آف شور بینکوں میں پڑے 75 ارب ڈالر کے حصول میں حکومتی دلچسپی ختم
جنوری کے بعد سے FBR نے آف شور بینک اکاؤنٹس رکھنے والوں کونوٹس جاری نہیں کیا
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے آف شور بینک اکاؤنٹس میں پڑے ہوئے ساڑھے 7 ارب ڈالر کے حصول کی کوششیں ترک کردی ہیں۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اسد عمر کی سربراہی میں منعقدہ اجلاس میں ایف بی آر کے ڈائریکٹر جنرل انٹرنیشنل ٹیکسز محمد اشفاق نے بتایا کہ جنوری کے بعد سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے آف شور بینک اکاؤنٹس رکھنے والے افراد کو کوئی نوٹس جاری نہیں کیا۔
او ای سی ڈی نے پاکستانیوں کے ایک لاکھ 52 ہزار بینک اکاؤنٹس کی معلومات گذشتہ برس ستمبر میں ٹیکس حکام کو مہیا کی تھیں۔ ایف بی آر نے صرف ان بینک اکاؤنٹس کے سلسلے میں کوئی اقدام کیا جن میں رکھی ہوئی رقم کی مالیت 5 لاکھ ڈالر سے زائد تھی۔
ڈائریکٹر جنرل کے مطابق ایک اکاؤنٹ میں زیادہ سے زیادہ رقم 137 ملین ڈالر ( 22 ارب روپے ) تھی۔ محمد اشفاق کے مطابق ان اکاؤنٹس میں 7.5 ارب ڈالر کی خطیر رقم موجود ہے۔ ساڑھے 4 ارب ڈالر صرف 650 لوگوں کی ملکیت میں ہیں۔
ڈی جی نے بتایا کہ ایف بی آر 650 میں سے تقریباً 325 لوگوں کی نشاندہی کرسکا جنھیں نوٹس ارسال کیے گئے، مگر ان میں سے 60 فیصد سے زیادہ افراد پہلے ہی گذشتہ ایمنسٹی اسکیم سے استفادہ کرچکے تھے۔
محمد اشفاق نے یہ کہہ کر کمیٹی کو حیران کردیا کہ جب حکومت نے جنوری میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اجرا کرنے کی باتیں شروع کیں تو ہم نے نوٹسز کا اجرا روک دیا۔ انھوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ ایف بی آر ابتدائی طور پر ٹیکس کے مقاصد سے ان لوگوں کی آمدنی کا اندازہ بھی نہیں لگاسکا۔
اس موقع پر سابق وزیرخزانہ اور قائمہ کمیٹی کے چیئرمین اسد عمر نے کہا کہ بنیادی آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے او ای سی ڈی کی ایکسرسائز روک دی۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اسد عمر کی سربراہی میں منعقدہ اجلاس میں ایف بی آر کے ڈائریکٹر جنرل انٹرنیشنل ٹیکسز محمد اشفاق نے بتایا کہ جنوری کے بعد سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے آف شور بینک اکاؤنٹس رکھنے والے افراد کو کوئی نوٹس جاری نہیں کیا۔
او ای سی ڈی نے پاکستانیوں کے ایک لاکھ 52 ہزار بینک اکاؤنٹس کی معلومات گذشتہ برس ستمبر میں ٹیکس حکام کو مہیا کی تھیں۔ ایف بی آر نے صرف ان بینک اکاؤنٹس کے سلسلے میں کوئی اقدام کیا جن میں رکھی ہوئی رقم کی مالیت 5 لاکھ ڈالر سے زائد تھی۔
ڈائریکٹر جنرل کے مطابق ایک اکاؤنٹ میں زیادہ سے زیادہ رقم 137 ملین ڈالر ( 22 ارب روپے ) تھی۔ محمد اشفاق کے مطابق ان اکاؤنٹس میں 7.5 ارب ڈالر کی خطیر رقم موجود ہے۔ ساڑھے 4 ارب ڈالر صرف 650 لوگوں کی ملکیت میں ہیں۔
ڈی جی نے بتایا کہ ایف بی آر 650 میں سے تقریباً 325 لوگوں کی نشاندہی کرسکا جنھیں نوٹس ارسال کیے گئے، مگر ان میں سے 60 فیصد سے زیادہ افراد پہلے ہی گذشتہ ایمنسٹی اسکیم سے استفادہ کرچکے تھے۔
محمد اشفاق نے یہ کہہ کر کمیٹی کو حیران کردیا کہ جب حکومت نے جنوری میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اجرا کرنے کی باتیں شروع کیں تو ہم نے نوٹسز کا اجرا روک دیا۔ انھوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ ایف بی آر ابتدائی طور پر ٹیکس کے مقاصد سے ان لوگوں کی آمدنی کا اندازہ بھی نہیں لگاسکا۔
اس موقع پر سابق وزیرخزانہ اور قائمہ کمیٹی کے چیئرمین اسد عمر نے کہا کہ بنیادی آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے او ای سی ڈی کی ایکسرسائز روک دی۔