معافی ملنے کے باوجود ملزمان کی رہائی ممکن نہیں قانونی ماہرین
ملزمان کے اس رویے کا بھی جائزہ لیا جائے گا جوانھوں نے سماعت اور فیصلے کے موقع پر روا رکھا
شاہ زیب قتل کیس میں مقتول کے قانونی ورثا کی جانب سے قاتلوں کو معاف کرنے کے باوجود ملزمان کی رہائی کے امکانات نہیں ہیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ فریقین میں سمجھوتے کے باعث ملزمان کی پھانسی کی سزا عمر قید میں تبدیل ہوسکتی ہے تاہم اعلیٰ عدالتیں ملزمان کے اس رویے کا بھی جائزہ لیں گی جوانھوں نے مقدمے کی سماعت اور فیصلے کے اعلان کے موقع پر روا رکھا۔ ایکسپریس کے استفسار پر انسداد دہشت گردی کے قوانین کے ماہرین کا موقف ہے کہ دہشت گردی کے مقدمے میں ورثاکو قاتلوں سے راضی نامے کا حق حاصل نہیں ہوتا،تاہم فریقین میں راضی نامہ ہوجانے کی صورت میں اعلیٰ عدالتیں نئی صورتحال کو مدنظررکھتے ہوئے فیصلہ کرتی ہیں اور پھانسی کی سزا عمر قید میں تبدیل ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یہ رائے محمد فاروق اورحسان احمد ایڈووکیٹس نے ایکسپریس کے استفسار پر دیں۔ محمد فاروق ایڈووکیٹ نے کہا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997کی بنیادی روح کے مطابق قتل کے مقدمے میں مدعی کو راضی نامے کے حق سے اس لیے محروم کیا گیا ہے کہ ملزمان کی جانب سے ان پر دبائو نہ ڈالا جاسکے۔کراچی میں دہشت گرد اتنے طاقتور ہوگئے تھے کہ وہ ورثاکو ڈرا دھمکا کر مقدمہ واپس لینے پر مجبور کردیتے تھے۔
انھوں نے ارشد کے ٹو نامی ملزم کے مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسکے خلاف قتل کے مقدمے میں بھی فریقین میں سمجھوتے کی درخواست دائر کی گئی تھی ، عدالت نے سجھوتے کے نتیجے میں ملزم کی رہائی کی استدعا مسترد کردی تھی لیکن انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7Aکو تبدیل کرتے ہوئے پھانسی کے بجائے دفعہ 7Bکے تحت اسے عمر قید کردیا گیا تھا۔انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوںمیں طویل عرصے اسپیشل پراسیکیوٹر کے فرائض انجام دینے والے نعمت اللہ رندھاوا کے مطابق دہشت گردی ریاست کے خلاف ہوتی ہے، اس لیے کسی انفرادی شخص کو سمجھوتہ کرنے کا اختیار نہیں۔ انسداد دہشت گردی قوانین میں فریقین کے درمیان سمجھوتے کی کوئی اہمیت نہیں۔ کئی وکلا نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ ملزمان کی جانب سے عدالت کے فیصلے کا مضحکہ اڑانے کی فلم ملک کے تمام چینلوںپر براہ راست دکھائی گئی تھی ، یقیناً اعلیٰ عدالتیں اس رویے کا بھی جائزہ لیں گی۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ فریقین میں سمجھوتے کے باعث ملزمان کی پھانسی کی سزا عمر قید میں تبدیل ہوسکتی ہے تاہم اعلیٰ عدالتیں ملزمان کے اس رویے کا بھی جائزہ لیں گی جوانھوں نے مقدمے کی سماعت اور فیصلے کے اعلان کے موقع پر روا رکھا۔ ایکسپریس کے استفسار پر انسداد دہشت گردی کے قوانین کے ماہرین کا موقف ہے کہ دہشت گردی کے مقدمے میں ورثاکو قاتلوں سے راضی نامے کا حق حاصل نہیں ہوتا،تاہم فریقین میں راضی نامہ ہوجانے کی صورت میں اعلیٰ عدالتیں نئی صورتحال کو مدنظررکھتے ہوئے فیصلہ کرتی ہیں اور پھانسی کی سزا عمر قید میں تبدیل ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یہ رائے محمد فاروق اورحسان احمد ایڈووکیٹس نے ایکسپریس کے استفسار پر دیں۔ محمد فاروق ایڈووکیٹ نے کہا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997کی بنیادی روح کے مطابق قتل کے مقدمے میں مدعی کو راضی نامے کے حق سے اس لیے محروم کیا گیا ہے کہ ملزمان کی جانب سے ان پر دبائو نہ ڈالا جاسکے۔کراچی میں دہشت گرد اتنے طاقتور ہوگئے تھے کہ وہ ورثاکو ڈرا دھمکا کر مقدمہ واپس لینے پر مجبور کردیتے تھے۔
انھوں نے ارشد کے ٹو نامی ملزم کے مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسکے خلاف قتل کے مقدمے میں بھی فریقین میں سمجھوتے کی درخواست دائر کی گئی تھی ، عدالت نے سجھوتے کے نتیجے میں ملزم کی رہائی کی استدعا مسترد کردی تھی لیکن انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7Aکو تبدیل کرتے ہوئے پھانسی کے بجائے دفعہ 7Bکے تحت اسے عمر قید کردیا گیا تھا۔انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوںمیں طویل عرصے اسپیشل پراسیکیوٹر کے فرائض انجام دینے والے نعمت اللہ رندھاوا کے مطابق دہشت گردی ریاست کے خلاف ہوتی ہے، اس لیے کسی انفرادی شخص کو سمجھوتہ کرنے کا اختیار نہیں۔ انسداد دہشت گردی قوانین میں فریقین کے درمیان سمجھوتے کی کوئی اہمیت نہیں۔ کئی وکلا نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ ملزمان کی جانب سے عدالت کے فیصلے کا مضحکہ اڑانے کی فلم ملک کے تمام چینلوںپر براہ راست دکھائی گئی تھی ، یقیناً اعلیٰ عدالتیں اس رویے کا بھی جائزہ لیں گی۔