کیا امیروں سے ٹیکس لینا ممکن نہیں
کیا برس ہا برس سے ایسا ہی سب کچھ نہیں ہوتا آ رہا۔
ISLAMABAD:
دیگر بہت سے التباسات کے ساتھ ساتھ عوام کو جمہوریت کے ذریعے اس خوش فہمی میں بھی مبتلا رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حکومت عوام کی ہے اور عوام کے لیے ہے۔ جلد ہی حکومت ایسا کچھ کرنے والی ہے جس سے تمام دلدر دور ہو جائیں گے۔ ہر طرف دودھ اور شہد کی ندیاں بہیں گی۔ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیئں گے۔ وغیر ہ، موجودہ عام انتخابات سے قبل بھی کچھ سادہ لوح عوام نے انتخابی عمل اور آنے والے حکمرانوں سے غیر معمولی طور پر توقعات وابستہ کر لی تھیں۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ آرزوں کا محل حقیقتوں کی سنگلاخیوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہوا جا رہا ہے اور عوام کو خون کے آنسو رلا رہا ہے۔ مہنگائی حسبِ معمول روز افزوں ہے۔ قرضوں کا حجم بھی بڑھ رہا ہے۔ معیشت سُکڑ رہی ہے۔ امن و امان آج بھی ہر پاکستانی کا مسئلہ ہے۔ گزشتہ دنوں وزیرِ اعظم صاحب نے کراچی کا دورہ کیا اور لہو لہان کراچی کو طفل تسلیاں دے کر رخصت ہوئے۔ کیا برس ہا برس سے ایسا ہی سب کچھ نہیں ہوتا آ رہا۔
جس کے ماتھے پہ نئی صبح کا جھومر ہو گا
ہم نے اُس وقت کی دلہن کو بہت یاد کیا
کچھ افراد کے ووٹ لے کر سب کا حکمران بن بیٹھنا اور پھر اسے اکثریتی نمایندہ قرار دینا، سرمایہ دارانہ جمہوریتوں ہی میں ممکن ہوا کرتا ہے۔ ہمارے موجودہ انتخابی عمل کے دوران کُل رائے دہندگان میں سے صرف55 فی صد افراد نے رائے شماری میں حصہ لیا۔ گویا 45 فی صد رجسٹرڈ ووٹرز ایسے ہیں جنھوں نے اس تمام تر عمل سے مکمل لاتعلقی برتی۔ یہاں تک کہ انھوں نے ووٹ دینا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ ان 55 فی صد میں سے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے قریباً33 فی صد ووٹ حاصل کیے گویا کُل ووٹرز کے 17 فی صد سے بھی کچھ کم اور کُل آبادی کا محض 10 سے 12 فی صد۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا محض10،12یا 17فی صد رائے شماری کی بنیاد پر کسی کو جمہور کا حکمران تسلیم کیا جا سکتا ہے؟
کیا محض 10 یا 17 فی صد ووٹ لے لینے کا یہ مقصد ہوا کرتا ہے کہ اب حکومت کا ہر ہر فیصلہ سو فی صد عوام کی مرضی اور منشاء کے مطابق ہوا کرے گا؟ کسی بھی ملک کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیے آپ کو اس سے ملتے جلتے نتائج نظر آئیں گے۔ اور اگر آپ نے بہ نظرِ غائر ''ٹائم لائن'' کا مشاہدہ کیا تو آپ دیکھیں گے کہ گزشتہ صرف نصف صدی میں ہماری تو خیر بات ہی کیا ہے، بڑی بڑی جمہوریائوں میں بڑی تعداد میں لوگ انتخابی عمل سے علیحدہ ہوئے ہیں۔ ووٹ کا ٹرن آئوٹ تیزی سے کم ہوا ہے۔ کیا یہ اہم سوال نہیں کہ آخر دنیا بھر کے افراد انتخابی عمل سے بے زار کیوں ہوتے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر برطانیا عظمیٰ میں 1950 میں 83.9 فی صد افراد نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا تھا۔2001میں یہ تناسب محض 59.4 رہ گیا جو 2010میں بڑھ کر 65.1 ہوا۔ کیا جمہور کا یہ رویہ جمہوری عمل سے بے زاری کے طور پر نہیں دیکھا جائے گا؟
عالمی سطح پر ایک اور چیز بھی انحطاط کا شکار ہے اور وہ ہے ملٹی نیشنلز کا ٹیکس ادا کرنا۔ ہمارے سادہ لوح وزیرِ اعظم اور وزیرِ خزانہ نے بھی اس عزم کا اعادہ فرمایا ہے کہ امیروں سے ٹیکس لیا جائے گا۔ اس طرح کے بیانات کا ایک صاف اور سیدھا مطلب تو یہ بھی ہوتا ہے کہ اب تک تو پاکستان میں امیروں سے ٹیکس نہیں لیا جا سکا اب یہ حکومت لے گی۔ بھائی اب آپ ایسا کیا کرنے والے ہیں جو اب تک ٹیکس نہ دینے والے یک بہ یک ایمان داری سے ٹیکس گزار بن جائیں گے؟ اس طرح کے عقدوں کا کوئی حل حکومتی حلقوں سے اب تک سامنے نہیں آیا۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا یہ ممکن بھی ہے؟ کیا سرمایہ دارانہ جمہوریائوں کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ سرمائے پر تحدید لگائیں؟ ٹیکس لگائیں؟
موجودہ مالی سال کی ابتداء سے متصلاً قبل امریکا میں اس سے متعلق شدید مباحث سامنے آئے تھے کہ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں ٹیکس نہیں دے رہیں۔ خاص کر جب فلم ساز مائیکل مُور نے ایک ٹی وی ٹاک شو ''رئیل ٹائم'' میں اس طرح کے الزامات کا اعادہ کیا کہ جنرل الیکٹرانکس اور دیگر 50 بڑی کمپنیاں ٹیکس نہیں دیتیں یا بہت کم دیتی ہیں۔ ہفت روزہ پوسٹ لائیو سے بات کرتے ہوئے رپورٹر صبرینا صدیقی نے بھی اس طرح کے الزامات کی اثابت کا ذکر کیا۔ غالباً یہ تمام تر قصہ اس وقت شروع ہوا تھا جب نیویارک ٹائمز نے 24 مارچ 2011 کو ایک رپورٹ شایع کی تھی ۔ اس میں یہ بتایا گیا تھا جنرل الیکٹرونکس المعروف جی ای جو امریکا کی ایک بہت بڑی کارپوریشن ہے، اسے دنیا بھر سے 14.2 ارب ڈالر کا منافع ہوا ہے۔ اور صرف امریکا سے 5.1 ارب ڈالر کا منافع ہوا ہے۔ لیکن اس نے ٹیکس کی مد میں ایک ڈالر بھی ادا نہیں کیا۔ امریکا ایک ایسا ملک ہے جہاں ڈالر کمانا آسان نہیں۔ ہیں تلخ بہت بندہٗ مزدور کے اوقات۔ وہاں افراد ایک پُر مشقت زندگی بسر کرتے ہیں۔
اس شدید محنت کے بعد جو محنتانہ ملتا ہے اس میں سے ایک بڑا حصہ ٹیکس کی مد میں حکومت کو دینا ہوتا۔ مہنگائی، بیروزگاری اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبی امریکی عوام کے لیے یہ خبر کسی تازیانے سے کم نہ تھی کہ وہ تو اتنا اتنا ٹیکس دیتے ہیں اور جنرل الیکٹرانکس نے صفر ٹیکس دیا ہے۔ وائٹ ہائوس نے کسی تادیبی کارروائی کے بجائے۔ جنرل الیکٹرانکس کے چئیرمین اور سی ای او جیفری ایملٹ کو اپنے ہاں ''جاب اینڈ کمپنی ٹیٹیو نس کائونسل'' کا چئیر مین نامزد کر دیا۔ آپ کو جان کر شاید حیرت ہو کہ اُس وقت جی ای کے پاس دنیا کا سب سے بہترین اور بڑا ٹیکس ڈیپارٹمنٹ تھا۔975 ماہرین پر مشتمل۔ جس میں امریکی خزانے کے سابقہ عہدے داروں سے لے کر آئی آر ایس (ٹیکس سے متعلقہ امریکی ادارہ) اور کانگریس تک کے افراد شامل تھے۔ ''لابنگ'' پر گزشتہ دہائی سے جی ای ہر برس 20 لاکھ ڈالر خرچ کر رہی تھی۔ یہ واحد کمپنی نہیں تھی ایسی کئی کمپنیاں ہیں۔ پچاس سے بھی زائد۔ مثال کے طور پر ''ایکس موبل''۔ اس کمپنی کو 2009 میں 19ارب ڈالر کا منافع ہوا تھا۔ لیکن اس کمپنی نے کوئی بھی فیڈرل انکم ٹیکس ادا نہیں کیا۔
ٹیکس تو کیا ہی دیتی اس کمپنی نے آئی آر ایس سے ایک کروڑ پچپن لاکھ ڈالر ری بیٹ کی مد میں وصول کر لیا تھا۔ کہنا صرف یہ مقصود ہے ایسا صرف ہمارے ہاں ہی نہیں ہے کہ امراء ٹیکس سے بچ جاتے ہیں اور تن خواہ دار پھنس جاتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوریتوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اصولی طور پر یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ آپ سرمائے پر قدغنیں لگا سکیں۔ اگر آپ نے سرمائے پر ٹیکس لگانے شروع کیے تو سرمایہ تو سیال ہے وہ کہیں اور نکل جائے گا۔ مثال کے طور پر امریکی شہر ڈیٹرائٹ۔ جسے کبھی موٹر سٹی کہا جاتا تھا۔ جو کبھی آٹو موبائل انڈسٹری کا گڑھ ہوا کرتا تھا۔ آج وہاں خاک اڑتی ہے اور آسیب بسیرا کیے ہیں۔ آج ڈیٹرائٹ کو امریکی تاریخ کی سب سے بڑی میونسپل دیوالیہ ہونے کا اعلان کرنا پڑا ہے۔ چونکہ گاڑیاں بنانے کی تمام صنعتیں اور سرمایہ وہاں منتقل ہو گیا جہاں انسانوں کا شدید استحصال کرتے ہوئے ان سے کم ترین اجرتوں پر کام لینا ممکن ہے۔ اگر پاکستان میں بھی اس طرح کے قوانین کے نفاذ کی کوشش کی گئی جس سے سرمائے پر ٹیکس لگنے لگے تو رہا سہا سرمایہ بھی یہاں سے غائب ہو جائے گا اور مزید آئے گا نہیں۔
کیا فرانس میں حالیہ دنوں میں ایس انھیں ہو رہا؟ فرانس میں سوشلسٹ صدر فرانکوئز جیرارڈ جارجیز نے جوں ہی فرانس کے امیروں پر 75 فی صد ٹیکس کے نفاذ کا عندیہ دیا وہ ملک چھوڑ کر بھاگنے لگے۔ 5 ہزار فرانسیسی امراء سرمائے سمیت ملک چھوڑ کر بلجیئم، برطانیا، سوئزر لینڈ، روس یہاں تک کہ سنگا پور منتقل ہو چکے ہیں۔
سرمایہ دار کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے، نہ ملک ، نہ قوم۔ اس کا سب کچھ سرمایہ ہے۔ وہ اسی کی پرستش کرتا ہے۔ اسی کے لیے جیتا ہے اور اسی کے لیے مرتا ہے۔ منشورِ حقوقِ انسانی نے آزادی کے نام پر ایک ایسا انسان تخلیق کیا ہے جو اپنی خواہشات سے اوپر اٹھ کر کچھ کرنے کے قابل نہیں۔
دیگر بہت سے التباسات کے ساتھ ساتھ عوام کو جمہوریت کے ذریعے اس خوش فہمی میں بھی مبتلا رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حکومت عوام کی ہے اور عوام کے لیے ہے۔ جلد ہی حکومت ایسا کچھ کرنے والی ہے جس سے تمام دلدر دور ہو جائیں گے۔ ہر طرف دودھ اور شہد کی ندیاں بہیں گی۔ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیئں گے۔ وغیر ہ، موجودہ عام انتخابات سے قبل بھی کچھ سادہ لوح عوام نے انتخابی عمل اور آنے والے حکمرانوں سے غیر معمولی طور پر توقعات وابستہ کر لی تھیں۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ آرزوں کا محل حقیقتوں کی سنگلاخیوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہوا جا رہا ہے اور عوام کو خون کے آنسو رلا رہا ہے۔ مہنگائی حسبِ معمول روز افزوں ہے۔ قرضوں کا حجم بھی بڑھ رہا ہے۔ معیشت سُکڑ رہی ہے۔ امن و امان آج بھی ہر پاکستانی کا مسئلہ ہے۔ گزشتہ دنوں وزیرِ اعظم صاحب نے کراچی کا دورہ کیا اور لہو لہان کراچی کو طفل تسلیاں دے کر رخصت ہوئے۔ کیا برس ہا برس سے ایسا ہی سب کچھ نہیں ہوتا آ رہا۔
جس کے ماتھے پہ نئی صبح کا جھومر ہو گا
ہم نے اُس وقت کی دلہن کو بہت یاد کیا
کچھ افراد کے ووٹ لے کر سب کا حکمران بن بیٹھنا اور پھر اسے اکثریتی نمایندہ قرار دینا، سرمایہ دارانہ جمہوریتوں ہی میں ممکن ہوا کرتا ہے۔ ہمارے موجودہ انتخابی عمل کے دوران کُل رائے دہندگان میں سے صرف55 فی صد افراد نے رائے شماری میں حصہ لیا۔ گویا 45 فی صد رجسٹرڈ ووٹرز ایسے ہیں جنھوں نے اس تمام تر عمل سے مکمل لاتعلقی برتی۔ یہاں تک کہ انھوں نے ووٹ دینا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ ان 55 فی صد میں سے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے قریباً33 فی صد ووٹ حاصل کیے گویا کُل ووٹرز کے 17 فی صد سے بھی کچھ کم اور کُل آبادی کا محض 10 سے 12 فی صد۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا محض10،12یا 17فی صد رائے شماری کی بنیاد پر کسی کو جمہور کا حکمران تسلیم کیا جا سکتا ہے؟
کیا محض 10 یا 17 فی صد ووٹ لے لینے کا یہ مقصد ہوا کرتا ہے کہ اب حکومت کا ہر ہر فیصلہ سو فی صد عوام کی مرضی اور منشاء کے مطابق ہوا کرے گا؟ کسی بھی ملک کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیے آپ کو اس سے ملتے جلتے نتائج نظر آئیں گے۔ اور اگر آپ نے بہ نظرِ غائر ''ٹائم لائن'' کا مشاہدہ کیا تو آپ دیکھیں گے کہ گزشتہ صرف نصف صدی میں ہماری تو خیر بات ہی کیا ہے، بڑی بڑی جمہوریائوں میں بڑی تعداد میں لوگ انتخابی عمل سے علیحدہ ہوئے ہیں۔ ووٹ کا ٹرن آئوٹ تیزی سے کم ہوا ہے۔ کیا یہ اہم سوال نہیں کہ آخر دنیا بھر کے افراد انتخابی عمل سے بے زار کیوں ہوتے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر برطانیا عظمیٰ میں 1950 میں 83.9 فی صد افراد نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا تھا۔2001میں یہ تناسب محض 59.4 رہ گیا جو 2010میں بڑھ کر 65.1 ہوا۔ کیا جمہور کا یہ رویہ جمہوری عمل سے بے زاری کے طور پر نہیں دیکھا جائے گا؟
عالمی سطح پر ایک اور چیز بھی انحطاط کا شکار ہے اور وہ ہے ملٹی نیشنلز کا ٹیکس ادا کرنا۔ ہمارے سادہ لوح وزیرِ اعظم اور وزیرِ خزانہ نے بھی اس عزم کا اعادہ فرمایا ہے کہ امیروں سے ٹیکس لیا جائے گا۔ اس طرح کے بیانات کا ایک صاف اور سیدھا مطلب تو یہ بھی ہوتا ہے کہ اب تک تو پاکستان میں امیروں سے ٹیکس نہیں لیا جا سکا اب یہ حکومت لے گی۔ بھائی اب آپ ایسا کیا کرنے والے ہیں جو اب تک ٹیکس نہ دینے والے یک بہ یک ایمان داری سے ٹیکس گزار بن جائیں گے؟ اس طرح کے عقدوں کا کوئی حل حکومتی حلقوں سے اب تک سامنے نہیں آیا۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا یہ ممکن بھی ہے؟ کیا سرمایہ دارانہ جمہوریائوں کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ سرمائے پر تحدید لگائیں؟ ٹیکس لگائیں؟
موجودہ مالی سال کی ابتداء سے متصلاً قبل امریکا میں اس سے متعلق شدید مباحث سامنے آئے تھے کہ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں ٹیکس نہیں دے رہیں۔ خاص کر جب فلم ساز مائیکل مُور نے ایک ٹی وی ٹاک شو ''رئیل ٹائم'' میں اس طرح کے الزامات کا اعادہ کیا کہ جنرل الیکٹرانکس اور دیگر 50 بڑی کمپنیاں ٹیکس نہیں دیتیں یا بہت کم دیتی ہیں۔ ہفت روزہ پوسٹ لائیو سے بات کرتے ہوئے رپورٹر صبرینا صدیقی نے بھی اس طرح کے الزامات کی اثابت کا ذکر کیا۔ غالباً یہ تمام تر قصہ اس وقت شروع ہوا تھا جب نیویارک ٹائمز نے 24 مارچ 2011 کو ایک رپورٹ شایع کی تھی ۔ اس میں یہ بتایا گیا تھا جنرل الیکٹرونکس المعروف جی ای جو امریکا کی ایک بہت بڑی کارپوریشن ہے، اسے دنیا بھر سے 14.2 ارب ڈالر کا منافع ہوا ہے۔ اور صرف امریکا سے 5.1 ارب ڈالر کا منافع ہوا ہے۔ لیکن اس نے ٹیکس کی مد میں ایک ڈالر بھی ادا نہیں کیا۔ امریکا ایک ایسا ملک ہے جہاں ڈالر کمانا آسان نہیں۔ ہیں تلخ بہت بندہٗ مزدور کے اوقات۔ وہاں افراد ایک پُر مشقت زندگی بسر کرتے ہیں۔
اس شدید محنت کے بعد جو محنتانہ ملتا ہے اس میں سے ایک بڑا حصہ ٹیکس کی مد میں حکومت کو دینا ہوتا۔ مہنگائی، بیروزگاری اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبی امریکی عوام کے لیے یہ خبر کسی تازیانے سے کم نہ تھی کہ وہ تو اتنا اتنا ٹیکس دیتے ہیں اور جنرل الیکٹرانکس نے صفر ٹیکس دیا ہے۔ وائٹ ہائوس نے کسی تادیبی کارروائی کے بجائے۔ جنرل الیکٹرانکس کے چئیرمین اور سی ای او جیفری ایملٹ کو اپنے ہاں ''جاب اینڈ کمپنی ٹیٹیو نس کائونسل'' کا چئیر مین نامزد کر دیا۔ آپ کو جان کر شاید حیرت ہو کہ اُس وقت جی ای کے پاس دنیا کا سب سے بہترین اور بڑا ٹیکس ڈیپارٹمنٹ تھا۔975 ماہرین پر مشتمل۔ جس میں امریکی خزانے کے سابقہ عہدے داروں سے لے کر آئی آر ایس (ٹیکس سے متعلقہ امریکی ادارہ) اور کانگریس تک کے افراد شامل تھے۔ ''لابنگ'' پر گزشتہ دہائی سے جی ای ہر برس 20 لاکھ ڈالر خرچ کر رہی تھی۔ یہ واحد کمپنی نہیں تھی ایسی کئی کمپنیاں ہیں۔ پچاس سے بھی زائد۔ مثال کے طور پر ''ایکس موبل''۔ اس کمپنی کو 2009 میں 19ارب ڈالر کا منافع ہوا تھا۔ لیکن اس کمپنی نے کوئی بھی فیڈرل انکم ٹیکس ادا نہیں کیا۔
ٹیکس تو کیا ہی دیتی اس کمپنی نے آئی آر ایس سے ایک کروڑ پچپن لاکھ ڈالر ری بیٹ کی مد میں وصول کر لیا تھا۔ کہنا صرف یہ مقصود ہے ایسا صرف ہمارے ہاں ہی نہیں ہے کہ امراء ٹیکس سے بچ جاتے ہیں اور تن خواہ دار پھنس جاتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوریتوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اصولی طور پر یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ آپ سرمائے پر قدغنیں لگا سکیں۔ اگر آپ نے سرمائے پر ٹیکس لگانے شروع کیے تو سرمایہ تو سیال ہے وہ کہیں اور نکل جائے گا۔ مثال کے طور پر امریکی شہر ڈیٹرائٹ۔ جسے کبھی موٹر سٹی کہا جاتا تھا۔ جو کبھی آٹو موبائل انڈسٹری کا گڑھ ہوا کرتا تھا۔ آج وہاں خاک اڑتی ہے اور آسیب بسیرا کیے ہیں۔ آج ڈیٹرائٹ کو امریکی تاریخ کی سب سے بڑی میونسپل دیوالیہ ہونے کا اعلان کرنا پڑا ہے۔ چونکہ گاڑیاں بنانے کی تمام صنعتیں اور سرمایہ وہاں منتقل ہو گیا جہاں انسانوں کا شدید استحصال کرتے ہوئے ان سے کم ترین اجرتوں پر کام لینا ممکن ہے۔ اگر پاکستان میں بھی اس طرح کے قوانین کے نفاذ کی کوشش کی گئی جس سے سرمائے پر ٹیکس لگنے لگے تو رہا سہا سرمایہ بھی یہاں سے غائب ہو جائے گا اور مزید آئے گا نہیں۔
کیا فرانس میں حالیہ دنوں میں ایس انھیں ہو رہا؟ فرانس میں سوشلسٹ صدر فرانکوئز جیرارڈ جارجیز نے جوں ہی فرانس کے امیروں پر 75 فی صد ٹیکس کے نفاذ کا عندیہ دیا وہ ملک چھوڑ کر بھاگنے لگے۔ 5 ہزار فرانسیسی امراء سرمائے سمیت ملک چھوڑ کر بلجیئم، برطانیا، سوئزر لینڈ، روس یہاں تک کہ سنگا پور منتقل ہو چکے ہیں۔
سرمایہ دار کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے، نہ ملک ، نہ قوم۔ اس کا سب کچھ سرمایہ ہے۔ وہ اسی کی پرستش کرتا ہے۔ اسی کے لیے جیتا ہے اور اسی کے لیے مرتا ہے۔ منشورِ حقوقِ انسانی نے آزادی کے نام پر ایک ایسا انسان تخلیق کیا ہے جو اپنی خواہشات سے اوپر اٹھ کر کچھ کرنے کے قابل نہیں۔