راحت فتح علی خاں کے نام ایک اور اعزاز

ڈاکٹریٹ کی ڈگری والدین اور استاد نصرت فتح علی خاں کے نام کر دی

ڈاکٹریٹ کی ڈگری والدین اور استاد نصرت فتح علی خاں کے نام کر دی۔ فوٹو: فائل

پاکستان کے سچے فنکاروں نے ہمیشہ ہی اپنی بہترین پرفارمنس سے وطن عزیز کا نام دنیا بھر میں خوب روشن کیا ہے۔ خاص طور پر موسیقی کے میدان میں تو پاکستانی گلوکاروں کاز کوئی ثانی نہیں ہے۔

حال ہی میں موسیقی کے شعبہ میں گراں قدر خدمات انجام دینے پر پاکستان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ قوال استاد راحت فتح علی خاں کو برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔ اس سلسلہ میں ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں برطانیہ کی اہم شخصیات شریک ہوئیں۔ تقریب تو شاندار تھی ہی لیکن اس اعزاز کے بعد جہاں راحت فتح علی خاں کا گھرانہ یہ اعزاز پانے والا پاکستان کا پہلا خاندان بنا وہیں پوری قوم کیلئے بھی یہ کسی بڑے اعزاز سے کم نہیں تھا۔

آکسفورڈ یونیورسٹی میں سجنے والی تقریب میں جہاں بہت سی اہم شخصیات موجود تھیں وہیں راحت فتح علی خاں کی اہلیہ اور ان کے بزنس ڈائریکٹر سلمان احمد بھی اپنی بیگم کے ہمراہ موجود تھے۔ اعزازی ڈگری ملتے ہی راحت کو مبارکباد کے پیغامات موصول ہونے لگے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ کیونکہ دنیا بھر میں ان کے چاہنے والے اس اعزاز کے ملنے پر بے حد خوش ہیں۔

اس اعزاز کو اپنے نام کرنے کے بعد راحت فتح علی خاں نے سب سے پہلے ایکسپریس کو انٹرویو دیا ، جو قارئین کی نذر ہے۔

راحت فتح علی خان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر ماں اور والد کے ساتھ استاد نصرت فتح علی خان بہت یاد آئے۔ کیونکہ یہ لوگ زندہ ہوتے تو اس اعزاز کے ملنے پر سب سے زیادہ خوش ہوتے، ویسے تو میرا یہ ماننا ہے کہ آج جس مقام پر بھی کھڑا ہوں وہ میرے والدین اور استاد نصرت فتح علی خاں کی دعاؤوں کی بدولت ہے، اسی لئے آکسفورڈ سے ملنے والی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری اپنی فیملی اور قوال گھرانے کے نام کرتا ہوں۔ یہ میرے لئے خواب سے کم نہ تھا لیکن خوابوں کو حقیقت میں بدلنے میں میرے بزنس ڈائریکٹر سلمان احمد نے سب سے اہم کردار نبھایا۔ وہ میرے حقیقی بھائی تو نہیں ہیں لیکن بھائیوں سے بڑھ کر ہیں، یہ ان کی صلاحیتیں ہی ہیں جن کی بدولت میں منفرد انداز سے پاکستان کا نام روشن کر رہا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ''برصغیر پاک و ہند میں قوالی کا فن تقریباً چھ سو سال پرانا ہے، جو پشت در پشت منتقل ہوتا ہوا ہم تک پہنچ رہا ہے۔ پاکستان میں استاد نصرت فتح علی خان مرحوم نے فن قوالی کو پوری دنیا میں نئے رنگ اور منفرد انداز سے متعارف کرایا۔ ان کے والد اور میرے دادا استاد فتح علی خان مرحوم کی فنی خدمات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ ہمارے خاندان نے قوالی کے فروغ کیلئے بہت خدمات انجام دیں اور دے رہے ہیں، سب جانتے ہیں کہ میرا فنی سفر بچپن سے شروع ہوا تھا اور ہمیشہ ہی کوشش کی کہ اپنی خاندانی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایسا کام کروں جو دوسروں سے الگ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ استاد نصرت فتح علی خان کے انتقال کے بعد میں نے اپنے ملک اور خاندان کا نام پوری دنیا تک پہنچانے کا جو بیڑہ اٹھایا تھا اس میں اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی سے سرخرو ہو رہا ہوں اور اسی وجہ سے مجھے موسیقی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی ہے۔

راحت کا کہنا تھا کہ میں بنیادی طور پر ایک قوال ہوں، مجھے گلوکاری سے زیادہ خود کو قوال کہلوانا پسند ہے۔ صوفیانہ کلام میری روح میں بسا ہوا ہے۔ قوالی ہمارا خاندانی کام ہے اور میرا یہ ماننا ہے کہ قوالی کا فن کبھی ماند نہیں پڑسکتا۔ قوالی عوامی مگرپاپولرمیوزک ہے، یہ سلسلہ آج سے نہیں بلکہ صدیوں سے جاری ہے اور تاقیامت درگاہوں اور درباروں میں قوالی کی محفلیں ہوتی رہیں گی۔ آئندہ چند برسوں میں فنِ قوالی کو مزید عروج ملے گا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آج کے دور کے گانوں میں جو صوفیانہ رنگ نظر آتا ہے، وہ قوالی کی مرہون منت ہے، جس فلم میں بھی قوالی شامل کی جاتی ہے، وہ فلم سپرہٹ ثابت ہوتی ہے۔ انگریز کو قوالی بہت پسند ہے۔ وہ ہماری ثقافتی موسیقی کو بے انتہا چاہتے ہیں۔'


راحت نے مزید بتایا کہ ہماری مینجمنٹ نے2016ء کو قوالیوں کا سال کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں قوالیوں پر مبنی ایک سی ڈی البم بھی ریلیز کی تھی۔ میرے بزنس ڈائریکٹر سلمان احمد نے اس سلسلے میں زبردست تیاریاں کیں اور ہم نے کراچی، لاہور، اسلام آباد اور کوئٹہ میں قوالی کے بڑے کنسرٹ کرنے کے ساتھ دنیا کے بیشتر ممالک میں پرفارم کرتے ہوئے خوب داد سمیٹی۔ اس سلسلہ کی خاص بات یہی تھی کہ ہم نے اپنی پرفارمنس کے دوران بالی وڈ کے گانے نہیں گائے بلکہ صرف قوالیاں سنائیں جن کو بہت پسند کیا گیا۔ ان کنسرٹ کا نام ہم نے ' جسٹ قوالی '' رکھا تھا۔ بہت عرصے سے ہم اور ہمارے سْننے والے قوالی کے حوالے سے تشنگی محسوس کر رہے تھے۔ ہم نے اپنے گروپ میں بھی کچھ پرانے ساتھیوں کو واپس بلایا ،جو ابتدا میں سماع کی محفلوں میں ہمارے ساتھ ہوتے تھے۔ ان لوگوں نے استاد نصرت فتح علی خان کے ساتھ بھی پرفارم کیا ہے۔

ہماری اس کاوش کو دنیا بھر میں بہت سراہا گیا۔ ہم نے قوالی کے کنسرٹ اور بالی وڈ فلموں کے گانوں کے شوز کو الگ کر دیا ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ مستقبل میں بہت ساری نئی چیزیں متعارف کروائیں گے۔ ہم نے دنیا کے درجنوں ممالک میں خالص قوالی پیش کی۔ خاص طور پر حضرت امیر خسرو، شیخ سعدیؒ، بوعلی سینا قلندر، حافظ شیرازی و دیگر شعراء کا کلام پیش کیا۔ لیکن میں دیار غیر میں بسنے والی نوجوان نسل کی چاہت دیکھ کر دنگ رہ گیا کیونکہ جس طرح سے انہوں نے قوالی سنی اور داد دی وہ کسی بڑے اعزاز سے کم نہ تھی، اس کے علاوہ دوسری خاص بات یہ تھی کہ ہمیں قوالی کے پروگراموں میں ہزاروں کے مجمعے میں کسی ایک نے بھی فلمی گیت سننے کی فرمائش نہ کی۔

ایک سوال کے جواب میں راحت کا کہنا تھا کہ بالی وڈ والے تو خود صوفیانہ گائیکی کے دیوانے ہیں۔ وہ اپنے ڈرائنگ روم اور نجی محافل میں قوالی شوق سے سنتے ہیں۔ ایشوریا رائے اور ابھیشک بچن کی شادی ہوئی تو امیتابھ بچن جی نے مجھے قوالی کے لیے مدعو کیا۔ میں ابتدا ہی سے خود کو قوال کہلوانا پسند کرتا ہوں۔ میری آواز کو بالی وڈ نے استعمال کیا ہے، جب کہ میری روح میں قوال چھپا ہوا ہے۔ میری جو بھی گائیکی ہے، وہ قوالی کے راستے ہی سے نکلتی ہے، اسی وجہ سے وہ منفرد اور الگ نظر آتی ہے۔ یہاں ایک بات اور بتانا چاہوں گا کہ 1992ء کے ورلڈ کپ کے دوران ہمارے کرکٹر، استاد نصرت فتح علی خان کی قوالیاں بہت شوق سے سنتے رہے۔ آج کی نئی نسل بھی قوالی بہت شوق سے سنتی ہے۔ کالج اور یونی ورسٹی میں منعقدہ کنسرٹ میں مجھ سے بہت زیادہ قوالیوں کی فرمائش کی جاتی ہے۔ ایک بات کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ دورہ بھارت کے موقع پر بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان ایم ایس دھونی کے منیجر سے ملاقات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ دھونی جب بھی اُداس ہوتے ہیں، تو وہ آپ کی گائی ہوئی قوالیاں شوق سے سنتے ہیں۔ جس ظاہر ہوتا ہے کہ قوالی کا انداز اور کلام تمام مذاہب کے لوگوں کو سکون بخشتا ہے۔

نوجوان نسل تک فن موسیقی اور فن قوالی کو منتقل کرنے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں راحت نے کہا کہ یہ فن کسی کی میراث نہیں ہے۔ مگر موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اگراس شعبے کو بطور پروفیشن اپنایا جائے تو یہ سب سے اچھی بات ہے۔ ہم اس سلسلے میں انٹرنیٹ پر اکیڈمی بنا رہے ہیں۔ جس کے ذریعے قوالی اور موسیقی کا شوق رکھنے والا دنیا کے کسی بھی ملک میں رہتا ہو، وہ ہم سے انٹرنیٹ کے ذریعے تربیت حاصل کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ درگاہوں پر حاضرہونے کی بدولت ہی آج اس مقام تک پہنچا ہوں اور یہ سلسلہ تو صدیوں سے جاری ہے کہ ہمارے خاندان کے قوال بزرگان دین کی درگاہوں پر حاضری دیتے آرہے ہیں لیکن ایک وجہ تو پہلے ہمارے ملک میں سکیورٹی کے مسائل تھے مگر اب حالات بہتر ہو گئے ہیں، میں کوشش کر رہا ہوں کہ حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ اور حضرت داتا گنج بخش ؒکے دربار پر حاضری دوں اور ان درگاہوں پر صوفیانہ کلام پیش کرکے اپنی خاندانی روایت کو جاری رکھوں۔

واضح رہے کہ راحت فتح علی خان نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ جنوبی ایشیائی روایتی موسیقی کی پہچان سمجھا جاتا ہے، 7 سال کی عمر میں ان کی باقاعدہ تربیت کا آغاز ہو گیا تھا ، اب تک ان کے 50 سے زائد البم ریلیز ہو چکے ہیں، یہی نہیں وہ دنیا بھر میں مختلف بڑے کنسرٹس میں اپنے فن کا مظاہرہ کرچکے ہیں اور انہیں عالمی شہرت حاصل ہے، جب کہ وہ آن لائن ایک ارب ویوز حاصل کرچکے ہیں۔راحت فتح علی خان ٹیلی ویژن سیریلز کے 50 سے زائد ٹائٹل ٹریک اور 100 سے زائد فلموں کے گیت گا چکے ہیں۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے قبل 2016ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی نے استاد راحت فتح علی خان کی قوالیوں اور کلاسیکل موسیقی کی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کے نام سے ایک میوزک روم مختص کیا تھا،جہاں وہ انگریزوں کو فن قوالی کی تربیت دیتے ہیں۔ استاد راحت فتح علی خان کو یہ ڈگری ملنے پر ساتھی فن کاروں اور بالی وڈ کے سپر اسٹارز کی جانب سے مبارکباد اور نیک تمناؤں کے پیغامات موصول ہورہے ہیں۔ پوری قوم کو ان پر فخر ہے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ آئندہ بھی اپنے کے ذریعے پاکستان کا نام دنیا کے کونے کونے میں روشن کرتے رہیں گے۔

انٹرویو کے اختتام پر راحت فتح علی خاں کا کہنا تھا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے سے ملنے والی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری کا کریڈٹ میں صرف اور صرف فن قوالی کو دینا چاہتا ہوں اس حوالے سے بالی ووڈ میں گائے گیتوں کی مقبولیت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ بلاشبہ بالی ووڈ میں کام کرتے ہوئے میرے گیتوں کو اور میرے فن کو مقبولیت حاصل ہوئی لیکن یونیورسٹی سے ملنے والی اعلیٰ اعزازی ڈگری کا کریڈٹ صوفی کلام اور فن قوالی کو دینا چاہوں گاجو کہ میری خاندانی پہچان ہے اور اسی فن کے فروغ اور اس حوالے سے میری خدمات کو سراہتے ہوئے آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے مجھے اس اعزاز سے نوازا گیا۔

انہوں نے کہا کہ بولی ووڈ میں کام کرتے ہوئے مجھے بہت سے باصلاحیت موسیقاروں سے ملنے اور سیکھنے کا موقع ملا کمرشل میوزک کا کام جس طرح سے بھارت میں کیا جا رہا ہے ہے اس کا کریڈٹ نہ دیا جائے تو زیادتی ہوگی جہاں تک بطور فنکار میرا تعلق ہے تو میرے فن کو پسند کرنے والوں کی بہت بڑی تعداد بھارت میں بھی بستی ہے ہے اور ہم اس بات سے واقف ہیں کہ فن اور فنکار کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اس لیے میں یہ بات وثوق سے کہنا چاہتا ہوں ہوں کہ میرے فنی سفر میں کو کامیابی کی منزل پر آگے بڑھانے میں میں جہاں استاد نصرت فتح علی خان کی رہنمائی شامل رہی وہیں بالی وڈ کے پلیٹ فارم سے بھی خوب استفادہ کیا یا اس وقت حالات بہت خراب ہیں لیکن مجھے امید ہے کہ ان میں بہت جلد سدھار آئے گا۔

میرا ایسا سوچنے کی وجہ وہاں کام کرنے کی خواہش نہیں بلکہ امن پسندی کا وہ جذبہ ہے جس سے ہر ایک پاکستانی سرشار ہے۔ پوری دنیا اس بات سے واقف ہے کہ پاکستانی کس قدر مہمان نواز اور امن پسند لوگ ہیں خاص طور پر فنکار برادری جس طرح سے پوری دنیا میں جانی پہچانی جاتی ہے اس کی مثال کم ہی ملتی ہے ہمارے ملک کے فنکار دنیا میں جہاں بھی جاتے ہیں وہاں پر اپنے فن کے ذریعے امن پیار محبت دوستی کا پیغام پہنچاتے ہیں ہیں یہی وجہ ہے ہے کہ استاد نصرت فتح علی خان خان نے جو سلسلہ شروع کیا یا اس کو اب میں آگے بڑھا رہا ہوں ہو اور پاکستان کا سافٹ امیج اپنے فن کی بدولت دنیا بھر میں پہنچا رہا ہوں۔ یہ یہ میرا ہی نہیں ہمارے خاندان ان کا اصل مقصد ہے ہم چاہتے ہیں کہ صوفیائے کرام کے کلام کے ذریعے دنیا بھر میں امن کا پیغام پہنچائیں، اس میں ہمیں کامیابی مل رہی ہے بہت جلد دنیا بھر میں یہ بات عام ہو گئی اور ہر کوئی اس بات کا اعتراف کرے گا کہ پاکستانی امن پسند قوم ہے۔
Load Next Story