خواہش
اسپتال کے منتظمین کو علاج کے لیے پابند کیا جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے
LUXEMBOURG:
چند دن قبل کی بات ہے جب اخبارات اور ٹی وی چینلزکے ذریعے یہ خبر طشت ازبام ہوئی کہ ساتویں جماعت کے طالب علم کو معمولی سی طبیعت خراب ہونے پر لانڈھی میں واقع لایا گیا، بچے کو انجکشن دیا گیا جو غلط تھا، ذرا سی ہی دیر میں اس کا دایاں ہاتھ سیاہ رنگت اختیارکرگیا، چنانچہ والدین نے پریشانی کے عالم میں اسپتال میں دکھایا، جہاں اس کی جان بچانے کے لیے اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔
یہی ایک حل تھا ورنہ زہر اس کے دل و جاں کو مفلوج کردیتا اور وہ جان سے جاتا اس نے ٹی وی اینکروں اور اخبار کے صحافیوں سے کہا کہ میں آرمی میں جانا چاہتا تھا لیکن ان لوگوں نے تو مجھے معذورکردیا ہے۔
یہ پہلا واقعہ ہرگز نہیں ہے، اس طرح کے واقعات ، کراچی جیسے بڑے شہر میں آئے دن ہوتے ہیں، جہاں غفلت اور لاپرواہی کے تحت غیر تربیت یافتہ عملے کو مریضوں کی جانوں سے کھیلنے کے لیے شتر بے مہار کی طرح کھلا چھوڑ دیا ہے، اس کی وجہ تعلیم یافتہ حضرات کم تنخواہوں پر ملازمت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں لہٰذا ان لوگوں کو بھرتی کرلیا جاتا ہے جو اسپتالوں میں وارڈ بوائے کی حیثیت سے کام کر رہے ہوتے ہیں۔
بوقت ضرورت ان سے انجکشن لگوانا اور چھوٹے موٹے کام جس میں مریض کی تیمار داری اور تھرما میٹر کا استعمال شامل ہوتا ہے، اس طرح کے کام باقاعدگی سے کروائے جاتے ہیں، بس یہی ان کی ٹریننگ ہوتی ہے اور چند ہفتوں یا ایک دو ماہ بعد ہی ان کی تقرری سفارش اور تعلقات کی بنا پر آسانی سے ہوجاتی ہے یہ لوگ میڈیکل کی الف، بے سے نابلد ہوتے ہیں اور یہ نیم حکیم کا کردار ذمے داری کے ساتھ انجام دیتے ہیں اس طرح اسپتال انتظامیہ کو بہت معمولی سے تنخواہ پر ایک ڈاکٹر میسر آجاتا ہے۔ جو سارے کام کرتا ہے اور بے ضمیر ڈاکٹروں اور اسپتال کے عملے کی آشیر باد وصول کرتا ہے۔ تمام اسپتالوں میں خواہ نجی ہوں یا سرکاری ایسی ہی صورتحال ہے۔
شہر میں مہنگے اسپتال بھی ہیں جو علاج کی علیحدہ فیس وصول کرتے ہیں جوکہ لاکھوں میں ہوتی ہے اور اگر مریض جان کی بازی ہار جائے تو یہ بڑے اسپتال ڈیڈ باڈی کی حوالگی کی فیس بھی لاکھوں میں ہی وصول کرتے ہیں، اکثر اوقات یہ بھی دیکھا گیا کہ ڈیڈ باڈی کو وینٹی لیٹر پر لٹا دیتے ہیں، جدید دور کی مشینری کے ذریعے دل کی دھڑکن چلنے لگتی ہے یہ کمال آلہ تنفس کے ذریعے دکھایا جاتا ہے اس کی فیس علیحدہ، بہت کم مریض ایسے ہوتے ہیں جو وینٹی لیٹر سے بحفاظت اتار لیے جاتے ہیں اور زندگی انھیں خوش آمدید کہتی ہے۔
بے شک زندگی اور موت اللہ کے اختیار میں ہے مگر زندگی سے کھیلنا اسے موت کے منہ میں دھکیلنا ڈاکٹروں کی ذمے داری، نتیجے میں ایک بڑی رقم ہاتھ لگ جاتی ہے، اسے کہتے ہیں ''ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا آئے''، ایسے سانحات بھی سامنے آئے ہیں کہ مریض گہری بے ہوشی میں چلا گیا اور کئی گھنٹے ہوش نہیں آیا تو اسپتال انتظامیہ نے اسے مردہ قرار دے دیا، غسل اور تدفین کی ذمے داری بھی خوش اسلوبی سے انجام دے ڈالی اور پھر اسپتال سے لاش گھر بھیج دی جاتی ہے، ایسا ہی ایک واقعہ منظر عام پر آیا جسے سن کر لوگوں کے دل دہل گئے۔
ایک شخص کا انتقال ہوگیا، اطلاع ملتے ہی گھر کے سامنے شامیانے لگوانے کا انتظام ہونے لگا اور ایمبولینس نے مرنے والے کو اس کے گھر پہنچادیا، تھوڑی ہی دیر میں مرحوم کے عزیز و اقارب کی آمد شروع ہوگئی پورا گھر میت کا دیدار کرنے کے لیے کھچا کھچ بھرگیا، اسی اثنا میں منظر بدلتا ہے اور لاش اٹھ کر بیٹھ جاتی ہے اور حیران و پریشان ہوکر سوالات داغنے لگتی ہے کیا ہوا مجھے؟ سارے لوگ کیوں جمع ہیں؟ لوگ ڈر کے مارے ادھر دھر بھاگے لیکن کچھ دانا حضرات نے ہمت پکڑی اور اصل معاملے تک پہنچ گئے دراصل ہمارا مریض بے ہوش ہوگیا تھا اور اب ہوش آگیا ہے۔
ایک اٹھائیس سالہ نوجوان کے ساتھ یہاں تک ہوا کہ اسپتال سے اس کی لاش پہنچی تھوڑی ہی دیر میں لاش جنازے میں بدل گئی اور نماز جنازہ کے بعد لوگ اسے قبرستان کی طرف لے چلے اور تدفین عمل میں آگئی جب سوم والے دن مرحوم کے لواحقین فاتحہ خوانی کے لیے آئے تو گورکن نے بتایا کہ کل سے قبر ہلتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے اور کچھ آوازیں بھی سنائی دیں۔
اسی وقت انتظامیہ اور پولیس کی مدد سے قبرکشائی ہوئی اندر کا حال دیکھ کر لوگوں نے اپنا سر پکڑ لیا، ڈاکٹر نے چیک اپ کیا تو پتا چلا اس کا انتقال تو چند گھنٹے قبل ہوا ہے تدفین کے چند گھنٹے بعد اسے ہوش آیا تب بند کوٹھڑی سے نکلنے کی کوشش کی نتیجے میں کفن پھٹا اور ہاتھوں میں خراشیں اور انگلیوں میں خون جما ہوا اس بات کا گواہ تھا کہ مرحوم نے زندگی بچانے کے لیے جی جان سے کوششیں کیں تو یہ حالات ہیں اسپتالوں کے۔
سرکاری اسپتالوں میں اس قسم کے واقعات آئے دن رونما ہوتے ہیں جب لاشیں زندگی کی دولت سے مالا مال ہوکر اسپتال والوں سے لڑنے جھگڑنے چلی آتی ہیں اور پھر پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو اعتراض کرتے ہیں کہ تینوں اسپتال ہمارے ہیں، وفاق ان پر کیسے قبضہ کرسکتا ہے، خیر اب تو دوبارہ پیپلز پارٹی کو اسپتال مل گئے ہیں اب انھیں ازسر نو تعمیر و تشکیل اور انتظام کے حوالے سے اپنی مثال آپ بنانا ہوگا تب یہ دعویٰ کرنا بھی اچھا لگے گا کہ حکومت سندھ کی ملکیت میں یا پیپلز پارٹی کا ان پر حق ہے، حقدار اپنا حق ادا کریں ویسے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھیں کہ پاکستان کسی کی جاگیر نہیں ہے یہ سب کا ملک ہے خصوصاً ان کا جنھوں نے بے شمار تکلیفیں جھیلیں آگ اور خون کا دریا پار کیا تب کہیں آزاد وطن حصے میں آیا تمام پاکستانیوں کو بغیر کسی تفریق کے سہولتیں فراہم کرنا حکومت کا کام ہے۔
مقتدر حضرات نے ہمیشہ اپنے فرائض سے چشم پوشی کی، آج ان کی اسی خودغرضی نے سب سے زیادہ نقصان غربا کو پہنچایا ہے نہ تعلیمی ادارے سلامت ہیں اور نہ ہی زندہ رہنے کے لیے بنیادی ضرورتیں موجود ہیں، آئے دن دردناک واقعات سامنے آتے ہیں، ایک ایک انجکشن کو بار بار استعمال کیا جاتا ہے، اگر مریض سرنج خود خرید کر لادیں تب موقع پاتے ہی پرانی سرنج استعمال کرتے ہیں اور نئی سرنج دوبارہ اپنے اسپتال کے میڈیکل اسٹور میں پہنچ جاتی ہے۔
ایسے طالب علم جو آگے پڑھنے کے خواہش مند ہیں اور وہ کسی حادثے میں ہاتھ یا پیر سے معذور ہوگئے ہیں تو ان معماران پاکستان کے مصنوعی ہاتھ، پیر اور ان کا مکمل علاج کروانے کی ذمے داری حکومت وقت کا اولین فرض ہے، رضیہ اسپتال میں معذور ہونے والا طالب علم بہت بااعتماد اور پرعزم تھا، وہ آگے پڑھنے کا خواہش مند تھا، لیکن سیدھا ہاتھ جس سے سب کام کیے جاتے ہیں اس کے کٹ جانے کے بعد سب خواب چکنا چور ہوگئے، مایوسی نے اس کی آنکھوں میں ڈیرہ ڈال لیا تھا اور دل پر لگنے والا محرومی اور مایوسی کے زخم نے اسے زندگی سے مایوس کردیا تھا، اس کے والدین خصوصاً والدہ نے حکومت سے کہا تھا کہ اس کے بچے کا علاج کروایا جائے ۔
اگر اسپتال کے منتظمین کو علاج کے لیے پابند کیا جائے اور قرار واقعی ایسی سزا دی جائے جو دوسروں کے لیے نشان عبرت بن جائے تو شاید آیندہ اس قسم کے واقعات میں کمی ہونے کے امکانات زیادہ ہوسکتے ہیں۔
چند دن قبل کی بات ہے جب اخبارات اور ٹی وی چینلزکے ذریعے یہ خبر طشت ازبام ہوئی کہ ساتویں جماعت کے طالب علم کو معمولی سی طبیعت خراب ہونے پر لانڈھی میں واقع لایا گیا، بچے کو انجکشن دیا گیا جو غلط تھا، ذرا سی ہی دیر میں اس کا دایاں ہاتھ سیاہ رنگت اختیارکرگیا، چنانچہ والدین نے پریشانی کے عالم میں اسپتال میں دکھایا، جہاں اس کی جان بچانے کے لیے اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔
یہی ایک حل تھا ورنہ زہر اس کے دل و جاں کو مفلوج کردیتا اور وہ جان سے جاتا اس نے ٹی وی اینکروں اور اخبار کے صحافیوں سے کہا کہ میں آرمی میں جانا چاہتا تھا لیکن ان لوگوں نے تو مجھے معذورکردیا ہے۔
یہ پہلا واقعہ ہرگز نہیں ہے، اس طرح کے واقعات ، کراچی جیسے بڑے شہر میں آئے دن ہوتے ہیں، جہاں غفلت اور لاپرواہی کے تحت غیر تربیت یافتہ عملے کو مریضوں کی جانوں سے کھیلنے کے لیے شتر بے مہار کی طرح کھلا چھوڑ دیا ہے، اس کی وجہ تعلیم یافتہ حضرات کم تنخواہوں پر ملازمت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں لہٰذا ان لوگوں کو بھرتی کرلیا جاتا ہے جو اسپتالوں میں وارڈ بوائے کی حیثیت سے کام کر رہے ہوتے ہیں۔
بوقت ضرورت ان سے انجکشن لگوانا اور چھوٹے موٹے کام جس میں مریض کی تیمار داری اور تھرما میٹر کا استعمال شامل ہوتا ہے، اس طرح کے کام باقاعدگی سے کروائے جاتے ہیں، بس یہی ان کی ٹریننگ ہوتی ہے اور چند ہفتوں یا ایک دو ماہ بعد ہی ان کی تقرری سفارش اور تعلقات کی بنا پر آسانی سے ہوجاتی ہے یہ لوگ میڈیکل کی الف، بے سے نابلد ہوتے ہیں اور یہ نیم حکیم کا کردار ذمے داری کے ساتھ انجام دیتے ہیں اس طرح اسپتال انتظامیہ کو بہت معمولی سے تنخواہ پر ایک ڈاکٹر میسر آجاتا ہے۔ جو سارے کام کرتا ہے اور بے ضمیر ڈاکٹروں اور اسپتال کے عملے کی آشیر باد وصول کرتا ہے۔ تمام اسپتالوں میں خواہ نجی ہوں یا سرکاری ایسی ہی صورتحال ہے۔
شہر میں مہنگے اسپتال بھی ہیں جو علاج کی علیحدہ فیس وصول کرتے ہیں جوکہ لاکھوں میں ہوتی ہے اور اگر مریض جان کی بازی ہار جائے تو یہ بڑے اسپتال ڈیڈ باڈی کی حوالگی کی فیس بھی لاکھوں میں ہی وصول کرتے ہیں، اکثر اوقات یہ بھی دیکھا گیا کہ ڈیڈ باڈی کو وینٹی لیٹر پر لٹا دیتے ہیں، جدید دور کی مشینری کے ذریعے دل کی دھڑکن چلنے لگتی ہے یہ کمال آلہ تنفس کے ذریعے دکھایا جاتا ہے اس کی فیس علیحدہ، بہت کم مریض ایسے ہوتے ہیں جو وینٹی لیٹر سے بحفاظت اتار لیے جاتے ہیں اور زندگی انھیں خوش آمدید کہتی ہے۔
بے شک زندگی اور موت اللہ کے اختیار میں ہے مگر زندگی سے کھیلنا اسے موت کے منہ میں دھکیلنا ڈاکٹروں کی ذمے داری، نتیجے میں ایک بڑی رقم ہاتھ لگ جاتی ہے، اسے کہتے ہیں ''ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا آئے''، ایسے سانحات بھی سامنے آئے ہیں کہ مریض گہری بے ہوشی میں چلا گیا اور کئی گھنٹے ہوش نہیں آیا تو اسپتال انتظامیہ نے اسے مردہ قرار دے دیا، غسل اور تدفین کی ذمے داری بھی خوش اسلوبی سے انجام دے ڈالی اور پھر اسپتال سے لاش گھر بھیج دی جاتی ہے، ایسا ہی ایک واقعہ منظر عام پر آیا جسے سن کر لوگوں کے دل دہل گئے۔
ایک شخص کا انتقال ہوگیا، اطلاع ملتے ہی گھر کے سامنے شامیانے لگوانے کا انتظام ہونے لگا اور ایمبولینس نے مرنے والے کو اس کے گھر پہنچادیا، تھوڑی ہی دیر میں مرحوم کے عزیز و اقارب کی آمد شروع ہوگئی پورا گھر میت کا دیدار کرنے کے لیے کھچا کھچ بھرگیا، اسی اثنا میں منظر بدلتا ہے اور لاش اٹھ کر بیٹھ جاتی ہے اور حیران و پریشان ہوکر سوالات داغنے لگتی ہے کیا ہوا مجھے؟ سارے لوگ کیوں جمع ہیں؟ لوگ ڈر کے مارے ادھر دھر بھاگے لیکن کچھ دانا حضرات نے ہمت پکڑی اور اصل معاملے تک پہنچ گئے دراصل ہمارا مریض بے ہوش ہوگیا تھا اور اب ہوش آگیا ہے۔
ایک اٹھائیس سالہ نوجوان کے ساتھ یہاں تک ہوا کہ اسپتال سے اس کی لاش پہنچی تھوڑی ہی دیر میں لاش جنازے میں بدل گئی اور نماز جنازہ کے بعد لوگ اسے قبرستان کی طرف لے چلے اور تدفین عمل میں آگئی جب سوم والے دن مرحوم کے لواحقین فاتحہ خوانی کے لیے آئے تو گورکن نے بتایا کہ کل سے قبر ہلتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے اور کچھ آوازیں بھی سنائی دیں۔
اسی وقت انتظامیہ اور پولیس کی مدد سے قبرکشائی ہوئی اندر کا حال دیکھ کر لوگوں نے اپنا سر پکڑ لیا، ڈاکٹر نے چیک اپ کیا تو پتا چلا اس کا انتقال تو چند گھنٹے قبل ہوا ہے تدفین کے چند گھنٹے بعد اسے ہوش آیا تب بند کوٹھڑی سے نکلنے کی کوشش کی نتیجے میں کفن پھٹا اور ہاتھوں میں خراشیں اور انگلیوں میں خون جما ہوا اس بات کا گواہ تھا کہ مرحوم نے زندگی بچانے کے لیے جی جان سے کوششیں کیں تو یہ حالات ہیں اسپتالوں کے۔
سرکاری اسپتالوں میں اس قسم کے واقعات آئے دن رونما ہوتے ہیں جب لاشیں زندگی کی دولت سے مالا مال ہوکر اسپتال والوں سے لڑنے جھگڑنے چلی آتی ہیں اور پھر پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو اعتراض کرتے ہیں کہ تینوں اسپتال ہمارے ہیں، وفاق ان پر کیسے قبضہ کرسکتا ہے، خیر اب تو دوبارہ پیپلز پارٹی کو اسپتال مل گئے ہیں اب انھیں ازسر نو تعمیر و تشکیل اور انتظام کے حوالے سے اپنی مثال آپ بنانا ہوگا تب یہ دعویٰ کرنا بھی اچھا لگے گا کہ حکومت سندھ کی ملکیت میں یا پیپلز پارٹی کا ان پر حق ہے، حقدار اپنا حق ادا کریں ویسے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھیں کہ پاکستان کسی کی جاگیر نہیں ہے یہ سب کا ملک ہے خصوصاً ان کا جنھوں نے بے شمار تکلیفیں جھیلیں آگ اور خون کا دریا پار کیا تب کہیں آزاد وطن حصے میں آیا تمام پاکستانیوں کو بغیر کسی تفریق کے سہولتیں فراہم کرنا حکومت کا کام ہے۔
مقتدر حضرات نے ہمیشہ اپنے فرائض سے چشم پوشی کی، آج ان کی اسی خودغرضی نے سب سے زیادہ نقصان غربا کو پہنچایا ہے نہ تعلیمی ادارے سلامت ہیں اور نہ ہی زندہ رہنے کے لیے بنیادی ضرورتیں موجود ہیں، آئے دن دردناک واقعات سامنے آتے ہیں، ایک ایک انجکشن کو بار بار استعمال کیا جاتا ہے، اگر مریض سرنج خود خرید کر لادیں تب موقع پاتے ہی پرانی سرنج استعمال کرتے ہیں اور نئی سرنج دوبارہ اپنے اسپتال کے میڈیکل اسٹور میں پہنچ جاتی ہے۔
ایسے طالب علم جو آگے پڑھنے کے خواہش مند ہیں اور وہ کسی حادثے میں ہاتھ یا پیر سے معذور ہوگئے ہیں تو ان معماران پاکستان کے مصنوعی ہاتھ، پیر اور ان کا مکمل علاج کروانے کی ذمے داری حکومت وقت کا اولین فرض ہے، رضیہ اسپتال میں معذور ہونے والا طالب علم بہت بااعتماد اور پرعزم تھا، وہ آگے پڑھنے کا خواہش مند تھا، لیکن سیدھا ہاتھ جس سے سب کام کیے جاتے ہیں اس کے کٹ جانے کے بعد سب خواب چکنا چور ہوگئے، مایوسی نے اس کی آنکھوں میں ڈیرہ ڈال لیا تھا اور دل پر لگنے والا محرومی اور مایوسی کے زخم نے اسے زندگی سے مایوس کردیا تھا، اس کے والدین خصوصاً والدہ نے حکومت سے کہا تھا کہ اس کے بچے کا علاج کروایا جائے ۔
اگر اسپتال کے منتظمین کو علاج کے لیے پابند کیا جائے اور قرار واقعی ایسی سزا دی جائے جو دوسروں کے لیے نشان عبرت بن جائے تو شاید آیندہ اس قسم کے واقعات میں کمی ہونے کے امکانات زیادہ ہوسکتے ہیں۔