خیبر پختونخوا میں خواتین ملازمین کی جنسی ہراسانی میں اضافہ

خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں سب سے زیادہ خواتین کو ہراساں کیا جانے لگا

محکمہ صحت اور گھروں میں کام کرنے والی خواتین کو بھی ہراساں کئے جانے کا سامنا فوٹو: فائل

خیبرپختونخوا میں خواتین ملازمین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور 4 ماہ کے دوران صوبائی محتسب کو 31 خواتین کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔

یکم فروری 2019 سے 31 مئی کے دوران صوبائی محتسب کے پاس جمع کرائی گئی شکایات سے متعلقہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 4 ماہ کے دوران مختلف تعلیمی اداروں سے اب تک 8 خواتین نے اپنی شکایات جمع کرائی ہیں، ان میں ڈائریکٹوریٹ آف ایلمینٹری و سکینڈری ایجوکیشن خیبر پختونخوا اور ورکرز ویلفئیر بورڈ اسکولز سے 2،2 جب کہ پرائیویٹ ایجوکیشن انسی ٹیوشنز، یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی نوشہرہ اور ہری پوریونیورسٹی سے ایک ایک خاتون نے شکایت درج کرائی ہے۔ اس کے علاوہ محکمہ صحت سے 5، محکمہ پولیس، پبلک مقامات اور سائبر کرائم سے3، 3، مائنز اینڈ منرل، این سی ایچ آر اور ایم او ایچ آرز سے ایک ایک شکایت درج کرائی گئی ہے۔


صوبائی محتسب رخشندہ ناز کے مطابق بعض کیسز پر باضابطہ کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے. ان میں جن 6 کیسز پر کارروائی عمل میں لائی گئی ہے ان میں 3 پبلک مقامات اور2 سائبر کرائم کے کیسز ہیں جن میں خواتین کو انٹرنیٹ موبائل پیغامات یا سوشل میڈیا کے ذریعے ہراساں کیا جارہا تھا، بعض کیسز میں خواتین کو قانونی مدد بھی فراہم کی جارہی ہے، اس کے علاوہ کچھ کیسز فیملی کورٹ بھی بھیجے گئے ہیں۔

صوبائی محتسب ادارے نے اب خواتین کو سرکاری و پرائیویٹ اداروں میں قانون کے تحفظ دینے کےلئے اقدامات شروع کردیئے ہیں جس میں ضابطہ اخلاق کو نمایاں جگہ پر آویزاں کرنے, شکایت کی انکوائری کمیٹیوں کو فعال کرنے کے اقدامات شامل ہیں، عمل درآمد نہ کرنے پر ایک لاکھ روپے تک جرمانہ بھی کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ ذرائع کے مطابق خیبرپختونخوا میں عورتوں کو ملازمت کی جگہوں پر ہراساں کئے جانے کے خلاف 2010 میں قانون متعارف کروایا گیا تھا تاہم ان قوانین کے باوجود کئی سرکاری و نجی اداروں میں نا تو قانون پر کوئی عمل درآمد کیا جارہا ہے نا ہی ان اداروں میں قانون کو آویزاں کیا جاسکا اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی انکوائری کمیٹیوں کو مقرر کرنے کے اعلامیے جاری کئے جاسکے ہیں ان میں بھی سب سے زیادہ ان قوانین کی خلاف ورزی تعلیمی اداروں و اسپتالوں میں دیکھنے کو آرہی ہے۔
Load Next Story