کراچی کے مسائل اور مصطفیٰ کمال کی آفر
یہ ریکارڈ پر ہے کہ انھوں نے بلدیہ کراچی کو ترقی یافتہ ممالک کی بلدیات کی صف میں لاکھڑا کیا تھا
SAINT PETERSBURG:
آج کل کراچی میں پانی کے مسئلے کے حل کے سلسلے میں ایم کیو ایم پاکستان کی احتجاجی تحریک جاری ہے۔ شہر میں جگہ جگہ ''کراچی کو پانی دو'' کے بینر لگتے نظر آرہے ہیں۔ یہ پارٹی حال ہی میں کراچی پریس کلب کے سامنے بھی ایک احتجاجی جلسہ منعقد کرچکی ہے۔کیا ایم کیو ایم اپنی اس احتجاجی تحریک کے ذریعے پانی کے مسئلے کو حل کرانے میں کامیاب ہوجائے گی؟
شاید ایسا ہرگز نہ ہوسکے، اس لیے کہ پاکستان پیپلز پارٹی سے ایم کیو ایم کے گہرے سیاسی اختلافات کی وجہ سے حکومت سندھ ان کے کسی احتجاج کو کوئی اہمیت دیتی نظر نہیں آتی۔ اختلاف کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے نئے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کے بجائے تحریک انصاف سے ہاتھ ملالیا ہے، چنانچہ لگتا ہے حکومت سندھ جانتے بوجھتے کراچی کے مسائل سے سرد مہری برت رہی ہے مگر اس دفعہ تو کراچی والوں نے تحریک انصاف کو بھی شہری مسائل کے حل کے لیے ووٹ دے کر ان کے کئی امیدواروں کو کامیاب کرایا ہے، تاہم مسئلہ وہی ہے کہ تحریک انصاف بھی سندھ میں حزب اختلاف میں ہے۔ پھر وہ وفاق کی پیروی میں سندھ میں بھی سیاست اور سیاستدانوں کو زیر کرنے میں اس طرح مصروف ہے کہ اس کے پاس کراچی کے شہریوں کے مسائل حل کرنے کے لیے وقت ہی کہاں ہے؟
ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے تلخ تعلقات کے مد نظر عوام کو ایم کیو ایم کی احتجاجی تحریک محض نمائشی ہی نظر آتی ہے۔ لگتا ہے وہ اپنے میئر کو عوامی غضب سے بچانے کے لیے سندھ حکومت کے خلاف احتجاجی حربہ اختیارکرتی رہتی ہے۔ ادھر حکومت سندھ کراچی کے مینڈیٹ سے محرومی کا بدلہ کراچی کے مسائل سے عدم دلچسپی کی صورت میں لے رہی ہے پھر شہری مسائل کے حل کے سلسلے میں اس کے پاس ٹائم ہی کہاں ہے۔کراچی کے مسائل کا تو ذکر ہی کیا اسے تو اپنے خاص گڑھ لاڑکانہ شہر کی بھی کوئی فکر نہیں ہے۔ حالانکہ یہ وہ شہر ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کا آبائی شہر ہے۔ اس شہر کو تو پیپلز پارٹی کو ایک ماڈل شہر کا درجہ دینا چاہیے تھا پھر سندھ کے دوسرے شہروں کی بھی کم و بیش ایسی ہی ابتر صورتحال ہے۔ ایسے میں میئرکراچی کا ولولہ تو دیکھیے کہ وہ کراچی کو پیرس سے بھی زیادہ صاف ستھرا اور خوبصورت شہر بنانے کا عزم رکھتے ہیں مگر ان کے مطابق ان کے اختیارات میں کمی کرکے انھیں ایسا کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
انھوں نے ایک پریس کانفرنس میں گلہ کیا ہے کہ حکومت سندھ نے ریونیو دینے والے تمام محکمے اپنے پاس رکھ لیے ہیں ایسے میں وزیر اعلیٰ سندھ بتائیں کہ ہم ریکوری میں اضافہ کہاں سے کریں۔ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کے تحت انھیں جو فنکشن دیے گئے ہیں ان میں کوئی ریونیو دینے والا نہیں ہے۔ صرف چڑیا گھر کے ٹکٹوں اور دکانوں کے کرائے سے تو بلدیہ اپنے اخراجات پورے نہیں کرسکتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے جن محکموں پر حکومت سندھ نے قبضہ کرلیا ہے وہ اگر انھیں واپس کردیے جائیں تو پھر انھیں حکومتی امداد کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی۔
میئر کراچی کا یہ رونا دھونا نیا نہیں ہے وہ شروع سے ہی کراچی کے مسائل کو حل کرنے سے متعلق عوامی احتجاج کو اپنے اختیارات میں کمی اور ریونیو پر حکومتی قبضے کی شکایت کرکے رد کردیتے ہیں۔ بہرحال کراچی کے عوام اب ایم کیو ایم، سندھ حکومت اور وفاق کی جانب سے ان کے مسائل کے سلسلے میں انھیں چپ کرانے کے ہتھکنڈوں سے اچھی طرح واقف ہوچکے ہیں۔ ایم کیو ایم مسائل کا ملبہ فنڈز کی عدم دستیابی کا بہانہ بناکر سندھ حکومت پر ڈال دیتی ہے اور سندھ حکومت یہ وفاقی حکومت پر ٹرانسفر کردیتی ہے تاہم ان تینوں کے اس خطرناک کھیل سے کراچی کے مسائل میں روز بروز مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اس وقت شہر میں پانی کی شدید قلت ہے، مگر یہ قلت صرف اسی سال تو نہیں ہوئی ہے ہر سال ہی گرمیوں میں پانی کا مسئلہ شدید ہو جاتا ہے۔ افسوس کہ اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی حقیقی کوشش نہیں کی گئی۔ حال ہی میں پانی کے مسئلے پر کراچی میں ایک پانی کانفرنس کا انعقاد ہوچکا ہے جس میں کراچی کے تمام اسٹیک ہولڈرز نے شرکت کی تھی۔ کراچی کے شہری پرامید تھے کہ اس کانفرنس کے ذریعے انھیں پانی کے مسئلے پر قابو پانے کے سلسلے میں کوئی خوش خبری سنائی جائے گی اور اس دیرینہ مسئلے کے حل کے لیے حقیقی ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے لیکن افسوس کہ نہ تو میئر کراچی نے اس کانفرنس کو کامیاب بنانے کی کوشش کی اور حکومت سندھ نے تو عوام کے ساتھ کھلا مذاق کیا۔
اس نے پانی کے مسئلے کو حل کرنے کی بات کرنے کے بجائے وفاق سے اس کے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتیوں کا ذکر چھیڑ دیا یوں یہ پانی کانفرنس بے نتیجہ ثابت ہوئی مگر اس کے ذریعے عوام کو یہ دھوکہ دینے کی کوشش کی گئی کہ سندھ حکومت پانی کے مسئلے پر سنجیدہ ہے۔ سندھ حکومت نے ایک بار پھر کے فور منصوبے کے کام کو آگے بڑھانے کی بات کی ہے اور اس منصوبے میں تاخیر کا ملبہ سابقہ پروجیکٹ ڈائریکٹرکے سر تھوپ کر ان کے خلاف انکوائری کا فیصلہ کیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سندھ حکومت نے اس منصوبے کے کام میں سست روی دیکھی تھی تو اس وقت اس کا کیوں نوٹس نہیں لیا گیا تھا اب اپنی غلطی کو چھپانے کے لیے پروجیکٹ ڈائریکٹر کو نشانہ بنانا سراسر زیادتی ہے۔ بہرحال اب کراچی کے شہری اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ سندھ حکومت تمام بلدیاتی اداروں سے ریونیو وصول کرنے میں طاق ہے مگر اسے کراچی کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے ایم کیو ایم سے اپنے سیاسی اختلافات کے باوجود پانی کا محکمہ فوری طور پر اس کے حوالے کرنے پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پانی کے مسئلے پر بلائی گئی پانی کانفرنس میں شریک بہت سے لوگوں کو اس مسئلے کے حل کا پتا ہی نہیں ہے۔ انھوں نے کہا پانی کے مسئلے کو سیاسی بنانے کے بجائے انسانی مسئلے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ ان کے مطابق پانی کے مسئلے کے حل کی نہ حکومت اہل ہے اور نہ ہی ایم کیو ایم اسے سنجیدگی سے لے رہی ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ کمال کی میئری کے زمانے میں کراچی کے عوام بنیادی شہری مسائل کے سلسلے میں بالکل مطمئن تھے اس لیے کہ انھوں نے شہر کے لیے خلوص دل سے کام کیا تھا۔ شہریوں کی جو خدمت انھوں نے کی نہ ان سے پہلے کوئی کر سکا اور نہ بعد میں چنانچہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان کی آفر کو قبول کرکے انھیں شہر کے مسائل کو حل کرنے کا موقع فراہم کرے۔ مصطفیٰ کمال نے حال ہی میں عوام کی مشکلات کو دور کرنے اور انھیں راحت پہنچانے کی خاطر رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ انھوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ صرف چھ مہینے میں کراچی کے پانی سمیت تمام مسائل حل کرکے عوام کو ان مسائل سے نجات دلا سکتے ہیں۔
لگتا ہے صوبائی حکومت تو ان کی اس بے لوث پیشکش پر کان نہیں دھرے گی مگر وفاقی حکومت اگر چاہتی ہے کہ کراچی کے عوام کی جان مسائل سے چھڑائی جائے تو پھر اسے مصطفیٰ کمال کی اس آفر سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے۔ مصطفیٰ کمال گوکہ اس وقت اپنی پارٹی کی تنظیم نو کے سلسلے میں بہت مصروف ہیں مگر اس کے باوجود وہ عوامی مسائل کے حل کے لیے وقت دینے کے لیے تیار ہیں تو اس سے ان کی کراچی کے عوام سے محبت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ انھوں نے اپنی میئر شپ کے زمانے میں بلدیہ کراچی کو ترقی یافتہ ممالک کی بلدیات کی صف میں لاکھڑا کیا تھا۔ ان کی کارکردگی کی ملکی سطح پر تو تعریف و توصیف ہو ہی رہی تھی بین الاقوامی سطح پر بھی انھیں خراج تحسین پیش کیا گیا تھا۔ کراچی کے بزرگ شہریوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ الیکشن میں انھیں موقع نہ دے کر یقینا شہری مسائل کے حل کا نادر موقع کھو دیا گیا مگر امید ہے کہ اب ایسا نہیں ہوگا اور اکیس جولائی کو باغ جناح کراچی میں منعقد ہونے والے پی ایس پی کے جلسے میں جوق در جوق شرکت کرکے عوام اپنے مسائل کے حقیقی اور دائمی حل کی جانب پیش قدمی کریں گے۔
آج کل کراچی میں پانی کے مسئلے کے حل کے سلسلے میں ایم کیو ایم پاکستان کی احتجاجی تحریک جاری ہے۔ شہر میں جگہ جگہ ''کراچی کو پانی دو'' کے بینر لگتے نظر آرہے ہیں۔ یہ پارٹی حال ہی میں کراچی پریس کلب کے سامنے بھی ایک احتجاجی جلسہ منعقد کرچکی ہے۔کیا ایم کیو ایم اپنی اس احتجاجی تحریک کے ذریعے پانی کے مسئلے کو حل کرانے میں کامیاب ہوجائے گی؟
شاید ایسا ہرگز نہ ہوسکے، اس لیے کہ پاکستان پیپلز پارٹی سے ایم کیو ایم کے گہرے سیاسی اختلافات کی وجہ سے حکومت سندھ ان کے کسی احتجاج کو کوئی اہمیت دیتی نظر نہیں آتی۔ اختلاف کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے نئے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کے بجائے تحریک انصاف سے ہاتھ ملالیا ہے، چنانچہ لگتا ہے حکومت سندھ جانتے بوجھتے کراچی کے مسائل سے سرد مہری برت رہی ہے مگر اس دفعہ تو کراچی والوں نے تحریک انصاف کو بھی شہری مسائل کے حل کے لیے ووٹ دے کر ان کے کئی امیدواروں کو کامیاب کرایا ہے، تاہم مسئلہ وہی ہے کہ تحریک انصاف بھی سندھ میں حزب اختلاف میں ہے۔ پھر وہ وفاق کی پیروی میں سندھ میں بھی سیاست اور سیاستدانوں کو زیر کرنے میں اس طرح مصروف ہے کہ اس کے پاس کراچی کے شہریوں کے مسائل حل کرنے کے لیے وقت ہی کہاں ہے؟
ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے تلخ تعلقات کے مد نظر عوام کو ایم کیو ایم کی احتجاجی تحریک محض نمائشی ہی نظر آتی ہے۔ لگتا ہے وہ اپنے میئر کو عوامی غضب سے بچانے کے لیے سندھ حکومت کے خلاف احتجاجی حربہ اختیارکرتی رہتی ہے۔ ادھر حکومت سندھ کراچی کے مینڈیٹ سے محرومی کا بدلہ کراچی کے مسائل سے عدم دلچسپی کی صورت میں لے رہی ہے پھر شہری مسائل کے حل کے سلسلے میں اس کے پاس ٹائم ہی کہاں ہے۔کراچی کے مسائل کا تو ذکر ہی کیا اسے تو اپنے خاص گڑھ لاڑکانہ شہر کی بھی کوئی فکر نہیں ہے۔ حالانکہ یہ وہ شہر ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کا آبائی شہر ہے۔ اس شہر کو تو پیپلز پارٹی کو ایک ماڈل شہر کا درجہ دینا چاہیے تھا پھر سندھ کے دوسرے شہروں کی بھی کم و بیش ایسی ہی ابتر صورتحال ہے۔ ایسے میں میئرکراچی کا ولولہ تو دیکھیے کہ وہ کراچی کو پیرس سے بھی زیادہ صاف ستھرا اور خوبصورت شہر بنانے کا عزم رکھتے ہیں مگر ان کے مطابق ان کے اختیارات میں کمی کرکے انھیں ایسا کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
انھوں نے ایک پریس کانفرنس میں گلہ کیا ہے کہ حکومت سندھ نے ریونیو دینے والے تمام محکمے اپنے پاس رکھ لیے ہیں ایسے میں وزیر اعلیٰ سندھ بتائیں کہ ہم ریکوری میں اضافہ کہاں سے کریں۔ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کے تحت انھیں جو فنکشن دیے گئے ہیں ان میں کوئی ریونیو دینے والا نہیں ہے۔ صرف چڑیا گھر کے ٹکٹوں اور دکانوں کے کرائے سے تو بلدیہ اپنے اخراجات پورے نہیں کرسکتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے جن محکموں پر حکومت سندھ نے قبضہ کرلیا ہے وہ اگر انھیں واپس کردیے جائیں تو پھر انھیں حکومتی امداد کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی۔
میئر کراچی کا یہ رونا دھونا نیا نہیں ہے وہ شروع سے ہی کراچی کے مسائل کو حل کرنے سے متعلق عوامی احتجاج کو اپنے اختیارات میں کمی اور ریونیو پر حکومتی قبضے کی شکایت کرکے رد کردیتے ہیں۔ بہرحال کراچی کے عوام اب ایم کیو ایم، سندھ حکومت اور وفاق کی جانب سے ان کے مسائل کے سلسلے میں انھیں چپ کرانے کے ہتھکنڈوں سے اچھی طرح واقف ہوچکے ہیں۔ ایم کیو ایم مسائل کا ملبہ فنڈز کی عدم دستیابی کا بہانہ بناکر سندھ حکومت پر ڈال دیتی ہے اور سندھ حکومت یہ وفاقی حکومت پر ٹرانسفر کردیتی ہے تاہم ان تینوں کے اس خطرناک کھیل سے کراچی کے مسائل میں روز بروز مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اس وقت شہر میں پانی کی شدید قلت ہے، مگر یہ قلت صرف اسی سال تو نہیں ہوئی ہے ہر سال ہی گرمیوں میں پانی کا مسئلہ شدید ہو جاتا ہے۔ افسوس کہ اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی حقیقی کوشش نہیں کی گئی۔ حال ہی میں پانی کے مسئلے پر کراچی میں ایک پانی کانفرنس کا انعقاد ہوچکا ہے جس میں کراچی کے تمام اسٹیک ہولڈرز نے شرکت کی تھی۔ کراچی کے شہری پرامید تھے کہ اس کانفرنس کے ذریعے انھیں پانی کے مسئلے پر قابو پانے کے سلسلے میں کوئی خوش خبری سنائی جائے گی اور اس دیرینہ مسئلے کے حل کے لیے حقیقی ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے لیکن افسوس کہ نہ تو میئر کراچی نے اس کانفرنس کو کامیاب بنانے کی کوشش کی اور حکومت سندھ نے تو عوام کے ساتھ کھلا مذاق کیا۔
اس نے پانی کے مسئلے کو حل کرنے کی بات کرنے کے بجائے وفاق سے اس کے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتیوں کا ذکر چھیڑ دیا یوں یہ پانی کانفرنس بے نتیجہ ثابت ہوئی مگر اس کے ذریعے عوام کو یہ دھوکہ دینے کی کوشش کی گئی کہ سندھ حکومت پانی کے مسئلے پر سنجیدہ ہے۔ سندھ حکومت نے ایک بار پھر کے فور منصوبے کے کام کو آگے بڑھانے کی بات کی ہے اور اس منصوبے میں تاخیر کا ملبہ سابقہ پروجیکٹ ڈائریکٹرکے سر تھوپ کر ان کے خلاف انکوائری کا فیصلہ کیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سندھ حکومت نے اس منصوبے کے کام میں سست روی دیکھی تھی تو اس وقت اس کا کیوں نوٹس نہیں لیا گیا تھا اب اپنی غلطی کو چھپانے کے لیے پروجیکٹ ڈائریکٹر کو نشانہ بنانا سراسر زیادتی ہے۔ بہرحال اب کراچی کے شہری اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ سندھ حکومت تمام بلدیاتی اداروں سے ریونیو وصول کرنے میں طاق ہے مگر اسے کراچی کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے ایم کیو ایم سے اپنے سیاسی اختلافات کے باوجود پانی کا محکمہ فوری طور پر اس کے حوالے کرنے پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پانی کے مسئلے پر بلائی گئی پانی کانفرنس میں شریک بہت سے لوگوں کو اس مسئلے کے حل کا پتا ہی نہیں ہے۔ انھوں نے کہا پانی کے مسئلے کو سیاسی بنانے کے بجائے انسانی مسئلے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ ان کے مطابق پانی کے مسئلے کے حل کی نہ حکومت اہل ہے اور نہ ہی ایم کیو ایم اسے سنجیدگی سے لے رہی ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ کمال کی میئری کے زمانے میں کراچی کے عوام بنیادی شہری مسائل کے سلسلے میں بالکل مطمئن تھے اس لیے کہ انھوں نے شہر کے لیے خلوص دل سے کام کیا تھا۔ شہریوں کی جو خدمت انھوں نے کی نہ ان سے پہلے کوئی کر سکا اور نہ بعد میں چنانچہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان کی آفر کو قبول کرکے انھیں شہر کے مسائل کو حل کرنے کا موقع فراہم کرے۔ مصطفیٰ کمال نے حال ہی میں عوام کی مشکلات کو دور کرنے اور انھیں راحت پہنچانے کی خاطر رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ انھوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ صرف چھ مہینے میں کراچی کے پانی سمیت تمام مسائل حل کرکے عوام کو ان مسائل سے نجات دلا سکتے ہیں۔
لگتا ہے صوبائی حکومت تو ان کی اس بے لوث پیشکش پر کان نہیں دھرے گی مگر وفاقی حکومت اگر چاہتی ہے کہ کراچی کے عوام کی جان مسائل سے چھڑائی جائے تو پھر اسے مصطفیٰ کمال کی اس آفر سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے۔ مصطفیٰ کمال گوکہ اس وقت اپنی پارٹی کی تنظیم نو کے سلسلے میں بہت مصروف ہیں مگر اس کے باوجود وہ عوامی مسائل کے حل کے لیے وقت دینے کے لیے تیار ہیں تو اس سے ان کی کراچی کے عوام سے محبت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ انھوں نے اپنی میئر شپ کے زمانے میں بلدیہ کراچی کو ترقی یافتہ ممالک کی بلدیات کی صف میں لاکھڑا کیا تھا۔ ان کی کارکردگی کی ملکی سطح پر تو تعریف و توصیف ہو ہی رہی تھی بین الاقوامی سطح پر بھی انھیں خراج تحسین پیش کیا گیا تھا۔ کراچی کے بزرگ شہریوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ الیکشن میں انھیں موقع نہ دے کر یقینا شہری مسائل کے حل کا نادر موقع کھو دیا گیا مگر امید ہے کہ اب ایسا نہیں ہوگا اور اکیس جولائی کو باغ جناح کراچی میں منعقد ہونے والے پی ایس پی کے جلسے میں جوق در جوق شرکت کرکے عوام اپنے مسائل کے حقیقی اور دائمی حل کی جانب پیش قدمی کریں گے۔