نائن الیون کی 12ویں برسی… امریکا کے عزائم تبدیل نہیں ہوئے
شام کے پاس نہ وہ جدید جنگی ٹیکنالوجی ہے اور نہ وہ معاشی وسائل ہیں کہ وہ امریکا کو نقصان پہنچا سکے۔
KANDAHAR:
امریکی صدر بارک اوباما نے نائن الیون کی 12 ویں برسی کے موقع پر ٹیلی ویژن پر امریکی قوم سے خطاب کرتے ہوئے اسے یہ یقین دہانی کرائی کہ شام پر زمینی حملہ نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے خلاف افغانستان کی طرح طویل عرصے تک کارروائی ہو گی۔ صدر اوباما نے شام کے خلاف ممکنہ کارروائی کی صورت میں اپنی جنگی حکمت عملی کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ شام کے خلاف کارروائی میں محدود پیمانے پر فضائی حملے کیے جائیں گے جس کا مقصد شامی صدر بشار الاسد کو کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے روکنا ہے۔
صدر اوباما کے بیان سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ امریکا کے شام کے خلاف فوری زمینی حملے کے امکانات کم ہو گئے ہیں تاہم فضائی حملے کے خطرات گہرے ہو گئے ہیں۔ معمر القذافی کی حکومت ختم کرنے کے لیے فضائی حملے کا آپشن ہی استعمال کیا گیا تھا۔امریکا ایسا ہی طریقہ شام کے خلاف بھی استعمال کر سکتا ہے۔ امریکا نے زمینی حملے کے لیے اپنے اتحادیوں کو راضی کرنے کی کوشش کی لیکن بہت سے ممالک نے امریکی دعوت کو مسترد کر دیا۔ برطانیہ نے بظاہر حمایت کے باوجود پہلے سی گرمجوشی اور سرگرمی کا مظاہرہ نہیںکیا۔ فرانس نے بھی شام کے خلاف حملے کے لیے مشترکہ موقف اپنانے پر زور دیا۔
ادھرروس نے بھی سخت موقف اختیار کر لیا۔ یوں امریکا کے لیے شام پرزمینی اور فوری حملے میں رکاوٹیں پیدا ہو چکی ہیں۔ امریکا نے 2003 ء میں کیمیائی ہتھیاروں کو جواز بنا کر اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر عراق پر حملہ کیا تھا۔ اب وہ کیمیائی ہتھیاروں کا ڈرامہ رچا کر شام پر فضائی حملے کے لیے پر تول رہا ہے۔ صدر اوباما نے واضح کر دیا ہے کہ فرانس' برطانیہ' چین اور روس کے ساتھ مل کر بشار الاسد حکومت کو کیمیائی ہتھیار تلف کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی قرار داد کے مطابق کام کیا جائے گا۔ انھوں نے وہی روایتی موقف دہرایا کہ شام کے کیمیائی ہتھیار امریکی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
شام کے پاس نہ وہ جدید جنگی ٹیکنالوجی ہے اور نہ وہ معاشی وسائل ہیں کہ وہ امریکا کو نقصان پہنچا سکے۔ معمولی قوت کا حامل شام امریکا جیسی سپر پاور کے لیے کسی بھی طور خطرہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ امریکا کے ٹارگٹڈ حملے کی صورت میں بھی شام کے پاس اس کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں۔ ایسے میں شام کو امریکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دینا پروپیگنڈہ کے سوا کچھ نہیں۔ ایک جانب اوباما شام کے کیمیائی ہتھیار تلف کرنے کے لیے سفارتی ذرایع استعمال کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں تو دوسری جانب شام پر دباؤ برقرار رکھنے کے لیے امریکی افواج کو اپنی پوزیشنز برقرار رکھنے کا حکم بھی دے رہے ہیں۔
انھوں نے دھمکی دی ہے کہ سفارت کاری کے نتائج میں ناکامی کی صورت میں وہ شام پر حملہ کر دیں گے۔ امریکا میں 11 ستمبر2001ء کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد امریکا نے القاعدہ کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ پھر عراق کو تباہ کر دیا۔ یمن' صومالیہ اور پاکستان پر بھی ڈرون حملوں کے ذریعے محدود جنگ شروع کر رکھی ہے۔ نائن الیون کو بارہ سال گزر گئے مگر دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ شام نے نہ تو امریکا میں کوئی ٹریڈ سینٹر گرایا ہے اور نہ وہ ایٹمی قوت ہے۔
مگر امریکا خاص منصوبہ بندی کے تحت اسے ختم کرنے پر تلا ہوا ہے۔ روس کے درمیان میں آ جانے کے باعث امریکا قدرے ٹھنڈا پڑ گیا ہے اور سفارت کاری کے ذریعے شام کے مسئلے کو حل کرنے کے موقف کو تسلیم تو کر رہا ہے مگر ساتھ ساتھ جنگی کارروائی کی دھمکیاں بھی دے رہا ہے۔ صدر اوباما نے تسلیم کیا ہے کہ امریکی قوم جنگوں سے تنگ آ چکی ہے۔ اب امریکا کو دنیا میں قیام امن کے لیے طاقت کے استعمال کے بجائے سفارت کاری کا راستہ اپنانا ہو گا۔ شام پر ہونے والا حملہ بقول اٹلی تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ بھی بن سکتا ہے۔
امریکی صدر بارک اوباما نے نائن الیون کی 12 ویں برسی کے موقع پر ٹیلی ویژن پر امریکی قوم سے خطاب کرتے ہوئے اسے یہ یقین دہانی کرائی کہ شام پر زمینی حملہ نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے خلاف افغانستان کی طرح طویل عرصے تک کارروائی ہو گی۔ صدر اوباما نے شام کے خلاف ممکنہ کارروائی کی صورت میں اپنی جنگی حکمت عملی کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ شام کے خلاف کارروائی میں محدود پیمانے پر فضائی حملے کیے جائیں گے جس کا مقصد شامی صدر بشار الاسد کو کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے روکنا ہے۔
صدر اوباما کے بیان سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ امریکا کے شام کے خلاف فوری زمینی حملے کے امکانات کم ہو گئے ہیں تاہم فضائی حملے کے خطرات گہرے ہو گئے ہیں۔ معمر القذافی کی حکومت ختم کرنے کے لیے فضائی حملے کا آپشن ہی استعمال کیا گیا تھا۔امریکا ایسا ہی طریقہ شام کے خلاف بھی استعمال کر سکتا ہے۔ امریکا نے زمینی حملے کے لیے اپنے اتحادیوں کو راضی کرنے کی کوشش کی لیکن بہت سے ممالک نے امریکی دعوت کو مسترد کر دیا۔ برطانیہ نے بظاہر حمایت کے باوجود پہلے سی گرمجوشی اور سرگرمی کا مظاہرہ نہیںکیا۔ فرانس نے بھی شام کے خلاف حملے کے لیے مشترکہ موقف اپنانے پر زور دیا۔
ادھرروس نے بھی سخت موقف اختیار کر لیا۔ یوں امریکا کے لیے شام پرزمینی اور فوری حملے میں رکاوٹیں پیدا ہو چکی ہیں۔ امریکا نے 2003 ء میں کیمیائی ہتھیاروں کو جواز بنا کر اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر عراق پر حملہ کیا تھا۔ اب وہ کیمیائی ہتھیاروں کا ڈرامہ رچا کر شام پر فضائی حملے کے لیے پر تول رہا ہے۔ صدر اوباما نے واضح کر دیا ہے کہ فرانس' برطانیہ' چین اور روس کے ساتھ مل کر بشار الاسد حکومت کو کیمیائی ہتھیار تلف کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی قرار داد کے مطابق کام کیا جائے گا۔ انھوں نے وہی روایتی موقف دہرایا کہ شام کے کیمیائی ہتھیار امریکی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
شام کے پاس نہ وہ جدید جنگی ٹیکنالوجی ہے اور نہ وہ معاشی وسائل ہیں کہ وہ امریکا کو نقصان پہنچا سکے۔ معمولی قوت کا حامل شام امریکا جیسی سپر پاور کے لیے کسی بھی طور خطرہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ امریکا کے ٹارگٹڈ حملے کی صورت میں بھی شام کے پاس اس کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں۔ ایسے میں شام کو امریکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دینا پروپیگنڈہ کے سوا کچھ نہیں۔ ایک جانب اوباما شام کے کیمیائی ہتھیار تلف کرنے کے لیے سفارتی ذرایع استعمال کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں تو دوسری جانب شام پر دباؤ برقرار رکھنے کے لیے امریکی افواج کو اپنی پوزیشنز برقرار رکھنے کا حکم بھی دے رہے ہیں۔
انھوں نے دھمکی دی ہے کہ سفارت کاری کے نتائج میں ناکامی کی صورت میں وہ شام پر حملہ کر دیں گے۔ امریکا میں 11 ستمبر2001ء کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد امریکا نے القاعدہ کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ پھر عراق کو تباہ کر دیا۔ یمن' صومالیہ اور پاکستان پر بھی ڈرون حملوں کے ذریعے محدود جنگ شروع کر رکھی ہے۔ نائن الیون کو بارہ سال گزر گئے مگر دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ شام نے نہ تو امریکا میں کوئی ٹریڈ سینٹر گرایا ہے اور نہ وہ ایٹمی قوت ہے۔
مگر امریکا خاص منصوبہ بندی کے تحت اسے ختم کرنے پر تلا ہوا ہے۔ روس کے درمیان میں آ جانے کے باعث امریکا قدرے ٹھنڈا پڑ گیا ہے اور سفارت کاری کے ذریعے شام کے مسئلے کو حل کرنے کے موقف کو تسلیم تو کر رہا ہے مگر ساتھ ساتھ جنگی کارروائی کی دھمکیاں بھی دے رہا ہے۔ صدر اوباما نے تسلیم کیا ہے کہ امریکی قوم جنگوں سے تنگ آ چکی ہے۔ اب امریکا کو دنیا میں قیام امن کے لیے طاقت کے استعمال کے بجائے سفارت کاری کا راستہ اپنانا ہو گا۔ شام پر ہونے والا حملہ بقول اٹلی تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ بھی بن سکتا ہے۔