نئے اور پرانے پاکستان میں تفریق ناگزیر ہے
پی ٹی آئی حکومت کے ہر چیز پر لگائے گئے ٹیکس عوام میں بداعتمادی پیدا کر رہے ہیں۔
عالم اور جاہل ایک دوسرے کی ضد ہیں ، بالکل اسی طرح امیر اور غریب بھی متضاد حالات سے دوچار ہیں اور رہے سفید پوش تو ان کی تو دنیا ہی علیحدہ ہے اپنی عزت کا بھرم رکھنے کے لیے مرنا پسند کریں گے لیکن کسی سے اپنا حال ہرگز نہیں سنائیں گے، آج جب کہ مہنگائی کا طوفان بڑھتا چلا جا رہا ہے اور غربا و ناداروں کے گھروں میں فاقہ کشی کا دورانیہ بڑی تیزی سے بڑھا ہے۔
یہ زمانہ افلاس کے عروج کا ہے، مہنگائی تو سابق جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت کے بعد سے ہی بدمست ہاتھی کی طرح گزر رہی تھی، چولہا ٹھنڈا رہنے لگا تھا لیکن کچھ نہ کچھ میسر آ ہی جاتا تھا لیکن اب وہ بھی نہیں۔
پی ٹی آئی کی حکومت کے دوررس منصوبے اپنی جگہ اور پاکستان کا استحکام اور وقار میں اضافہ قابل تعریف لیکن گرانی نے لوگوں کو جیتے جی مار دیا ہے، ٹیکسوں کی بھرمار جو امیر وغریب کے لیے یکساں ہے، غریب کی آمدنی ہی کتنی ہے،گھرکا دال دلیا چل جائے تو بڑی بات ، بچت اور اپنی بے شمار ضروریات کو پس پشت ڈال کر بچوں کی تعلیم اور علاج و معالجے کا سلسلہ چلتا ہے اور بہت سے گھرانوں میں اتنا بھی آسرا نہیں کہ بچوں کے تعلیمی اخراجات وہ بھی سرکاری اسکولوں کے برداشت کرسکیں ، وہ مجبوراً اپنے بچوں کو اسکولوں سے اٹھاکر مکینک اور درزی کا کام سیکھنے پر لگا دیتے ہیں تاکہ کچھ آمدنی میں اضافہ ہو۔
وزیر اعظم عمران خان کو مشاورت کے ذریعے اس بات پر ضرور غورکرنا چاہیے کہ پاکستان ترقی کی راہ پر چلنے کے لیے تیاری کر رہا ہے۔ خوشحال اور ترقی یافتہ ہے نہیں۔ ہمارے ملک میں بے شمار لوگ بے روزگار ہیں وہ چھوٹا موٹا کاروبارکرتے تھے تو تجاوزات کے خاتمے میں ان بے چاروں کا روزگار بھی جاتا رہا، ان کے لیے کوئی متبادل جگہ فراہم نہیں کی گئی، برسہا برس اپنے گھروں میں رہنے والوں کو دربدرکردیا گیا، ان کے لیے بھی متبادل جگہوں کی ضرورت ناگزیر تھی۔گزشتہ حکومتوں نے توکچھ کام ہی نہیں ،کیا اسی وجہ سے پسماندگی، جہالت اور جرائم کو خوب فروغ ملا، آج جرائم پیشہ افراد اغوا، ڈکیتی اسی طرح کر رہے ہیں جس طرح سابقہ ادوار میں تھی۔
پی ٹی آئی کو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باشعور لوگوں نے ووٹ دیے تھے تاکہ ملک سے بددیانتی، اقربا پروری کا خاتمہ ہو اور ہر شخص کو سکون اور خوشحالی نصیب ہو لیکن شاید منصوبہ بندی میں سقم رہ گیا ہے کہ آج نئے پاکستان میں رہتے ہوئے بھی مایوس ہیں اور پرانے پاکستان سے بھی بدظن، جہاں حکمران اور ان کی اولادیں، عزیز و اقارب دونوں ہاتھوں سے دولت لوٹ رہے تھے اور سونے چاندی کے مینار بنا رہے تھے۔ اسی حوالے سے سورۃ الماعون میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ''کیا تم جانتے ہو اس شخص کو جو جھٹلاتا ہے دین کو (قیامت) وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا ہے۔''
ہوس زر نے لوگوں کے ایمان میں دراڑیں ڈال دی ہیں اسی لیے وہ مرتے دم تک دولت اکٹھا کرتے ہیں۔ سورۃ الہمزہ میں دولت کے پجاریوں کا ذکر وضاحت کے ساتھ آیا ہے اور سزا کے بارے میں بھی بتا دیا گیا ہے۔ ابتدا میں طعنہ دینے اور عیب جوئی کرنے والوں کا ذکر ملتا ہے اور پھر دولت کے پجاریوں کا جو مال جمع کرتا ہے اور پھر اس کو گن گن کر رکھتا ہے اور وہ اس قدر غافل ہے اس کی عقل پر تعیشات زندگی نے پردہ ڈال رکھا ہے جب وہ یہ گمان کرتا ہے کہ گویا اس کا مال اس کے ساتھ ہمیشہ رہے گا ہرگز نہیں یقینا وہ حطمۃ میں ڈال دیا جائے گا اسی سورۃ میں اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں سے سوال کر رہا ہے جو دولت کے نشے میں چور چور ہیں جنھیں اجالے، اندھیرے کی تمیز نہیں ہے، اور آپ کیا جانیں ''حطمۃ'' کیا ہے؟
پھر اپنے سوال کا جواب باری تعالیٰ نے خود دیا ہے ''وہ اللہ تعالیٰ کی آگ ہے جو اس کے حکم سے بھڑکا دی گئی ہے، جو دلوں تک جا پہنچے گی، وہ ان کو چاروں طرف سے گھیر لے گی، بڑے بڑے لمبے ستونوں میں۔'' یہ بے ایمانی، غبن، چوری، ڈکیتی کس کام کی؟ جس کا مقصد حصول زر ہے، یہ روپیہ پیسہ روز محشر انسان کو آگ اور سانپ، بچھوؤں سے بچانے کا سبب نہیں بن سکتا ہے پھر جانتے، بوجھتے دوزخ کی آگ اپنے کالے دھن سے خریدتے اور سونے کے محل تعمیر کرتے وقت اللہ کے غضب کا احساس برے کاموں اور دنیا پرستی سے کیوں نہیں روکتا ہے۔
جتنے بھی بادشاہ، وزرا اور صاحب اقتدارگزرے ہیں، ان کا انجام بھی عبرت ناک ہوا۔ دولت کام نہ آئی۔ بددیانت لوگ اپنے لیے تو جہنم خریدتے ہی ہیں جاتے جاتے اپنی اولاد اور دوسرے عزیزواقارب کو بھی آگ کے گڑھے میں دھکا دے جاتے ہیں۔ اپنوں اور اپنی اولاد سے محبت کا یہ تقاضا ہرگز نہیں ہے، حرام لقمہ کھانے والے ہوش وخرد سے بے گانہ اور فریب دنیا کے شیدائی بن جاتے ہیں۔
پاکستان میں بھکاریوں کی بھی فوج ظفر موج شاہراہوں اور گلی کوچوں میں گھومتی اور بھیک مانگتی نظر آتی ہے۔ چھوٹے معصوم بچے، جن کی عمریں تین سال سے زیادہ نہیں ہوتیں، انھیں بھی بھیک مانگنے کا گر سکھا دیا گیا ہے۔ صوبائی حکومتوں کو جرائم اورگداگری کی مذمت کرنی چاہیے تھی لیکن صاحب اقتدار بے خبر ہیں، ان کی تو اپنی حفاظت اور دولت کا انبار خطرے میں پڑگیا ہے اور جس پر ہر روز عدالتی کارروائی ہوتی ہے۔ لیکن اپنا جرم ماننے کے لیے کوئی تیار نہیں، پیشیاں بھگتتے ہیں لیکن خزانے کی واپسی کے امکانات پر روشنی ڈالنا توکجا ذکرکرنا بھی مناسب نہیں سمجھا جاتا، اب اندرونی معاملات کیا ہیں وہ حکومت اور عدالتیں ہی جان سکتی ہیں کہ موسم خزاں کی لپیٹ میں کون کون آنے والا ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کے ہر چیز پر لگائے گئے ٹیکس عوام میں بداعتمادی پیدا کر رہے ہیں ۔ ان ٹیکسوں کے خاتمے کی اشد ضرورت ہے، نان فائلر کے لیے دو گنا ٹیکس ہے انھیں مخصوص مدت دیں چونکہ قانونی کاموں کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ متوسط طبقے کے لوگ پبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل سے بچنے کے لیے بڑے جتن کرکے گاڑی خرید پاتے ہیں، ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے، پٹرول بھی بہت مہنگا ہوچکا ہے اور اب جب کہ وہ وقت آچکا ہے جب سعودی عرب سے تیل کی ترسیل شروع ہوجائے گی دوسرے ممالک بھی زر تعاون کر رہے ہیں اور مسلسل اس عمل میں اضافہ ہو رہا ہے، یہ سب کچھ ہمارے محترم وزیر اعظم کی نیک نامی اور اصول پسندی کے تحت ممکن ہوا ہے۔
سب سے زیادہ چینی کا استعمال مزدور طبقہ ہی کرتا ہے وہ میٹھی چائے دن میں کئی بار پیتا ہے۔ ایک دو چمچوں پر اکتفا نہیں بلکہ چار پانچ ٹی اسپون ایک کپ چائے میں اسے چاہئیں اور اسی چینی پر ٹیکس لگ گیا اور پچاس روپے کلو والی چینی اسی، پچاسی روپے فی کلو ہوگئی ہے۔ بجلی اور پانی کے مسائل بھی جوں کے توں ہیں انھیں حل کرنے کی ضرورت ہے۔ واٹر بورڈ کی غفلت آئے دن معصوم بچوں کوکھلے گٹر میں دھکا دے دیتی ہے اورکسی کے گھر کے معصوم پھول پل بھر میں مرجھا جاتے ہیں ۔کراچی کے حالات میں بھی تبدیلی لانے والا فی الحال کوئی سامنے نہیں آرہا ہے۔ ہم نیتوں پر شبہ نہیں کر رہے ہیں تاخیر بہت ہوگئی ہے لہٰذا اب کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نئے اور پرانے پاکستان میں تفریق نظر آئے۔
یہ زمانہ افلاس کے عروج کا ہے، مہنگائی تو سابق جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت کے بعد سے ہی بدمست ہاتھی کی طرح گزر رہی تھی، چولہا ٹھنڈا رہنے لگا تھا لیکن کچھ نہ کچھ میسر آ ہی جاتا تھا لیکن اب وہ بھی نہیں۔
پی ٹی آئی کی حکومت کے دوررس منصوبے اپنی جگہ اور پاکستان کا استحکام اور وقار میں اضافہ قابل تعریف لیکن گرانی نے لوگوں کو جیتے جی مار دیا ہے، ٹیکسوں کی بھرمار جو امیر وغریب کے لیے یکساں ہے، غریب کی آمدنی ہی کتنی ہے،گھرکا دال دلیا چل جائے تو بڑی بات ، بچت اور اپنی بے شمار ضروریات کو پس پشت ڈال کر بچوں کی تعلیم اور علاج و معالجے کا سلسلہ چلتا ہے اور بہت سے گھرانوں میں اتنا بھی آسرا نہیں کہ بچوں کے تعلیمی اخراجات وہ بھی سرکاری اسکولوں کے برداشت کرسکیں ، وہ مجبوراً اپنے بچوں کو اسکولوں سے اٹھاکر مکینک اور درزی کا کام سیکھنے پر لگا دیتے ہیں تاکہ کچھ آمدنی میں اضافہ ہو۔
وزیر اعظم عمران خان کو مشاورت کے ذریعے اس بات پر ضرور غورکرنا چاہیے کہ پاکستان ترقی کی راہ پر چلنے کے لیے تیاری کر رہا ہے۔ خوشحال اور ترقی یافتہ ہے نہیں۔ ہمارے ملک میں بے شمار لوگ بے روزگار ہیں وہ چھوٹا موٹا کاروبارکرتے تھے تو تجاوزات کے خاتمے میں ان بے چاروں کا روزگار بھی جاتا رہا، ان کے لیے کوئی متبادل جگہ فراہم نہیں کی گئی، برسہا برس اپنے گھروں میں رہنے والوں کو دربدرکردیا گیا، ان کے لیے بھی متبادل جگہوں کی ضرورت ناگزیر تھی۔گزشتہ حکومتوں نے توکچھ کام ہی نہیں ،کیا اسی وجہ سے پسماندگی، جہالت اور جرائم کو خوب فروغ ملا، آج جرائم پیشہ افراد اغوا، ڈکیتی اسی طرح کر رہے ہیں جس طرح سابقہ ادوار میں تھی۔
پی ٹی آئی کو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باشعور لوگوں نے ووٹ دیے تھے تاکہ ملک سے بددیانتی، اقربا پروری کا خاتمہ ہو اور ہر شخص کو سکون اور خوشحالی نصیب ہو لیکن شاید منصوبہ بندی میں سقم رہ گیا ہے کہ آج نئے پاکستان میں رہتے ہوئے بھی مایوس ہیں اور پرانے پاکستان سے بھی بدظن، جہاں حکمران اور ان کی اولادیں، عزیز و اقارب دونوں ہاتھوں سے دولت لوٹ رہے تھے اور سونے چاندی کے مینار بنا رہے تھے۔ اسی حوالے سے سورۃ الماعون میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ''کیا تم جانتے ہو اس شخص کو جو جھٹلاتا ہے دین کو (قیامت) وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا ہے۔''
ہوس زر نے لوگوں کے ایمان میں دراڑیں ڈال دی ہیں اسی لیے وہ مرتے دم تک دولت اکٹھا کرتے ہیں۔ سورۃ الہمزہ میں دولت کے پجاریوں کا ذکر وضاحت کے ساتھ آیا ہے اور سزا کے بارے میں بھی بتا دیا گیا ہے۔ ابتدا میں طعنہ دینے اور عیب جوئی کرنے والوں کا ذکر ملتا ہے اور پھر دولت کے پجاریوں کا جو مال جمع کرتا ہے اور پھر اس کو گن گن کر رکھتا ہے اور وہ اس قدر غافل ہے اس کی عقل پر تعیشات زندگی نے پردہ ڈال رکھا ہے جب وہ یہ گمان کرتا ہے کہ گویا اس کا مال اس کے ساتھ ہمیشہ رہے گا ہرگز نہیں یقینا وہ حطمۃ میں ڈال دیا جائے گا اسی سورۃ میں اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں سے سوال کر رہا ہے جو دولت کے نشے میں چور چور ہیں جنھیں اجالے، اندھیرے کی تمیز نہیں ہے، اور آپ کیا جانیں ''حطمۃ'' کیا ہے؟
پھر اپنے سوال کا جواب باری تعالیٰ نے خود دیا ہے ''وہ اللہ تعالیٰ کی آگ ہے جو اس کے حکم سے بھڑکا دی گئی ہے، جو دلوں تک جا پہنچے گی، وہ ان کو چاروں طرف سے گھیر لے گی، بڑے بڑے لمبے ستونوں میں۔'' یہ بے ایمانی، غبن، چوری، ڈکیتی کس کام کی؟ جس کا مقصد حصول زر ہے، یہ روپیہ پیسہ روز محشر انسان کو آگ اور سانپ، بچھوؤں سے بچانے کا سبب نہیں بن سکتا ہے پھر جانتے، بوجھتے دوزخ کی آگ اپنے کالے دھن سے خریدتے اور سونے کے محل تعمیر کرتے وقت اللہ کے غضب کا احساس برے کاموں اور دنیا پرستی سے کیوں نہیں روکتا ہے۔
جتنے بھی بادشاہ، وزرا اور صاحب اقتدارگزرے ہیں، ان کا انجام بھی عبرت ناک ہوا۔ دولت کام نہ آئی۔ بددیانت لوگ اپنے لیے تو جہنم خریدتے ہی ہیں جاتے جاتے اپنی اولاد اور دوسرے عزیزواقارب کو بھی آگ کے گڑھے میں دھکا دے جاتے ہیں۔ اپنوں اور اپنی اولاد سے محبت کا یہ تقاضا ہرگز نہیں ہے، حرام لقمہ کھانے والے ہوش وخرد سے بے گانہ اور فریب دنیا کے شیدائی بن جاتے ہیں۔
پاکستان میں بھکاریوں کی بھی فوج ظفر موج شاہراہوں اور گلی کوچوں میں گھومتی اور بھیک مانگتی نظر آتی ہے۔ چھوٹے معصوم بچے، جن کی عمریں تین سال سے زیادہ نہیں ہوتیں، انھیں بھی بھیک مانگنے کا گر سکھا دیا گیا ہے۔ صوبائی حکومتوں کو جرائم اورگداگری کی مذمت کرنی چاہیے تھی لیکن صاحب اقتدار بے خبر ہیں، ان کی تو اپنی حفاظت اور دولت کا انبار خطرے میں پڑگیا ہے اور جس پر ہر روز عدالتی کارروائی ہوتی ہے۔ لیکن اپنا جرم ماننے کے لیے کوئی تیار نہیں، پیشیاں بھگتتے ہیں لیکن خزانے کی واپسی کے امکانات پر روشنی ڈالنا توکجا ذکرکرنا بھی مناسب نہیں سمجھا جاتا، اب اندرونی معاملات کیا ہیں وہ حکومت اور عدالتیں ہی جان سکتی ہیں کہ موسم خزاں کی لپیٹ میں کون کون آنے والا ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کے ہر چیز پر لگائے گئے ٹیکس عوام میں بداعتمادی پیدا کر رہے ہیں ۔ ان ٹیکسوں کے خاتمے کی اشد ضرورت ہے، نان فائلر کے لیے دو گنا ٹیکس ہے انھیں مخصوص مدت دیں چونکہ قانونی کاموں کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ متوسط طبقے کے لوگ پبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل سے بچنے کے لیے بڑے جتن کرکے گاڑی خرید پاتے ہیں، ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے، پٹرول بھی بہت مہنگا ہوچکا ہے اور اب جب کہ وہ وقت آچکا ہے جب سعودی عرب سے تیل کی ترسیل شروع ہوجائے گی دوسرے ممالک بھی زر تعاون کر رہے ہیں اور مسلسل اس عمل میں اضافہ ہو رہا ہے، یہ سب کچھ ہمارے محترم وزیر اعظم کی نیک نامی اور اصول پسندی کے تحت ممکن ہوا ہے۔
سب سے زیادہ چینی کا استعمال مزدور طبقہ ہی کرتا ہے وہ میٹھی چائے دن میں کئی بار پیتا ہے۔ ایک دو چمچوں پر اکتفا نہیں بلکہ چار پانچ ٹی اسپون ایک کپ چائے میں اسے چاہئیں اور اسی چینی پر ٹیکس لگ گیا اور پچاس روپے کلو والی چینی اسی، پچاسی روپے فی کلو ہوگئی ہے۔ بجلی اور پانی کے مسائل بھی جوں کے توں ہیں انھیں حل کرنے کی ضرورت ہے۔ واٹر بورڈ کی غفلت آئے دن معصوم بچوں کوکھلے گٹر میں دھکا دے دیتی ہے اورکسی کے گھر کے معصوم پھول پل بھر میں مرجھا جاتے ہیں ۔کراچی کے حالات میں بھی تبدیلی لانے والا فی الحال کوئی سامنے نہیں آرہا ہے۔ ہم نیتوں پر شبہ نہیں کر رہے ہیں تاخیر بہت ہوگئی ہے لہٰذا اب کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نئے اور پرانے پاکستان میں تفریق نظر آئے۔