مشرق کی قابل فخر بیٹیاں
اس کانفرنس کی خوبی یہ تھی کہ اس میں 5 ہزار آئی ٹی ماہرین نے شرکت کی تھی۔
پاکستان کی ملالہ یوسف زئی کو برطانیہ نے اعلیٰ اعزاز سے نوازا ہے اور اس کی عزت و توقیر کے لیے آئے دن کسی نہ کسی شکل میں مختلف اہم مقامات کا افتتاح یا مہمان خاص بنایا جاتا ہے، ان کی موجودگی کی خبریں پوری دنیا کے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی زینت بنتی ہیں، چند روز قبل ہی 3 ستمبر کی خبر کے مطابق انھوں نے یورپ کی سب سے بڑی لائبریری کا افتتاح کیا اور اپنے زریں خیالات نذر سامعین کیے۔ ایک بات سب کے ذہنوں میں تردد کا باعث ہے اور اسی فکر سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں، آخر ملالہ نے ایسا کون سا کارنامہ انجام دیا ہے، جس کی بنا پر انھیں اعزاز و اکرام سے نوازا جا رہا ہے؟ افغانستان و پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک اندرونی و بیرونی خطرات سے دوچار ہیں، جنگیں بھی ہو رہی ہیں، گولہ بارود کی فضا نے ماحول میں زہر گھول دیا ہے، ہزاروں معصوم بچے اور نوجوان لڑکیاں اور کم عمر لڑکے شہید ہو چکے ہیں، بے شمار لوگ زخمی اور موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں۔ ان کا کوئی ذکر نہیں، کوئی غم نہیں۔ اب اگر ملالہ اور ان کا خاندان باعث عزت بنا ہے تو یقیناً اس کی بھی کچھ وجوہات رہی ہوں گی۔ بہرحال ملالہ کی خوشی ہم سب کی خوشی ہے، اس نو عمر بچی کی بھلا کیا خطا؟
پاکستان کی ارفع کریم کا نام بھی مائیکرو سافٹ کے حوالے سے تاریخ میں امر ہو گیا ہے۔ ارفع کریم بھی بمشکل 16-15 کی تھیں جب انھیں دنیائے آب و گل سے رخصت ہونا پڑا اور بہت کم سنی کی عمر میں انھوں نے پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ چھوٹی سی ہی عمر میں مائیکروسافٹ پروفیشنل کے طور پر شہرت کی بلندیوں پر قدم رکھا۔ ارفع کریم کو سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں کارنامے انجام دینے پر سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے گولڈ میڈل سے نوازا۔ 2005 میں ہی ''سلام پاکستان'' ایوارڈ بھی دیا گیا۔ ارفع کے اعزاز میں دبئی میں ایک پارٹی کا انعقاد کیا گیا۔ اس تقریب خاص میں ارفع کریم کو ایوارڈ اور میڈل کے ساتھ لیپ ٹاپ دیا گیا۔ ارفع کو اپنی خداداد صلاحیتوں اور بے پناہ ذہانت کے سبب ٹیک ڈیولپرز کانفرنس میں بھی شرکت کا موقع ملا۔ اس کانفرنس کی خوبی یہ تھی کہ اس میں 5 ہزار آئی ٹی ماہرین نے شرکت کی تھی۔
مائیکرو سافٹ کے مالک بل گیٹس نے جب مقابلہ کروایا تو ارفع نے بھی اس میں شرکت کی تھی اور مقابلہ جیت لیا تھا۔ 15 جولائی 2005 کو ارفع اپنے والد کے ساتھ بل گیٹس کی دعوت پر امریکا گئیں جہاں انھوں نے اس ادارے کا دورہ کیا اور بل گیٹس کے ہاتھوں کامیابی و کامرانی کی سند بھی حاصل کی۔ ارفع کی عمر جب 10 برس تھی اس نے دبئی کے فلائنگ کلب سے فرسٹ فلائنگ سرٹیفکیٹ اور کمپیوٹر کے عالمی امتحان میں کامیابی حاصل کر کے مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کا اعلیٰ ترین اعزاز بھی حاصل کر لیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی ارفع جیسی چھوٹی بچی کو برتری حاصل تھی، وہ شاعرہ بھی تھی، وہ بہترین صداکارہ بھی تھی۔ اسے انسانیت کی خدمت کرنے کا بھی بدرجہ اتم شوق تھا، وہ تعلیم سے فراغت کے بعد ملک و قوم کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتی تھی، لیکن زندگی نے وفا نہیں کی۔ 2 فروری 1995 میں پیدا ہونے والی یہ مایہ ناز کلی 22 دسمبر 2011 کو پوری دنیا خصوصاً پاکستانیوں کو اداس کر کے رخصت ہو گئی۔
جب ہم ارفع کریم جیسی نابغہ روزگار شخصیت کا ذکر کرتے ہیں جس نے اپنی عمر سے بڑھ کر بڑے بڑے کام کیے اور اپنا نام روشن کیا تب ہمیں اسی ملک کی بیٹی عافیہ صدیقی بھی یاد آ جاتی ہے جو بے حد ذہین و فطین تھیں، اپنی ذہانت و لیاقت کی بدولت انعام و اکرام حاصل کرتیں، لیکن وہ قید و بند کی ہولناک صعوبتیں جھیل رہی ہیں۔ عافیہ صدیقی پر کوئی جرم ثابت نہیں ہو سکا ہے، اس کے باوجود جیل کی سنگلاخ چٹانوں کے پیچھے تشدد بھری زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ ان کی رہائی کے لیے کسی قسم کی کوششیں نہیں کی گئیں۔ ورنہ تو اسلامی حمیت اور قومی غیرت کا تقاضا تو یہ تھا کہ دشمن کی قید سے وطن عزیز کی بیٹی کو رہائی دلانا اہم ترین اور اولین ترجیحات کا حصہ ہوتا۔ مسلم حکمرانوں کے حوالے سے ایک واقعہ مجھے یاد آ رہا ہے کہ عباسی بادشاہ معتصم کو ایک مظلوم عورت نے آواز دی۔ عیسائی شخص نے نہایت گھمنڈ کے ساتھ کہا کہ کہاں تو اور کہاں تیرا بادشاہ معتصم؟ ہماری حکومت ہے ہم جو چاہیں کریں۔
یہ بات جب عباسی خلیفہ تک پہنچی تو اسلامی غیرت نے جوش مارا اور اس نے اس عورت کو جسے ایک عیسائی نے معمولی سی بات پر تھپڑ مار دیا تھا، جواب بھیجا میری بہن! فکر مت کر، میں ابھی پہنچا۔ پھر بہت جلد مسلم افواج جنگ کے لیے آ گئی اور عموریہ کو فتح کر لیا۔ مسلم عورت کو تلاش کیا گیا، وہ حاضر ہوئی تشکر بھری نگاہوں سے اس نے دیکھا اور شکر و احسان کے کلمات ادا کیے۔ مغرور نصرانی سب کے سامنے معافی کا طلبگار ہوا۔ معتصم باﷲ نے کہا میری بہن! اس تھپڑ کا اب تو بدلہ لے لے، تیرا بھائی آ گیا ہے۔ عورت نے امیرالمومنین سے ممنونیت کا اظہار کیا اور پھر اس نصرانی سے کہا میں تھپڑ کا بدلہ تھپڑ سے لے سکتی ہوں، لیکن میں تجھے اﷲ کی خوشنودی کے لیے معاف کرتی ہوں۔ ایک عورت کی ہی پکار پر حجاج بن یوسف نے اپنے بھتیجے اور داماد محمد بن قاسم کو سندھ کی سر زمین پر بھیجا تھا۔ تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات ہمیں نظر آتے ہیں جہاں قوم و ملت کے بھائیوں نے اپنی بہنوں کے سروں کو آنچل سے ڈھانپا ہے، ان کی عزت و ناموس کی خاطر اپنی جان کی پرواہ نہیں کی ہے۔
آج کسی کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی اور تشدد کی فضا کو ہموار کیا گیا ہے۔ محض نسلی منافرت اور مذہبی تعصب کی بنا پر مسلمانوں کا پنپنا ان کا ترقی کرنا انھیں ایک آنکھ نہیں بھاتا ہے۔ اسی ملک و قوم کی بیٹی بے نظیر بھٹو بھی تھیں، جنہوں نے سیاست کے حوالے سے کم عمری میں ہی بے پناہ دکھ جھیلے، ساری عمر آزمائشوں سے گزری اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انھیں قتل کر دیا گیا۔ ان کے قتل کے پیچھے بھی گھناؤنی سازش چھپی ہوئی ہے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے وزیر اعظم نواز شریف اور کرسی صدارت پر براجمان ہونے والے صدر ممنون حسین نے بھی وعدہ کیا ہے کہ وہ عافیہ صدیقی کو جلد سے جلد رہا کرانے کے لیے مخلصانہ کوششیں کریں گے۔ عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے ایک اچھی سی خبر یہ بھی ہے کہ وزارت داخلہ نے امریکا میں قید عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے دستاویزات امریکا اور یورپی یونین سمیت 64 ممالک کو ارسال کر دی ہیں۔ اس حوالے سے فوزیہ صدیقی کو بھی اعتماد میں لے لیا گیا ہے۔ اور یہ پہلی ہی دفعہ ہوا ہے، اگر عافیہ صدیقی رہا ہو جاتی ہیں تو یہ کریڈٹ نواز حکومت کو جاتا ہے اور اﷲ کرے ایسا ہی ہو کہ وہ جلد سے جلد اپنے وطن لوٹیں اور اپنے پیاروں سے ملیں۔
پاکستان میں ایسے قوانین کا نفاذ ہونا ضروری ہے جن کی رو سے کوئی غیر ملکی پاکستان میں قدم نہ رکھ سکے، پچھلے دیے گئے تمام حقوق کو سلب کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت پاکستان اگر عافیہ کو رہا کرانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تب وہ بقیہ قیدیوں کی رہائی کے لیے مخلصانہ کوشش کرے۔ تا کہ بے قصور لوگ تشدد اور توہین آمیز رویے کا شکار نہ ہو سکیں اور امریکا کو مزید مسلمانوں کو قید کرنے کا موقع میسر نہ آ سکے۔ پچھلے دنوں سعودی حکومت کی کوششوں سے گوانتانامو بے جیل سے 100 کے قریب قیدی رہا ہوئے تھے۔ اگر حکومت اپنے لوگوں کے دکھ درد کو سمجھے، ان کی تکالیف کا احساس کرے تو دوسرے ممالک بھی ان پر بھروسہ کر سکیں، اپنوں کا مخلص اور انسانیت پسند ہونا ضروری ہے۔
پاکستان کی ارفع کریم کا نام بھی مائیکرو سافٹ کے حوالے سے تاریخ میں امر ہو گیا ہے۔ ارفع کریم بھی بمشکل 16-15 کی تھیں جب انھیں دنیائے آب و گل سے رخصت ہونا پڑا اور بہت کم سنی کی عمر میں انھوں نے پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ چھوٹی سی ہی عمر میں مائیکروسافٹ پروفیشنل کے طور پر شہرت کی بلندیوں پر قدم رکھا۔ ارفع کریم کو سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں کارنامے انجام دینے پر سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے گولڈ میڈل سے نوازا۔ 2005 میں ہی ''سلام پاکستان'' ایوارڈ بھی دیا گیا۔ ارفع کے اعزاز میں دبئی میں ایک پارٹی کا انعقاد کیا گیا۔ اس تقریب خاص میں ارفع کریم کو ایوارڈ اور میڈل کے ساتھ لیپ ٹاپ دیا گیا۔ ارفع کو اپنی خداداد صلاحیتوں اور بے پناہ ذہانت کے سبب ٹیک ڈیولپرز کانفرنس میں بھی شرکت کا موقع ملا۔ اس کانفرنس کی خوبی یہ تھی کہ اس میں 5 ہزار آئی ٹی ماہرین نے شرکت کی تھی۔
مائیکرو سافٹ کے مالک بل گیٹس نے جب مقابلہ کروایا تو ارفع نے بھی اس میں شرکت کی تھی اور مقابلہ جیت لیا تھا۔ 15 جولائی 2005 کو ارفع اپنے والد کے ساتھ بل گیٹس کی دعوت پر امریکا گئیں جہاں انھوں نے اس ادارے کا دورہ کیا اور بل گیٹس کے ہاتھوں کامیابی و کامرانی کی سند بھی حاصل کی۔ ارفع کی عمر جب 10 برس تھی اس نے دبئی کے فلائنگ کلب سے فرسٹ فلائنگ سرٹیفکیٹ اور کمپیوٹر کے عالمی امتحان میں کامیابی حاصل کر کے مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کا اعلیٰ ترین اعزاز بھی حاصل کر لیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی ارفع جیسی چھوٹی بچی کو برتری حاصل تھی، وہ شاعرہ بھی تھی، وہ بہترین صداکارہ بھی تھی۔ اسے انسانیت کی خدمت کرنے کا بھی بدرجہ اتم شوق تھا، وہ تعلیم سے فراغت کے بعد ملک و قوم کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتی تھی، لیکن زندگی نے وفا نہیں کی۔ 2 فروری 1995 میں پیدا ہونے والی یہ مایہ ناز کلی 22 دسمبر 2011 کو پوری دنیا خصوصاً پاکستانیوں کو اداس کر کے رخصت ہو گئی۔
جب ہم ارفع کریم جیسی نابغہ روزگار شخصیت کا ذکر کرتے ہیں جس نے اپنی عمر سے بڑھ کر بڑے بڑے کام کیے اور اپنا نام روشن کیا تب ہمیں اسی ملک کی بیٹی عافیہ صدیقی بھی یاد آ جاتی ہے جو بے حد ذہین و فطین تھیں، اپنی ذہانت و لیاقت کی بدولت انعام و اکرام حاصل کرتیں، لیکن وہ قید و بند کی ہولناک صعوبتیں جھیل رہی ہیں۔ عافیہ صدیقی پر کوئی جرم ثابت نہیں ہو سکا ہے، اس کے باوجود جیل کی سنگلاخ چٹانوں کے پیچھے تشدد بھری زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ ان کی رہائی کے لیے کسی قسم کی کوششیں نہیں کی گئیں۔ ورنہ تو اسلامی حمیت اور قومی غیرت کا تقاضا تو یہ تھا کہ دشمن کی قید سے وطن عزیز کی بیٹی کو رہائی دلانا اہم ترین اور اولین ترجیحات کا حصہ ہوتا۔ مسلم حکمرانوں کے حوالے سے ایک واقعہ مجھے یاد آ رہا ہے کہ عباسی بادشاہ معتصم کو ایک مظلوم عورت نے آواز دی۔ عیسائی شخص نے نہایت گھمنڈ کے ساتھ کہا کہ کہاں تو اور کہاں تیرا بادشاہ معتصم؟ ہماری حکومت ہے ہم جو چاہیں کریں۔
یہ بات جب عباسی خلیفہ تک پہنچی تو اسلامی غیرت نے جوش مارا اور اس نے اس عورت کو جسے ایک عیسائی نے معمولی سی بات پر تھپڑ مار دیا تھا، جواب بھیجا میری بہن! فکر مت کر، میں ابھی پہنچا۔ پھر بہت جلد مسلم افواج جنگ کے لیے آ گئی اور عموریہ کو فتح کر لیا۔ مسلم عورت کو تلاش کیا گیا، وہ حاضر ہوئی تشکر بھری نگاہوں سے اس نے دیکھا اور شکر و احسان کے کلمات ادا کیے۔ مغرور نصرانی سب کے سامنے معافی کا طلبگار ہوا۔ معتصم باﷲ نے کہا میری بہن! اس تھپڑ کا اب تو بدلہ لے لے، تیرا بھائی آ گیا ہے۔ عورت نے امیرالمومنین سے ممنونیت کا اظہار کیا اور پھر اس نصرانی سے کہا میں تھپڑ کا بدلہ تھپڑ سے لے سکتی ہوں، لیکن میں تجھے اﷲ کی خوشنودی کے لیے معاف کرتی ہوں۔ ایک عورت کی ہی پکار پر حجاج بن یوسف نے اپنے بھتیجے اور داماد محمد بن قاسم کو سندھ کی سر زمین پر بھیجا تھا۔ تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات ہمیں نظر آتے ہیں جہاں قوم و ملت کے بھائیوں نے اپنی بہنوں کے سروں کو آنچل سے ڈھانپا ہے، ان کی عزت و ناموس کی خاطر اپنی جان کی پرواہ نہیں کی ہے۔
آج کسی کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی اور تشدد کی فضا کو ہموار کیا گیا ہے۔ محض نسلی منافرت اور مذہبی تعصب کی بنا پر مسلمانوں کا پنپنا ان کا ترقی کرنا انھیں ایک آنکھ نہیں بھاتا ہے۔ اسی ملک و قوم کی بیٹی بے نظیر بھٹو بھی تھیں، جنہوں نے سیاست کے حوالے سے کم عمری میں ہی بے پناہ دکھ جھیلے، ساری عمر آزمائشوں سے گزری اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انھیں قتل کر دیا گیا۔ ان کے قتل کے پیچھے بھی گھناؤنی سازش چھپی ہوئی ہے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے وزیر اعظم نواز شریف اور کرسی صدارت پر براجمان ہونے والے صدر ممنون حسین نے بھی وعدہ کیا ہے کہ وہ عافیہ صدیقی کو جلد سے جلد رہا کرانے کے لیے مخلصانہ کوششیں کریں گے۔ عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے ایک اچھی سی خبر یہ بھی ہے کہ وزارت داخلہ نے امریکا میں قید عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے دستاویزات امریکا اور یورپی یونین سمیت 64 ممالک کو ارسال کر دی ہیں۔ اس حوالے سے فوزیہ صدیقی کو بھی اعتماد میں لے لیا گیا ہے۔ اور یہ پہلی ہی دفعہ ہوا ہے، اگر عافیہ صدیقی رہا ہو جاتی ہیں تو یہ کریڈٹ نواز حکومت کو جاتا ہے اور اﷲ کرے ایسا ہی ہو کہ وہ جلد سے جلد اپنے وطن لوٹیں اور اپنے پیاروں سے ملیں۔
پاکستان میں ایسے قوانین کا نفاذ ہونا ضروری ہے جن کی رو سے کوئی غیر ملکی پاکستان میں قدم نہ رکھ سکے، پچھلے دیے گئے تمام حقوق کو سلب کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت پاکستان اگر عافیہ کو رہا کرانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تب وہ بقیہ قیدیوں کی رہائی کے لیے مخلصانہ کوشش کرے۔ تا کہ بے قصور لوگ تشدد اور توہین آمیز رویے کا شکار نہ ہو سکیں اور امریکا کو مزید مسلمانوں کو قید کرنے کا موقع میسر نہ آ سکے۔ پچھلے دنوں سعودی حکومت کی کوششوں سے گوانتانامو بے جیل سے 100 کے قریب قیدی رہا ہوئے تھے۔ اگر حکومت اپنے لوگوں کے دکھ درد کو سمجھے، ان کی تکالیف کا احساس کرے تو دوسرے ممالک بھی ان پر بھروسہ کر سکیں، اپنوں کا مخلص اور انسانیت پسند ہونا ضروری ہے۔