شیخ چلی کا بھائی
ہمارے ہاں بھی ایک بڑے مدھوبن کے اندر بہت سارے اور مدھوبن بھی پائے جاتے ہیں۔
سب سے بڑی خبر تو آپ نے سن بھی لی ہوگی، ہضم بھی کرلی ہوگی اور''جزوبدن''بھی بنالی ہوگی یعنی تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو جو موسلادھار ہونے والی ہے۔ایسا لگتاہے حالات بڑی تیزی سے اپنے منطقی بلکہ ''منفی''اور منحنی انجام تک پہنچنے والے ہیں۔
ذرا ترتیب سے دیکھیے۔ ''ریاست مدینہ''کا قیام،پھر مدینے کے سابق گورنر ولی عہد محترم کی تشریف آوری، پھر بحیرہ عرب میں تیل کی خوشخبری اور اب عرب سے تیل کی دھار موسلادھار بواسطہ بذریعہ ادھار، یہ سارے واقعات سنکیت دے رہے ہیں کہ ایک واقعی ''بحیرہ عرب'' کا سعودی عرب بلکہ ہرعرب مہربان ہوکر تیل اگلنا شروع کردے۔آخراتنے صدیقوں اور امینوں کی دعائیں رائیگاں کیسے جاسکتی ہیں ۔گویا
قرض کا لیتے تیل اور یہ سمجھتے تھے کہ ہاں
''پانی''اپنا''تیل''بن جائے گا اک دن دیکھنا
تیل کی یہ خوشخبری تواس جگہ ختم ہوگئی، اس پر ہم دانا دانشور یاتجزیہ نگار ہوتے تو بہت سارے حاشیے چڑھا دیتے۔اور''مگس''کو پکڑکر پروانے کے خون کا ملزم ثابت کر دیتے لیکن ہم ٹھہرے سیدھے سادے کہانیوں، حکایات اور اقوال زریں کے طالب علم، اس لیے کہانیوں اور اقوال زریں کے میدان میں اتریں گے۔ بات تیل کی ہے تو اس نومن تیل سے ہی شروع کریں جو ''رادھا''کے ڈانس کی فیس تھی۔یہ رادھا غالباً بلکہ یقیناً وہی رادھیکا ہے جو ''مدھوبن'' میں ناچتی تھی۔
''مدھوبن''کا جغرافیہ تو ہمیں معلوم نہیں لیکن یہ نام''مدھوبن''کچھ سنا سنا بلکہ دیکھا دیکھا سالگتا ہے۔ ''مدھ''تو شہد اور شراب دونوں کو کہتے ہیں لیکن پرانے زمانے میں ''شہد''ہی خاص لوگوں کا ڈرنک ہواکرتاتھا۔ دیوی، دیوتاؤں اور راجوں مہاراجوں ہی کے لیے مخصوص تھا۔
سنا سنا اور دیکھا دیکھا سا اس لیے لگتاہے کہ ''شہد'' اکٹھا کرنے کی ڈیوٹی ان مکھیوں کی ہوتی ہے جنھیں عوامی زبان میں عوام کالانعام اور سیاسی زبان میں ''کارکن مکھیاں''کہتے ہیں۔ یہ نہ نر ہوتی ہیں نہ مادہ۔بلکہ عوام ہوتی ہیں جن کاکام شہد اکٹھا کرنے کے لیے دربدر پھرنا، بارش آندھیوں، سیلابوں، آفات اور مکھی خور پرندوں کا شکار ہوکر جان سے گزرنا ہوتاہے۔ ان کالانعام یا کالعوام مکھیوں کے علاوہ چھتے میں ایک''ملکہ'' ہوتی ہے اور اس کے گرد چالیس پچاس تک''نکھٹو''ہوتے ہیں جو مفت کا شہد اور خاص الخاص خوراک''کوئین فوڈ'' کھاتے ہیں اور ایسے ''مدھوبن''ہرجگہ ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں بھی ایک بڑے مدھوبن کے اندر بہت سارے اور مدھوبن بھی پائے جاتے ہیں۔اسی طرح کے ایک ''مدھوبن'' میں رادھا یا رادھیکا''نومن تیل''کے عوض ناچا کرتی تھی چنانچہ اکثر راجے مہاراجے تیل کے پیسے اور کنستر لے کر وہاں دادعیش یا ''دادتیل''دیاکرتے تھے۔اس کا پتہ جب گنگوتیلی کو لگا جو مشہور اور تاریخی بزنس ٹائیکون حضرت''شیخ چلی''کا چھوٹا بھائی تھا۔
حضرت شیخ چلی کے بارے میں دنیاجانتی ہے کہ اس نے ایک اینٹ پر تاج محل کے مطابق ایک انڈے پر ایک پوری بزنس ایمپائر کھڑی کی تھی، اس کے اس چھوٹے بھائی کا نام بھی ''شیخ تیلی''تھا کیونکہ پرانے زمانے میں ہرتیلی شیخ اور ہرشیخ تیلی ہواکرتاتھا اور اس کی ایک ٹیکنیکل وجہ یہ تھی کہ جب ان کے ہاتھ تیل سے چپڑجاتے تو خشک کرنے کے لیے۔۔خیر یہ الگ مسئلہ ہے۔شیخ چلی کے چھوٹے بھائی ''شیخ تیلی''کو رادھا کا ڈانس دیکھنے کا شوق چرایا۔
تواس نے یہاں وہاں کچھ تیل چراکر کچھ مانگ کر اور کچھ ادھار پر لے کر رادھیکا کاناچ دیکھنے کا قصد کیا۔ وہ مدھوبن روانہ توہوگیا، اپنے گدھوں پرتیل کے مٹکے لاد کرلیکن اسے پتہ نہیں تھا کہ رادھیکا کوئی ایسی ویسی ڈانسر نہیں تھی بلکہ اپنے وقت کی سیلبرٹی یا لکشمی بائی یا آئی ایم ایف تھی اور اس تک پہنچنے کے لیے کئی پہرے اور چیکنگ طے کرنا پڑتے تھے۔ شیخ تیلی پوسٹ پرپہنچا تو پہرہ داروں نے ٹیکس کاتقاضا کیا۔
شیخ تیلی نے جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ سکے نکالنا چاہے لیکن پہرہ داروں کے پہرہ داراعظم نے اسے کہا کہ ہم نقدی لے کر کیا کریں گے۔ ہم یہاں بازار میں نہیں جنگل بیابان میں ہیں اور خود بھی دیکھو جنگل جنگل ہورہے ہیں، واقعی ان سب کے سر اور داڑھیوں کے بال اسم بامسمیٰ تھے چنانچہ سب نے حضرت شیخ تیلی کے مٹکوں پر ہلہ بول دیا اور خود کو ممکن حد تک سیر کرنے کے بعد جانے دیا،اس طرح لگ بھگ تیرہ چوکیوں کو ٹیکس ادا کرنے کے بعد جب وہ منزل مقصود یعنی رادھیکا کی راجدھانی پہنچا تو وزن کرنے پر اسے نوشتہ دیوار سنایاگیا۔کہ
تجھے تولا گیا لیکن وزن میں کم نکلے
واقعی اس کے مٹکوں میں کچھ بھی نہیں بچاتھا، صرف اتنا رہ گیاتا جتنا کسی حکومت کے خزانے سے مل کر عوام تک پہنچتاہے۔شیخ تیلی نے بہت مذاکرات کیے لیکن معاملہ ''طے'' نہیں ''پا''سکا، اس پر شیخ تیلی کو بھی غصہ آگیا اور اس نے براہ راست رادھیکا کو نوٹس لینے پر مجبور کردیا،رادھیکا نے اس کی دہائی سنی تو بولی کہ قانون قانون ہوتاہے، آئین آئین ہوتا ہے اور اصول اصول ہوتاہے تو پورا ''نومن تیل'' دینا ہوگا۔ میں کوئی ایسی ویسی ڈانسر نہیں ''راج نرتکی'' ہوں۔
اگر میرا ناچ دیکھنا ہے تو پہلے نومن تیل لا۔ پھر میں گھنگرو باندھ کے مدھوبن میں ناچوں گی۔شیخ تیلی بھی باز آنے والا نہیں تھا۔ مذاکرات کرتارہا،منہ پیٹتا رہا،یہاں تک بولا کہ اگر ''رادھے''عرف لکشمی بائی عرف آئی ایم ایف چاہیے تو میرا ''کولہو''اپنے نام کردیے لیکن رادھا نے کہا، میں نرتکی ہوں تیلی نہیں،جو اس طرح کے سودے کروں۔اس ہاتھ دے۔ اور اس ''پیر''لے۔اس نے اپنے گنگھرو والے پیر کو چھنکایا۔ پھر وہ طعنے دینے پراترآیا کہ راجہ بھوج کے سامنے تو تم بغیر تیل کے ناچتی ہو۔اس پر رادھا نے وہ مشہور قول زریں ارشاد کردیا کہ کہاں راجہ بھوج اور کہاں ''گنگو'' تیلی۔ بچوں اور ان کے باپو۔اس کہانی سے تم نے کیاسبق لیا؟ شاباش ہم جانتے تھے کہ آپ کچھ سے بھی کچھ سبق نہیں لیں گے اور نہ لینا چاہیں گے۔ آپ نہ شیخ ہیں نہ تیلی ہیں صرف گنگو ہی ہیں اور گنگو ہی رہیں گے۔
ذرا ترتیب سے دیکھیے۔ ''ریاست مدینہ''کا قیام،پھر مدینے کے سابق گورنر ولی عہد محترم کی تشریف آوری، پھر بحیرہ عرب میں تیل کی خوشخبری اور اب عرب سے تیل کی دھار موسلادھار بواسطہ بذریعہ ادھار، یہ سارے واقعات سنکیت دے رہے ہیں کہ ایک واقعی ''بحیرہ عرب'' کا سعودی عرب بلکہ ہرعرب مہربان ہوکر تیل اگلنا شروع کردے۔آخراتنے صدیقوں اور امینوں کی دعائیں رائیگاں کیسے جاسکتی ہیں ۔گویا
قرض کا لیتے تیل اور یہ سمجھتے تھے کہ ہاں
''پانی''اپنا''تیل''بن جائے گا اک دن دیکھنا
تیل کی یہ خوشخبری تواس جگہ ختم ہوگئی، اس پر ہم دانا دانشور یاتجزیہ نگار ہوتے تو بہت سارے حاشیے چڑھا دیتے۔اور''مگس''کو پکڑکر پروانے کے خون کا ملزم ثابت کر دیتے لیکن ہم ٹھہرے سیدھے سادے کہانیوں، حکایات اور اقوال زریں کے طالب علم، اس لیے کہانیوں اور اقوال زریں کے میدان میں اتریں گے۔ بات تیل کی ہے تو اس نومن تیل سے ہی شروع کریں جو ''رادھا''کے ڈانس کی فیس تھی۔یہ رادھا غالباً بلکہ یقیناً وہی رادھیکا ہے جو ''مدھوبن'' میں ناچتی تھی۔
''مدھوبن''کا جغرافیہ تو ہمیں معلوم نہیں لیکن یہ نام''مدھوبن''کچھ سنا سنا بلکہ دیکھا دیکھا سالگتا ہے۔ ''مدھ''تو شہد اور شراب دونوں کو کہتے ہیں لیکن پرانے زمانے میں ''شہد''ہی خاص لوگوں کا ڈرنک ہواکرتاتھا۔ دیوی، دیوتاؤں اور راجوں مہاراجوں ہی کے لیے مخصوص تھا۔
سنا سنا اور دیکھا دیکھا سا اس لیے لگتاہے کہ ''شہد'' اکٹھا کرنے کی ڈیوٹی ان مکھیوں کی ہوتی ہے جنھیں عوامی زبان میں عوام کالانعام اور سیاسی زبان میں ''کارکن مکھیاں''کہتے ہیں۔ یہ نہ نر ہوتی ہیں نہ مادہ۔بلکہ عوام ہوتی ہیں جن کاکام شہد اکٹھا کرنے کے لیے دربدر پھرنا، بارش آندھیوں، سیلابوں، آفات اور مکھی خور پرندوں کا شکار ہوکر جان سے گزرنا ہوتاہے۔ ان کالانعام یا کالعوام مکھیوں کے علاوہ چھتے میں ایک''ملکہ'' ہوتی ہے اور اس کے گرد چالیس پچاس تک''نکھٹو''ہوتے ہیں جو مفت کا شہد اور خاص الخاص خوراک''کوئین فوڈ'' کھاتے ہیں اور ایسے ''مدھوبن''ہرجگہ ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں بھی ایک بڑے مدھوبن کے اندر بہت سارے اور مدھوبن بھی پائے جاتے ہیں۔اسی طرح کے ایک ''مدھوبن'' میں رادھا یا رادھیکا''نومن تیل''کے عوض ناچا کرتی تھی چنانچہ اکثر راجے مہاراجے تیل کے پیسے اور کنستر لے کر وہاں دادعیش یا ''دادتیل''دیاکرتے تھے۔اس کا پتہ جب گنگوتیلی کو لگا جو مشہور اور تاریخی بزنس ٹائیکون حضرت''شیخ چلی''کا چھوٹا بھائی تھا۔
حضرت شیخ چلی کے بارے میں دنیاجانتی ہے کہ اس نے ایک اینٹ پر تاج محل کے مطابق ایک انڈے پر ایک پوری بزنس ایمپائر کھڑی کی تھی، اس کے اس چھوٹے بھائی کا نام بھی ''شیخ تیلی''تھا کیونکہ پرانے زمانے میں ہرتیلی شیخ اور ہرشیخ تیلی ہواکرتاتھا اور اس کی ایک ٹیکنیکل وجہ یہ تھی کہ جب ان کے ہاتھ تیل سے چپڑجاتے تو خشک کرنے کے لیے۔۔خیر یہ الگ مسئلہ ہے۔شیخ چلی کے چھوٹے بھائی ''شیخ تیلی''کو رادھا کا ڈانس دیکھنے کا شوق چرایا۔
تواس نے یہاں وہاں کچھ تیل چراکر کچھ مانگ کر اور کچھ ادھار پر لے کر رادھیکا کاناچ دیکھنے کا قصد کیا۔ وہ مدھوبن روانہ توہوگیا، اپنے گدھوں پرتیل کے مٹکے لاد کرلیکن اسے پتہ نہیں تھا کہ رادھیکا کوئی ایسی ویسی ڈانسر نہیں تھی بلکہ اپنے وقت کی سیلبرٹی یا لکشمی بائی یا آئی ایم ایف تھی اور اس تک پہنچنے کے لیے کئی پہرے اور چیکنگ طے کرنا پڑتے تھے۔ شیخ تیلی پوسٹ پرپہنچا تو پہرہ داروں نے ٹیکس کاتقاضا کیا۔
شیخ تیلی نے جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ سکے نکالنا چاہے لیکن پہرہ داروں کے پہرہ داراعظم نے اسے کہا کہ ہم نقدی لے کر کیا کریں گے۔ ہم یہاں بازار میں نہیں جنگل بیابان میں ہیں اور خود بھی دیکھو جنگل جنگل ہورہے ہیں، واقعی ان سب کے سر اور داڑھیوں کے بال اسم بامسمیٰ تھے چنانچہ سب نے حضرت شیخ تیلی کے مٹکوں پر ہلہ بول دیا اور خود کو ممکن حد تک سیر کرنے کے بعد جانے دیا،اس طرح لگ بھگ تیرہ چوکیوں کو ٹیکس ادا کرنے کے بعد جب وہ منزل مقصود یعنی رادھیکا کی راجدھانی پہنچا تو وزن کرنے پر اسے نوشتہ دیوار سنایاگیا۔کہ
تجھے تولا گیا لیکن وزن میں کم نکلے
واقعی اس کے مٹکوں میں کچھ بھی نہیں بچاتھا، صرف اتنا رہ گیاتا جتنا کسی حکومت کے خزانے سے مل کر عوام تک پہنچتاہے۔شیخ تیلی نے بہت مذاکرات کیے لیکن معاملہ ''طے'' نہیں ''پا''سکا، اس پر شیخ تیلی کو بھی غصہ آگیا اور اس نے براہ راست رادھیکا کو نوٹس لینے پر مجبور کردیا،رادھیکا نے اس کی دہائی سنی تو بولی کہ قانون قانون ہوتاہے، آئین آئین ہوتا ہے اور اصول اصول ہوتاہے تو پورا ''نومن تیل'' دینا ہوگا۔ میں کوئی ایسی ویسی ڈانسر نہیں ''راج نرتکی'' ہوں۔
اگر میرا ناچ دیکھنا ہے تو پہلے نومن تیل لا۔ پھر میں گھنگرو باندھ کے مدھوبن میں ناچوں گی۔شیخ تیلی بھی باز آنے والا نہیں تھا۔ مذاکرات کرتارہا،منہ پیٹتا رہا،یہاں تک بولا کہ اگر ''رادھے''عرف لکشمی بائی عرف آئی ایم ایف چاہیے تو میرا ''کولہو''اپنے نام کردیے لیکن رادھا نے کہا، میں نرتکی ہوں تیلی نہیں،جو اس طرح کے سودے کروں۔اس ہاتھ دے۔ اور اس ''پیر''لے۔اس نے اپنے گنگھرو والے پیر کو چھنکایا۔ پھر وہ طعنے دینے پراترآیا کہ راجہ بھوج کے سامنے تو تم بغیر تیل کے ناچتی ہو۔اس پر رادھا نے وہ مشہور قول زریں ارشاد کردیا کہ کہاں راجہ بھوج اور کہاں ''گنگو'' تیلی۔ بچوں اور ان کے باپو۔اس کہانی سے تم نے کیاسبق لیا؟ شاباش ہم جانتے تھے کہ آپ کچھ سے بھی کچھ سبق نہیں لیں گے اور نہ لینا چاہیں گے۔ آپ نہ شیخ ہیں نہ تیلی ہیں صرف گنگو ہی ہیں اور گنگو ہی رہیں گے۔