دماغ رکھنا کمال ہی تو ہے
باتونی اور خود پسند بیویوں کے حوالے سے ایک شگفتہ تحریر
اتنے گِلے تو شفو کے میاں جاذب کو اُن کے گَلے سے نہ تھے جس سے ہمہ وقت بے سرے سُر نکلا کرتے تھے اور سچ تو یہ ہے کہ شکوہ جاذب کو شفو کے دل سے بھی نہ تھا کہ وہ بھی بھلا مانسا تھا۔ لیکن شفوکے دماغ سے گزرنے والی ہر گلی سے وہ شاکی تھے، کیوں کہ اُنہیں یقینِ کامل تھاکہ جس کوچے میں شفو کا دماغ آباد ہے، وہاں گلیوں پر آسیب کا پہرہ ہے۔
اوّل اوّل یہ خیال جاذب کو شفو سے سرزد ہونے والی عجیب و غریب حرکات دیکھ کر آیا جس سے وہ اکثر خوف زدہ ہو جایا کرتے تھے۔ جب کہ یہی وہ دماغ تھا جس پر شفوکو بہت گھمنڈ تھا اوراُن کی یہی خود پسندی جاذب کو بہت کھلتی تھی اور کھلتی کیوں نہیںکہ شفو کی حماقت بھری بیزار کن باتوں سے جاذب کا دماغ جو خالی ہو جاتا اور جب بھی شفو کو کم دماغی کا طعنہ دیتے انہیں زمانہ طالب علمی کی یاد ستاتی۔ وہ براہ راست تو کبھی جاذب کو بد دماغی کا طعنہ نہیں دیتیں بس اُن کے لب گنگنا اُٹھتے:
از بس کہ بد دماغی نے پایا ہے اشتہار
ہے نام شوہروں میں میرا شوہرِ بددماغ
ایسے میں جاذب کھول کر رہ جاتے اور جی ہی جی میں شفو کو خوب سناتے۔ لیکن رو برو دوبدو کا حوصلہ نہ کر پاتے کہ وہ شفو کی لن ترانی سے خائف تھے۔ ورنہ انہیں آئینہ ضرور دکھاتے کہ شفو اُن کی خوش مزاجی ہی پر تو مر مٹی تھیں جو آج بیگم جاذب کہلاتی ہیں اور شفو سے سب سے زیادہ گلہ جاذب کو یہی تو تھا کہ اس نے کیسے کم دماغی کے باوجود جاذب جیسے گولڈ میڈلسٹ، شعلہ بیاں مقرر اور پوزیشن ہولڈر کا دماغ چوپٹ کر دیا تھا جو اُس نے شفو کو اپنی شریکِ حیات بنانے کا فیصلہ کر لیا۔
یہ عقدہ تو شادی کے بعد کھلا کہ شفو کو اگر کسی پر ٹوٹ کر پیار آتا ہے تو وہ اُن کا دماغ ہے جس پر انہیں گھمنڈ کی حد تک فخر ہے۔
شفو کے دماغ کے ہاتھوں اپنی بربادی کا گلہ جاذب کو ہو یا نہ ہو لیکن اُن کے دماغ سے اُٹھنے والا ہر فتنہ جاذب کے گلے شکوے بڑھا دیتا۔ ایسی انوکھی فرمائشیں کرتیں کہ جاذب حق دق اُن کی شکل تکتے رہ جاتے اور بی شفو میٹھی میٹھی مسکراہٹ اور داد طلب نظروں سے اپنے شوہرِ نامدار کی بے بسی سے لطف اندوز ہوتی رہتیں، جسے محسوس کر کے اُن کے اندر تک تلخی بھر جاتی۔
کل صبح ناشتے میں خوب چٹپٹا آملیٹ اور تربتر پراٹھا بنا کر جاذب کے سامنے رکھا۔ پہلا نوالہ منہ میں ڈالتے ہی وہ بلبلا اُٹھے۔''صبح صبح اتنا تیل اور تیز مرچ۔''
ہنس کے بولیں۔''آپ کو تو پتا ہے ناں ہم دماغ کے کتنے چٹورے ہیں، جب ہی تو ایسے چٹپٹے خیالات آتے ہیں۔ موسم کے تیور دیکھ رہے ہیں آپ؟ ہمارا دل چاہ رہا ہے آج آپ دفتر نہ جائیں، ہمارے ساتھ مل کر موسم کا لطف اُٹھائیں، ا ب یہ کھا کر آپ کی طبیعت خراب ہوگی تو آپ دفتر نہیں جائیں گے ناں۔''
''دماغ خراب ہو گیا ہے، تمہارا بتایا بھی تھا آج کتنی اہم میٹنگ ہے۔'' جاذب نے خلافِ معمول کاٹ دار نظروں سے شفو کو دیکھا اور ناشتہ کیے بنا ہی'' آج دیر ہو جائے گی مجھے'' کہتے ہوئے دفتر روانہ ہو گئے۔ ایک پل تو شفو ہکا بکا رہ گئیں لیکن اگلی ہی ساعت''رم جھم رم جھم پڑے پھوار، تیرا میرا نت کا پیار'' گنگناتے ہوئے ناشتہ کرنے لگیں۔ شفو کا اطمینان بتا رہا تھا کہ اُن کے مغز نے کام دکھا دیا اور ہُوا بھی یہی صبح سات بجے کے گھر سے نکلے جاذب پندرہ گھنٹے کی مشقت اُٹھاکر جب دس بجے شب دفتر سے گھر لوٹے تو تھکن اور بھوک سے بے حال تھے۔ آتے ہی شفو سے کھانا لانے کو کہا تو انہوں نے بصد ناز کہا
''آپ کو بھوک لگ رہی ہے ناں مجھے بھی بہت زور کی بھوک لگ رہی ہے، آپ بھی جلدی سے فریش ہو جائیں میں بھی تیار ہو جاتی ہوں، پھر چلتے ہیں۔''
مگر کہاں؟ جاذب نے بیزاری سے پوچھا تو شفو کھلکھلا کر ہنس دیں۔
''آپ کے دیر سے آنے کی خوشی میں آج کھانا باہر کھائیں گے۔ میں نے کچھ پکایا ہی نہیں۔ میں نے سوچا باہر کھانا کھائیں گے۔ انجوائے کریں گے تو آپ کی تھکن بھی دور ہو جائے گی۔''
اور جاذب جو ایک تحیر کی کیفیت میں شفو کی بے تکی باتیں سن رہے تھے۔ اُن کی تھکن دور ہونے کی تاویل پر بھڑک ہی تو اُٹھے۔''تمہارا دماغ بالکل ہی خراب ہو گیا ہے۔''
اپنے مجازی خدا کی دیرینہ اطلاع پر شانِ بے نیازی سے شفو نے آگاہ کیا کہ
''دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد دماغی عارضے میں مبتلا ہیں۔''میرے دماغ کی خرابی سے اعداد و شمار میں اضافہ ہی ہوگا، اور آپ تو ہیں ہی ناقدرے ایک عمرانہ کے میاں ہیں، پرسوں گئی تھی اُن کی طرف تو صرف دس منٹ کی میری باتیں سن کر کہ رہے تھے، واہ کیا نکات بیان کیے ہیں آپ نے۔ آپ سے بس اتنی سی عرض ہے کہ
میں نے کہاکہ مجھ پہ کرم کیجیے جناب
تھوڑا سا مغز مجھ کو عنایت کریں شتاب
شفوکی بات سنتے ہی جلے بھنے بیٹھے جاذب کا بگڑا موڈ یکایک بحال ہو گیا۔انہوں نے بلند آہنگ قہقہہ لگاتے ہوئے کہا
''واہ کیا بات ہے جناب کی۔ اگر وہ کچھ دیر اور آپ کے ارشاداتِ عالیہ سے فیض یاب ہو جاتے تو آپ بھی جلی بھنی اطلاع دے رہی ہوتیں کہ
چیک کر کے میری کھوپڑی کہنے لگا حضور
بھیجے میں گھس گیا ہے کوئی آپ کے حضور
آپ کی لاڈلی عمرانہ خود ہی سمجھ جائے گی کہ یہ اور کوئی نہیں آپ کے دماغ کا کیڑا ہے۔
شفو نے ایک تیز نظر میاں پر ڈالی۔ پھر فوری پینترا بدل کر مسکراتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگیں۔
''اچھا اچھا باتیں بعد میں بنائیے گا، پہلے ڈنر کے لیے چلیں، بھوک سے برا حال ہے، مغرب کی نماز پڑھ کر آپ کے انتظار میں ایک برگر اور ایک چکن تکہ رول کھا لیا تھا، اور اب تو عشاء بھی پڑھ لی، بہت بھوک لگ رہی ہے۔''
شفو جو بھوک کی کچی مشہور تھیں، اُن کی اطلاع پر جاذب نے کہا۔ ''اوہ، تو یہ قصہ ہے۔ آج راز فاش ہُوا۔''
کیسا قصہ؟ کون ساراز؟ شفو نے جستجو کے وار کرتے ہوئے پوچھا۔
''آٓپ کے دماغ کے خلل کا راز۔ خاتونِ من! زیادہ کھانے کی وجہ سے دماغ کی شریانیں رفتہ رفتہ بند ہو جاتی ہیں جس کے نتیجے میں دماغ کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ آپ بسیار خوری سے پرہیز کریں۔ اب اتنا کھانے کے بعد آپ کے پیٹ میں گنجائش کہاں ہوگی؟
''ارے واہ ہوگی کیوں نہیں، ایک پیالہ بھر کے سوپ کا پی لیا تھا، سب ہضم ہو گیا۔'' شفو نے چمک کر کہا اور ہاں آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ دماغ کو فعال رکھنے کے لیے گلوکوز اور آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے ذریعے دماغ کو خون مہیا ہوتا ہے۔ ہمارے خون کی 20% گردش دماغ کی جانب ہوتی ہے۔ ہمارا جسم خوراک سے جتنا بھی گلوکوز حاصل کرتا ہے، اس میں سے 25% دماغ خرچ کرتا ہے اور ہمارے پھیپھڑے جتنی آکسیجن اپنے اندر جذب کرتے ہیں اس کا بھی 20% حصہ دماغ کام کرتا ہے۔ گویا دماغ کے لیے گلوکوز کی وہی اہمیت ہے جو گاڑی کے لیے پٹرول کی۔ یہی سبب ہے کہ جب گلوکوز کی سطح کم ہونے لگتی ہے تو ہمارا دماغ معدے کے توسط سے ہمیں بھوک کا احساس دلاتا ہے۔''
اور یہ جو آپ دفتر سے آتے ہی بھوک بھوک کا شور مچا رہے ہیں ناں یہ دراصل آپ کے معدے کی نہیں دماغ کی پکار ہے۔ سمجھے کہ نہیں سمجھے۔''
شفو نے جاذب پر فاتحانہ نظر ڈالتے ہوئے کہا اور ہاں لگے ہاتھوں یہ بھی بتاتی چلوں کہ ''دماغ کا سائز انسانی جسم کے مقابلے میں % 2 ہے اور یہ ننھا منا سا دماغ بڑے سے جسم کے تمام افعال کو قابو میں رکھتا ہے تو اسے توانائی درکار ہوگی کہ نہیں؟''
شفو نے خاصا ڈپٹتے ہوئے جاذب سے سوال کیا تو جواب میں اس نے بھی سوال داغ دیا کہ
'' شفو بیگم! آج آپ کے دماغ میں ایسے عالمانہ خیالات کیسے آگئے؟ وہ جاہلانہ افکار کہاں جا بسے جو آپ کا ہی نہیں آپ کے گھرانے کا بھی طرۂ امتیاز ہیں۔''
کیا مطلب؟ شفو نے قہر آلود نظر جاذب پر ڈالی تو اس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا
''میرا مطلب ہے کہ آپ کے گھرانے میں دماغ کی دنیا روشن رکھنے کا رواج ہی نہیں ہر کوئی اندھیر نگری میں رہنا پسند کرتا ہے اور وہاں ہونے والے چوپٹ راج سے اندھیر نگری کے ہر مکیں کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔''
'' جاذب! آپ کو تو بہانہ چاہیے میرے میکے والوں کو برا کہنے کا، بھلا بتائیے تو کس کس کے دماغ کے دیے بجھے ہیں؟
''اب اتنی شدید بھوک کے عالم میں اعداد و شمار تو ممکن نہیں،غلَطی کا احتمال رہے گا۔ اپنے گھرانے کی نمائندگی کے لیے آپ ہی کافی ہیں۔ ''دماغ رکھنا بھی کمال کی بات ہے۔'' شفو بیگم اور یہ مَلِکہ آپ کو حاصل نہیں ہوسکتا کہ آپ ان لوگوں میں شمار ہوتی ہیں جو ہر وقت دماغ دماغ کی رٹ لگائے رکھتے ہیں، مگر نہیں جانتے کہ دماغ اﷲ کی انمول نعمت ہے، اور بے محل اسے برت کر وہ نعمتِ الٰہی کی ناقدری کرتے ہیں، یہ ا نسانی جسم کا وہ مقام ہے جہاں سے سیکھنے کی صلاحیت جنم لیتی ہے۔ آپ کو اپنی اعلیٰ دماغی صلاحیتوں کا بڑا زعم ہے، جتناآپ اپنی خوش دماغی پہ نازاں ہیں اُتنا ہی بلکہ اس سے کئی گنا بڑھ کر ہماری بد دماغی سے نالاں ہیں۔ آپ کے ساتھ زندگی کے سات قیمتی سال گزار ے ہیں آج اپنی ہمت کو داد دیتے ہوئے اپنے سات سالہ تجربے کی روشنی میں آپ کی اہلیت کو مد نظر رکھتے ہوئے آج کا ڈنر ہم آپ کی ''بے دماغی'' کے نام کرتے ہیں۔''
یہ کہتے ہوئے جاذب نے بائیک کی چابی اُٹھائی۔ خلافِ توقع اور مزاج شفو نے چپ سادھ لی اور اپنے شریکِ حیات کی جانب سے ملنے والے عزاز سے بے نیاز اُن کی ہمراہی میں قدم بڑھا دیے۔ جاذب جی ہی جی میں بہت خوش تھے کہ آج انہوں نے حساب بے باق کر دیا مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ شفو کی یہ خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے۔کیوں کہ جتنی تیز رفتار بائیک کی تھی اس سے کئی گنا زیادہ برق رفتاری سے بی شفو اپنے دماغ کے کمالات دکھانے کے لیے دماغ لڑا رہی تھیں۔ وہ کمالات جن سے ڈنر کے دوران اور بعد میں جاذب کو فیض یاب ہونا تھا۔
اوّل اوّل یہ خیال جاذب کو شفو سے سرزد ہونے والی عجیب و غریب حرکات دیکھ کر آیا جس سے وہ اکثر خوف زدہ ہو جایا کرتے تھے۔ جب کہ یہی وہ دماغ تھا جس پر شفوکو بہت گھمنڈ تھا اوراُن کی یہی خود پسندی جاذب کو بہت کھلتی تھی اور کھلتی کیوں نہیںکہ شفو کی حماقت بھری بیزار کن باتوں سے جاذب کا دماغ جو خالی ہو جاتا اور جب بھی شفو کو کم دماغی کا طعنہ دیتے انہیں زمانہ طالب علمی کی یاد ستاتی۔ وہ براہ راست تو کبھی جاذب کو بد دماغی کا طعنہ نہیں دیتیں بس اُن کے لب گنگنا اُٹھتے:
از بس کہ بد دماغی نے پایا ہے اشتہار
ہے نام شوہروں میں میرا شوہرِ بددماغ
ایسے میں جاذب کھول کر رہ جاتے اور جی ہی جی میں شفو کو خوب سناتے۔ لیکن رو برو دوبدو کا حوصلہ نہ کر پاتے کہ وہ شفو کی لن ترانی سے خائف تھے۔ ورنہ انہیں آئینہ ضرور دکھاتے کہ شفو اُن کی خوش مزاجی ہی پر تو مر مٹی تھیں جو آج بیگم جاذب کہلاتی ہیں اور شفو سے سب سے زیادہ گلہ جاذب کو یہی تو تھا کہ اس نے کیسے کم دماغی کے باوجود جاذب جیسے گولڈ میڈلسٹ، شعلہ بیاں مقرر اور پوزیشن ہولڈر کا دماغ چوپٹ کر دیا تھا جو اُس نے شفو کو اپنی شریکِ حیات بنانے کا فیصلہ کر لیا۔
یہ عقدہ تو شادی کے بعد کھلا کہ شفو کو اگر کسی پر ٹوٹ کر پیار آتا ہے تو وہ اُن کا دماغ ہے جس پر انہیں گھمنڈ کی حد تک فخر ہے۔
شفو کے دماغ کے ہاتھوں اپنی بربادی کا گلہ جاذب کو ہو یا نہ ہو لیکن اُن کے دماغ سے اُٹھنے والا ہر فتنہ جاذب کے گلے شکوے بڑھا دیتا۔ ایسی انوکھی فرمائشیں کرتیں کہ جاذب حق دق اُن کی شکل تکتے رہ جاتے اور بی شفو میٹھی میٹھی مسکراہٹ اور داد طلب نظروں سے اپنے شوہرِ نامدار کی بے بسی سے لطف اندوز ہوتی رہتیں، جسے محسوس کر کے اُن کے اندر تک تلخی بھر جاتی۔
کل صبح ناشتے میں خوب چٹپٹا آملیٹ اور تربتر پراٹھا بنا کر جاذب کے سامنے رکھا۔ پہلا نوالہ منہ میں ڈالتے ہی وہ بلبلا اُٹھے۔''صبح صبح اتنا تیل اور تیز مرچ۔''
ہنس کے بولیں۔''آپ کو تو پتا ہے ناں ہم دماغ کے کتنے چٹورے ہیں، جب ہی تو ایسے چٹپٹے خیالات آتے ہیں۔ موسم کے تیور دیکھ رہے ہیں آپ؟ ہمارا دل چاہ رہا ہے آج آپ دفتر نہ جائیں، ہمارے ساتھ مل کر موسم کا لطف اُٹھائیں، ا ب یہ کھا کر آپ کی طبیعت خراب ہوگی تو آپ دفتر نہیں جائیں گے ناں۔''
''دماغ خراب ہو گیا ہے، تمہارا بتایا بھی تھا آج کتنی اہم میٹنگ ہے۔'' جاذب نے خلافِ معمول کاٹ دار نظروں سے شفو کو دیکھا اور ناشتہ کیے بنا ہی'' آج دیر ہو جائے گی مجھے'' کہتے ہوئے دفتر روانہ ہو گئے۔ ایک پل تو شفو ہکا بکا رہ گئیں لیکن اگلی ہی ساعت''رم جھم رم جھم پڑے پھوار، تیرا میرا نت کا پیار'' گنگناتے ہوئے ناشتہ کرنے لگیں۔ شفو کا اطمینان بتا رہا تھا کہ اُن کے مغز نے کام دکھا دیا اور ہُوا بھی یہی صبح سات بجے کے گھر سے نکلے جاذب پندرہ گھنٹے کی مشقت اُٹھاکر جب دس بجے شب دفتر سے گھر لوٹے تو تھکن اور بھوک سے بے حال تھے۔ آتے ہی شفو سے کھانا لانے کو کہا تو انہوں نے بصد ناز کہا
''آپ کو بھوک لگ رہی ہے ناں مجھے بھی بہت زور کی بھوک لگ رہی ہے، آپ بھی جلدی سے فریش ہو جائیں میں بھی تیار ہو جاتی ہوں، پھر چلتے ہیں۔''
مگر کہاں؟ جاذب نے بیزاری سے پوچھا تو شفو کھلکھلا کر ہنس دیں۔
''آپ کے دیر سے آنے کی خوشی میں آج کھانا باہر کھائیں گے۔ میں نے کچھ پکایا ہی نہیں۔ میں نے سوچا باہر کھانا کھائیں گے۔ انجوائے کریں گے تو آپ کی تھکن بھی دور ہو جائے گی۔''
اور جاذب جو ایک تحیر کی کیفیت میں شفو کی بے تکی باتیں سن رہے تھے۔ اُن کی تھکن دور ہونے کی تاویل پر بھڑک ہی تو اُٹھے۔''تمہارا دماغ بالکل ہی خراب ہو گیا ہے۔''
اپنے مجازی خدا کی دیرینہ اطلاع پر شانِ بے نیازی سے شفو نے آگاہ کیا کہ
''دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد دماغی عارضے میں مبتلا ہیں۔''میرے دماغ کی خرابی سے اعداد و شمار میں اضافہ ہی ہوگا، اور آپ تو ہیں ہی ناقدرے ایک عمرانہ کے میاں ہیں، پرسوں گئی تھی اُن کی طرف تو صرف دس منٹ کی میری باتیں سن کر کہ رہے تھے، واہ کیا نکات بیان کیے ہیں آپ نے۔ آپ سے بس اتنی سی عرض ہے کہ
میں نے کہاکہ مجھ پہ کرم کیجیے جناب
تھوڑا سا مغز مجھ کو عنایت کریں شتاب
شفوکی بات سنتے ہی جلے بھنے بیٹھے جاذب کا بگڑا موڈ یکایک بحال ہو گیا۔انہوں نے بلند آہنگ قہقہہ لگاتے ہوئے کہا
''واہ کیا بات ہے جناب کی۔ اگر وہ کچھ دیر اور آپ کے ارشاداتِ عالیہ سے فیض یاب ہو جاتے تو آپ بھی جلی بھنی اطلاع دے رہی ہوتیں کہ
چیک کر کے میری کھوپڑی کہنے لگا حضور
بھیجے میں گھس گیا ہے کوئی آپ کے حضور
آپ کی لاڈلی عمرانہ خود ہی سمجھ جائے گی کہ یہ اور کوئی نہیں آپ کے دماغ کا کیڑا ہے۔
شفو نے ایک تیز نظر میاں پر ڈالی۔ پھر فوری پینترا بدل کر مسکراتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگیں۔
''اچھا اچھا باتیں بعد میں بنائیے گا، پہلے ڈنر کے لیے چلیں، بھوک سے برا حال ہے، مغرب کی نماز پڑھ کر آپ کے انتظار میں ایک برگر اور ایک چکن تکہ رول کھا لیا تھا، اور اب تو عشاء بھی پڑھ لی، بہت بھوک لگ رہی ہے۔''
شفو جو بھوک کی کچی مشہور تھیں، اُن کی اطلاع پر جاذب نے کہا۔ ''اوہ، تو یہ قصہ ہے۔ آج راز فاش ہُوا۔''
کیسا قصہ؟ کون ساراز؟ شفو نے جستجو کے وار کرتے ہوئے پوچھا۔
''آٓپ کے دماغ کے خلل کا راز۔ خاتونِ من! زیادہ کھانے کی وجہ سے دماغ کی شریانیں رفتہ رفتہ بند ہو جاتی ہیں جس کے نتیجے میں دماغ کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ آپ بسیار خوری سے پرہیز کریں۔ اب اتنا کھانے کے بعد آپ کے پیٹ میں گنجائش کہاں ہوگی؟
''ارے واہ ہوگی کیوں نہیں، ایک پیالہ بھر کے سوپ کا پی لیا تھا، سب ہضم ہو گیا۔'' شفو نے چمک کر کہا اور ہاں آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ دماغ کو فعال رکھنے کے لیے گلوکوز اور آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے ذریعے دماغ کو خون مہیا ہوتا ہے۔ ہمارے خون کی 20% گردش دماغ کی جانب ہوتی ہے۔ ہمارا جسم خوراک سے جتنا بھی گلوکوز حاصل کرتا ہے، اس میں سے 25% دماغ خرچ کرتا ہے اور ہمارے پھیپھڑے جتنی آکسیجن اپنے اندر جذب کرتے ہیں اس کا بھی 20% حصہ دماغ کام کرتا ہے۔ گویا دماغ کے لیے گلوکوز کی وہی اہمیت ہے جو گاڑی کے لیے پٹرول کی۔ یہی سبب ہے کہ جب گلوکوز کی سطح کم ہونے لگتی ہے تو ہمارا دماغ معدے کے توسط سے ہمیں بھوک کا احساس دلاتا ہے۔''
اور یہ جو آپ دفتر سے آتے ہی بھوک بھوک کا شور مچا رہے ہیں ناں یہ دراصل آپ کے معدے کی نہیں دماغ کی پکار ہے۔ سمجھے کہ نہیں سمجھے۔''
شفو نے جاذب پر فاتحانہ نظر ڈالتے ہوئے کہا اور ہاں لگے ہاتھوں یہ بھی بتاتی چلوں کہ ''دماغ کا سائز انسانی جسم کے مقابلے میں % 2 ہے اور یہ ننھا منا سا دماغ بڑے سے جسم کے تمام افعال کو قابو میں رکھتا ہے تو اسے توانائی درکار ہوگی کہ نہیں؟''
شفو نے خاصا ڈپٹتے ہوئے جاذب سے سوال کیا تو جواب میں اس نے بھی سوال داغ دیا کہ
'' شفو بیگم! آج آپ کے دماغ میں ایسے عالمانہ خیالات کیسے آگئے؟ وہ جاہلانہ افکار کہاں جا بسے جو آپ کا ہی نہیں آپ کے گھرانے کا بھی طرۂ امتیاز ہیں۔''
کیا مطلب؟ شفو نے قہر آلود نظر جاذب پر ڈالی تو اس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا
''میرا مطلب ہے کہ آپ کے گھرانے میں دماغ کی دنیا روشن رکھنے کا رواج ہی نہیں ہر کوئی اندھیر نگری میں رہنا پسند کرتا ہے اور وہاں ہونے والے چوپٹ راج سے اندھیر نگری کے ہر مکیں کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔''
'' جاذب! آپ کو تو بہانہ چاہیے میرے میکے والوں کو برا کہنے کا، بھلا بتائیے تو کس کس کے دماغ کے دیے بجھے ہیں؟
''اب اتنی شدید بھوک کے عالم میں اعداد و شمار تو ممکن نہیں،غلَطی کا احتمال رہے گا۔ اپنے گھرانے کی نمائندگی کے لیے آپ ہی کافی ہیں۔ ''دماغ رکھنا بھی کمال کی بات ہے۔'' شفو بیگم اور یہ مَلِکہ آپ کو حاصل نہیں ہوسکتا کہ آپ ان لوگوں میں شمار ہوتی ہیں جو ہر وقت دماغ دماغ کی رٹ لگائے رکھتے ہیں، مگر نہیں جانتے کہ دماغ اﷲ کی انمول نعمت ہے، اور بے محل اسے برت کر وہ نعمتِ الٰہی کی ناقدری کرتے ہیں، یہ ا نسانی جسم کا وہ مقام ہے جہاں سے سیکھنے کی صلاحیت جنم لیتی ہے۔ آپ کو اپنی اعلیٰ دماغی صلاحیتوں کا بڑا زعم ہے، جتناآپ اپنی خوش دماغی پہ نازاں ہیں اُتنا ہی بلکہ اس سے کئی گنا بڑھ کر ہماری بد دماغی سے نالاں ہیں۔ آپ کے ساتھ زندگی کے سات قیمتی سال گزار ے ہیں آج اپنی ہمت کو داد دیتے ہوئے اپنے سات سالہ تجربے کی روشنی میں آپ کی اہلیت کو مد نظر رکھتے ہوئے آج کا ڈنر ہم آپ کی ''بے دماغی'' کے نام کرتے ہیں۔''
یہ کہتے ہوئے جاذب نے بائیک کی چابی اُٹھائی۔ خلافِ توقع اور مزاج شفو نے چپ سادھ لی اور اپنے شریکِ حیات کی جانب سے ملنے والے عزاز سے بے نیاز اُن کی ہمراہی میں قدم بڑھا دیے۔ جاذب جی ہی جی میں بہت خوش تھے کہ آج انہوں نے حساب بے باق کر دیا مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ شفو کی یہ خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے۔کیوں کہ جتنی تیز رفتار بائیک کی تھی اس سے کئی گنا زیادہ برق رفتاری سے بی شفو اپنے دماغ کے کمالات دکھانے کے لیے دماغ لڑا رہی تھیں۔ وہ کمالات جن سے ڈنر کے دوران اور بعد میں جاذب کو فیض یاب ہونا تھا۔