طالبان سے مذاکرات تمام سیاسی قوتوں کومثبت نتائج کی توقع ہے
کیا اس کے لئے امریکہ سے ضمانت لی جاچکی ہے کہ وہ مذاکراتی عمل کے دوران ایسی کوئی حرکت نہیں کرے گا؟
اسلام آباد میں9ستمبر2013ء کو ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں اتفاق رائے سے شمال مشرقی علاقوں میں جاری لڑائی کوختم کرنے کے لئے مذاکرات کی راہ اختیارکرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس کے جوفوری اثرات سامنے آئے ہیں، وہ مثبت محسوس ہورہے ہیں۔
کانفرنس میں منظور کی جانے والی قرارداد میں کہا گیا تھا کہ امن کو موقع دینے کے رہنما اصول پر قبائلی علاقوں میں اپنے لوگوں سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ کانفرنس کے اختتام پر جاری ہونے والے اعلامیے میں کہاگیا کہ امن مذاکرات کے دوران مقامی روایات، ثقافت اور طور طریقوں کے علاوہ مذہبی عقائد کو بھی ملحوظ خاطر رکھاجائے اور ایسا سازگار ماحول بنایا جائے جس سے ان علاقوں میں امن اور سکون بحال ہوسکے۔قرارداد میں مزید کہاگیا کہ حکومت پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے طریقہ کار اور وسائل کا فیصلہ خود کرے گی اور امریکہ سمیت کسی بھی ملک سے اس ضمن میں ڈکٹیشن نہیں لی جائے گی۔ اس کانفرنس میں امریکی ڈرون حملوں کو واضح طورپر ملکی سالمیت کے برخلاف اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے نقصان دہ قراردیاگیا۔ قرارداد میں ڈرون حملوں کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔
اگرچہ ملک کی تمام جماعتوں کا مذاکرات کے آپشن پر اتفاق بذات خود ایک اہم واقعہ ہے لیکن اس سے بھی زیادہ اہم پاکستانی طالبان کا خیرمقدمی بیان ہے۔کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان شاہداللہ شاہد کاکہناہے کہ پہلی بار لگ رہاہے کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔انھوں نے کہا کہ ان کی تنظیم اے پی سی کی قرارداد کا خیرمقدم کرتی ہے۔ اس قرارداد میں جنگ کی بات نہیں کی گئی ہے جبکہ ماضی میں حکومت کا مذاکرت کے حوالے سے موقف غیرواضح رہاہے۔
پاکستانی طالبان کے ترجمان کے بیان سے امن کی کرن پھوٹتی محسوس ہورہی ہے۔ ان کے بیان سے ظاہر ہوتاہے کہ وہ پاکستانی حکومت کی تازہ کوشش کو پوری سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور انھیں بھی امید ہے کہ حکومت اور ان کے درمیان مذاکرات کی میز ضرور سجے گی اور اس کے نتیجے میں امن کی شمع ضرور روشن ہوگی۔ طالبان کی طرف سے اس موقف کے سامنے آنے کے بعد حکومتی حلقوں میں بھی خوشی کی لہردوڑ گئی۔وہ اسے مجوزہ مذاکرات میں کامیابی کی طرف پہلا قدم قراردے رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی امن قائم کرنے کی تازہ کوشش بارآور ثابت ہوگی؟ کیونکہ اس سے پہلے بھی ایسی متعدد کوششیں کی گئیں تاہم ہرکوشش دم توڑتی رہی۔ ان کوششوں کی کہانی طالبان کمانڈر نیک محمد سے ہونے والے مذاکرات اور معاہدے سے شروع ہوتی ہے۔ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت کے حکمران پرویزمشرف نے (اس وقت کی )امریکی وزیرخارجہ کنڈولیزارائس کے بیان کے بعد امن عمل کو رول بیک کیاتھا، کمانڈرنیک محمد کے قتل کے نتیجے میں آگ اور خون کا ایساطویل سلسلہ شروع ہوا جس میں دونوں اطراف سے ہزاروں جانیں گئیں۔جنرل پرویز مشرف اور بعدازاں آصف زرداری کے ادوارِ صدارت میں یہ سلسلہ جاری رہا۔
پیپلزپارٹی کے دورحکومت کے اختتام پر اگلی حکومت میاں نوازشریف کی سربراہی میں بننے کے امکانات روشن ہوگئے۔تب ہی سے یہ امکانات بھی ظاہرہونے لگے تھے کہ اگلی حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ اختیارکرے گی۔اس کی بنیاد میاں نوازشریف کا تشخص ہے جس کی بابت کہاجاتاہے کہ وہ طالبان کے لئے قابل قبول ہیں۔ پیپلزپارٹی کے دورحکومت کے آخری ایام میں تحریک طالبان کی طرف سے جن قومی رہنماؤں پر اعتماد کا اظہارکیاگیاتھا ان میں میاں نوازشریف بھی شامل تھے۔
میاں نوازشریف کے بارے میں طالبان کی سوچ مثبت تھی، وہ انھیں قابل قبول شخصیت قراردیتے رہے ہیں۔ میاں نوازشریف عام انتخابات سے پہلے ہی بار بار کہتے رہے ہیں کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ اختیارکریں گے۔ موجودہ وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان بھی دہشت گردی کے خلاف غیرملکی جنگ سے پاکستان کو نکالنے کے پرجوش حامی ہیں۔وہ باربار اپنے موقف کا اظہارکرچکے ہیں کہ ڈکٹیٹر نے غیرملکی دباؤ پر قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنے کا غلط فیصلہ کیا۔
تحریک طالبان کے ساتھ پس پردہ مذاکرات کا سلسلہ مسلم لیگ ن کے برسراقتدار آنے کے فوراً بعد شروع ہوگیاتھا، پردے کے پیچھے ہونے والی یہ کوششیںرفتہ رفتہ کامیابی سے آگے بڑھنے لگیں۔ اب کل جماعتی کانفرنس نے ان مذاکرات کو قابل اعتبار بنادیا ہے۔
کانفرنس میں تحریک انصاف، جمعیت علمائے اسلام (ف) ، مسلم لیگ (ق)، جماعت اسلامی اور مسلم لیگ (ن)اس بات کے سب سے زیادہ حامی تھے کہ طاقت اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں چل سکتے جبکہ بات چیت کو کسی اور شرط سے بھی نہیں جوڑنا چاہئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی، اے این پی جیسی جماعتیں جو ''طاقت اور بات چیت ساتھ ساتھ'' کے اصول کی سب سے بڑی حامی تھیں، انھوں نے بھی کانفرنس میں اپنے موقف پر زیادہ اصرارنہیں کیا اور ''صرف مذاکرات'' کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیا۔
اس وقت تک حکومت اور طالبان کی طرف سے اپنی اپنی ٹیموں کی تشکیل کا عمل جاری ہے۔اس کے بعد مذاکرات کا روڈ میپ طے کیاجائے گا۔پہلے مرحلے میں دونوں جانب سے سیزفائر ہوگا۔ویسے تو غیرعلانیہ جنگ بندی ہوچکی ہے تاہم مذاکراتی ٹیموں کی تشکیل کے بعد اس کا باقاعدہ اعلان کیاجائے گا۔اس کے نتیجے میں فوج فاٹا میں اپنے پڑاؤ تک محدود رہے گی۔ماہرین کا کہناہے کہ مذاکرات کی کامیابی یاناکامی کا تعین دوتین ماہ کے اندر ہوجائے گا۔
طالبان نے ابتدائی طورپرکچھ شرائط بلواسطہ طورپر حکومت کو ارسال کی ہیں۔ ان میں فوج کی فاٹا سے واپسی، ڈرون حملوں اور فوجی آپریشنز میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لئے معاوضے کی ادائیگی اور عام معافی کے اعلان کے علاوہ گرفتار افراد کی رہائی کی شرائط بھی شامل ہیں۔
بعض حلقے مذاکرات کی کامیابی کے بارے میں زیادہ پرامید نہیں ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ کل جماعتی کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں کہیں سے اشارہ نہیں ملتا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کس ایجنڈے پر ہوں گے۔اور یہ کہ کیا طالبان القاعدہ سے بالابالا پاکستانی حکام کے ساتھ مذاکراتی عمل میں سنجیدگی کے ساتھ شریک ہوسکیں گے؟یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر مذاکرات کے درمیان ہی کوئی ڈرون حملہ ہوگیا (جیسا کہ ماضی میں بھی کئی بار ہو چکا ہے) اور طالبان مذاکرات کی میز سے اٹھ گئے توپھر کیاہوگا؟
کیا اس کے لئے امریکہ سے ضمانت لی جاچکی ہے کہ وہ مذاکراتی عمل کے دوران ایسی کوئی حرکت نہیں کرے گا؟ اور کیا پاکستانی فوج نے واقعتاً سارے معاملات سیاسی قیادت کے ہاتھ میں دے دئیے ہیں؟ کیا وہ نہیں چاہے گی کہ مذاکراتی عمل میں اسے بھی شامل کیاجائے اور اس کی عزت و وقار کو بھی سربلند رکھاجائے؟ جب تک ان سارے سوالات کے جوابات حاصل نہ کئے جائیں، تب تک مذاکراتی عمل کی کامیابی یا ناکامی کے بارے میں کچھ نہیں کہاجاسکتا۔
تاہم بعض دوسرے حلقے امن عمل کی کامیابی کے بارے میں خاصے تیقن کا اظہارکررہے ہیں۔جمعیت علمائے اسلام کو طالبان سے قریب ترین جماعت سمجھاجاتاہے۔ اس کے رہنما مولانا عصمت اللہ نے امید ظاہر کی ہے کہ مذاکرات کامیاب ہوں گے کیونکہ موجودہ حکومت کی پالیسیاں ماضی کی نسبت آزادانہ ہیں۔ ان کے بقول ماضی میں مذاکرات اور معاہدوں کا مقصد طالبان کو کمزور کرناہوتاتھا۔اب حکومت اور اسٹیبلشمنٹ مخلص نظرآتے ہیں۔ اگرحکومت نے بیرونی دباؤ خصوصاً امریکی دباؤ کواثرانداز نہ ہونے دیاتو مذاکرات یقینا ً کامیاب ہوں گے۔
شدت پسند گروہ
کل جماعتی کانفرنس میں آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام نے شرکاء کو اپنی تفصیلی بریفنگ کے آخر میں مذاکرات کے آپشن پر ہی زور دیا۔
ان کا کہناتھا کہ اب تحریک طالبان میں ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں جو مذاکرات کے حامی ہیں۔ ان میں سجنا اور عصمت اللہ معاویہ گروپس شامل ہیں۔ لیفٹننٹ جنرل ظہیر الاسلام کے مطابق ''شدت پسندوں کے69گروہ کام کر رہے ہیں''۔ان میں القاعدہ سے براہ راست منسلک گروہ بھی موجود ہیں۔ جبکہ دیگرگروہوں میں غازی عبدالرشید بریگیڈ، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، تحریک طالبان پنجاب، حرکت الجہاد الاسلامی، الیاس کاشمیری گروپ، قاری سیف اللہ اختر گروپ، جیش محمد، لشکرجھنگوی، لشکرطیبہ، سپاہ صحابہ پاکستان، تحریک نفاذ شریعت محمدی شامل ہیں۔
ماضی میں امن کوششیں کیوں ناکام ہوئیں؟
کل جماعتی کانفرنس میں اپنی بریفنگ کے دوران آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام نے بتایا کہ اس سے پہلے شدت پسندوں کے ساتھ 9معاہدے ہوئے جو ناکام ہوئے کیونکہ شدت پسند نت نئے مطالبات سامنے لاتے رہے جبکہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود اچکزئی کاموقف ہے کہ ماضی میں عسکری قیادت کی جانب سے سیاسی رہنماؤں کو اعتماد میں نہیں لیاگیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جہاں جہاں امن معاہدے ناکام ہوئے ہیں، وہاں حکومت نے امن عمل میں تمام گروہوں کو شامل نہیں کیا تھا، مثلاً کمانڈر نیک محمد کے ساتھ معاہدہ کیاگیا جبکہ باقی گروہوں کو خاطر میں نہ لایاگیا۔یہی وجہ ہے کہ ناکامی کا سامنا کرناپڑا۔اسی طرح سراروغہ کا معاہدہ صرف بیت اللہ محسود( یعنی محسودوں) کے ساتھ کیا گیا۔ خیبرایجنسی میں معاہدہ صرف منگل باغ کے لشکراسلام اور اس سے متعلقہ آفریدی قبائل سے کیاگیاتھا۔ سوات کا معاہدہ مولوی فضل اللہ کے ساتھ ہوناچاہئے تھا لیکن وہ صوفی محمد کے ساتھ کیاگیا جو عسکریت پسندوں پر اپنے داماد مولوی فضل اللہ کی نسبت زیادہ کنٹرول نہیں رکھتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں مولوی فضل اللہ کو بائی پاس کیا گیا۔ نتیجتاً وہی کچھ ہوا جس کا ڈرتھا۔
سابقہ مذاکرات کے ناکامی کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ سارے ریاستی ادارے ایک سوچ اور ایک حکمت عملی اختیار نہیں کرتے تھے۔ ہر ایک اپنی الگ راہ پر گامزن تھا۔مثلاً جنوبی وزیرستان میں جب گورنر اور پالیٹیکل ایجنٹ مذاکرات اور جرگوں کے ذریعے مسئلہ حل کرنے میں کوشاں تھے کہ ٹھیک اس وقت کورکمانڈر علی محمد جان اورکزئی کی ذمہ داری کے علاقے میںسیکورٹی فورسز کی بعض کارروائیوں سے وہ عمل سبوتاژ ہوگیا، جب ( اس وقت کے) کور کمانڈرلیفٹیننٹ جنرل محمد صفدر معاہدہ شکئی کر رہے تھے تو اس وقت کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل(ر) سید افتخار شاہ اور پالیٹیکل ایجنٹ اس کے مخالف تھے۔
اس لئے ماہرین کاکہناہے کہ اب کی بار امن عمل کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی قیادت اور عسکری قیادت جزئیات میں بھی ایک صفحہ پر ہی کھڑی ہوں۔ اور مذاکراتی عمل میں ہرشدت پسند گروہ کو شامل کیا جائے۔ یہ بھی اہم ہے کہ افغان طالبان کے بارے میں بھی ہماری پالیسی اس مذاکراتی عمل سے ہم آہنگ ہو کیونکہ افغان طالبان بیشتر پاکستانی گروہوں پراثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
حال ہی میں پاکستانی حکومت کی طرف سے کئی افغان طالبان کمانڈروں کی رہائی ایک اچھی پیش رفت ہے اور حکومت کی ٹھوس اور بہتر حکمت عملی کی غماز ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق ماضی میں امن کوششوں کے ناکام ہونے کا سب سے بڑا سبب مشرف اور زرداری حکومتوں کو سیکولرپس منظر تھا۔ امریکا بھی مذاکراتی کوششوں کا مخالف رہا ہے، یہ دوسری اہم ترین وجہ تھی۔
کانفرنس میں منظور کی جانے والی قرارداد میں کہا گیا تھا کہ امن کو موقع دینے کے رہنما اصول پر قبائلی علاقوں میں اپنے لوگوں سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ کانفرنس کے اختتام پر جاری ہونے والے اعلامیے میں کہاگیا کہ امن مذاکرات کے دوران مقامی روایات، ثقافت اور طور طریقوں کے علاوہ مذہبی عقائد کو بھی ملحوظ خاطر رکھاجائے اور ایسا سازگار ماحول بنایا جائے جس سے ان علاقوں میں امن اور سکون بحال ہوسکے۔قرارداد میں مزید کہاگیا کہ حکومت پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے طریقہ کار اور وسائل کا فیصلہ خود کرے گی اور امریکہ سمیت کسی بھی ملک سے اس ضمن میں ڈکٹیشن نہیں لی جائے گی۔ اس کانفرنس میں امریکی ڈرون حملوں کو واضح طورپر ملکی سالمیت کے برخلاف اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے نقصان دہ قراردیاگیا۔ قرارداد میں ڈرون حملوں کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔
اگرچہ ملک کی تمام جماعتوں کا مذاکرات کے آپشن پر اتفاق بذات خود ایک اہم واقعہ ہے لیکن اس سے بھی زیادہ اہم پاکستانی طالبان کا خیرمقدمی بیان ہے۔کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان شاہداللہ شاہد کاکہناہے کہ پہلی بار لگ رہاہے کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔انھوں نے کہا کہ ان کی تنظیم اے پی سی کی قرارداد کا خیرمقدم کرتی ہے۔ اس قرارداد میں جنگ کی بات نہیں کی گئی ہے جبکہ ماضی میں حکومت کا مذاکرت کے حوالے سے موقف غیرواضح رہاہے۔
پاکستانی طالبان کے ترجمان کے بیان سے امن کی کرن پھوٹتی محسوس ہورہی ہے۔ ان کے بیان سے ظاہر ہوتاہے کہ وہ پاکستانی حکومت کی تازہ کوشش کو پوری سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور انھیں بھی امید ہے کہ حکومت اور ان کے درمیان مذاکرات کی میز ضرور سجے گی اور اس کے نتیجے میں امن کی شمع ضرور روشن ہوگی۔ طالبان کی طرف سے اس موقف کے سامنے آنے کے بعد حکومتی حلقوں میں بھی خوشی کی لہردوڑ گئی۔وہ اسے مجوزہ مذاکرات میں کامیابی کی طرف پہلا قدم قراردے رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی امن قائم کرنے کی تازہ کوشش بارآور ثابت ہوگی؟ کیونکہ اس سے پہلے بھی ایسی متعدد کوششیں کی گئیں تاہم ہرکوشش دم توڑتی رہی۔ ان کوششوں کی کہانی طالبان کمانڈر نیک محمد سے ہونے والے مذاکرات اور معاہدے سے شروع ہوتی ہے۔ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت کے حکمران پرویزمشرف نے (اس وقت کی )امریکی وزیرخارجہ کنڈولیزارائس کے بیان کے بعد امن عمل کو رول بیک کیاتھا، کمانڈرنیک محمد کے قتل کے نتیجے میں آگ اور خون کا ایساطویل سلسلہ شروع ہوا جس میں دونوں اطراف سے ہزاروں جانیں گئیں۔جنرل پرویز مشرف اور بعدازاں آصف زرداری کے ادوارِ صدارت میں یہ سلسلہ جاری رہا۔
پیپلزپارٹی کے دورحکومت کے اختتام پر اگلی حکومت میاں نوازشریف کی سربراہی میں بننے کے امکانات روشن ہوگئے۔تب ہی سے یہ امکانات بھی ظاہرہونے لگے تھے کہ اگلی حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ اختیارکرے گی۔اس کی بنیاد میاں نوازشریف کا تشخص ہے جس کی بابت کہاجاتاہے کہ وہ طالبان کے لئے قابل قبول ہیں۔ پیپلزپارٹی کے دورحکومت کے آخری ایام میں تحریک طالبان کی طرف سے جن قومی رہنماؤں پر اعتماد کا اظہارکیاگیاتھا ان میں میاں نوازشریف بھی شامل تھے۔
میاں نوازشریف کے بارے میں طالبان کی سوچ مثبت تھی، وہ انھیں قابل قبول شخصیت قراردیتے رہے ہیں۔ میاں نوازشریف عام انتخابات سے پہلے ہی بار بار کہتے رہے ہیں کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ اختیارکریں گے۔ موجودہ وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان بھی دہشت گردی کے خلاف غیرملکی جنگ سے پاکستان کو نکالنے کے پرجوش حامی ہیں۔وہ باربار اپنے موقف کا اظہارکرچکے ہیں کہ ڈکٹیٹر نے غیرملکی دباؤ پر قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنے کا غلط فیصلہ کیا۔
تحریک طالبان کے ساتھ پس پردہ مذاکرات کا سلسلہ مسلم لیگ ن کے برسراقتدار آنے کے فوراً بعد شروع ہوگیاتھا، پردے کے پیچھے ہونے والی یہ کوششیںرفتہ رفتہ کامیابی سے آگے بڑھنے لگیں۔ اب کل جماعتی کانفرنس نے ان مذاکرات کو قابل اعتبار بنادیا ہے۔
کانفرنس میں تحریک انصاف، جمعیت علمائے اسلام (ف) ، مسلم لیگ (ق)، جماعت اسلامی اور مسلم لیگ (ن)اس بات کے سب سے زیادہ حامی تھے کہ طاقت اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں چل سکتے جبکہ بات چیت کو کسی اور شرط سے بھی نہیں جوڑنا چاہئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی، اے این پی جیسی جماعتیں جو ''طاقت اور بات چیت ساتھ ساتھ'' کے اصول کی سب سے بڑی حامی تھیں، انھوں نے بھی کانفرنس میں اپنے موقف پر زیادہ اصرارنہیں کیا اور ''صرف مذاکرات'' کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیا۔
اس وقت تک حکومت اور طالبان کی طرف سے اپنی اپنی ٹیموں کی تشکیل کا عمل جاری ہے۔اس کے بعد مذاکرات کا روڈ میپ طے کیاجائے گا۔پہلے مرحلے میں دونوں جانب سے سیزفائر ہوگا۔ویسے تو غیرعلانیہ جنگ بندی ہوچکی ہے تاہم مذاکراتی ٹیموں کی تشکیل کے بعد اس کا باقاعدہ اعلان کیاجائے گا۔اس کے نتیجے میں فوج فاٹا میں اپنے پڑاؤ تک محدود رہے گی۔ماہرین کا کہناہے کہ مذاکرات کی کامیابی یاناکامی کا تعین دوتین ماہ کے اندر ہوجائے گا۔
طالبان نے ابتدائی طورپرکچھ شرائط بلواسطہ طورپر حکومت کو ارسال کی ہیں۔ ان میں فوج کی فاٹا سے واپسی، ڈرون حملوں اور فوجی آپریشنز میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لئے معاوضے کی ادائیگی اور عام معافی کے اعلان کے علاوہ گرفتار افراد کی رہائی کی شرائط بھی شامل ہیں۔
بعض حلقے مذاکرات کی کامیابی کے بارے میں زیادہ پرامید نہیں ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ کل جماعتی کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں کہیں سے اشارہ نہیں ملتا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کس ایجنڈے پر ہوں گے۔اور یہ کہ کیا طالبان القاعدہ سے بالابالا پاکستانی حکام کے ساتھ مذاکراتی عمل میں سنجیدگی کے ساتھ شریک ہوسکیں گے؟یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر مذاکرات کے درمیان ہی کوئی ڈرون حملہ ہوگیا (جیسا کہ ماضی میں بھی کئی بار ہو چکا ہے) اور طالبان مذاکرات کی میز سے اٹھ گئے توپھر کیاہوگا؟
کیا اس کے لئے امریکہ سے ضمانت لی جاچکی ہے کہ وہ مذاکراتی عمل کے دوران ایسی کوئی حرکت نہیں کرے گا؟ اور کیا پاکستانی فوج نے واقعتاً سارے معاملات سیاسی قیادت کے ہاتھ میں دے دئیے ہیں؟ کیا وہ نہیں چاہے گی کہ مذاکراتی عمل میں اسے بھی شامل کیاجائے اور اس کی عزت و وقار کو بھی سربلند رکھاجائے؟ جب تک ان سارے سوالات کے جوابات حاصل نہ کئے جائیں، تب تک مذاکراتی عمل کی کامیابی یا ناکامی کے بارے میں کچھ نہیں کہاجاسکتا۔
تاہم بعض دوسرے حلقے امن عمل کی کامیابی کے بارے میں خاصے تیقن کا اظہارکررہے ہیں۔جمعیت علمائے اسلام کو طالبان سے قریب ترین جماعت سمجھاجاتاہے۔ اس کے رہنما مولانا عصمت اللہ نے امید ظاہر کی ہے کہ مذاکرات کامیاب ہوں گے کیونکہ موجودہ حکومت کی پالیسیاں ماضی کی نسبت آزادانہ ہیں۔ ان کے بقول ماضی میں مذاکرات اور معاہدوں کا مقصد طالبان کو کمزور کرناہوتاتھا۔اب حکومت اور اسٹیبلشمنٹ مخلص نظرآتے ہیں۔ اگرحکومت نے بیرونی دباؤ خصوصاً امریکی دباؤ کواثرانداز نہ ہونے دیاتو مذاکرات یقینا ً کامیاب ہوں گے۔
شدت پسند گروہ
کل جماعتی کانفرنس میں آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام نے شرکاء کو اپنی تفصیلی بریفنگ کے آخر میں مذاکرات کے آپشن پر ہی زور دیا۔
ان کا کہناتھا کہ اب تحریک طالبان میں ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں جو مذاکرات کے حامی ہیں۔ ان میں سجنا اور عصمت اللہ معاویہ گروپس شامل ہیں۔ لیفٹننٹ جنرل ظہیر الاسلام کے مطابق ''شدت پسندوں کے69گروہ کام کر رہے ہیں''۔ان میں القاعدہ سے براہ راست منسلک گروہ بھی موجود ہیں۔ جبکہ دیگرگروہوں میں غازی عبدالرشید بریگیڈ، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، تحریک طالبان پنجاب، حرکت الجہاد الاسلامی، الیاس کاشمیری گروپ، قاری سیف اللہ اختر گروپ، جیش محمد، لشکرجھنگوی، لشکرطیبہ، سپاہ صحابہ پاکستان، تحریک نفاذ شریعت محمدی شامل ہیں۔
ماضی میں امن کوششیں کیوں ناکام ہوئیں؟
کل جماعتی کانفرنس میں اپنی بریفنگ کے دوران آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام نے بتایا کہ اس سے پہلے شدت پسندوں کے ساتھ 9معاہدے ہوئے جو ناکام ہوئے کیونکہ شدت پسند نت نئے مطالبات سامنے لاتے رہے جبکہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود اچکزئی کاموقف ہے کہ ماضی میں عسکری قیادت کی جانب سے سیاسی رہنماؤں کو اعتماد میں نہیں لیاگیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جہاں جہاں امن معاہدے ناکام ہوئے ہیں، وہاں حکومت نے امن عمل میں تمام گروہوں کو شامل نہیں کیا تھا، مثلاً کمانڈر نیک محمد کے ساتھ معاہدہ کیاگیا جبکہ باقی گروہوں کو خاطر میں نہ لایاگیا۔یہی وجہ ہے کہ ناکامی کا سامنا کرناپڑا۔اسی طرح سراروغہ کا معاہدہ صرف بیت اللہ محسود( یعنی محسودوں) کے ساتھ کیا گیا۔ خیبرایجنسی میں معاہدہ صرف منگل باغ کے لشکراسلام اور اس سے متعلقہ آفریدی قبائل سے کیاگیاتھا۔ سوات کا معاہدہ مولوی فضل اللہ کے ساتھ ہوناچاہئے تھا لیکن وہ صوفی محمد کے ساتھ کیاگیا جو عسکریت پسندوں پر اپنے داماد مولوی فضل اللہ کی نسبت زیادہ کنٹرول نہیں رکھتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں مولوی فضل اللہ کو بائی پاس کیا گیا۔ نتیجتاً وہی کچھ ہوا جس کا ڈرتھا۔
سابقہ مذاکرات کے ناکامی کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ سارے ریاستی ادارے ایک سوچ اور ایک حکمت عملی اختیار نہیں کرتے تھے۔ ہر ایک اپنی الگ راہ پر گامزن تھا۔مثلاً جنوبی وزیرستان میں جب گورنر اور پالیٹیکل ایجنٹ مذاکرات اور جرگوں کے ذریعے مسئلہ حل کرنے میں کوشاں تھے کہ ٹھیک اس وقت کورکمانڈر علی محمد جان اورکزئی کی ذمہ داری کے علاقے میںسیکورٹی فورسز کی بعض کارروائیوں سے وہ عمل سبوتاژ ہوگیا، جب ( اس وقت کے) کور کمانڈرلیفٹیننٹ جنرل محمد صفدر معاہدہ شکئی کر رہے تھے تو اس وقت کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل(ر) سید افتخار شاہ اور پالیٹیکل ایجنٹ اس کے مخالف تھے۔
اس لئے ماہرین کاکہناہے کہ اب کی بار امن عمل کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی قیادت اور عسکری قیادت جزئیات میں بھی ایک صفحہ پر ہی کھڑی ہوں۔ اور مذاکراتی عمل میں ہرشدت پسند گروہ کو شامل کیا جائے۔ یہ بھی اہم ہے کہ افغان طالبان کے بارے میں بھی ہماری پالیسی اس مذاکراتی عمل سے ہم آہنگ ہو کیونکہ افغان طالبان بیشتر پاکستانی گروہوں پراثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
حال ہی میں پاکستانی حکومت کی طرف سے کئی افغان طالبان کمانڈروں کی رہائی ایک اچھی پیش رفت ہے اور حکومت کی ٹھوس اور بہتر حکمت عملی کی غماز ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق ماضی میں امن کوششوں کے ناکام ہونے کا سب سے بڑا سبب مشرف اور زرداری حکومتوں کو سیکولرپس منظر تھا۔ امریکا بھی مذاکراتی کوششوں کا مخالف رہا ہے، یہ دوسری اہم ترین وجہ تھی۔