ایران شمالی کوریا سے امریکا چاہتا کیا ہے
ایرانی قیادت پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ وہ امریکی دباؤ کو قبول نہیں کریں گے۔
امریکا اور ایران کے درمیان جو جنگی تناؤ موجود تھا، اس میں مزید شدت کے آثار ایران کے اس اعلان کے بعد آ گئے ہیں کہ تہران یورینیم کی افزودگی کی صلاحیت بڑھانے کا عمل شروع کر رہا ہے، جب کہ صدرٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایرانی دھمکیاں خود ایرانی لیڈروں کے گلے پڑسکتی ہیں۔
گزشتہ برس جوہری معاہدے سے امریکا کے اخراج کے بعد صورتحال کشیدہ ہونا شروع ہوئی تھی۔ ایران سرنڈر کرنے کو تیار نہیں یہ بات امریکا اچھی طرح جانتا ہے ۔ ایرانی قیادت پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ وہ امریکی دباؤ کو قبول نہیں کریں گے ۔ دراصل ایران سینٹری فیوجزکی تیاری کو تیزکرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو یورینیم کی افزودگی میں کام آتے ہیں۔ ہیگزا فلورائڈ سینٹری فیوجز میں استعمال ہونے والا خام مواد ہے۔
اسی تناظر میں ایران کے رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای نے ایرانی حکام سے کہا تھا کہ 2015ء میں بڑی طاقتوں کے ساتھ طے پایا جانے والا یہ معاہدہ ختم ہوا تو یورینیم کی افزودگی بڑھانے کے لیے مطلوبہ تیاریاں کر لی جائیں۔ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ بڑی عالمی طاقتیں اوراقوام متحدہ جو اس معاہدے کی ضامن وہ اپنا کردار کیوں ادا نہیں کرپارہی ہیں کیا وہ امریکا کے سامنے بے بس ہیں ۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سربراہ کے درمیان ملاقات کے چند روز بعد ہی شمالی کوریا نے الزام عائدکیا ہے کہ امریکا ہمارے خلاف جارحانہ اقدامات پر تلا ہوا ہے اور امریکا کو پابندیاں لگانے کا جنون ہے جب کہ واشنگٹن جزیرہ نما کوریا کے پر امن ماحول کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔
چند دن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کی سرزمین پر قدم رکھنے والے پہلے امریکی صدرکا '' اعزاز '' حاصل کیا تھا ۔ جس سے امید بندھی تھی کہ شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان امن کا عمل آگے بڑھے گا لیکن تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو امریکا، فرانس، جرمنی اور برطانیہ کی جانب سے اقوام متحدہ کے تمام ممبران کو خط بھیجا گیا ہے جس میں شمالی کوریا پر مزید پابندیوں اور شمالی کوریا کے ورکرز کو ملک بدرکرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
شمالی کورین وفد نے اقوام متحدہ کے تمام ممبران کو خبردار کیا کہ امریکا کی جانب سے جان بوجھ کر شمالی کوریا کے پرامن ماحول کو خراب کرنے کی کوشش سے محتاط رہنا ہوگا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت ایک ایسا معمہ ہیں، جس کو سمجھنا آسان نہیں، لمحہ بہ لمحہ ان کے موڈ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
کبھی وہ آخری لمحے میں ایران پر حملے کا فیصلہ تبدیل کرلیتے ہیں اورکبھی شمالی کوریا کی سرزمین پر قدم رکھنے کے بعد اپنے قول وقرار سے مکر جاتے ہیں ۔ کرہ ارض کسی بھی ایٹمی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے یہ طے شدہ امر ہے لہذا دیگر عالمی طاقتوں کو امریکا کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ دنیا کے امن کو تہہ وبالا نہ کرے۔
گزشتہ برس جوہری معاہدے سے امریکا کے اخراج کے بعد صورتحال کشیدہ ہونا شروع ہوئی تھی۔ ایران سرنڈر کرنے کو تیار نہیں یہ بات امریکا اچھی طرح جانتا ہے ۔ ایرانی قیادت پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ وہ امریکی دباؤ کو قبول نہیں کریں گے ۔ دراصل ایران سینٹری فیوجزکی تیاری کو تیزکرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو یورینیم کی افزودگی میں کام آتے ہیں۔ ہیگزا فلورائڈ سینٹری فیوجز میں استعمال ہونے والا خام مواد ہے۔
اسی تناظر میں ایران کے رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای نے ایرانی حکام سے کہا تھا کہ 2015ء میں بڑی طاقتوں کے ساتھ طے پایا جانے والا یہ معاہدہ ختم ہوا تو یورینیم کی افزودگی بڑھانے کے لیے مطلوبہ تیاریاں کر لی جائیں۔ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ بڑی عالمی طاقتیں اوراقوام متحدہ جو اس معاہدے کی ضامن وہ اپنا کردار کیوں ادا نہیں کرپارہی ہیں کیا وہ امریکا کے سامنے بے بس ہیں ۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سربراہ کے درمیان ملاقات کے چند روز بعد ہی شمالی کوریا نے الزام عائدکیا ہے کہ امریکا ہمارے خلاف جارحانہ اقدامات پر تلا ہوا ہے اور امریکا کو پابندیاں لگانے کا جنون ہے جب کہ واشنگٹن جزیرہ نما کوریا کے پر امن ماحول کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔
چند دن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کی سرزمین پر قدم رکھنے والے پہلے امریکی صدرکا '' اعزاز '' حاصل کیا تھا ۔ جس سے امید بندھی تھی کہ شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان امن کا عمل آگے بڑھے گا لیکن تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو امریکا، فرانس، جرمنی اور برطانیہ کی جانب سے اقوام متحدہ کے تمام ممبران کو خط بھیجا گیا ہے جس میں شمالی کوریا پر مزید پابندیوں اور شمالی کوریا کے ورکرز کو ملک بدرکرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
شمالی کورین وفد نے اقوام متحدہ کے تمام ممبران کو خبردار کیا کہ امریکا کی جانب سے جان بوجھ کر شمالی کوریا کے پرامن ماحول کو خراب کرنے کی کوشش سے محتاط رہنا ہوگا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت ایک ایسا معمہ ہیں، جس کو سمجھنا آسان نہیں، لمحہ بہ لمحہ ان کے موڈ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
کبھی وہ آخری لمحے میں ایران پر حملے کا فیصلہ تبدیل کرلیتے ہیں اورکبھی شمالی کوریا کی سرزمین پر قدم رکھنے کے بعد اپنے قول وقرار سے مکر جاتے ہیں ۔ کرہ ارض کسی بھی ایٹمی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے یہ طے شدہ امر ہے لہذا دیگر عالمی طاقتوں کو امریکا کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ دنیا کے امن کو تہہ وبالا نہ کرے۔