پنجاب کے عوام کو سستے آٹے کی فراہمی وزیراعلیٰ کے مشکل فیصلے

سردار عثمان بزدار نے وزیر اعظم کی ہدایت پر ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف کریک ڈاون شروع کروا دیا ہے۔

سردار عثمان بزدار نے وزیر اعظم کی ہدایت پر ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف کریک ڈاون شروع کروا دیا ہے۔

نئے مالی سال کے بجٹ کی جادوگری یہ ہے کہ بظاہر تو حکومت یہ دعوی کرتی ہے کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا لیکن ''ٹیکس ایڈجسٹمنٹ'' کے نام پر کھربوں روپے کا مزید مالی بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا ہے تاہم اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ بجلی، گیس، ڈیزل اور خام مال کی قیمت میں اضافہ کی وجہ سے بعض غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافہ کا جواز درست ہے ۔

ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار نے وزیر اعظم کی ہدایت پر ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف کریک ڈاون شروع کروا دیا ہے لیکن یہ مسئلہ کا مستقل حل نہیں ہے کیونکہ مارکیٹ کو جبر کے ذریعے کنٹرول کرنے کی ہر کوشش ناکام ہی ہوتی ہے۔''آٹا'' کہنے کو تو غذائی جنس ہے لیکن درحقیقت یہ سیاست کا سب سے بڑا ''ہتھیار'' ہے۔ حکومت اور اپوزیشن اپنے مقاصد کیلئے حسب ضرورت اسے استعمال کرتی ہیں۔

اس وقت بھی سردار عثمان بزدار کو گندم اور آٹے کی سرکاری قیمت کے حوالے سے بڑا فیصلہ کرنا ہے ۔ محکمہ خوراک کے پاس 48 لاکھ ٹن گندم موجود ہے اور مارکیٹ کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے حکومت کو 5 لاکھ ٹن ہنگامی ضروریات کیلئے رکھ کر باقی کی 43 لاکھ ٹن گندم فلورملز کو فروخت کر کے آٹے کی مارکیٹ کو مستحکم کر دینا چاہئے۔ محکمہ خوراک نے 1300 روپے فی من قیمت پر کسانوں سے گندم خریدی ہے اور فی من گندم کی دیکھ بھال پر اخراجات487 روپے ہیں او ر یوں فی من گندم کی حقیقی قیمت معہ اخرجات 1787 روپے ہے۔

حکومت نے اس مرتبہ بھی گندم کی سرکاری قیمت میں ہی باردانہ کی قیمت شامل رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔قوی امکان ہے کہ حکومت پنجاب سرکاری گندم کی قیمت فروخت 1300 روپے فی من مقرر کرے گی یعنی مارکیٹ میں آٹا تھیلا 770 روپے میں فروخت ہوگا اور حکومت کو 40 ارب 43 کروڑ روپے سبسڈی برداشت کرنا ہو گی۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حکومت پنجاب نے آٹے اور گندم کی سبسڈی کی مد میں محکمہ خوراک پنجاب کو 239 ارب روپے کے واجبات گزشتہ طویل عرصہ سے ادا نہیں کئے ہیں۔

حکومت کے پاس سرکاری گندم کی قیمت کے حوالے سے چار دیگر تجاویز1325 روپے،1350 روپے، 1375 روپے اور 1400 روپے بھی موجود ہیں لیکن فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ 1300 روپے میں ہی سرکاری گندم فروخت کی جائے گی۔حکومت کا یہ فیصلہ بھی بہتر نتائج دے گا کہ صوبے میں آٹے کی وافر دستیابی کو یقینی بنانے اور اس کی قیمتوں میں استحکام کیلئے فلورملز کو فراہم کی جانے والی سرکاری گندم اور اس سے تیار آٹے کی پنجاب سے باہر فروخت پر پابندی عائد کردی جائے۔ عثمان بزدار نے آٹے کی سابقہ قیمت برقرار رکھنے کا فیصلہ عوامی ردعمل اور اپوزیشن کی یلغار سے بچنے کیلئے کیا ہے۔


حکومت پنجاب نے سیکرٹری فوڈ اور ڈائریکٹر فوڈ کے عہدوں پر بیک وقت نئی تعیناتیاں کی ہیں ۔ سابق سیکرٹری فوڈ شوکت علی اور صوبائی وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری کے درمیان اختلافات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں تھے۔ وزیر خوراک چاہتے تھے کہ تقرروتبادلوں میں ان کی رائے کو اہمیت دی جائے جبکہ شوکت علی سمجھتے تھے کہ صوبائی وزیر جن افسروں کو لگوانا چاہتے ہیں ان کی کارکردگی اور شہرت اچھی نہیں ہے۔

شوکت صاحب نہایت عمدہ افسر ہیں اور انہوں نے مشکل ترین حالات میں فوڈ ڈیپارٹمنٹ میں عمدہ کام کیا ہے لیکن ان سے بھی چند غلط فیصلے ہوئے اور محکمہ خوراک میں یہ بات محسوس کی جانے لگی کہ سیکرٹری فوڈ نے منسٹر کے ساتھ تعلق رکھنے والے افسروں کو ''ٹارگٹ'' کیا ہے۔ حکومت نے شوکت علی کو تبدیل کر کے نسیم صادق کو سیکرٹری فوڈ تعینات کیا لیکن چند ہی ہفتوں میں حکومت کو اپنے کیئے کو بھگتنا پڑا اور حکومت بہت مشکل سے گندم خریداری اہداف کے قریب پہنچ پائی۔

اب نسیم صادق کو تبدیل کر کے 17 ویں کامن کے منجھے ہوئے اور نہایت پروفیشنل افسر ظفر نصر اللہ خان کو سیکرٹری فوڈ تعینات کیا گیا ہے ،ڈاکٹر ظفر نصر اللہ خان کا سروس کیریئر یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ قواعد وضوابط اور قوانین کے مطابق کام کرنے والے افسر ہیں ،نہ خود غلط کام کرتے ہیں نہ کسی دوسرے کو کرنے دیتے ہیں اور جتنا بھی دباو آئے اسے برداشت کرتے ہیں تقرر وتبادلوں میں ذاتی پسند و ناپسند کو کبھی بیچ میں لیکر نہیں آتے۔انہی اصولوں کی پاسداری میں انہوں نے اپنی ترقی کے کئے موقع گنوا دیئے کیونکہ ترقی کا فیصلہ کرنے والوں کو انہوں نے ـــ''NO '' کہا تھا۔

حکومت نے صوبائی وزیر خوراک کی سفارش پر کین کمشنر واجد علی شاہ کو ڈائریکٹر فوڈ تعینات کردیا ہے۔ واجد علی شاہ اچھے افسر ہیں لیکن مشکل وقت میں ایک مشکل محکمہ میں اس طرح سے تعینات ہوئے ہیں کہ سیکرٹری فوڈ کوانکی تعیناتی بارے اس وقت''آگاہ'' کیا گیا جب سمری جا چکی تھی جبکہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے درجنوں افسر بھی خوش نہیں ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس پوسٹ پر پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کا بندہ آنا چاہئے تھا۔

لہذا اب شاہ جی کو اپنی غیر جانبداری اور کارکردگی سے اپنی تقرری کو درست فیصلہ ثابت کرنا ہوگا۔ محکمہ خوراک میں سیاسی مداخلت ہمیشہ ہوتی ہے، اس وقت بھی حکومتی اراکین بھی اس میں اپنے چہیتوں کیلئے سفارش کرنے آتے ہیں اور اتحادی جماعتوں کی اہم شخصیات بھی سفارشی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ خوراک کے تینوں بڑے وزیر خوراک، سیکرٹری فوڈ اور ڈائریکٹر فوڈ ایک ہی پیج پر یکجا ہوں اور تقرر و تبادلوں میں سیاسی شخصیات بشمول صوبائی وزراء ''ریڈ لائن'' عبور نہ کی جائے پاکستان فلورملز ایسوسی ایشن کو بامعنی مشاورت میں شامل رکھتے ہوئے انہیں بھی آن بورڈ لیا جائے۔

فلورملز ایسوسی ایشن کو بھی اندازہ ہے کہ حکومت کیلئے بے پناہ معاشی و سیاسی مشکلات موجود ہیں لہذا فلورملز ایسوسی ایشن بھی حکومت کیلئے بلاسبب مسائل پیدا نہیں کرنا چاہتی لیکن اگر روایتی طریقے سے فلورمل مالکان کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی تو نتیجہ ایک ایسی محاذ آرائی کی صورت میں نکلے گا جس کا سب سے زیادہ نقصان عوام کو ہوگا۔
Load Next Story