خطے کی سیاست اور قومی بیانیہ

اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان نئے علاقائی اتحادی بھی تلاش کر رہا ہے

salmanabidpk@gmail.com

KARACHI:
پاکستان کی داخلی سیاست کے ساتھ ساتھ خارجی اور بالخصوص علاقائی سیاسی استحکام ملکی سلامتی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے بقول اگر پاکستان کے اپنی سلامتی کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے تو اسے خطے کی سیاست میں اپنا کردار بڑھانا ہو گا۔ ذاتی طور میں اس نکتہ کے ہمیشہ سے حامی رہا ہوں کہ اگر ہم خارجی پالیسی میں خطہ کی سیاست کو نظرانداز کیا تو خارجہ پالیسی میں بڑی کامیابی کا امکان محدود رہے گا۔

ہماری موجودہ سیاسی اور بالخصوص فوجی قیادت کو اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ ہمیں خطہ کی سیاست میں ایک نئے بیانیہ کی طرف پیشرفت کو آگے بڑھانا ہے جو ہمارے سمیت خطہ کے دیگر ممالک کے لیے بھی قابل قبول ہو۔وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار میں آتے ہی جو بھارت اور افغانستان سمیت تمام خطہ کے ممالک کو باہمی اشتراک اور تعاون کے ساتھ مل کر کام کرنے کی جو پیشکش کی تھی وہ قابل تعریف عمل تھا۔ بھارت کے بارے میں یہ کہنا کہ اگر وہ مفاہمت کی جانب ایک قدم آگے چلے گا تو ہم دو قدم آگے چلیں گے۔ اسی طرح بار بار بھارت کو مفاہمت کی دعوت دینا اور شنگھائی کانفرنس میں وزیر اعظم عمران خان نے جس دلیری کے ساتھ تمام ملکوں کو باہمی تجارت، سیاست، سماجیات، معیشت، انتہا پسندی اور دہشتگردی سمیت غربت کے خاتمہ میں خطہ کے ممالک کے باہمی کردار پر زور دیا اسے بہت سے ممالک نے پزیرائی دی۔افغانستان کے بحران میں پاکستان کا حالیہ کردار کافی جاندار ہے۔

پہلی بار پاکستان کا کردار ایک معاونت فراہم کرنے والے کا ہے جو اپنے مفادات سے زیادہ افغانستان کے داخلی استحکام کا حامی ہے۔ مستحکم افغانستان پاکستان سمیت پورے خطہ کی سیاست کے لیے اہم ہے۔اگر افغان حکومت اورافغان طالبان کے امریکا سے مذاکرات کا عمل میں کوئی بہتری آتی ہے تو اس کا کریڈٹ پاکستان کو جاتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان ہر صورت افغان استحکام کا حامی ہے۔پاکستان نے اپنی غیر جانبدرانہ حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے خود براہ راست طالبان سے بھی مذاکرات نہیں کیے صرف میز سجائی ہے کہ فریقین مل جل کر مسئلہ کا حل تلاش کریں۔اس پالیسی سے بھی ہم نے دست برداری کی ہے کہ افغانستان میں ہماری مرضی کی حکومت ہونی چاہیے۔ اب بظاہر پالیسی یہ لگتی ہے کہ جس کی بھی حکومت ہو ہم اس سے تعاون جاری رکھیں گے، یہ ایک درست حکمت عملی ہے۔

اسی طرح وزیر اعظم عمران خان کی طالبان سے ملاقات کا جو امکان ہے وہ بھی افغان صدر کی خواہش پر ہوگی۔وزیر اعظم عمران خان کا دورہ ایران او ر افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کا دورہ پاکستان کو بھی اہمیت کی نگاہ سے دیکھنا جانا چاہیے۔ کیونکہ عملی طور پر وزیر اعظم نے ایران کا دورہ کرکے اس تاثر کی نفی کی ہے کہ ہم ایران کے خلاف ہیں۔ ایران نے بھی پاکستان کے حالیہ کردار کو سراہا ہے۔ شنگھائی۔ روس کی جانب سے ستمبر میں وزیر اعظم عمران خان کو اکنامک فورم میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی دعوت بھی اہم پیش رفت ہے۔


اگرچہ خطہ کی سیاست میں بھارت کا بڑا کردار ہے اگر بھارت تعلقات کی بہتری کے لیے کوئی بھی مثبت پیشرفت کا آغاز نہیں کرتا اور جو تعطل ہے اسے نہیں توڑتا تو خطہ کی سیاست میں عدم استحکام بدستور رہے گا۔ کیونکہ بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری کا عمل پاکستان سمیت خطہ کے لیے اہم ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا جو جوابی خط وزیر اعظم عمران خان کے خط پر آیا ہے وہ کافی امیدا فزا ہے اور اس بات کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ بہت جلد تعلقات میں جو ڈیڈ لاک ہے وہ ٹوٹے گا۔ کیونکہ اگر بھارت نے واقعی سی پیک سے فائدہ اٹھانا ہے تو اسے اس شراکت داری کے معاشی حصہ میں نہ صرف شریک ہونا ہے بلکہ پاکستان سے تعلقات کو بہتر بنانا بھی ہوگا اور اس کا نتیجہ پا ک افغان بہتری میں بھی ہوگا۔

اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان نئے علاقائی اتحادی بھی تلاش کر رہا ہے اور روس سمیت دیگر ریاستوں کے ساتھ سفارتی اورتجارتی تعلقات کی بہتری کا عمل یقینی طور پر ہمارے لیے نئے مثبت راستے کھولے گا۔ آج کی دنیا میں جو سیاسی تنازعات ہیں ان کا خاتمہ بہت ضروری ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب علاقائی سطح پر موجود ممالک ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھیں اورمحض ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرنے کے بجائے تعاون کے امکانات کو آگے بڑھائیں۔کیونکہ انتہا پسندی، دہشتگردی اور تنازعات سمیت سیکیورٹی ریاستوں کے ماڈل کو چیلنج کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان سمیت خطہ کے تمام ممالک کا سیاسی بیانیہ سیاسی، سماجی اورمعاشی ترقی سے جڑا ہو۔ یہ بیانیہ ایک دوسرے کے لیے خطرات یا مشکلات پیدا کرنے،خوف اور دباؤ کی سیاست پیدا کرنے کے بجائے عملی تعاون کے امکانات کو پیدا کرنے سے جڑ ا ہونا چاہیے ۔

اس لحاظ سے پاکستان کا قومی بیانیہ علاقائی سیاست کے تناظر میں بڑا واضح ہونا چاہیے ۔ یہ بیانیہ مقامی ترقی و خوشحالی کے ساتھ ساتھ سیاسی استحکام سمیت علاقائی ترقی اورتعاون کے ساتھ منسلک ہونا چاہیے۔ یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم بداعتمادی کے سائے سے نکل کر اعتماد سازی کے ماحول میں آگے بڑھیں گے۔اگر پاکستان واقعی افغان بحران کے حل میں کامیاب ہوگیا تو اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلے گا کہ امریکا نہ صرف ہمارے کردار کو تسلیم کرے گا بلکہ بھارت پر بھی دباؤ بڑھا سکے گا کہ وہ بھی پاکستان سے بہتر تعلقات کے ماحو ل کو پیدا کرے۔ علاقائی ممالک کے سربراہان کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اب مسئلے طاقت کے استعمال یا جنگوں سے حل نہیں ہونگے۔

اس وقت خطہ کی سیاست کا بڑا بیانیہ خطہ میں موجود سیاسی، سماجی اورمعاشی پس ماندگی اورجہالت یا امیر اور غریب میں بڑھتی ہوئی خلیج اوراس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی محرومیوں کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ یہ سب کچھ ممکن ہے اگر علاقائی ممالک ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی کی سیاست کرنے کے بجائے دوستانہ ماحول کو فروغ دیں ۔ بھارت کو بڑا چوہدری بننے کے بجائے بڑے بھائی کا کردار ادا کرنا ہوگا جو سب کو ساتھ لے کر چلے ۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک طرف خطہ کے ممالک کے درمیان مکالمہ ہو تو دوسری طرف اہل علم ، دانشور، صحافی اور استادوں سمیت شاعر، ادیب ، لکھاریوں اور فن کاروں کے باہمی تبادلے بھی اعتماد سازی کو مضبوط بنانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت جو علاقائی سیاست کا استحکام چاہتی ہے اوراس میں بہت آگے تک جانے کی خواہش مند ہے اس سے یقینی طورپر خطہ کے ممالک اور بالخصوص بھارت، افغانستان، ایران سمیت دیگر ملکوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔
Load Next Story

@media only screen and (min-width: 1024px) { div#google_ads_iframe_\/11952262\/express-sports-story-1_0__container__ { margin-bottom: 15px; } } @media only screen and (max-width: 600px) { .sidebar-social-icons.widget-spacing { display: none; } }