کیا ہوا تھا کیسے ہُوا تھا
ملزمان کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ شاہ رخ جتوئی نابالغ ہے لہٰذا اس کا ٹرائل نہ کیا جائے۔
9 ستمبر کو جب یہ خبریں ذرائع ابلاغ کی زینت بنیں گذشتہ برس دسمبر میں معمولی تنازع پر فائرنگ کرکے زندگی سے محروم کیے جانے والے نوجوان شاہ زیب کے ورثا نے اپنے اکلوتے لخت جگر کے قاتلوں کو معاف کردیا ہے تو مختلف طبقوں میں حیرت کی لہر سی دوڑ گئی۔
لوگوں کے ردعمل سے اندازہ ہوتا تھا کہ انھیں شاہ زیب کے ورثا سے اس اقدام کی بالکل توقع نہیں تھی۔ پیر کو اس مشہور مقدمے کے مدعی اور مقتول شاہ زیب کے والد ڈی ایس پی اورنگزیب، والدہ عنبرین، اور بہنوں پریشے وقاص خان اور ماہا خان کے وکیل نے ان کی جانب سے علیحدہ علیحدہ حلف نامے جمع کروائے کہ انھوں نے مقتول کے قاتلوں کو رضائے الہٰی کے لیے معاف کردیا ہے۔ ان کا موقف تھا کہ قاتلوں اور ان کے درمیان عدالت سے باہر رہتے ہوئے معاملات طے پاگئے ہیں۔
کراچی کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سات جون 2013ء کو مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو جرم ثابت ہونے پر سزائے موت جب کہ ملزمان سجاد تالپور اور غلام مرتضیٰ لاشاری کو عمر قید اور پانچ پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ عدالت نے تمام ملزمان کو جرمانے کی نصف رقم یعنی 10لاکھ روپے مقتول کے ورثا کو ادا کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔ عدم ادائیگی پر انھیں مزید دو دو سال کی قید بامشقت بھگتنی تھی۔ علاوہ ازیں مقدمے کے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کو غیرقانونی اسلحہ رکھنے اور استعمال کرنے کے الزام میں بھی تین سال قید اور غلام مرتضیٰ لاشاری کو مقتول کی بہن کو چھیڑنے پر ایک سال قید بامشقت کی سزا بھی سنادی تھی۔ ملزمان فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدلیہ میں اپیل کرسکتے تھے۔
24 اور 25 دسمبر 2012ء کی درمیانی کراچی کے علاقے ڈیفنس فیز 5 میں واقع جامع مسجد مبارک کے قریب کار پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک نوجوان زخمی ہوگیا جسے اطراف موجود لوگوں نے نزدیکی اسپتال پہنچایا جہاں وہ دوران علاج زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوگیا۔ بعدازاں یہ بات سامنے آئی کہ ہلاک ہونے والا بیس سالہ نوجوان ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس اورنگزیب کا لخت جگر تھا اور اسے معمولی تنازعے پر ملزمان نے گولیاں مار کر زندگی سے محروم کردیا تھا۔
مقتول شاہ زیب کے والد کے مطابق ان کا خاندان بڑی بیٹی کے ولیمے میں شرکت کے بعد دو گاڑیوں میں سوار ہوکر کنٹری کلب کے قریب واقع اپنی رہائش گاہ کی طرف آرہے تھے۔ اس دوران وہ اور ان کی اہلیہ راستے میں رک گئے جب کہ بیٹا شاہ زیب اپنی بہن کے ساتھ دوسری کار میں فلیٹ کی جانب روانہ ہوگئے جوکہ اپارٹمنٹ کی گیارھویں منزل پر تھا۔ شاہ زیب گاڑی پارک کرنے لگا جب کہ بیٹی گاڑی سے اترکر فلیٹ کی طرف چلی گئی۔ جب وہ دروازے پر پہنچی تو سامنے والے فلیٹ کے رہائشیوں کے نوکر نے اس سے بدتمیزی کی جس پر بیٹی نے انھیں اور اپنے بھائی کو فون کرکے اس بات سے آگاہ کیا۔
شاہ زیب گاڑی وہیں چھوڑ کر اوپر پہنچا تو فلیٹ میں پہلے سے موجود افراد نے اس سے تلخ کلامی شروع کردی۔ اس دوران مددگار 15کو بھی اطلاع کردی گئی مگر پولیس نہیں پہنچی۔ ڈی ایس پی اورنگزیب کے مطابق اس دوران وہ خود بھی رہائش گاہ پہنچ گئے اور معمولی تنازع تھا، جو ختم کروادیا گیا۔ شاہ زیب گاڑی پارک کرنے کے لیے پھر نیچے چلاگیا۔ گاڑیوں کا رش ہونے کی وجہ سے وہ گاڑی پارکنگ میں کھڑی کرنے کے لیے دوسری سڑک سے گھما کر لارہا تھا کہ اس دوران مبارک مسجد کے قریب پہلے سے موجود لوگوں نے اس پر فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں شاہ زیب زخمی ہوگیا اور گاڑی درخت سے ٹکرا کر الٹ گئی۔ لوگوں نے زخمی شاہ زیب کو گاڑی میں سے نکال کر قریبی اسپتال پہنچایا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگیا۔
پولیس ملزمان کے بااثر ہونے کی وجہ سے ایف آئی آر کے اندراج میں لیت و لعل سے کام لے رہی تھی۔ اس موقع پر ڈی ایس پی اورنگزیب کے عزیز اور رکن قومی اسمبلی نبیل گبول نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے پر مجبور کیا۔ تھانہ درخشاں میں درج کی گئی ایف آئی آر نمبر 591/2012 ء میں شاہ رخ جتوئی، نواب سراج علی تالپور، اس کے بھائی نواب سجاد علی تالپور اور ملازم غلام مرتضیٰ لاشاری کو نام زد کیا گیا تھا۔
نوجوان شاہ زیب پر فائرنگ کرنے کے بعد تمام ملزمان جائے وقوعہ سے فرار ہوگئے تھے۔ ملزمان کے انتہائی بااثر ہونے کی وجہ سے پولیس اس کیس میں روایتی سستی کا مظاہرہ کرتی رہی تاہم جب 30 دسمبر 2012 ء کو چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے مقدمہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں چلانے کا حکم دیا تو کارروائی میں تیزی آئی۔ مقدمے کے مرکزی ملزمان میں سے ایک سراج تالپور کی گرفتاری پانچ جنوری 2013ء کو سندھ کے علاقے مورو سے عمل میں آئی تھی۔
سراج کے ساتھ تین دیگر ملزمان بھی گرفتار ہوئے تھے۔ مقدمے کے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کی گرفتاری کے لیے مختلف مقامات پر چھاپے مارے گئے تاہم وہ قانون کی گرفت میں نہ آسکا۔ بعدازاں یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ شاہ رخ نوجوان طالب علم کو قتل کرنے کے دو روز بعد 27 دسمبر 2012ء کو ہی دبئی فرار ہوگیا تھا۔ پھر یہ حقیقت سامنے آئی کہ اسے بیرون ملک باقاعدہ فرار کروایا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد شاہ رخ کو دبئی سے واپس لاکر 17 جنوری کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
ملزمان کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ شاہ رخ جتوئی نابالغ ہے لہٰذا اس کا ٹرائل نہ کیا جائے، جس پر عدالت نے ملزم کی عمر کے تعین کے لیے سروسز اسپتال میں اس کا طبی معائنہ کروانے کی ہدایت کی۔ بعدازاں عدالت نے پولیس سرجن کی جانب سے تیارکردہ میڈیکل رپورٹ پر عدم اطمینان ظاہر کرتے ہوئے میڈیکل بورڈ تشکیل دے کر عمر کا تعین کرنے کے احکامات دیے۔ اس دوران شاہ رخ کے وکیل کی جانب سے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی کہ ملزم کی عمر کا درست تعین کرتے ہوئے جووینائل قوانین کے تحت مقدمے کی کارروائی کی جائے۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے یہ درخواست مسترد کردی تھی، تاہم ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے انسدادی دہشت گردی کی خصوصی عدالت کو ہدایت کی کہ مقدمے کے مرکزی ملزم کی عمر کا تعین کرنے والے مواد کا دوبارہ جائزہ لے کر چار یوم میں فیصلہ کرے۔ شاہ رخ جتوئی کی عمر کے تعین کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا اور اس کی پیش کردہ رپورٹ کے مطابق ملزم کی عمر 19 سال سے زائد نکلی۔ قانون کے مطابق بالغ ثابت ہوجانے پر عدالت نے شاہ رخ کو بچہ چیل سے سینٹرل جیل منتقل کرنے کا حکم دیا۔ کئی تاریخوں کے بعد بالآخر سات جون کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔
ڈیل ہوئی یا نہیں؟
عدالت میں جمع کروائے بیان ہائے حلفی کے مطابق شاہ زیب کے ورثا نے ملزمان کو قصاص و دیت کے تحت فی سبیل اﷲ معاف کردیا ہے۔ تاہم مقتول کے ورثا اور ملزمان کے اہل خانہ کے مابین ڈیل کی خبریں بھی ذرائع ابلاغ کی زینت بنی ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ فریقین کے مابین معاملات 35 کروڑ روپے میں طے پائے ہیں۔
یہ خطیر رقم ملزمان کی جانب سے مقتول کے ورثا کو ادا کی جائے گی۔ علاوہ ازیں مقتول کے اہل خانہ کو آسٹریلیا کا رہائشی ویزا اور وہاں رہائش گاہ لے کر دینے کی خبریں بھی منظرعام پر آئی ہیں۔ تاہم شاہ زیب کے ورثا کی جانب سے ایسی کسی بھی ڈیل کی تردید کی گئی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے ملزمان کو فی سبیل اﷲ معاف کیا ہے۔
لوگوں کے ردعمل سے اندازہ ہوتا تھا کہ انھیں شاہ زیب کے ورثا سے اس اقدام کی بالکل توقع نہیں تھی۔ پیر کو اس مشہور مقدمے کے مدعی اور مقتول شاہ زیب کے والد ڈی ایس پی اورنگزیب، والدہ عنبرین، اور بہنوں پریشے وقاص خان اور ماہا خان کے وکیل نے ان کی جانب سے علیحدہ علیحدہ حلف نامے جمع کروائے کہ انھوں نے مقتول کے قاتلوں کو رضائے الہٰی کے لیے معاف کردیا ہے۔ ان کا موقف تھا کہ قاتلوں اور ان کے درمیان عدالت سے باہر رہتے ہوئے معاملات طے پاگئے ہیں۔
کراچی کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سات جون 2013ء کو مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو جرم ثابت ہونے پر سزائے موت جب کہ ملزمان سجاد تالپور اور غلام مرتضیٰ لاشاری کو عمر قید اور پانچ پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ عدالت نے تمام ملزمان کو جرمانے کی نصف رقم یعنی 10لاکھ روپے مقتول کے ورثا کو ادا کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔ عدم ادائیگی پر انھیں مزید دو دو سال کی قید بامشقت بھگتنی تھی۔ علاوہ ازیں مقدمے کے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کو غیرقانونی اسلحہ رکھنے اور استعمال کرنے کے الزام میں بھی تین سال قید اور غلام مرتضیٰ لاشاری کو مقتول کی بہن کو چھیڑنے پر ایک سال قید بامشقت کی سزا بھی سنادی تھی۔ ملزمان فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدلیہ میں اپیل کرسکتے تھے۔
24 اور 25 دسمبر 2012ء کی درمیانی کراچی کے علاقے ڈیفنس فیز 5 میں واقع جامع مسجد مبارک کے قریب کار پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک نوجوان زخمی ہوگیا جسے اطراف موجود لوگوں نے نزدیکی اسپتال پہنچایا جہاں وہ دوران علاج زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوگیا۔ بعدازاں یہ بات سامنے آئی کہ ہلاک ہونے والا بیس سالہ نوجوان ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس اورنگزیب کا لخت جگر تھا اور اسے معمولی تنازعے پر ملزمان نے گولیاں مار کر زندگی سے محروم کردیا تھا۔
مقتول شاہ زیب کے والد کے مطابق ان کا خاندان بڑی بیٹی کے ولیمے میں شرکت کے بعد دو گاڑیوں میں سوار ہوکر کنٹری کلب کے قریب واقع اپنی رہائش گاہ کی طرف آرہے تھے۔ اس دوران وہ اور ان کی اہلیہ راستے میں رک گئے جب کہ بیٹا شاہ زیب اپنی بہن کے ساتھ دوسری کار میں فلیٹ کی جانب روانہ ہوگئے جوکہ اپارٹمنٹ کی گیارھویں منزل پر تھا۔ شاہ زیب گاڑی پارک کرنے لگا جب کہ بیٹی گاڑی سے اترکر فلیٹ کی طرف چلی گئی۔ جب وہ دروازے پر پہنچی تو سامنے والے فلیٹ کے رہائشیوں کے نوکر نے اس سے بدتمیزی کی جس پر بیٹی نے انھیں اور اپنے بھائی کو فون کرکے اس بات سے آگاہ کیا۔
شاہ زیب گاڑی وہیں چھوڑ کر اوپر پہنچا تو فلیٹ میں پہلے سے موجود افراد نے اس سے تلخ کلامی شروع کردی۔ اس دوران مددگار 15کو بھی اطلاع کردی گئی مگر پولیس نہیں پہنچی۔ ڈی ایس پی اورنگزیب کے مطابق اس دوران وہ خود بھی رہائش گاہ پہنچ گئے اور معمولی تنازع تھا، جو ختم کروادیا گیا۔ شاہ زیب گاڑی پارک کرنے کے لیے پھر نیچے چلاگیا۔ گاڑیوں کا رش ہونے کی وجہ سے وہ گاڑی پارکنگ میں کھڑی کرنے کے لیے دوسری سڑک سے گھما کر لارہا تھا کہ اس دوران مبارک مسجد کے قریب پہلے سے موجود لوگوں نے اس پر فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں شاہ زیب زخمی ہوگیا اور گاڑی درخت سے ٹکرا کر الٹ گئی۔ لوگوں نے زخمی شاہ زیب کو گاڑی میں سے نکال کر قریبی اسپتال پہنچایا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگیا۔
پولیس ملزمان کے بااثر ہونے کی وجہ سے ایف آئی آر کے اندراج میں لیت و لعل سے کام لے رہی تھی۔ اس موقع پر ڈی ایس پی اورنگزیب کے عزیز اور رکن قومی اسمبلی نبیل گبول نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے پر مجبور کیا۔ تھانہ درخشاں میں درج کی گئی ایف آئی آر نمبر 591/2012 ء میں شاہ رخ جتوئی، نواب سراج علی تالپور، اس کے بھائی نواب سجاد علی تالپور اور ملازم غلام مرتضیٰ لاشاری کو نام زد کیا گیا تھا۔
نوجوان شاہ زیب پر فائرنگ کرنے کے بعد تمام ملزمان جائے وقوعہ سے فرار ہوگئے تھے۔ ملزمان کے انتہائی بااثر ہونے کی وجہ سے پولیس اس کیس میں روایتی سستی کا مظاہرہ کرتی رہی تاہم جب 30 دسمبر 2012 ء کو چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے مقدمہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں چلانے کا حکم دیا تو کارروائی میں تیزی آئی۔ مقدمے کے مرکزی ملزمان میں سے ایک سراج تالپور کی گرفتاری پانچ جنوری 2013ء کو سندھ کے علاقے مورو سے عمل میں آئی تھی۔
سراج کے ساتھ تین دیگر ملزمان بھی گرفتار ہوئے تھے۔ مقدمے کے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کی گرفتاری کے لیے مختلف مقامات پر چھاپے مارے گئے تاہم وہ قانون کی گرفت میں نہ آسکا۔ بعدازاں یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ شاہ رخ نوجوان طالب علم کو قتل کرنے کے دو روز بعد 27 دسمبر 2012ء کو ہی دبئی فرار ہوگیا تھا۔ پھر یہ حقیقت سامنے آئی کہ اسے بیرون ملک باقاعدہ فرار کروایا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد شاہ رخ کو دبئی سے واپس لاکر 17 جنوری کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
ملزمان کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ شاہ رخ جتوئی نابالغ ہے لہٰذا اس کا ٹرائل نہ کیا جائے، جس پر عدالت نے ملزم کی عمر کے تعین کے لیے سروسز اسپتال میں اس کا طبی معائنہ کروانے کی ہدایت کی۔ بعدازاں عدالت نے پولیس سرجن کی جانب سے تیارکردہ میڈیکل رپورٹ پر عدم اطمینان ظاہر کرتے ہوئے میڈیکل بورڈ تشکیل دے کر عمر کا تعین کرنے کے احکامات دیے۔ اس دوران شاہ رخ کے وکیل کی جانب سے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی کہ ملزم کی عمر کا درست تعین کرتے ہوئے جووینائل قوانین کے تحت مقدمے کی کارروائی کی جائے۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے یہ درخواست مسترد کردی تھی، تاہم ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے انسدادی دہشت گردی کی خصوصی عدالت کو ہدایت کی کہ مقدمے کے مرکزی ملزم کی عمر کا تعین کرنے والے مواد کا دوبارہ جائزہ لے کر چار یوم میں فیصلہ کرے۔ شاہ رخ جتوئی کی عمر کے تعین کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا اور اس کی پیش کردہ رپورٹ کے مطابق ملزم کی عمر 19 سال سے زائد نکلی۔ قانون کے مطابق بالغ ثابت ہوجانے پر عدالت نے شاہ رخ کو بچہ چیل سے سینٹرل جیل منتقل کرنے کا حکم دیا۔ کئی تاریخوں کے بعد بالآخر سات جون کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔
ڈیل ہوئی یا نہیں؟
عدالت میں جمع کروائے بیان ہائے حلفی کے مطابق شاہ زیب کے ورثا نے ملزمان کو قصاص و دیت کے تحت فی سبیل اﷲ معاف کردیا ہے۔ تاہم مقتول کے ورثا اور ملزمان کے اہل خانہ کے مابین ڈیل کی خبریں بھی ذرائع ابلاغ کی زینت بنی ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ فریقین کے مابین معاملات 35 کروڑ روپے میں طے پائے ہیں۔
یہ خطیر رقم ملزمان کی جانب سے مقتول کے ورثا کو ادا کی جائے گی۔ علاوہ ازیں مقتول کے اہل خانہ کو آسٹریلیا کا رہائشی ویزا اور وہاں رہائش گاہ لے کر دینے کی خبریں بھی منظرعام پر آئی ہیں۔ تاہم شاہ زیب کے ورثا کی جانب سے ایسی کسی بھی ڈیل کی تردید کی گئی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے ملزمان کو فی سبیل اﷲ معاف کیا ہے۔