غازی یا شہید

میں وادیٔ سون کوشہیدوں کی وادیٔ کہتا ہوں اس لیے کہ اس کاکوئی گاؤں ایسا نہیں جسے کسی شہید کے مسکن ہونے کااعزازحاصل نہیں

Abdulqhasan@hotmail.com

وادیٔ سون سکیسر کا ایک اور جوان وطن عزیز پر قربان ہو گیا اور شہادت کے عظیم ترین منصب پر فائز ہو گیا ۔ میں اپنے رب سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے چند ایسے الفاظ عطا فرمادے کہ میں شہیدوں کو ان کے بلند رتبہ کے مطابق خراج عقیدت پیش کر سکوں لیکن یہ اتنا بڑا رتبہ ہے کہ اسے موت بھی نہیں آ سکتی۔ اس اعزاز کے سامنے الفاظ کی کیا وقعت رہ جاتی ہے کہ اسے ان میں بیان کیا جائے۔ میری کسی شہید سے ملاقات ہو گئی تو میں عرض کروں گا کہ آپ اپنے مبارک قدموں سے میرے پورے جسم کے اوپر سے گزر جائیں تا کہ میں آگ سے محفوظ رہوں۔

خدا کے نام پرحاصل کیے گئے وطن کی حفاظت کرتے ہوئے شہادت پانے والوں سے بڑا ولی اور کون ہو سکتا ہے جس جسم پر ان کا سایہ بھی پڑ جائے وہ دونوں جہان کی آفتوں سے محفوظ ہو جائے۔ میں نے ایک بیوہ کی زبان سے سنا کہ مجھے تو اپنے شہید شوہر آس پاس چلتے محسوس ہوتے ہیں ۔ اس پر کسی نے اس بیوہ سے کہا کہ وہ چاہئیں تو آپ کو دکھائی بھی دے سکتے ہیں ۔موت تو ہرانسان کو آتی ہے لیکن شہادت کی جاوداں زندگی کی موت صرف ان کو جن کو خدا اس اعزاز کے لیے منتخب فرما لیتا ہے۔ وادیٔ سون کے موضع سورکی کے بہادر سپوت سپاہی محمد طیب حسین ان شہدا میں شامل تھے جنھوں نے چند دن قبل بھارتی جارحیت کے نتیجے میں کشمیر سیکٹر میں جام شہادت نوش کیا۔ بھارت دن بدن ہمیں بہت مقروض کرتا جارہا ہے کوئی نہ کوئی مرد مومن یہ قرض ضرور چکائے گا۔ ہندو کا تادیر مقروض رہنا بہت مشکل ہے۔

میں وادیٔ سون کو شہیدوں کی وادیٔ کہتا ہوں اس لیے کہ اس کا کوئی گائوں ایسا نہیں جسے کسی شہید کے مسکن ہونے کا اعزاز حاصل نہیں اور کتنے ہی مستقبل کے شہدا ہیں جو اس وقت ملک کے مختلف محاذوں پر داد شجاعت دے رہے ہیںاور اپنے خالق سے زندگی کا سودا طے کرنے میں مصروف ہیں۔ایسا کئی بار ہوا ہے کہ کوئی غازی واپس لوٹ آیا اس کا سودا نہ ہو سکا مگر وہ پھر روانہ ہو گیا تاآنکہ اس کی یہ تجارت نفع بخش ثابت ہو گئی ۔

وادیٔ سون کا بارانی پہاڑی علاقہ غریب لوگوں کا وطن ہے ۔ انگریزوں نے یہاں سے فوجی بھرتی کرنے کے لیے اس علاقے کو ہر طرح کی ترقی سے محروم رکھا اور صرف فوج کی نوکری کو کھلا رکھا۔ پاکستان بننے کے بعد روزگار کے بے شمار دروازے کھل گئے اور فوج کی نوکری میں کوئی خاص کشش باقی نہ رہی لیکن یہاں کے بہادر اور نیک دل مسلمانوں میں نوکری کی جگہ ایک اور کشش نے جگہ بنا لی اور وہ تھی ملک کی حفاظت۔ ان کے جد امجد سلطان محمودغزنوی کے ہندوستان پر کسی حملے میں اس کے ساتھ ان علاقوں میں وارد ہوئے جو اب پاکستان میں ہیں۔


عجیب اتفاق ہے کہ محمود غزنوی کے سترہ حملوں میں سے وہ اس حملہ کے ساتھ لشکر میں شامل ہوئے جس کی گزر گاہ پاکستان کے علاقے تھے چنانچہ وہ دین کی تبلیغ کے لیے ہند کے کفرستان میں رک گئے اور قرآن کی تعلیم وتدریس کے حوالے سے ''اعوان قاری'' کہلائے ۔ یہ ان کی قرآنی تدریس کا ایک عوامی خطاب تھا جو اب تک باقی ہے۔ محمود غزنوی فتوحات کے نتیجے میں حکومتیں قائم کرنے والا فاتح نہیں تھا اس نے ہندوستان کو بار بار تسخیر کرنے کے باوجود کسی دوسرے فاتح کی طرح یہاں حکومت قائم نہیں کی۔ لاہور میں بھی حملوں کے راستے کو محفوظ کرنے کے لیے حکومت قائم کی تھی۔

یہی مزاج ان کے لشکریوں کا بھی تھا چنانچہ قطب شاہ کی جو اولاد یہاں بس گئی وہ اپنا تاریخی جنگی مزاج نہ بدل سکی۔ قرآن کی تعلیم دیتی رہی اور جہاد فی سبیل اللہ کا سبق بھی۔ کوئی نو صدیاں گزرنے کے بعد اسے ایک ایسا وطن ملا جس کی حفاظت کی خاطر اسے اپنے بزرگوں کا پرانا سبق یاد آیا۔ عجیب حسن اتفاق ہے کہ قطب شاہ کی اولاد کے سامنے صدیوں کے بعد وہی ہندو تھے جن کے بتوں کو توڑنے کے لیے سلطان محمود غزنوی نے بار بار ہند پر لشکر کشی کی تھی اور ان کے بزرگ ان لشکروں میں شامل تھے۔ دنیاوی ترقیاتی منصوبوں تعلیم اور آزادی کے بعد وادیٔ سون کے باشندوں کو روزی روٹی کے کئی راستے مل گئے لیکن فوجی زندگی زندہ رہی۔

پاک فوج میں بہت بڑی تعداد میں ان کی موجودگی ان کی تاریخ اور کلچر کو زندہ رکھے ہوئے ہے اور جب بھی پاکستان کو کسی محاذ پر ضرورت پڑی تو یہاں کے غیر فوجی بھی اس نئے محاذ پر پہنچ گئے کیونکہ وہ جہاد کے کئی محاذوں پر جہاد میں جاں فگن رہے۔ ان جہادوں کی برکت سے آج وادیٔ سون کی کوئی آبادی ایسی نہیں جس پر اس کے کسی شہید کا مبارک سایہ موجود نہ ہو۔ یہ سایہ مسلسل پھیلتا جارہا ہے۔ دین و وطن کے لیے جان کی قربانی اعوانوں کا پرانا تاریخی شیوہ ہے۔ وہ نہ تو تاجر ہیں نہ صنعت کار وہ صرف غازی یا شہید ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ وہ کہیں بس ٹرک چلا رہا ہو کسی دفتر کا چپڑاسی یا چوکیدار ہو کسی اخبار میں کالم لکھ رہا ہو یا رپورٹنگ کر رہا ہو یا کسی اسمبلی میں دھاڑ رہا ہو لیکن اس کا کوئی نہ کوئی قریبی جوان کسی نہ کسی محاذ پر دشمن کے پنجے میں پنجا پھنسا کر ضرورکھڑا ہو گا۔ ایک مسلمان کی اس کے سوا اور کوئی زندگی نہیں ہے۔ آنحضرتﷺ نے ایک پختہ مکان دیکھ کر فرمایا کہ مسلمان کا مال اینٹ روڑے پر خرچ کرنے کے لیے تو نہیں ہوتا۔ دوسرے الفاظ میں وہ اسلحہ خریدنے اور گھوڑے تیار کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ حضورﷺ کا مقصد بھی یہی تھا۔

میں اپنی وادی کے بہادر غازیوں اور شہیدوں پر فخر کرتا ہوں۔
Load Next Story