بھنور…
چاہے فوجی حکومت ہی کیوں نہ ہو، وہ بھی یہی سوچ رکھتی ہے۔
وقت کے پہیے کے ساتھ ، تین ماہ بعد، بالآخر میاں صاحب نے اچھی اچھی خبریں دینی بھی شروع کر دی ہیں۔ یا شاید میڈیا نے بنانا شروع کر دیں! خیر یہ خبر تو انھوں نے نہیں بنائی کہ آئی ایم ایف نے قرضہ منظور کر لیا اور یوں ڈالر کی نسبت روپے میں استحکام پیدا ہوا۔ یہ اور بات ہے کہ ان دو مہینوں میں اسٹیٹ بینک سے 600 ارب روپے سے زیادہ پیسے لیے گئے، اور اگر یہی رفتار رہی تو پچھلے مالی سال میں سابقہ حکومت کا بنایا ہوا ریکارڈ بھی ٹوٹ جائے گا اور یوں پانچ سال پورے کرتے وقت لگتا ہے کہ کل ملکی پیداوار کے 80 فیصد ہمارا مجموعی قرضہ ہو گا۔ اگرچہ دونوں حکومتوں میں بہت نظریاتی فرق کیوں نہ ہو، مگر معاشی اعتبار سے ایک ہی سوچ رکھتی ہیں۔ دونوں آئی ایم ایف سے پیسے لیتی ہیں، اسٹیٹ بینک سے بھی اسی فراوانی سے لیتی ہیں اور دونوں شرفاء کی نمایندہ ہیں۔ اس لیے ان پر ٹیکس نہیں لگا سکتے۔ ہاں ان ڈائریکٹ ٹیکس لگانے میں بھی ایک جیسی سوچ رکھتے ہیں۔
چاہے فوجی حکومت ہی کیوں نہ ہو، وہ بھی یہی سوچ رکھتی ہے۔ جب تک ڈائریکٹ ٹیکس وسیع نہیں ہو گا اور قومی پیداوار بھی کم از کم تین سے چار فیصد کی درمیان بڑھے گی تو لازم ہے کہ اسٹیٹ بینک نوٹ چھاپے گا اور لازم ہے کہ افراط زر بھی بڑھے گا۔ کل جو کام ایف بی آر کرتا تھا وہی کام آج اسٹیٹ بینک کر رہا ہے۔ لوگوں کی قوت خرید گھٹا کے ان پر افراط زرکی شکل میں ٹیکس لگایا جا رہا ہے۔ ہاں البتہ تیل کے مہنگے ہونے کا ذمے دار اس حکومت کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا، نہ ہی بجلی مہنگی ہونے کا۔ تاہم اوگرا جیسے اداروں میں کرپشن کے اضافے میں پچھلی حکومت اپنی مثال آپ تھی۔ اس پر تو خیر عدالتوں نے بھی ان کو نہیں بخشا، نہ ہی میڈیا پیچھے رہا۔ ایسی مایوس کن کارکردگی کا حساب عوام نے ان کو شکست دلا کر لیا۔ لیکن ابھی تک لوگ اتنے بیدار نہیں ہوئے کہ یہ پوچھ سکیں کہ اتنا ان ڈائریکٹ ٹیکس کیوں لگاتے ہو؟َ کیوں اتنے غیر ترقیاتی اخراجات کرتے ہو؟ کیوں اتنے قرضے لیتے ہو؟
حال ہی میں اسپین و یونان جیسے کئی ممالک کچھ ایسے ہی معاشی کرائسس سے دوچار ہوئے جن کی بنیادی وجوہات ہمارے جیسی تھیں۔ قرضے بڑھتے گئے، آمدنی نہیں بڑھی اور جب خرچے کم کرنے لگے تو بیروزگاری بڑھی، لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ آئی ایم ایف کے پاس سب کچھ ہے مگر وہ دل نہیں ہے جس سے ان غریبوں کو دیکھ سکے جو بیروزگار ہوتے ہیں۔ جن کے بچے اچھے کپڑے نہیں پہن سکتے، اچھے اسکولوں میں پڑھ نہیں سکتے اور ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو فاقہ کشی کی نوبت کو پہنچ جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف ایک قرض دینے والے کی طرح اس سے کم بھلا آخر کہہ بھی کیا سکتا ہے۔ اب تو جتنے ہم ٹیکسوں سے وصول کرتے ہیں لگ بھگ اتنے اب ہم کو قرضوں اور سود کی مد میں ہر سال ادا کرنے ہوتے ہیں۔ اس طرح کی صورتحال ساؤتھ ایشیا میں اور کسی کے ساتھ نہیں۔ اگر مشرق وسطیٰ میں تھوڑے اور کرائسس پیدا ہوئے تو ہمارے پٹرول درآمد کرنے کا بل بڑھنے کے علاوہ زرمبادلہ پربھی پریشر آئے گا۔ مگر دوسروں کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر اتنے زیادہ ہیں کہ وہ ایسے بیرونی شاک کو آسانی سے جذب کر سکتے ہیں۔
اس حکومت کو کچھ کامیابی طالبان سے مذاکرات کی صورت میں ملتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ ہماری مجموعی پیداوار کا دو فیصد بڑھ سکتا ہے بشرطیکہ ہم امن قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ یقیناً اس سے روزگار کے مواقعے پیدا ہوں گے، برآمدات بڑھ سکتی ہیں، افراط زر پر قابو پایا جا سکتا ہے کیوں کہ حکومت کو اخراجات پورے کرنے کے لیے نہ آئی ایم ایف کے پاس کشکول پھیلانا پڑے گا نہ اسٹیٹ بینک کو نوٹ چھاپنے کی ضرورت ہو گی۔ پیداوار کا والیوم بڑھنے سے سیلز ٹیکس کی مد میں اضافہ ہو گا۔ ہم صرف سات فیصد شرح پر اپنی جی ڈی پی کو بڑھائیں، ہمارے بہت سارے مسائل حل ہونا شروع جائیں گے۔ ہاں مسئلہ قومی پیداوار کو سات فیصد پر لانا ہی تو ہے۔ گزشتہ دس سالوں کے بجٹ نکال کر دیکھ لیجیے۔ جو رقوم ہم نے ہر سال ترقیاتی کاموں کے لیے مختص کیں ان میں ہر سال کے آخر میں آدھی کٹوتی کی اور جو غیر ترقیاتی اخراجات تھے وہ بڑھ گئے۔ یوں کہیے کہ انسانی وسائل معیاری نہیں ہوئے اور ہم آج کچھ بھی نہیں بلکہ پسماندہ انسانوں پر مبنی ایک ملک ہیں، جس کے پاس خدا کی دی ہوئی نعمتیں بہت ہیں، لیکن ہمارے حکمرانوں کے پاس وہ عزم نہیںجس کی ضرروت ہے۔
66 سال کی تاریخ اور کچھ نہیں بلکہ ہماری ناقص پالیسیوں کا مجموعہ ہے، جس نے ہمیں اس دوراہے پر لا کھڑا کر دیا ہے۔ ایک ایسا پاکستان جو ادارے نہیں بنا سکا اور جو کچھ بچے کچھے انگریز کے دیے ہوئے ادارے تھے انھیں بھی دیمک لگتی گئی۔ قرضوں کا حجم اب تو ہماری مجموعی پیداوار کے برابر ہوتا جا رہا ہے، ہم امریکا نہیں کہ ڈالر چھاپیں اور دنیا سے چیزیں خریدیں۔ اب تو ہم نے ایک اور طریقہ ڈھونڈ لیا ہے وہ ہے لوگوں کی قوت خرید پر ڈاکا ڈالنے کا، نوٹ چھاپو اور کام چلاؤ۔ اب تو بنگلہ دیش کی ایکسپورٹ ہم سے بڑھ گئی ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں ان کا ٹکا ہمارے روپے کی نسبت بہت مستحکم ہے۔
بحیثیت ریاست جو دنیا میں مروج سوچ کے معیار ہیں، جس سے ریاست اپنی پالیسیاں بناتی ہے، ہماری مجموعی سوچ پسماندہ ہے، ہم ابھی جنگی جنون کی سوچ اور جہادی انداز میں اپنے پڑوسیوں سے دیرینہ مسائل حل کرنے کے چکر میں لگے ہیں اور کچھ ہوا سو ہوا ایک دن اسی سوچ نے ہم کو ڈس لیا۔ ہم اسی سوچ کے یرغمال ہو گئے اور پھر نہ ادارے بن سکے نہ لوگوں کو سرمایہ کاری کرنے پر مائل کیا نہ مجموعی پیداوار بڑھا پائے۔ جمال ناصر مسلم دنیا کے بہت بڑے لیڈر تھے مگر مصر کو نہ بنا پائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کے ہمارے پاس جو بھی اور جیسی بھی قیادت موجود ہے اس میں میاں صاحب میں سب سے زیادہ مشکل فیصلے کرنے کی جرأت ہے۔
پچھلے دور حکومت میں '' قرض اتارو ملک سنوارو'' جیسے خیال سے آگے بڑھے، پھر جنگی جنون جیسی سوچ والے ان کی راہ میں حائل ہوئے، نہ کشکول ٹوٹ سکا، نہ اسٹیٹ بینک سے نوٹ چھپائی میں دھیرج آیا، اس زمانے میں بھی بجٹ خسارہ آسمانوں کو چھو رہا تھا۔ ایسا بھی ہوا کہ ہمیں ڈالر اکاؤنٹ منجمند کرنے پڑے۔ لیکن ایٹمی دھماکے کرنے کے لیے ہندوستان کو ایسا نہیں کرنا پڑا۔ اب عدالتیں کچھ آزاد ہیں، فوج نے اپنے پروفیشنل کام پر زیادہ توجہ دینا شروع کر دی ہے۔ امن کے لیے ہمیں اچھی امیدیں ہیں۔
مگر جس چیز کی کمی ہے وہ یہ ہے کہ ہماری معیشت ہم سے انقلابی اقدام مانگ رہی ہے۔ وہ نہ تو موٹروے مانگتی ہے، نہ ہی یلو کیب نہ لیپ ٹاپ۔ اس ملک کے وجود کو جو سب سے بڑا خطرہ لاحق ہے وہ بجٹ خسارے سے ہے۔ جس پر آنکھیں بند کرنے سے آج ہم بند گلی میں پھنس گئے ہیں۔ اس بھنور سے نکلنے کے لیے ہمیں ایک ایسا ایف بی آر چاہیے جو کرپشن سے پاک ہو۔ ایک آزاد اسٹیٹ بینک چاہیے جو نوٹ چھاپنے سے انکار بھی کر سکے۔ ایک ایسی وزارت خزانہ چاہیے جو اخراجات پر قابو پا سکے۔ یہ وقت سر پکڑ کر بیٹھنے کا ہے، وقت ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔ ان دو ہفتوں میں میاں صاحب اس طرح پریشان اور محنت کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ خدا ان کو ہمت اور جرأت دے کہ وہ اس ملک کو اس بھنور سے نکال سکیں اور ادارے مضبوط بنا سکیں۔
چاہے فوجی حکومت ہی کیوں نہ ہو، وہ بھی یہی سوچ رکھتی ہے۔ جب تک ڈائریکٹ ٹیکس وسیع نہیں ہو گا اور قومی پیداوار بھی کم از کم تین سے چار فیصد کی درمیان بڑھے گی تو لازم ہے کہ اسٹیٹ بینک نوٹ چھاپے گا اور لازم ہے کہ افراط زر بھی بڑھے گا۔ کل جو کام ایف بی آر کرتا تھا وہی کام آج اسٹیٹ بینک کر رہا ہے۔ لوگوں کی قوت خرید گھٹا کے ان پر افراط زرکی شکل میں ٹیکس لگایا جا رہا ہے۔ ہاں البتہ تیل کے مہنگے ہونے کا ذمے دار اس حکومت کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا، نہ ہی بجلی مہنگی ہونے کا۔ تاہم اوگرا جیسے اداروں میں کرپشن کے اضافے میں پچھلی حکومت اپنی مثال آپ تھی۔ اس پر تو خیر عدالتوں نے بھی ان کو نہیں بخشا، نہ ہی میڈیا پیچھے رہا۔ ایسی مایوس کن کارکردگی کا حساب عوام نے ان کو شکست دلا کر لیا۔ لیکن ابھی تک لوگ اتنے بیدار نہیں ہوئے کہ یہ پوچھ سکیں کہ اتنا ان ڈائریکٹ ٹیکس کیوں لگاتے ہو؟َ کیوں اتنے غیر ترقیاتی اخراجات کرتے ہو؟ کیوں اتنے قرضے لیتے ہو؟
حال ہی میں اسپین و یونان جیسے کئی ممالک کچھ ایسے ہی معاشی کرائسس سے دوچار ہوئے جن کی بنیادی وجوہات ہمارے جیسی تھیں۔ قرضے بڑھتے گئے، آمدنی نہیں بڑھی اور جب خرچے کم کرنے لگے تو بیروزگاری بڑھی، لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ آئی ایم ایف کے پاس سب کچھ ہے مگر وہ دل نہیں ہے جس سے ان غریبوں کو دیکھ سکے جو بیروزگار ہوتے ہیں۔ جن کے بچے اچھے کپڑے نہیں پہن سکتے، اچھے اسکولوں میں پڑھ نہیں سکتے اور ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو فاقہ کشی کی نوبت کو پہنچ جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف ایک قرض دینے والے کی طرح اس سے کم بھلا آخر کہہ بھی کیا سکتا ہے۔ اب تو جتنے ہم ٹیکسوں سے وصول کرتے ہیں لگ بھگ اتنے اب ہم کو قرضوں اور سود کی مد میں ہر سال ادا کرنے ہوتے ہیں۔ اس طرح کی صورتحال ساؤتھ ایشیا میں اور کسی کے ساتھ نہیں۔ اگر مشرق وسطیٰ میں تھوڑے اور کرائسس پیدا ہوئے تو ہمارے پٹرول درآمد کرنے کا بل بڑھنے کے علاوہ زرمبادلہ پربھی پریشر آئے گا۔ مگر دوسروں کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر اتنے زیادہ ہیں کہ وہ ایسے بیرونی شاک کو آسانی سے جذب کر سکتے ہیں۔
اس حکومت کو کچھ کامیابی طالبان سے مذاکرات کی صورت میں ملتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ ہماری مجموعی پیداوار کا دو فیصد بڑھ سکتا ہے بشرطیکہ ہم امن قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ یقیناً اس سے روزگار کے مواقعے پیدا ہوں گے، برآمدات بڑھ سکتی ہیں، افراط زر پر قابو پایا جا سکتا ہے کیوں کہ حکومت کو اخراجات پورے کرنے کے لیے نہ آئی ایم ایف کے پاس کشکول پھیلانا پڑے گا نہ اسٹیٹ بینک کو نوٹ چھاپنے کی ضرورت ہو گی۔ پیداوار کا والیوم بڑھنے سے سیلز ٹیکس کی مد میں اضافہ ہو گا۔ ہم صرف سات فیصد شرح پر اپنی جی ڈی پی کو بڑھائیں، ہمارے بہت سارے مسائل حل ہونا شروع جائیں گے۔ ہاں مسئلہ قومی پیداوار کو سات فیصد پر لانا ہی تو ہے۔ گزشتہ دس سالوں کے بجٹ نکال کر دیکھ لیجیے۔ جو رقوم ہم نے ہر سال ترقیاتی کاموں کے لیے مختص کیں ان میں ہر سال کے آخر میں آدھی کٹوتی کی اور جو غیر ترقیاتی اخراجات تھے وہ بڑھ گئے۔ یوں کہیے کہ انسانی وسائل معیاری نہیں ہوئے اور ہم آج کچھ بھی نہیں بلکہ پسماندہ انسانوں پر مبنی ایک ملک ہیں، جس کے پاس خدا کی دی ہوئی نعمتیں بہت ہیں، لیکن ہمارے حکمرانوں کے پاس وہ عزم نہیںجس کی ضرروت ہے۔
66 سال کی تاریخ اور کچھ نہیں بلکہ ہماری ناقص پالیسیوں کا مجموعہ ہے، جس نے ہمیں اس دوراہے پر لا کھڑا کر دیا ہے۔ ایک ایسا پاکستان جو ادارے نہیں بنا سکا اور جو کچھ بچے کچھے انگریز کے دیے ہوئے ادارے تھے انھیں بھی دیمک لگتی گئی۔ قرضوں کا حجم اب تو ہماری مجموعی پیداوار کے برابر ہوتا جا رہا ہے، ہم امریکا نہیں کہ ڈالر چھاپیں اور دنیا سے چیزیں خریدیں۔ اب تو ہم نے ایک اور طریقہ ڈھونڈ لیا ہے وہ ہے لوگوں کی قوت خرید پر ڈاکا ڈالنے کا، نوٹ چھاپو اور کام چلاؤ۔ اب تو بنگلہ دیش کی ایکسپورٹ ہم سے بڑھ گئی ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں ان کا ٹکا ہمارے روپے کی نسبت بہت مستحکم ہے۔
بحیثیت ریاست جو دنیا میں مروج سوچ کے معیار ہیں، جس سے ریاست اپنی پالیسیاں بناتی ہے، ہماری مجموعی سوچ پسماندہ ہے، ہم ابھی جنگی جنون کی سوچ اور جہادی انداز میں اپنے پڑوسیوں سے دیرینہ مسائل حل کرنے کے چکر میں لگے ہیں اور کچھ ہوا سو ہوا ایک دن اسی سوچ نے ہم کو ڈس لیا۔ ہم اسی سوچ کے یرغمال ہو گئے اور پھر نہ ادارے بن سکے نہ لوگوں کو سرمایہ کاری کرنے پر مائل کیا نہ مجموعی پیداوار بڑھا پائے۔ جمال ناصر مسلم دنیا کے بہت بڑے لیڈر تھے مگر مصر کو نہ بنا پائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کے ہمارے پاس جو بھی اور جیسی بھی قیادت موجود ہے اس میں میاں صاحب میں سب سے زیادہ مشکل فیصلے کرنے کی جرأت ہے۔
پچھلے دور حکومت میں '' قرض اتارو ملک سنوارو'' جیسے خیال سے آگے بڑھے، پھر جنگی جنون جیسی سوچ والے ان کی راہ میں حائل ہوئے، نہ کشکول ٹوٹ سکا، نہ اسٹیٹ بینک سے نوٹ چھپائی میں دھیرج آیا، اس زمانے میں بھی بجٹ خسارہ آسمانوں کو چھو رہا تھا۔ ایسا بھی ہوا کہ ہمیں ڈالر اکاؤنٹ منجمند کرنے پڑے۔ لیکن ایٹمی دھماکے کرنے کے لیے ہندوستان کو ایسا نہیں کرنا پڑا۔ اب عدالتیں کچھ آزاد ہیں، فوج نے اپنے پروفیشنل کام پر زیادہ توجہ دینا شروع کر دی ہے۔ امن کے لیے ہمیں اچھی امیدیں ہیں۔
مگر جس چیز کی کمی ہے وہ یہ ہے کہ ہماری معیشت ہم سے انقلابی اقدام مانگ رہی ہے۔ وہ نہ تو موٹروے مانگتی ہے، نہ ہی یلو کیب نہ لیپ ٹاپ۔ اس ملک کے وجود کو جو سب سے بڑا خطرہ لاحق ہے وہ بجٹ خسارے سے ہے۔ جس پر آنکھیں بند کرنے سے آج ہم بند گلی میں پھنس گئے ہیں۔ اس بھنور سے نکلنے کے لیے ہمیں ایک ایسا ایف بی آر چاہیے جو کرپشن سے پاک ہو۔ ایک آزاد اسٹیٹ بینک چاہیے جو نوٹ چھاپنے سے انکار بھی کر سکے۔ ایک ایسی وزارت خزانہ چاہیے جو اخراجات پر قابو پا سکے۔ یہ وقت سر پکڑ کر بیٹھنے کا ہے، وقت ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔ ان دو ہفتوں میں میاں صاحب اس طرح پریشان اور محنت کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ خدا ان کو ہمت اور جرأت دے کہ وہ اس ملک کو اس بھنور سے نکال سکیں اور ادارے مضبوط بنا سکیں۔