صادق وامین بینک

مختلف ٹیکسوں اور کٹوتیوں کی آگ سے سرمایہ خود بخود پگل چکاہوتاہے۔

barq@email.com

KARACHI:
جب جب اور جتنا وقت آگے بڑھتاجاتاہے اور انسانیت پیچھے گھٹتی جارہی ہے تب تب ہمارے قائم کردہ نظریات کی تصدیق ہوتی جارہی ہے جو ہم نے نہایت حقیقت پسندانہ محنت کشانہ اور دیانت دارانہ تحقیق کے بعد وضع کیے ہیں۔

ان میں ایک نظریے پر توکبھی کبھی بات ہوتی رہی ہے کہ جب لٹیرے نے سوچا کہ لوٹ کر واپس جانے کے بجائے عوام کی گردن پرمستقل سوار کیوں نہ ہوجائیں، چناں چہ اس نے ڈاکوکا ڈھاٹا کھول کردستارکیا اور خود کو لٹیرے سے چوکیدار اور ڈاکو سے محافظ بنالیا۔ پھر مسلسل چار پانچ ہزار میں ایک پندرہ فیصد اشرافیہ تشکیل دی جو پچاسی فیصد عوامیہ سے ''حفاظت''اور''خدمت''کامعاوضہ وصول کرنے لگی۔اور تقسیم کار یوں کی کہ عوامیہ صرف جسم سے کام لے اور دماغ کو ہرگز استعمال نہ کرے وہ ہماراکام ہے۔

سو ڈارون اور لیمارک کے ''استعمال اور عدم استعمال'' کے اصول پر عوام کے جسم مضبوط ہوکر کمائی کا ذریعہ بن گئے جب کہ ''دماغ''سکڑتے سکڑتے ''نقطہ معدومیت''پرپہنچ گئے، اس کے برعکس اشرافیہ کے جسم نازک اور دماغ بے پناہ ہوگئے اور آج یہ اشرافیہ اپنی اس انتہائی ہائی فائی کھوپڑیوں کی وجہ سے وہ سب کچھ کھینچ کر اپنی طرف لاتی ہے جو پچاسی فیصد کماتی ہے۔یہ تو ہوئی ایک بات دوسری بعینہ اس کی جیسی بات ہے بلکہ اسی کی ایک شاخ ہے۔اور وہ یہ کہ پرانے زمانے میں لوگ یا عوام اپنا اندوختہ بچانے کے لیے امیر اور دولت مند لوگوں کے پاس رکھواتے تھے کہ کہیں چور ڈاکو ان کے غیرمحفوظ ہاتھوں، گھروں اور گٹھڑیوں سے نکال یا چھین نہ لیں۔

ان امانت داروں نے ترقی کرتے کرتے ساہوکاروں اور پھر بینکوں کی صورت اختیار کرلی جس میں لوگ اپنا وہ خون پسینہ حفاظت کے لیے رکھتے تھے کہ ہنگامی وقت میں کام آئے اور چوروں ڈاکووں کے ساتھ ساتھ ان کے اپنے ''غیرمحفوظ ہاتھوں''سے بھی بچا رہے۔لیکن یہ طریقہ چلتے چلتے آج اس نقطے پر پہنچاہے کہ بینک ہی ان کو لوٹنے لگ گئے ہیں۔

تازہ ترین خبروں کے مطابق جب کہ ریاست مدینہ کا قیام بہ ذریعہ ٹائم مشین عمل میں آچکاہے اور اس ریاست کے چپے چپے پرصادقوں اور امینوں کا مبارک سایہ جلوہ فگن ہوچکاہے ذرا جاکر بینک میں اپنا سرمایہ جمع کرایے اور پھر کچھ عرصے بعد پوچھیے تو برف کی سل کی جگہ آپ کو چلو بھر پانی ملے گا۔کیونکہ مختلف ٹیکسوں اور کٹوتیوں کی آگ سے وہ خود بخود پگل چکاہوتاہے۔

پیسے جمع کرنے پر کٹوتی،چیک بک پرکٹوتی، چیک کاٹنے پرکٹوتی، چیک نہ کاٹنے پرکٹوتی بائیو میٹرک پرکٹوتی بائیوسیکنڈری ،بائی گریجویشن ،بائی ماسٹرز کٹوتی،رمضان میں کٹوتی،عید پرکٹوتی،محرم پرکٹوتی، یوم پاکستان،یوم جمہوریت، یوم استقلال، یوم سایہ خدائے ذوالجلال اور پاک سرزمین شاد باد پرکٹوتی۔ منزل مراد پر کٹوتی۔اور اب تو کسی اکاؤنٹ میں تو انکم ٹیکس کی کٹوتی ہوگی حالانکہ اس نے نہ کبھی''ان''کیاہوگا اور''نہ کم''یعنی بیٹھے بٹھائے پتھر کی سل کا پانی ہوجانا۔غالب نے تو کہاتھا کہ

ضعف سے گریہ مبدل بہ دم سرد ہوا


اور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہوجانا

لیکن یہاں ضعف ہو یاصحت،طاقت ہویا کمزوری، مطلب یہ کہ باہر اگر کسی درخت کا پتہ بھی ہلے تو اندر اکاؤنٹ میں کٹوتی کی ہلچل مچ جاتی ہے۔ رحمان بابا کی دی ہوئی مثال اس سلسلے میں خاصی دل کشا چشم کشا اور عبرت کشا ہے فرماتے ہیں

نہ لہ کورہ چرتہ اوزم نہ سفر کڑم

بے سفرہ می غوسیگی لارد عمر

یعنی نہ تو میں اپنے گھر سے نکلتاہوں اور نہ کہیں سفر کرتاہوں لیکن پھر بھی میری عمر کا راستہ کٹتاجارہاہے۔اس دن ایک خیرخواہ نے ہم سے پوچھا،تمہارا بینک میں کوئی اکاؤنٹ ہے؟ ہم نے کہا ہے تو سہی۔پھر پوچھا کہ اس میں ایک لاکھ روپے سے زیادہ تو نہیں۔عرض کیا ہیں تو نہیں کیونکہ تنخواہ کو انکم ٹیکس کی نظرلگ چکی ہے۔اس لیے کبھی کبھی اپنے پیٹ اور ضروریات سے کٹوتی کرکے آیندہ کی فکر کے لیے کچھ بچابھی لیتے ہیں۔بولا۔مت بچاؤ ورنہ پھر تمہیں بینکوں کی ڈکیتی سے کون بچائے گا؟بات تو اس کی دل کو لگنے والی تھی،واقعی باہر کے چوروں لٹیروں سے تو کچھ منت سماجت اور اپنی غربت یا بڑھاپے کی دہائی دے کر کچھ ''رعایت'' تو حاصل کریں لیکن''قوانین''کا تو دل ہی نہیں ہوتا تو دہائی کسے دیں۔

پھر اس نے مزید ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ تم جب بینک میں کچھ جمع کرنے یا نکالنے جاتے ہو تو کیا کیاکرتے ہو۔ہم نے کہا کسی کرسی وغیرہ پربیٹھ کربینک کا ڈوری سے بندھا ہوا قلم لیتے ہیں اور ضرورت کے مطابق لکھتے ہیں بولا۔خبردار یہ ساری عیاشیاں چھوڑدو۔پہلے تو گھر سے سب کچھ لکھا لکھایا لے کرجاؤ،یہ نہ ہو تو جیب میں اپنا قلم لے کرجانا کیونکہ بینک کا بال پن مفت کا نہیں ہوتا بلکہ کسی جگہ بیٹھنا بھی نہیں اور وہاں پانی وانی ہرگز نہ پینا بلکہ ہوسکے تو سانس میں ذرا کفایتی لینا ورنہ ساری عیاشیوں کا اثر تیرے اکاؤنٹ پرپڑے گا پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی اور اب ہم سوچ رہے ہیں کہ جائیں تو کہاں جائیں کہ

سرکاری بھی عیاری وبینکاری بھی عیاری

ہمیں ایک حکایت یاد آرہی ہے کہ دو بلیوں یا کتوں یا گیدڑوں کا ایک روٹی کی تقسیم پر پھڈا ہوگیا، دونوں ایک صادق وامین لومڑی کے پاس انصاف کے لیے گئے۔ منصف نے روٹی کو دو ٹکڑے کیا۔لیکن دانستہ ایک ٹکڑا چھوٹا دوسرا بڑا رکھا پھر انصاف کے ترازو میں تولا تو وزن دار ٹکڑے سے منہ میں ایک بڑا سا لقمہ کاٹ کرکھالیا،اس طرح کبھی ایک ٹکڑا کم کبھی دوسرا کم ہوتا اور اسے برابر کرنے کے لیے لومڑی اپنے منہ اور دانتوں کے ذریعے انصاف کرتی آخرکار باقی صرف دو نوالے بچے تو لومڑی نے دونوں ٹکڑے اٹھاکر منہ میں رکھتے ہوئے کہا۔کہ آخرکار اتنا کڑا انصاف کرنے پر یہ میری مزدوری بھی اتنی بنتی ہے۔
Load Next Story