ہارس ٹریڈنگ ماضی کی طرف سفر
وزیر اعظم عمران خان کو ملک کی سیاست سے سبق سیکھنا چاہیے اور اس حقیقت کو محسوس کرنا چاہیے۔
پاکستان جمہوری عمل میں پیچھے کی طرف سفر کرنے لگا ہے۔ مسلم لیگ کے چند اراکین و قومی و صوبائی اسمبلی کی وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات ماضی کی ہارس ٹریڈنگ کی یاد دلارہی ہے۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری کا دعویٰ ہے کہ مزید منتخب اراکین اسمبلی اپنی قیادت کو چھوڑ کر تحریک انصاف سے رجوع کریں گے۔ وفاقی وزراء اس صورتحال کی ذمے داری مسلم لیگ ن کی قیادت اور خاص طور پر میاں نواز شریف پر عائد کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ منتخب اراکین اپنی قیادت کے رویہ سے مایوس ہیں۔ فواد چوہدری دعویٰ کرتے ہیں کہ میاں شہباز شریف صدر ہونے کے باوجود بے اثر ہیں اور مریم نواز کی پالیسی نے میاں نواز شریف کو جیل پہنچا دیا ہے اور میاں شہبازشریف سے اختیارات چھین لیے ہیں۔ منتخب اراکین مایوسی کا شکار ہیں۔ ان کے پاس برسر اقتدار جماعت سے رابطوں کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
سیاسیات کے استاد فلسفی اور پنجاب کے سابق نگراں وزیر اعلیٰ ڈاکٹر حسن عسکری صاحب نے سیاسیات کے علم آئین کے تقدس اور جمہوری نظام کے عدم استحکام جیسے اہم نکات کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک ٹاک شو میں کہا کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کو اپنے حلقوں میں کام کرانے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس برسر اقتدار حکومت سے رابطے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ سندھ کے گورنر عمران اسماعیل جادوگر ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان ہدایات جاری کریں تو سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت تقسیم ہوجائے گی۔ ایک سینئر صحافی کو جب ایک وفاقی وزیر نے مسلم لیگ ن کے منتخب اراکین کی وزیر اعظم سے ملاقات کی خبر دی تو اس صحافی نے پوچھا کہ ان اراکین کو کتنی رقم دی گئی ہے تو وزیر موصوف خاموش ہوگئے۔
پاکستان کے آئین اور پولیٹیکل پارٹنر ایکٹ کے تحت کوئی منتخب رکن اپنی وفاداری تبدیل کرتا ہے تو اس کو اپنی نشست سے محروم ہونا پڑے گا مگر مسلم لیگ ن کے منتخب اراکین کی وزیر اعظم سے ملاقات اور ان کے حکومت سے تعاون کے فیصلے پر قانون تو حرکت میں نہیں آئے گا مگر برطانیہ کی پارلیمانی روایات کا قدم قدم پر حوالہ دینے والے تحریک انصاف کے قائد سیاسی اخلاقیات کے مطابق ان ملاقاتوں کا کوئی جواز فراہم کرسکیں گے؟ پاکستان میں جمہوری اداروں کے استحکام اور منتخب اراکین کی وفاداریاں تبدیل کرنے کی سیاہ تاریخ ہے۔
مسلم لیگ نے لیاقت علی خان کے قتل کے بعد خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم اور ایک سینئر بیوروکریٹ غلام محمد کو گورنر جنرل مقرر کیا۔ غلام محمد نے فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان کی حمایت سے مسلم لیگ میں توڑ پھوڑ کی۔ آئین ساز اسمبلی کے منتخب رکن خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم کے عہدے سے برطرف کیا اور امریکا میں تعینات پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرا کو وزیر اعظم مقرر کیا۔
وزیر اعظم محمد علی بوگرا نے گورنر جنرل کے اختیارات ختم کرنے کے لیے آئین ساز اسمبلی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا تو کراچی پولیس کو ہدایت کی کہ اسمبلی کا اجلاس منعقد نہ ہوسکے اور محمد علی بوگرا کو وزیر اعظم کے عہدے سے برطرف کردیا۔ پھر ون یونٹ کے قیام کی منظوری کے لیے سندھ اسمبلی کے اراکین کی وفاداریاں تبدیل کی گئیں۔ میرغلام علی تالپور کو گرفتار کرکے تھرکے گاؤں میں مٹھی میں نظر بند کیا گیا۔
گورنر جنرل اسکندر مرزا نے راتوں رات ریپبلک پارٹی قائم کی۔ خدائی خدمت گار تحریک کے سربراہ ڈاکٹر خان صاحب اور مسلم لیگ کے بہت سے رہنماؤں کو ریپبلک پارٹی میں شامل کیا گیا اور برابری کا اصول نافذ کرکے مشرقی پاکستان کی اکثریت کو ختم کیا گیا۔ اسکندر مرزا ریپبلک پارٹی اور مسلم لیگ اور عوامی لیگ کے رہنماؤں کو لڑا کر اقتدار پر قابض رہے۔ اس لڑائی میں مارشل لاء نافذ کیا اور ایوب خان کے لیے اقتدار کا راستہ مکمل طور پر کھل گیا۔
ایوب خان کو مارشل لاء ختم کرنے اور اپنی حکومت کو سویلین بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی تو چوہدری خلیق الزماں کی تجویز پر وہ خودساختہ طور پر مسلم لیگ کے صدر بن گئے اور مسلم لیگ اور دیگر جماعتوں کے اراکین کو ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ میں شامل کیا گیا۔ ایوب خان کی مخالف مسلم لیگ کونسل کہلائی۔ صدارتی انتخابات میں دھاندلی کر کے فاطمہ جناح کو شکست دی گئی اور ذرایع ابلاغ سے یہ تاثر دیا گیا کہ کنونشن مسلم لیگ ہی سب سے بڑی جماعت ہے مگر جب 1968ء میں ایوب خان کی آمریت کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی تو کنونشن مسلم لیگ بکھر گئی۔
یحییٰ خان نے جب مارچ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے خلاف آپریشن شروع کیا اور عوامی لیگ کی قیادت کلکتہ منتقل ہوئی تو حکومت نے عوامی لیگ کے کچھ اراکین قومی اسمبلی کے بارے میں اعلان کیا کہ یہ اراکین ایکشن کی حمایت کررہے ہیں مگر بعد میں یہ دعویٰ جھوٹا ثابت ہوا ۔ 1973ء کے آئین کے نفاذ کے ساتھ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ نافذ کیا گیا تاکہ منتخب اراکین اپنی وفاداریاں تبدیل نہ کریں مگر جب بھٹو حکومت نے نیشنل عوامی پارٹی کی بلوچستان میں حکومت کو برطرف کیا اور نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کردی تو بلوچستان کے بعض اراکین اسمبلی دباؤ میں آکر پیپلز پارٹی کی حکومت کی حمایت پر مجبور ہوئے مگر پولیٹیکل پارٹرایکٹ کی بناء پر وہ اپنی سیاسی جماعت تبدیل نہیں کرسکے۔
جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کیا اور منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کا مقدمہ چلا تو مولانا کوثر نیازی نے پیپلز پارٹی سے علیحدگی اختیارکر کے پروگریسو پیپلز پارٹی قائم کی۔ پیپلز پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے اراکین یاسین وٹو، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے قریبی عزیز نواب صادق قریشی پیپلز پارٹی سے علیحدہ ہو کر نئی جماعت میں شامل ہوئے مگر سیاسی تاریخ میں غائب ہوگئے۔ 1985ء سے 1999ء تک مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے ہارس ٹریڈنگ کی پالیسی اختیار کی۔ میاں نواز شریف کو وزیر اعلی بنانے کے لیے اراکین صوبائی اسمبلی کو چھانگا مانگا لے جایا گیا۔
1988ء میں پیپلز پارٹی کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف تاریخ میں پہلی دفعہ قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی۔ سابق وزیر اعظم غلام مصطفی جتوئی نے اس امید پر کہ پیپلز پارٹی کے اراکین اپنی وفاداری تبدیل کریں گے اس تحریک اعتماد میں جوش و خروش سے حصہ لیا۔ کہا جاتا ہے کہ اراکین اسمبلی کی خریداری کے لیے اسامہ بن لادن نے خطیر رقم مہیا کی ، یہ عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوگئی۔ پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت میں سرحد کے مسلم لیگی اراکین کو پیپلز پارٹی کی حمایت کرنے پر خریدا گیا تو شیرپاؤ وزیر اعلیٰ بنے۔ یہ مقدمہ سپریم کورٹ تک گیا۔
پرویز مشرف نے 2002ء میں عام انتخابات کرائے تو پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں مگر پیپلز پارٹی کے اراکین کو توڑ کر پیپلز پارٹی پیٹریاٹ قائم کی گئی مگر 2008ء میں یہ جماعت لاپتہ ہوگئی۔ پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان میثاق جمہوریت ہوا تو دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ منتخب اراکین کی خریدو فروخت سے جمہوری نظام کمزور ہوتا ہے۔ اس بناء پر مستقبل میں دونوں جماعتیں منتخب اراکین کی خرید و فروخت نہیں کریں گی تاکہ سیاسی نظام مستحکم ہو۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے میثاق جمہوریت کا پاس کیا اور یہ عہد کیا کہ ہر منتخب حکومت اپنی آئینی میعاد پوری کرے گی اور دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی حکومت گرانے کی کوشش نہیں کریں گے۔
اس میثاق کی بناء پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی مگر اب تحریک انصاف کی حکومت اراکین اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ برسراقتدار جماعت کے اراکین قومی اسمبلی کا کہنا ہے کہ وفاقی بجٹ کے حق میں ووٹ دینے کے لیے ان پر دباؤ کے لیے ان کے ضلع کے سول اور پولیس افسران کو دباؤ کے لیے استعمال کیا گیا۔ سیاست کے طالب علموں کا کہنا ہے کہ جب بھی کسی جماعت کے اراکین کی وفاداریاں تبدیل ہوتی تھیں اس وقت بھی وفاقی اور صوبائی وزراء نے وہی دلائل دیے جو فواد چوہدری اور دیگر وزراء دے رہے ہیں۔ بظاہر تو یہ حکومت کے اقتدار کو مضبوط کرنے کی کوشش تھی مگر عملاً اس طریقہ کار سے جمہوری نظام کو کمزور کرنے کا عمل شروع ہوگیا۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ کے رہنما رانا ثناء اﷲ کی منشیات مقدمہ میں گرفتاری نے ذوالفقار علی بھٹو دور میں مسلم لیگ ن کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کے والد چوہدری ظہورالٰہی کی بھینس چوری میں گرفتاری کی یاد تازہ کردی۔ سیاسیات کے طالب علم کہتے ہیں کہ ملک میں فاشزم کے سائے گہرے ہورہے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کو ملک کی سیاست سے سبق سیکھنا چاہیے اور اس حقیقت کو محسوس کرنا چاہیے کہ دباؤ یا لالچ کی بناء پر قریب آنے والے اراکین کسی کے وفادار نہیں ہوتے بلکہ یہ اپنے مفاد کے لیے جمہوری نظام کوکمزور کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کو تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان ہونے والے میثاق جمہوریت سے ملک کی سیاسی فضاء بہتر ہوئی تھی اور جمہوری نظام مستحکم ہوا تھا۔ جاوید ہاشمی سمیت کئی اراکین اسمبلی نے اسمبلی سے استعفیٰ دیا تھا پھر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔ مگر اب پھر 50ء کی دھائی کی تاریخ دھرانے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے وفاق کو شدید نقصان پہنچے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ منتخب اراکین اپنی قیادت کے رویہ سے مایوس ہیں۔ فواد چوہدری دعویٰ کرتے ہیں کہ میاں شہباز شریف صدر ہونے کے باوجود بے اثر ہیں اور مریم نواز کی پالیسی نے میاں نواز شریف کو جیل پہنچا دیا ہے اور میاں شہبازشریف سے اختیارات چھین لیے ہیں۔ منتخب اراکین مایوسی کا شکار ہیں۔ ان کے پاس برسر اقتدار جماعت سے رابطوں کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
سیاسیات کے استاد فلسفی اور پنجاب کے سابق نگراں وزیر اعلیٰ ڈاکٹر حسن عسکری صاحب نے سیاسیات کے علم آئین کے تقدس اور جمہوری نظام کے عدم استحکام جیسے اہم نکات کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک ٹاک شو میں کہا کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کو اپنے حلقوں میں کام کرانے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس برسر اقتدار حکومت سے رابطے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ سندھ کے گورنر عمران اسماعیل جادوگر ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان ہدایات جاری کریں تو سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت تقسیم ہوجائے گی۔ ایک سینئر صحافی کو جب ایک وفاقی وزیر نے مسلم لیگ ن کے منتخب اراکین کی وزیر اعظم سے ملاقات کی خبر دی تو اس صحافی نے پوچھا کہ ان اراکین کو کتنی رقم دی گئی ہے تو وزیر موصوف خاموش ہوگئے۔
پاکستان کے آئین اور پولیٹیکل پارٹنر ایکٹ کے تحت کوئی منتخب رکن اپنی وفاداری تبدیل کرتا ہے تو اس کو اپنی نشست سے محروم ہونا پڑے گا مگر مسلم لیگ ن کے منتخب اراکین کی وزیر اعظم سے ملاقات اور ان کے حکومت سے تعاون کے فیصلے پر قانون تو حرکت میں نہیں آئے گا مگر برطانیہ کی پارلیمانی روایات کا قدم قدم پر حوالہ دینے والے تحریک انصاف کے قائد سیاسی اخلاقیات کے مطابق ان ملاقاتوں کا کوئی جواز فراہم کرسکیں گے؟ پاکستان میں جمہوری اداروں کے استحکام اور منتخب اراکین کی وفاداریاں تبدیل کرنے کی سیاہ تاریخ ہے۔
مسلم لیگ نے لیاقت علی خان کے قتل کے بعد خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم اور ایک سینئر بیوروکریٹ غلام محمد کو گورنر جنرل مقرر کیا۔ غلام محمد نے فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان کی حمایت سے مسلم لیگ میں توڑ پھوڑ کی۔ آئین ساز اسمبلی کے منتخب رکن خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم کے عہدے سے برطرف کیا اور امریکا میں تعینات پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرا کو وزیر اعظم مقرر کیا۔
وزیر اعظم محمد علی بوگرا نے گورنر جنرل کے اختیارات ختم کرنے کے لیے آئین ساز اسمبلی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا تو کراچی پولیس کو ہدایت کی کہ اسمبلی کا اجلاس منعقد نہ ہوسکے اور محمد علی بوگرا کو وزیر اعظم کے عہدے سے برطرف کردیا۔ پھر ون یونٹ کے قیام کی منظوری کے لیے سندھ اسمبلی کے اراکین کی وفاداریاں تبدیل کی گئیں۔ میرغلام علی تالپور کو گرفتار کرکے تھرکے گاؤں میں مٹھی میں نظر بند کیا گیا۔
گورنر جنرل اسکندر مرزا نے راتوں رات ریپبلک پارٹی قائم کی۔ خدائی خدمت گار تحریک کے سربراہ ڈاکٹر خان صاحب اور مسلم لیگ کے بہت سے رہنماؤں کو ریپبلک پارٹی میں شامل کیا گیا اور برابری کا اصول نافذ کرکے مشرقی پاکستان کی اکثریت کو ختم کیا گیا۔ اسکندر مرزا ریپبلک پارٹی اور مسلم لیگ اور عوامی لیگ کے رہنماؤں کو لڑا کر اقتدار پر قابض رہے۔ اس لڑائی میں مارشل لاء نافذ کیا اور ایوب خان کے لیے اقتدار کا راستہ مکمل طور پر کھل گیا۔
ایوب خان کو مارشل لاء ختم کرنے اور اپنی حکومت کو سویلین بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی تو چوہدری خلیق الزماں کی تجویز پر وہ خودساختہ طور پر مسلم لیگ کے صدر بن گئے اور مسلم لیگ اور دیگر جماعتوں کے اراکین کو ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ میں شامل کیا گیا۔ ایوب خان کی مخالف مسلم لیگ کونسل کہلائی۔ صدارتی انتخابات میں دھاندلی کر کے فاطمہ جناح کو شکست دی گئی اور ذرایع ابلاغ سے یہ تاثر دیا گیا کہ کنونشن مسلم لیگ ہی سب سے بڑی جماعت ہے مگر جب 1968ء میں ایوب خان کی آمریت کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی تو کنونشن مسلم لیگ بکھر گئی۔
یحییٰ خان نے جب مارچ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے خلاف آپریشن شروع کیا اور عوامی لیگ کی قیادت کلکتہ منتقل ہوئی تو حکومت نے عوامی لیگ کے کچھ اراکین قومی اسمبلی کے بارے میں اعلان کیا کہ یہ اراکین ایکشن کی حمایت کررہے ہیں مگر بعد میں یہ دعویٰ جھوٹا ثابت ہوا ۔ 1973ء کے آئین کے نفاذ کے ساتھ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ نافذ کیا گیا تاکہ منتخب اراکین اپنی وفاداریاں تبدیل نہ کریں مگر جب بھٹو حکومت نے نیشنل عوامی پارٹی کی بلوچستان میں حکومت کو برطرف کیا اور نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کردی تو بلوچستان کے بعض اراکین اسمبلی دباؤ میں آکر پیپلز پارٹی کی حکومت کی حمایت پر مجبور ہوئے مگر پولیٹیکل پارٹرایکٹ کی بناء پر وہ اپنی سیاسی جماعت تبدیل نہیں کرسکے۔
جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کیا اور منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کا مقدمہ چلا تو مولانا کوثر نیازی نے پیپلز پارٹی سے علیحدگی اختیارکر کے پروگریسو پیپلز پارٹی قائم کی۔ پیپلز پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے اراکین یاسین وٹو، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے قریبی عزیز نواب صادق قریشی پیپلز پارٹی سے علیحدہ ہو کر نئی جماعت میں شامل ہوئے مگر سیاسی تاریخ میں غائب ہوگئے۔ 1985ء سے 1999ء تک مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے ہارس ٹریڈنگ کی پالیسی اختیار کی۔ میاں نواز شریف کو وزیر اعلی بنانے کے لیے اراکین صوبائی اسمبلی کو چھانگا مانگا لے جایا گیا۔
1988ء میں پیپلز پارٹی کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف تاریخ میں پہلی دفعہ قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی۔ سابق وزیر اعظم غلام مصطفی جتوئی نے اس امید پر کہ پیپلز پارٹی کے اراکین اپنی وفاداری تبدیل کریں گے اس تحریک اعتماد میں جوش و خروش سے حصہ لیا۔ کہا جاتا ہے کہ اراکین اسمبلی کی خریداری کے لیے اسامہ بن لادن نے خطیر رقم مہیا کی ، یہ عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوگئی۔ پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت میں سرحد کے مسلم لیگی اراکین کو پیپلز پارٹی کی حمایت کرنے پر خریدا گیا تو شیرپاؤ وزیر اعلیٰ بنے۔ یہ مقدمہ سپریم کورٹ تک گیا۔
پرویز مشرف نے 2002ء میں عام انتخابات کرائے تو پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں مگر پیپلز پارٹی کے اراکین کو توڑ کر پیپلز پارٹی پیٹریاٹ قائم کی گئی مگر 2008ء میں یہ جماعت لاپتہ ہوگئی۔ پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان میثاق جمہوریت ہوا تو دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ منتخب اراکین کی خریدو فروخت سے جمہوری نظام کمزور ہوتا ہے۔ اس بناء پر مستقبل میں دونوں جماعتیں منتخب اراکین کی خرید و فروخت نہیں کریں گی تاکہ سیاسی نظام مستحکم ہو۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے میثاق جمہوریت کا پاس کیا اور یہ عہد کیا کہ ہر منتخب حکومت اپنی آئینی میعاد پوری کرے گی اور دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی حکومت گرانے کی کوشش نہیں کریں گے۔
اس میثاق کی بناء پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی مگر اب تحریک انصاف کی حکومت اراکین اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ برسراقتدار جماعت کے اراکین قومی اسمبلی کا کہنا ہے کہ وفاقی بجٹ کے حق میں ووٹ دینے کے لیے ان پر دباؤ کے لیے ان کے ضلع کے سول اور پولیس افسران کو دباؤ کے لیے استعمال کیا گیا۔ سیاست کے طالب علموں کا کہنا ہے کہ جب بھی کسی جماعت کے اراکین کی وفاداریاں تبدیل ہوتی تھیں اس وقت بھی وفاقی اور صوبائی وزراء نے وہی دلائل دیے جو فواد چوہدری اور دیگر وزراء دے رہے ہیں۔ بظاہر تو یہ حکومت کے اقتدار کو مضبوط کرنے کی کوشش تھی مگر عملاً اس طریقہ کار سے جمہوری نظام کو کمزور کرنے کا عمل شروع ہوگیا۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ کے رہنما رانا ثناء اﷲ کی منشیات مقدمہ میں گرفتاری نے ذوالفقار علی بھٹو دور میں مسلم لیگ ن کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کے والد چوہدری ظہورالٰہی کی بھینس چوری میں گرفتاری کی یاد تازہ کردی۔ سیاسیات کے طالب علم کہتے ہیں کہ ملک میں فاشزم کے سائے گہرے ہورہے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کو ملک کی سیاست سے سبق سیکھنا چاہیے اور اس حقیقت کو محسوس کرنا چاہیے کہ دباؤ یا لالچ کی بناء پر قریب آنے والے اراکین کسی کے وفادار نہیں ہوتے بلکہ یہ اپنے مفاد کے لیے جمہوری نظام کوکمزور کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کو تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان ہونے والے میثاق جمہوریت سے ملک کی سیاسی فضاء بہتر ہوئی تھی اور جمہوری نظام مستحکم ہوا تھا۔ جاوید ہاشمی سمیت کئی اراکین اسمبلی نے اسمبلی سے استعفیٰ دیا تھا پھر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔ مگر اب پھر 50ء کی دھائی کی تاریخ دھرانے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے وفاق کو شدید نقصان پہنچے گا۔