارشات کے اہم نکات یہ ہیں۔
1۔ سپر کمپیوٹرز کو آندھیوں اور طوفانوں کے متعلق مزید معلومات بہم پہنچائی جائے تا کہ ان کو پیدا کرنے والے عوامل کا تجربہ ہو سکے۔
2۔ دوری نمونوں کے لیے زیادہ سے زیادہ شماریاتی مواد فراہم کیا جائے۔
3۔ ڈوپلر ریڈارز کا قومی نیٹ ورک تشکیل دیا جائے۔
بہرکیف موسمی پیش گوئیوں اور موسمی تبدیلیوں میں بہت فرق ہے اور انسان کے لیے اس صدی کا ایک اہم سوال یقینا یہ رہا ہے کہ موسم پر انسانی دسترس ممکن ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں امریکا ہی کے ایک بڑے ماہر پروفیسر ایڈورڈ لورنز کا تو یہ کہنا ہے کہ انسان کے لیے موسم پر کوئی واضح اثر ڈالنا بے حد مشکل کام ہے۔ اگر کسی علاقے میں درجہ حرارت کو نصف درجہ بھی کم یا زیادہ کرنا ہو تو انسان کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
ایک چھوٹے سے کمرے یا عمارت میں تو یہ ممکن ہے لیکن وسیع و عریض رقبے کے موسم میں یہ تبدیلی پیدا کرنا بہت مشکل ہے۔ بقول پروفیسر ایڈورڈ کے ایسا کرنے کے لیے بے پناہ توانائی درکار ہے۔ ہائیڈروجن بموں کی توانائی سے بھی زیادہ۔ نظریاتی طور پر تو یہ ممکن ہے لیکن عملی طور پر ناممکن ہے۔