امپورٹرز ریٹیل پرائس پر سیلز ٹیکس دینے سے انکاری
ریٹیل قیمت میں ڈیوٹی،ٹرانسپورٹیشن،کمیشن ودیگراخراجات شامل ہوتے ہیں،اس قیمت پرسیلزٹیکس اسسمنٹ ناانصافی ہے،درآمدکنندگان
درآمد شدہ اشیا پر ریٹیل پرائس پر سیلز ٹیکس کی وصولیوں کے فیصلے سے ملک میں درآمد ہونے والے آٹوپارٹس، اشیائے خورونوش، روزمرہ استعمال کی اشیا ، ہوم اپلائینسز سمیت دیگر اشیا کے کنسائنمنٹس کی کلیئرنس رک گئی ہے۔
ایف بی آرنے اپنے بجٹ میں کیے گئے اقدامات کے تحت ملک میں تجارتی بنیادوں پر درآمد ہونے والی اشیا کی امپورٹ پرائس کے بجائے ریٹیل پرائس کی بنیادپر سیلزٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے کی ہدایت کی ہے۔
ایف بی آر کے ان لینڈ ریونیو پالیسی ونگ نے پاکستان کسٹمز کے تمام کلکٹریٹس کوباضابطہ خطوط بھی ارسال کردیے۔ ذرائع نے بتایاکہ 30جون2019 تک ملک میں تجارتی بنیادوں پر درآمد ہونے والے آٹوپارٹس روزمرہ استعمال کی اشیاء کی ویلیوایسسمنٹ اس کی درآمدی قیمت کے تناسب سے کی جاتی تھی لیکن ایف بی آر نے سیلزٹیکس ایکٹ مجریہ 1990 کے تھرڈ شیڈول میں ان اشیا کو شامل کرکے ان کی مقامی ریٹیل قیمت کے تناسب سے17فیصد سیلزٹیکس درآمدی سطح پر ہی وصول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ حکومت کے اس بجٹری اقدام سے آٹوپارٹس سمیت دیگر فنش گڈز کے امپورٹرز اور کسٹم حکام کے درمیان تنازعات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور تجارتی بنیادوں پر درآمد ہونے والے سیکڑوں کنسائنمنٹس کی کلیئرنس نہ ہونے کی وجہ سے کنسائنمنٹس بندرگاہوں پررک گئے ہیں جبکہ کچھ درآمدکنندگان نے درآمدی اشیا کی لاگت میں نمایاں اضافے اور خوردہ سطح پر بڑھی ہوئی قیمتوں پر اشیا فروخت نہ ہونے کے خدشات کے باعث اپنے کنسائنمنٹس ری ایکسپورٹ کردیے ہیں۔
واضح رہے کہ حکومت نے ملک میں درآمد ہونے والی تیار مصنوعات پر پاکستان پہنچنے سے قبل ریٹیل قیمت درج کرائی جانے کی ہدایت کی ہے جس سے کمرشل امپورٹرز شدید مشکلات کا شکارہوگئے ہیں اور انہوں نے ریٹیل قیمت پر سیلز ٹیکس ادا کرنے سے انکار کردیا ہے۔
کمرشل امپورٹرز کے انکار کی وجہ سے سیکڑوں آٹو پارٹس، الیکٹرانکس آئٹمز، ہوم اپلائنسز، فوڈ آئٹمز سمیت دیگر تیار اشیا کے کنٹینرزبندرگاہ پر پھنس گئے۔کمرشل امپورٹرز نے استفسارکیا ہے کہ بندر گاہ پر موجود سامان کی ریٹیل قیمت کا تعین کس طرح کیا جاسکتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ریٹیل قیمت میں ڈیوٹی، ٹرانسپورٹیشن، کمیشن اور دیگر اخراجات شامل ہوتے ہیں لہذا ریٹیل قیمت پرکنسائنمنٹس کی سیلزٹیکس ایسسمنٹ ناانصافی ہے۔
ایف بی آرنے اپنے بجٹ میں کیے گئے اقدامات کے تحت ملک میں تجارتی بنیادوں پر درآمد ہونے والی اشیا کی امپورٹ پرائس کے بجائے ریٹیل پرائس کی بنیادپر سیلزٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے کی ہدایت کی ہے۔
ایف بی آر کے ان لینڈ ریونیو پالیسی ونگ نے پاکستان کسٹمز کے تمام کلکٹریٹس کوباضابطہ خطوط بھی ارسال کردیے۔ ذرائع نے بتایاکہ 30جون2019 تک ملک میں تجارتی بنیادوں پر درآمد ہونے والے آٹوپارٹس روزمرہ استعمال کی اشیاء کی ویلیوایسسمنٹ اس کی درآمدی قیمت کے تناسب سے کی جاتی تھی لیکن ایف بی آر نے سیلزٹیکس ایکٹ مجریہ 1990 کے تھرڈ شیڈول میں ان اشیا کو شامل کرکے ان کی مقامی ریٹیل قیمت کے تناسب سے17فیصد سیلزٹیکس درآمدی سطح پر ہی وصول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ حکومت کے اس بجٹری اقدام سے آٹوپارٹس سمیت دیگر فنش گڈز کے امپورٹرز اور کسٹم حکام کے درمیان تنازعات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور تجارتی بنیادوں پر درآمد ہونے والے سیکڑوں کنسائنمنٹس کی کلیئرنس نہ ہونے کی وجہ سے کنسائنمنٹس بندرگاہوں پررک گئے ہیں جبکہ کچھ درآمدکنندگان نے درآمدی اشیا کی لاگت میں نمایاں اضافے اور خوردہ سطح پر بڑھی ہوئی قیمتوں پر اشیا فروخت نہ ہونے کے خدشات کے باعث اپنے کنسائنمنٹس ری ایکسپورٹ کردیے ہیں۔
واضح رہے کہ حکومت نے ملک میں درآمد ہونے والی تیار مصنوعات پر پاکستان پہنچنے سے قبل ریٹیل قیمت درج کرائی جانے کی ہدایت کی ہے جس سے کمرشل امپورٹرز شدید مشکلات کا شکارہوگئے ہیں اور انہوں نے ریٹیل قیمت پر سیلز ٹیکس ادا کرنے سے انکار کردیا ہے۔
کمرشل امپورٹرز کے انکار کی وجہ سے سیکڑوں آٹو پارٹس، الیکٹرانکس آئٹمز، ہوم اپلائنسز، فوڈ آئٹمز سمیت دیگر تیار اشیا کے کنٹینرزبندرگاہ پر پھنس گئے۔کمرشل امپورٹرز نے استفسارکیا ہے کہ بندر گاہ پر موجود سامان کی ریٹیل قیمت کا تعین کس طرح کیا جاسکتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ریٹیل قیمت میں ڈیوٹی، ٹرانسپورٹیشن، کمیشن اور دیگر اخراجات شامل ہوتے ہیں لہذا ریٹیل قیمت پرکنسائنمنٹس کی سیلزٹیکس ایسسمنٹ ناانصافی ہے۔