مشرف کا باہر جانا اب مشکل ہوگا جمہوریت پر ڈاکا ڈالا گیا تو سب متحد ہونگے صدر زرداری
جس کو بھی وزیر اعظم بنایا وی پارٹی سے ہٹ کر حقیقت میں وزیر اعظم بن گیا۔
سابق صدر آصف زرداری نے کہا ہے کہ پرانی سیاست کا دورختم ہوگیا۔ پہلے نوجوان درسگاہوں سے تیارہوکرنکلتے تھے، کوئی ایم ایس ایف ، کوئی پی ایس ایف اورکوئی جمعیت سے سیاست میں آتا تھا۔
اب منظر بدل چکا ہے۔ مڈل کلاس کا پڑھالکھا نوجوان سیاست میں آنے کیلیے تیارنہیں۔ روایتی سیاسی خاندانوں کے درمیان ہی سیاست ہورہی ہے۔ زیادہ تربرادری ازم کی سیاست ہورہی ہے۔ میںاس سیاست کے حق میں نہیں۔ سبکدوشی سے پہلے بلاول ہاؤس میں سینئرصحافیوں سے طویل غیررسمی نشست میں کھلے ڈلے انداز میں گفتگو کے دوران سابق صدر نے کہا کہ برادری سیاست میں ایک خرابی جرائم کی شکل میں ابھر رہی ہے۔ برادریوں میں اپنے چاچے اور مامے قتل کرکے سرداری حاصل کی جاتی ہے جس سے پنجاب میں بھی جرائم بڑھ رہے ہیں۔
بلوچ سردار خواہ وہ زہری، بگٹی یا مری ہوں انہوں نے بھی اپنے چاچوںاورماموں کوقتل کرکے سرداری حاصل کی۔ انھوں نے کہا کہ اس ملک میں جتنی مرضی اکثریت والی حکومت ہو، فوج اس کا تختہ الٹ دیتی ہے اور کچھ نہیں ہوتا۔ نوازشریف کے پاس دوتہائی اکثریت تھی ،پرویز مشرف نے تختہ الٹا توکوئی باہرنہ نکلا۔ کلثوم نواز کی گاڑی کولفٹر سے اٹھایاگیا تو جاوید ہاشمی اور تہمینہ دولتانہ کے سوا سب غائب تھے۔ اس سوال پر کہ کیا نیا آرمی چیف جنرل کیانی اورنیا چیف جسٹس افتخار چوہدری جیسانہیں ہوگا؟ انھوں نے کہا کہ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
جوبھی آئے گا اسکی اپنی سوچ اورترجیحات ہونگی۔ سابق صدر نے اعتزازاحسن کو نئی ذمے داریاں دینے کا اشارہ دیا۔ ایک سینئر صحافی کے اس سوال پر کہ منظوروٹوکامیاب نہیں ہوسکے، انہوں نے کہا کہ اعتزاز بہت بہترہیں لیکن میں اکیلا کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔ پارٹی کمیٹیوں میں مشاورت ہوگی، ایک سوال پر کہ نوازشریف اورآپ نے ایک دوسرے کو کیا مشورے دیے، انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ میں آپکو کیوں بتاؤنگا۔ صحافیوںکوبتایا تو وہ کچھ کاکچھ بنا دیں گے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ الطاف حسین کو ہر بار منانے کی آپ کے پاس کیا گیدڑسنگھی ہے ؟ اس پر انھوں نے برجستہ جواب دیا رحمن ملک جس پرزوردارقہقہہ لگا۔ سابق صدر نے کہاکہ بینظیر کے دور میں 4ہزارمیگا واٹ سستی بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کی پوری تیاری تھی مگر سیف الرحمن نے اسے بند کرادیا۔ راجا پرویزاشرف کے خلاف کرپشن کے مقدمات میں کوئی حقیقت نہیں۔ رینٹل پاور کے معاملے میں ادائیگیاں ہی نہیں ہوئی ہیں توکرپشن کیسے ہوگئی؟۔
پیپلزپارٹی کی حکومت کی ناکامیوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب کسی کووزیراعظم بناتے تو وہ پارٹی سے ہٹ کر حقیقت میں وزیراعظم بن جاتا۔ یہ بھی میرے لیے مشکل رہی۔ یوسف رضاگیلانی کی نامزدگی میرا اکیلے کا فیصلہ نہیں تھا۔ اس معاملے پر ایک ماہ تک نیچے سے اوپرتک مشاورت کی گئی۔ مخدوم شہاب الدین کی نامزدگی تک مجھے معلوم نہیں تھا کہ ان پرکوئی کیس ہے۔ جیسے ہی نامزدگی ہوئی کیس کھل گیا۔ اپنے اختیارات سے دستبردار ہونا آسان نہیں۔ میں پاکستان کا واحد صدرتھا جس نے اختیارات پارلیمنٹ اوروزیراعظم کومنتقل کئے ورنہ رضاربانی کی کیا جراٗت تھی کہ وہ کوئی آئینی ترمیم کی تجویز دیتے۔ انھوں نے کہا کہ پرویزمشرف کواب بیرون ملک واپس جانے میں بہت مشکل ہوگی۔ انھیں قانونی تقاضے پورے کرنے ہونگے۔
اگرکوئی ڈیل ہوتی بھی ہے تب بھی ان کیلیے بیرون ممالک جانے میںقانونی پیچیدگیاں حائل ہونگی۔ انھیں ہرصورت میں مقدمات سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ پہلے کیسوںمیں ضمانت کرانی اور پھر بیرون ملک جانے کیلئے اجازت لینا ہوگی۔ پھر طے شدہ تاریخ پرپیش ہونا ہوگا۔ یہ آسان کام نہیں۔ آصف زرداری نے سینئر صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے آپ کی تنقیدکے باوجود کبھی ری ایکٹ نہیں کیا۔کل جمہوریت پرڈاکہ ڈالنے کی کوشش ہوئی توسب ساتھ کھڑے ہونگے اور مجھے امید ہے صحافی بھی میرے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ میں بھی جمہوریت کیلیے جیل گیا، میں نے کسی پر بم نہیں باندھا تھا اس کے باوجود مجھ پر کیس بنائے گئے ۔
اب منظر بدل چکا ہے۔ مڈل کلاس کا پڑھالکھا نوجوان سیاست میں آنے کیلیے تیارنہیں۔ روایتی سیاسی خاندانوں کے درمیان ہی سیاست ہورہی ہے۔ زیادہ تربرادری ازم کی سیاست ہورہی ہے۔ میںاس سیاست کے حق میں نہیں۔ سبکدوشی سے پہلے بلاول ہاؤس میں سینئرصحافیوں سے طویل غیررسمی نشست میں کھلے ڈلے انداز میں گفتگو کے دوران سابق صدر نے کہا کہ برادری سیاست میں ایک خرابی جرائم کی شکل میں ابھر رہی ہے۔ برادریوں میں اپنے چاچے اور مامے قتل کرکے سرداری حاصل کی جاتی ہے جس سے پنجاب میں بھی جرائم بڑھ رہے ہیں۔
بلوچ سردار خواہ وہ زہری، بگٹی یا مری ہوں انہوں نے بھی اپنے چاچوںاورماموں کوقتل کرکے سرداری حاصل کی۔ انھوں نے کہا کہ اس ملک میں جتنی مرضی اکثریت والی حکومت ہو، فوج اس کا تختہ الٹ دیتی ہے اور کچھ نہیں ہوتا۔ نوازشریف کے پاس دوتہائی اکثریت تھی ،پرویز مشرف نے تختہ الٹا توکوئی باہرنہ نکلا۔ کلثوم نواز کی گاڑی کولفٹر سے اٹھایاگیا تو جاوید ہاشمی اور تہمینہ دولتانہ کے سوا سب غائب تھے۔ اس سوال پر کہ کیا نیا آرمی چیف جنرل کیانی اورنیا چیف جسٹس افتخار چوہدری جیسانہیں ہوگا؟ انھوں نے کہا کہ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
جوبھی آئے گا اسکی اپنی سوچ اورترجیحات ہونگی۔ سابق صدر نے اعتزازاحسن کو نئی ذمے داریاں دینے کا اشارہ دیا۔ ایک سینئر صحافی کے اس سوال پر کہ منظوروٹوکامیاب نہیں ہوسکے، انہوں نے کہا کہ اعتزاز بہت بہترہیں لیکن میں اکیلا کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔ پارٹی کمیٹیوں میں مشاورت ہوگی، ایک سوال پر کہ نوازشریف اورآپ نے ایک دوسرے کو کیا مشورے دیے، انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ میں آپکو کیوں بتاؤنگا۔ صحافیوںکوبتایا تو وہ کچھ کاکچھ بنا دیں گے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ الطاف حسین کو ہر بار منانے کی آپ کے پاس کیا گیدڑسنگھی ہے ؟ اس پر انھوں نے برجستہ جواب دیا رحمن ملک جس پرزوردارقہقہہ لگا۔ سابق صدر نے کہاکہ بینظیر کے دور میں 4ہزارمیگا واٹ سستی بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کی پوری تیاری تھی مگر سیف الرحمن نے اسے بند کرادیا۔ راجا پرویزاشرف کے خلاف کرپشن کے مقدمات میں کوئی حقیقت نہیں۔ رینٹل پاور کے معاملے میں ادائیگیاں ہی نہیں ہوئی ہیں توکرپشن کیسے ہوگئی؟۔
پیپلزپارٹی کی حکومت کی ناکامیوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب کسی کووزیراعظم بناتے تو وہ پارٹی سے ہٹ کر حقیقت میں وزیراعظم بن جاتا۔ یہ بھی میرے لیے مشکل رہی۔ یوسف رضاگیلانی کی نامزدگی میرا اکیلے کا فیصلہ نہیں تھا۔ اس معاملے پر ایک ماہ تک نیچے سے اوپرتک مشاورت کی گئی۔ مخدوم شہاب الدین کی نامزدگی تک مجھے معلوم نہیں تھا کہ ان پرکوئی کیس ہے۔ جیسے ہی نامزدگی ہوئی کیس کھل گیا۔ اپنے اختیارات سے دستبردار ہونا آسان نہیں۔ میں پاکستان کا واحد صدرتھا جس نے اختیارات پارلیمنٹ اوروزیراعظم کومنتقل کئے ورنہ رضاربانی کی کیا جراٗت تھی کہ وہ کوئی آئینی ترمیم کی تجویز دیتے۔ انھوں نے کہا کہ پرویزمشرف کواب بیرون ملک واپس جانے میں بہت مشکل ہوگی۔ انھیں قانونی تقاضے پورے کرنے ہونگے۔
اگرکوئی ڈیل ہوتی بھی ہے تب بھی ان کیلیے بیرون ممالک جانے میںقانونی پیچیدگیاں حائل ہونگی۔ انھیں ہرصورت میں مقدمات سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ پہلے کیسوںمیں ضمانت کرانی اور پھر بیرون ملک جانے کیلئے اجازت لینا ہوگی۔ پھر طے شدہ تاریخ پرپیش ہونا ہوگا۔ یہ آسان کام نہیں۔ آصف زرداری نے سینئر صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے آپ کی تنقیدکے باوجود کبھی ری ایکٹ نہیں کیا۔کل جمہوریت پرڈاکہ ڈالنے کی کوشش ہوئی توسب ساتھ کھڑے ہونگے اور مجھے امید ہے صحافی بھی میرے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ میں بھی جمہوریت کیلیے جیل گیا، میں نے کسی پر بم نہیں باندھا تھا اس کے باوجود مجھ پر کیس بنائے گئے ۔