حق اور سچ
اخوان المسلمون نے مصرکے مغرب زدہ حکمرانوں کو غیروں کے نقش قدم پر چلنے کے بجائے حق وسچ کاراستہ اختیار کرنے کاپیغام دیا۔
تمام ہی اسلامی ممالک ، مغربی ممالک کے رحم وکرم پر ہی جی رہے ہیں۔ وہ انھیں جیسا چاہتے ہیں استعمال کرتے رہتے ہیں اور اسلامی ممالک کے مغرب نواز حکمران بھی مغرب کے مفاد میں ہر وہ کام کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں جس سے وہ ان سے خوش رہیں تاکہ ان کی نوکری پکی رہے وہ اپنی حکمرانی جاری رکھ کر اقتدار کے مزے لوٹتے رہیں۔
اب ایسا ماحول بھی بن چکا ہے کہ کوئی مسلم رہنما مغرب کے خلاف جانے کا سوچ تک نہیں سکتا اور جس نے ایسا سوچا یعنی ان کے احکامات سے روگردانی کی اس کے اقتدار کو پھر کوئی نہیں بچا سکتا اور اس کا مقدر ذلت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ایسے حکمرانوں کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ صدام حسین، کرنل قذافی، بشارالاسد اور حالیہ معزول ہونے والے سوڈانی صدرعمرالبشیر اس فہرست میں شامل ہیں۔ صدام اور قذافی کو تو ایسی سزا دی گئی کہ اقتدار بھی جاتا رہا اور جان بھی گئی۔
بشارالاسد کو البتہ مغرب ابھی تک اپنی مرضی کے مطابق سزا نہیں دے پایا ہے، اس لیے کہ بشارالاسد نے ایران اور روس کا دامن تھام لیا ہے تاہم مغرب اپنے مجرم کو سزا دیے بغیر چین سے نہیں بیٹھتا۔ ایسے گمبھیر حالات میں یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ دو ایسے مسلم حکمران بھی ہیں جو مغرب کے احکامات سے مسلسل روگردانی کرتے چلے آرہے ہیں اور وہ اس لیے کہ انھوں نے مغرب کی مدد سے حکمرانی حاصل نہیں کی بلکہ اپنے عوام کی حقیقی خدمت کرکے اقتدار حاصل کیا ہے چنانچہ وہ مغرب کے بجائے صرف اپنے عوام پر انحصار کر رہے ہیں اور ان کے سہارے اقتدار پر موجود ہیں۔ مغرب انھیں اپنا دشمن خیال کرتا ہے اور ان کے اقتدار کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ ایسے دبنگ مسلم حکمران اس وقت صرف دو ہی ہیں ایک مہاتیر محمد اور دوسرے رجب اردگان۔
چند سال قبل ایک اور دبنگ مسلم رہنما مصر کے صدارت کے عہدے پر فائز تھے جنھیں پوری دنیا محمد مرسی کے نام سے جانتی ہے۔ چند دن قبل ہی اس مرد مجاہد کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس شخص نے مغرب کا غلام بننے کے بجائے اپنے عوام اور اپنے عقائد کا غلام بننا پسند کیا تھا۔ مرسی کو صرف ایک سال مصر پر حکمرانی کا موقع میسر آسکا تھا انھوں نے اس مختصر سی مدت میں مغرب کو بتا دیا تھا کہ ایک مسلمان حکمران اپنی رعایا کا تو خادم بن سکتا ہے مگر غیروں کی غلامی کو کسی طور پر بھی قبول نہیں کرسکتا اور کسی بھی صورت اپنے دینی اصولوں کو پس پشت نہیں ڈال سکتا خواہ اقتدار رہے یا چلا جائے۔
مرسی نے اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی حکومت چلائی اور مغرب کے اسلام اور مسلم دشمن رویے کی کھل کر مذمت کی۔ گوکہ ان کا دور حکومت بہت مختصر تھا مگر مسلم حکمرانوں کی مغرب نوازی کو آئینہ دکھانے کے لیے کافی تھا۔ آپ نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں مغربی ممالک پر واضح کردیا تھا کہ مصر ایک خود دار مسلم ملک ہے وہ صرف اسلامی نظریات کے تحت آگے بڑھے گا۔ وہ خود اور مصری عوام اس ملک کا دل سے احترام کریں گے جو اسلام کی دل سے قدر کرے گا اور وہ اس ملک سے محتاط رہیں گے، جو اسلام دشمنی پر کمربستہ ہوگا۔
خاکوں سے متعلق آپ نے مغربی ممالک کو متنبہ کیا تھا کہ وہ ایسی حرکتوں کے مرتکب افراد کا گھیراؤ کریں اور آزادی اظہار کا لیبل لگا کر ان کی حمایت سے باز رہیں۔ آپ نے نائن الیون کے واقعے کو مسلمانوں کے خلاف کھلی سازش قرار دیا تھا۔ انھوں نے اسے مسلمانوں کے خلاف امریکی اور اسرائیلی ڈرامے کا نام دیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی امریکی حکومت ان کے خلاف ہوگئی تھی۔ مصر ایک سرسبز و شاداب ملک ہے۔ یہاں صدیوں سے لوگ آباد ہیں۔ یہ کئی تہذیبوں کا گہوارا رہا ہے۔
اس ملک پر کئی حکمرانوں نے حکومت کی مگر سب نے ہی عوام کو اپنا غلام سمجھا۔ یہی سرزمین فرعون کا بھی مسکن تھی ان کا دور اقتدار کافی طویل تھا وہ خدا کے منکر ہی نہیں خود کو خدا کہلاتے تھے۔ حضرت موسیٰؑ نے انھیں راہ حق کی طرف لے جانا چاہا مگر انھوں نے اپنی مغروریت اور مطلق العنانی کے نشے میں اپنے سوا کسی کو رب ماننے سے انکار کردیا تھا بالآخر انھیں عذاب الٰہی نے پکڑ لیا اور تباہ و برباد ہوگئے۔ اس کے بعد بھی کبر و غرور سے لبریز حکمران اس سرزمین پر حکومت کرتے رہے اور یہاں کے وسائل کو عوام پر خرچ کرنے کے بجائے اپنی عیاشیوں پر لٹاتے رہے۔
اخوان المسلمون نے مصرکے مغرب زدہ حکمرانوں کو غیروں کے نقش قدم پر چلنے کے بجائے حق و سچ کا راستہ اختیار کرنے کا پیغام دیا مگر حکمرانوں نے مغرب کی ریشمی رسی کو ایسی مضبوطی سے تھام رکھا تھا کہ وہ اسے چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے تاہم عوامی طاقت نے برسوں سے چل رہی آمرانہ حکومتوں کا صفایا کردیا اور عوامی ووٹ کے ذریعے ڈاکٹر محمد مرسی مصر کے پہلے جمہوری صدر بن گئے۔
مرسی نے اقتدار میں آکر مغرب سے مکمل چھٹکارا حاصل کرنے کا منصوبہ بنالیا تھا ساتھ ہی آمروں کا راستہ روکنے کا بھی بندوبست کرلیا تھا۔ ہر ملک میں کچھ کالی بھیڑیں ہوتی ہیں مصر میں ایسے لوگوں نے مغرب کے اشارے پر مرسی کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کردی گوکہ اس کا کوئی جواز نہ تھا مگر اس کے ذریعے مغرب مرسی کو اقتدار سے باہر کرنا چاہتا تھا۔
مصری فوج پہلے ہی مرسی کے خلاف صف آرا تھی کیونکہ انھوں نے انھیں اقتدار سے بے دخل کیا تھا۔ مرسی نے حسنی مبارک کے زمانے کے تمام فوجی جرنیلوں کو عہدوں سے ہٹا دیا تھا۔ مرسی نے مصری فوج کا نیا کمانڈر انچیف مقرر کیا یہ فتح ایسی تھی جس پر مرسی کو پورا اعتماد تھا کہ وہ دشمنوں کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے مگر مغرب کی تھپکی پر انھوں نے مرسی کے خلاف شب خون مارا۔ ان کی حکومت کا راتوں رات خاتمہ کردیا اور انھیں جیل میں ڈال دیا گیا۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ مصر کی سرزمین حضرت موسیٰ کے زمانے سے ہی حق و سچ سے بغاوت کرنے والے گروہوں کی مسکن رہی ہے۔ مصر میں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو فرعون کو اپنا جدامجد اور رہنما مانتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں،ہمارے ہاں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو راجہ داہر کو اپنا پیشوا مانتے ہیں۔ کاش کہ ان لوگوں نے تاریخ سے کچھ سبق لیا ہوتا کہ ظالم و جابر حکمرانوں کو تو خود ان کی رعایا نے اپنا حکمران تسلیم نہیں کیا تھا۔ وہ ان کے ظلم و ستم سے اتنے تنگ تھے کہ انھیں دوسروں کی مدد حاصل کرکے ان سے نجات حاصل کرنا پڑی۔
افسوس اس بات پر ہے کہ ویسے تو مغربی ممالک بہت جمہوریت پسند بنتے ہیں مگر اسلامی ممالک میں وہ جمہوریت کش عامرانہ حکومتوں کو ہی پسند کرتے ہیں۔ یہ مغرب کی دو رنگی دراصل اسلام دشمنی کے علاوہ ان کی پست ذہنیت کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ یہ دراصل ان کی ایک چال ہے کہ مسلمانوں کو پستی کی جانب دھکیلا جائے۔
مرسی کے زوال کے اصل نکتے پر اگر غورکیا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ اگر انھوں نے مغربی ممالک کی مرضی کے مطابق حکومت کی ہوتی اور اسرائیل کے وجود کو چیلنج نہ کیا ہوتا تو وہ آج بھی برسر اقتدار ہوتے اور مغرب ان کی ہر طرح مدد کر رہا ہوتا۔ مغرب کو اسرائیل کا وجود اتنا عزیز ہے کہ وہ اس کے کسی دشمن کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ لیبیا، عراق، شام صرف اسرائیل دشمنی میں تباہ ہوچکے ہیں ۔
اب ایران کی باری ہے شاید اس کے بعد ترکی کو بھی نہ بخشا جائے اس لیے کہ رجب اردگان کھلم کھلا اسرائیل کے وجود کے خلاف ہیں۔ دراصل یہ مرد مجاہد مرسی کی طرح حق و سچ پر ڈٹا ہوا ہے اور چونکہ ترک عوام اس کے ساتھ ہیں اس لیے شاید مغرب ایک دفعہ اسے ہٹانے کی ناکام کوشش کرنے کے بعد اب دوبارہ اس کے خلاف ایسی گھناؤنی سازش کرنے سے باز رہے گا۔
اب ایسا ماحول بھی بن چکا ہے کہ کوئی مسلم رہنما مغرب کے خلاف جانے کا سوچ تک نہیں سکتا اور جس نے ایسا سوچا یعنی ان کے احکامات سے روگردانی کی اس کے اقتدار کو پھر کوئی نہیں بچا سکتا اور اس کا مقدر ذلت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ایسے حکمرانوں کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ صدام حسین، کرنل قذافی، بشارالاسد اور حالیہ معزول ہونے والے سوڈانی صدرعمرالبشیر اس فہرست میں شامل ہیں۔ صدام اور قذافی کو تو ایسی سزا دی گئی کہ اقتدار بھی جاتا رہا اور جان بھی گئی۔
بشارالاسد کو البتہ مغرب ابھی تک اپنی مرضی کے مطابق سزا نہیں دے پایا ہے، اس لیے کہ بشارالاسد نے ایران اور روس کا دامن تھام لیا ہے تاہم مغرب اپنے مجرم کو سزا دیے بغیر چین سے نہیں بیٹھتا۔ ایسے گمبھیر حالات میں یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ دو ایسے مسلم حکمران بھی ہیں جو مغرب کے احکامات سے مسلسل روگردانی کرتے چلے آرہے ہیں اور وہ اس لیے کہ انھوں نے مغرب کی مدد سے حکمرانی حاصل نہیں کی بلکہ اپنے عوام کی حقیقی خدمت کرکے اقتدار حاصل کیا ہے چنانچہ وہ مغرب کے بجائے صرف اپنے عوام پر انحصار کر رہے ہیں اور ان کے سہارے اقتدار پر موجود ہیں۔ مغرب انھیں اپنا دشمن خیال کرتا ہے اور ان کے اقتدار کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ ایسے دبنگ مسلم حکمران اس وقت صرف دو ہی ہیں ایک مہاتیر محمد اور دوسرے رجب اردگان۔
چند سال قبل ایک اور دبنگ مسلم رہنما مصر کے صدارت کے عہدے پر فائز تھے جنھیں پوری دنیا محمد مرسی کے نام سے جانتی ہے۔ چند دن قبل ہی اس مرد مجاہد کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس شخص نے مغرب کا غلام بننے کے بجائے اپنے عوام اور اپنے عقائد کا غلام بننا پسند کیا تھا۔ مرسی کو صرف ایک سال مصر پر حکمرانی کا موقع میسر آسکا تھا انھوں نے اس مختصر سی مدت میں مغرب کو بتا دیا تھا کہ ایک مسلمان حکمران اپنی رعایا کا تو خادم بن سکتا ہے مگر غیروں کی غلامی کو کسی طور پر بھی قبول نہیں کرسکتا اور کسی بھی صورت اپنے دینی اصولوں کو پس پشت نہیں ڈال سکتا خواہ اقتدار رہے یا چلا جائے۔
مرسی نے اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی حکومت چلائی اور مغرب کے اسلام اور مسلم دشمن رویے کی کھل کر مذمت کی۔ گوکہ ان کا دور حکومت بہت مختصر تھا مگر مسلم حکمرانوں کی مغرب نوازی کو آئینہ دکھانے کے لیے کافی تھا۔ آپ نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں مغربی ممالک پر واضح کردیا تھا کہ مصر ایک خود دار مسلم ملک ہے وہ صرف اسلامی نظریات کے تحت آگے بڑھے گا۔ وہ خود اور مصری عوام اس ملک کا دل سے احترام کریں گے جو اسلام کی دل سے قدر کرے گا اور وہ اس ملک سے محتاط رہیں گے، جو اسلام دشمنی پر کمربستہ ہوگا۔
خاکوں سے متعلق آپ نے مغربی ممالک کو متنبہ کیا تھا کہ وہ ایسی حرکتوں کے مرتکب افراد کا گھیراؤ کریں اور آزادی اظہار کا لیبل لگا کر ان کی حمایت سے باز رہیں۔ آپ نے نائن الیون کے واقعے کو مسلمانوں کے خلاف کھلی سازش قرار دیا تھا۔ انھوں نے اسے مسلمانوں کے خلاف امریکی اور اسرائیلی ڈرامے کا نام دیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی امریکی حکومت ان کے خلاف ہوگئی تھی۔ مصر ایک سرسبز و شاداب ملک ہے۔ یہاں صدیوں سے لوگ آباد ہیں۔ یہ کئی تہذیبوں کا گہوارا رہا ہے۔
اس ملک پر کئی حکمرانوں نے حکومت کی مگر سب نے ہی عوام کو اپنا غلام سمجھا۔ یہی سرزمین فرعون کا بھی مسکن تھی ان کا دور اقتدار کافی طویل تھا وہ خدا کے منکر ہی نہیں خود کو خدا کہلاتے تھے۔ حضرت موسیٰؑ نے انھیں راہ حق کی طرف لے جانا چاہا مگر انھوں نے اپنی مغروریت اور مطلق العنانی کے نشے میں اپنے سوا کسی کو رب ماننے سے انکار کردیا تھا بالآخر انھیں عذاب الٰہی نے پکڑ لیا اور تباہ و برباد ہوگئے۔ اس کے بعد بھی کبر و غرور سے لبریز حکمران اس سرزمین پر حکومت کرتے رہے اور یہاں کے وسائل کو عوام پر خرچ کرنے کے بجائے اپنی عیاشیوں پر لٹاتے رہے۔
اخوان المسلمون نے مصرکے مغرب زدہ حکمرانوں کو غیروں کے نقش قدم پر چلنے کے بجائے حق و سچ کا راستہ اختیار کرنے کا پیغام دیا مگر حکمرانوں نے مغرب کی ریشمی رسی کو ایسی مضبوطی سے تھام رکھا تھا کہ وہ اسے چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے تاہم عوامی طاقت نے برسوں سے چل رہی آمرانہ حکومتوں کا صفایا کردیا اور عوامی ووٹ کے ذریعے ڈاکٹر محمد مرسی مصر کے پہلے جمہوری صدر بن گئے۔
مرسی نے اقتدار میں آکر مغرب سے مکمل چھٹکارا حاصل کرنے کا منصوبہ بنالیا تھا ساتھ ہی آمروں کا راستہ روکنے کا بھی بندوبست کرلیا تھا۔ ہر ملک میں کچھ کالی بھیڑیں ہوتی ہیں مصر میں ایسے لوگوں نے مغرب کے اشارے پر مرسی کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کردی گوکہ اس کا کوئی جواز نہ تھا مگر اس کے ذریعے مغرب مرسی کو اقتدار سے باہر کرنا چاہتا تھا۔
مصری فوج پہلے ہی مرسی کے خلاف صف آرا تھی کیونکہ انھوں نے انھیں اقتدار سے بے دخل کیا تھا۔ مرسی نے حسنی مبارک کے زمانے کے تمام فوجی جرنیلوں کو عہدوں سے ہٹا دیا تھا۔ مرسی نے مصری فوج کا نیا کمانڈر انچیف مقرر کیا یہ فتح ایسی تھی جس پر مرسی کو پورا اعتماد تھا کہ وہ دشمنوں کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے مگر مغرب کی تھپکی پر انھوں نے مرسی کے خلاف شب خون مارا۔ ان کی حکومت کا راتوں رات خاتمہ کردیا اور انھیں جیل میں ڈال دیا گیا۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ مصر کی سرزمین حضرت موسیٰ کے زمانے سے ہی حق و سچ سے بغاوت کرنے والے گروہوں کی مسکن رہی ہے۔ مصر میں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو فرعون کو اپنا جدامجد اور رہنما مانتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں،ہمارے ہاں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو راجہ داہر کو اپنا پیشوا مانتے ہیں۔ کاش کہ ان لوگوں نے تاریخ سے کچھ سبق لیا ہوتا کہ ظالم و جابر حکمرانوں کو تو خود ان کی رعایا نے اپنا حکمران تسلیم نہیں کیا تھا۔ وہ ان کے ظلم و ستم سے اتنے تنگ تھے کہ انھیں دوسروں کی مدد حاصل کرکے ان سے نجات حاصل کرنا پڑی۔
افسوس اس بات پر ہے کہ ویسے تو مغربی ممالک بہت جمہوریت پسند بنتے ہیں مگر اسلامی ممالک میں وہ جمہوریت کش عامرانہ حکومتوں کو ہی پسند کرتے ہیں۔ یہ مغرب کی دو رنگی دراصل اسلام دشمنی کے علاوہ ان کی پست ذہنیت کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ یہ دراصل ان کی ایک چال ہے کہ مسلمانوں کو پستی کی جانب دھکیلا جائے۔
مرسی کے زوال کے اصل نکتے پر اگر غورکیا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ اگر انھوں نے مغربی ممالک کی مرضی کے مطابق حکومت کی ہوتی اور اسرائیل کے وجود کو چیلنج نہ کیا ہوتا تو وہ آج بھی برسر اقتدار ہوتے اور مغرب ان کی ہر طرح مدد کر رہا ہوتا۔ مغرب کو اسرائیل کا وجود اتنا عزیز ہے کہ وہ اس کے کسی دشمن کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ لیبیا، عراق، شام صرف اسرائیل دشمنی میں تباہ ہوچکے ہیں ۔
اب ایران کی باری ہے شاید اس کے بعد ترکی کو بھی نہ بخشا جائے اس لیے کہ رجب اردگان کھلم کھلا اسرائیل کے وجود کے خلاف ہیں۔ دراصل یہ مرد مجاہد مرسی کی طرح حق و سچ پر ڈٹا ہوا ہے اور چونکہ ترک عوام اس کے ساتھ ہیں اس لیے شاید مغرب ایک دفعہ اسے ہٹانے کی ناکام کوشش کرنے کے بعد اب دوبارہ اس کے خلاف ایسی گھناؤنی سازش کرنے سے باز رہے گا۔