معاف کرنا سیکھیے ۔۔۔

محض ارادہ نہیں بل کہ فیصلہ کریں کہ ہم سب ایسی زندگی گزاریں گے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہو۔

محض ارادہ نہیں بل کہ فیصلہ کریں کہ ہم سب ایسی زندگی گزاریں گے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہو۔ فوٹو: فائل

اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت عفو بھی ہے۔ یعنی مجرم، خطاکار اور سزا و عذاب کے مستحق کو معاف کرنے والا اور اس کی نافرمانی، خطاؤں اور گناہوں سے درگزر کرنے والا۔ جرم، غلطی اور نافرمانی کے باوجود سخت برتاؤ کے بہ جائے نرمی و محبت سے پیش آنے والا۔

تمام انبیاء بالخصوص خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ، اللہ تعالیٰ کی صفتِ عفو کا نمونہ اور آئینہ دار تھے۔ آپؐ کی عملی زندگی اس دعوے کی سب سے روشن اور واضح دلیل و برہان ہے۔

آپؐ کو دکھوں، مصیبتوں، پریشانیوں اور مشکل حالات سے دوچار کرنے والے، رنج و غم اور تکالیف میں مبتلا کرنے والے، آپؐ کو ہر طرح کی اذیتیں دینے والے، مارنے پیٹنے والے، گردن مبارک میں کپڑے اور رسیاں ڈال کر بھینچنے اور بَل دینے والے، آپؐ کے مقدس جسم کو تیر و تفنگ، نیزوں اور پتھروں سے لہولہان کرنے والے، ذہنی کوفت دینے والے، آپؐ پر ساحر، مجنون اور دیوانہ جیسے ناپاک جملے کسنے والے، آپؐ کو ہجرت پر مجبور کرنے والے، آل و اصحابؓ کو شہید کرنے والے، حتی کہ آپؐ کی جان کے پیاسے اور کھانے میں زہر دینے والے لوگ جب مفتوح، جنگی قیدی اور بے بس ہو کر مکمل طور پر آپؐ کی دست رس میں آئے تو آپؐ نے انہیں نہ صرف یہ کہ دل و جان سے معاف کر دیا، بل کہ اپنے سینے سے لگایا اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ جو کبھی اسلام کو دیس نکالا دینا چاہتے تھا اسلام نے خود انہی کے دلوں میں ڈیرا ڈال دیا۔

انسانی معاشرے میں امن و امان اور سکون و راحت کا خُوش گوار ماحول بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عفو و درگزر پر بہت زور دیا ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر عفو و درگزر کی فضیلت، اجر و ثواب، اس کی معاشرتی اہمیت و ضرورت کو کُھلے اور صاف لفظوں میں بیان کیا گیا ہے۔ اللہ کے برگزیدہ نیک بندوں کی اعلیٰ صفات کا جہاں تذکرہ ہے وہاں پر ان کی عفو و درگزر جیسی عمدہ صفت سرفہرست ہے۔ چوں کہ غصے کا آنا ایک فطری عمل ہے اور اس کی وجہ سے معاشرے میں خون خرابہ، قتل و غارت اور دشمنی و عداوت پیدا ہوتی ہے اس لیے شریعت نے اس کا حل عفو و درگزر کو قرار دیا ہے۔

احادیث مبارکہ میں بھی آپؐ کے اپنے عفو و درگزر کے ان گنت واقعات ملتے ہیں۔ حضرت ابُوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معاف کرنے والے کی اللہ تعالیٰ عزت بڑھا دیتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے منبر پر تشریف فرما ہو کر فرمایا: تم مخلوق پر رحم کرو اللہ تم پر رحم فرمائے گا اور تم لوگوں کو معاف کرو اللہ تمہیں معاف کرے گا۔


حضرت ابی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص یہ چاہتا ہو کہ جنّت میں اس کے لیے محلات تعمیر کیے جائیں اور اس کے درجات بلند کر دیے جائیں تو اسے چاہیے کہ وہ ظلم کے جواب میں عفو و درگزر سے کام لے، محروم کرنے والے کو عطا کرے اور قطع تعلقی کرنے والے سے صلۂ رحمی کا سلوک کرے۔ (مستدرک)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کے پاس اس کا بھائی معذرت خواہ ہوکر آئے تو اس کا عذر قبول کرے، خواہ صحیح ہو یا غلط۔ اگر ایسا نہیں کرے گا تو میرے حوض پر نہ آئے۔ (مستدرک حاکم)

حضرت ابُوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین عادتیں جس شخص کے اندر ہوں گی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے آسان حساب و کتاب لے گا اور اپنی رحمت کے ساتھ جنّت میں داخل فرمائے گا۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: ہمارے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں، وہ کون سی تین عادات ہیں ؟ آپؐ نے جواب دیا: جو تمہیں محروم کرے تم اسے نواز دو، جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے جوڑو اور جو تجھ پر ظلم کرے تم عفو و درگزر سے کام لو۔ جب تم یہ کام کرلو تو جنّت میں داخل ہو جانا۔ (مستدرک)

آج ہمارے معاشرے کو بدلہ، زیادتی اور انتقامی جذبات کی آگ نے ہر طرف سے جھلسا رکھا ہے۔ ہمارے اخلاق و عادات کو ظلم کی دیمک چاٹ رہی ہے۔ ہر طرف سے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ ہر شخص نواب کے مقابلے میں ڈیڑھ نواب بننے کو تُلا بیٹھا ہے۔ غلطی اور جرم سے بڑھ کر سزا اور بدلے کی روش ظلم در ظلم کی شکل میں دکھائی دے رہی ہے۔ افسوس کہ آج ہمارے دل، رحم و کرم، صبر و تحمل اور عفو و درگزر جیسی اعلیٰ اوصاف سے یک سر خالی ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری اجتماعی طاقت کا شیرازہ بکھر کر پارہ پارہ ہو چکا ہے، باہمی نفرت و عداوت، لڑائی جھگڑے اور انتقامی کارروائیوں نے ہماری ہیبت و جلال، سطوت و شوکت اور وجاہت و دبدبے کو سلب کرلیا اور آپس کے انتشار کی وجہ سے ہماری ہوا اکھڑ گئی ہے۔

آئیے عزم کریں! محض ارادہ نہیں بل کہ فیصلہ کریں کہ ہم سب ایسی زندگی گزاریں گے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہو۔ معاشرے کو خُوش گوار، محبت افزاء اور پُرامن بنانے کے لیے بقائے باہمی پر عمل کریں گے اور اپنے اندر دیگر اعلی اوصاف کی طرح عفو و درگزر کی صفت بھی پیدا کریں گے۔ آئندہ اس امید بل کہ پختہ یقین کے ساتھ لوگوں کی غلطیاں اور جرائم کو معاف کریں گے کہ قیامت کے دن اللہ کریم عفو و درگزر کا معاملہ کرتے ہوئے ہماری غلطیاں اور ہمارے جرائم معاف کر دے گا۔

آئیے اس دعا کو اپنا معمول بنائیں! اے اللہ! تُو معاف کرنے والا ہے، معافی کو پسند فرماتا ہے، ہمیں معاف فرما! اے بخشنے والے! اے کرم کرنے والے۔ آمین بہ جاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
Load Next Story