بازار ہم گئے تھے اک چوٹ مول لائے

اسے قسمت کا پھیر کہیے کہ اس مارکیٹ کو وہاں سے اپنا ٹانڈا بانڈا اٹھانا پڑا۔

rmvsyndlcate@gmail.com

انھیں دنوں ٹولنٹن مارکیٹ کے بارے میں ایک اخباری رپورٹ پڑھی بہت افسوس ہوا۔ ہمارے افسوس کی ایک وجہ ہے۔ ہم نے اس مارکیٹ کے اچھے دن دیکھے ہیں اور یہ کہ اس مارکیٹ سے ہماری پرانی شناسائی ہے۔ سمجھ لو کہ جب مال روڈ پر یہ مارکیٹ شاد آباد تھا اس وقت سے اس سے ہماری شناسائی چلی آتی ہے۔ وہاں تو خیر اسے پاس پڑوس بہت اچھا ملا تھا۔ سامنے پنجاب یونیورسٹی۔ آگے چار قدم بڑھو تو لاہور میوزیم' نیشنل کالج آف آرٹس' بھنگیوں کی توپ۔ اب آپ تصور کر لیں کہ یہاں کیسا کیسا گاہک آتا ہو گا۔ وہاں جو کافی شاپ اور آئس کریم شاپ تھی اس کی رونق کو دیکھ کر لگتا تھا کہ ٹولنٹن بھی پنجاب یونیورسٹی اور این سی اے کا توسیعی علاقہ ہے۔

اسے قسمت کا پھیر کہیے کہ اس مارکیٹ کو وہاں سے اپنا ٹانڈا بانڈا اٹھانا پڑا۔ پھر اسے جیل روڈ کی ایک ذیلی سڑک پر ڈیرا کرنا پڑا۔ نقل مکانی بھی عجب قسم کا تجربہ ہے۔ سب کو راس نہیں آتا۔ جسے راس آ جاتا ہے اس کی قسمت سنور جاتی ہے۔ جسے راس نہ آئے اس کا وہی چال ہو جاتا ہے جو اب ٹولنٹن مارکیٹ کا ہے۔ ویسے اس وقت تو یہی لگتا تھا کہ یہاں آ کر اس مارکیٹ کو چار چاند لگ گئے۔ اس کی رہائش کے لیے ایک نئی عمارت کھڑی کی گئی تھی۔ یہ یقین دلانا مقصود تھا کہ تم اس شاہراہ پر آ کر بہت پھولو پھلو گے۔ چونکہ ٹولنٹن اب جہاں آ کر آباد ہوا تھا وہ ہمارا پچھواڑا تھا۔ سو ہم خوش ہوئے کہ ٹولنٹن اب ہمارا ہمسایہ ہے۔ ہم نے وہاں جا کر ایک دو دکانداروں کو جن سے ہماری مال روڈ کے وقتوں سے شناسائی چلی آتی تھی مبارکباد دی۔ خوب جگہ تھی۔ نئی نئی عمارت۔ چمکی دمکتی دکانیں' راہداریاں' برآمدے۔ پارکنگ کے لیے کشادہ جگہ اور نئے گاہک جیل روڈ کے مکین۔ دیکھتے دیکھتے یہ کتنا پر رونق کوچہ بن گیا تھا۔ ابھی جیل روڈ پر دور دور تک ایسا کوئی اسٹور قائم نہیں ہوا تھا جہاں ضرورت کی سب چیزیں مہیا ہوں۔ ہم بھی خریداری کے لیے دوڑ کر اسی کوچے میں پہنچتے تھے۔

مگر لاہور عجب شہر ہے۔ یہاں ہم نے کتنے صاف ستھرے پر رونق کوچوں کو دیکھتے دیکھتے خوار و زبوں ہوتے دیکھا ہے۔ کتنی جلدی اچھی بھلی کشادہ راہ تجاوزات کی زد میں آ کر کتنی تنگ ہو جاتی ہے۔ کسی بھی مقبول سڑک پر ایک موٹر ورکشاپ کھل جائے تو اسے اس کوچہ کے لیے برا شگن سمجھنا چاہیے۔ پھر ایک کے بعد دوسری' دوسری کے بعد تیسری ورکشاپ کھلے گی اور پھر آپ کو یہاں رستہ چلنا دشوار ہو جائے گا۔ ہاں ابھی سڑک بن کر تیار ہوئی ہے کتنی ہموار' کتنی صاف ستھری۔ مگر کتنی جلدی کوئی نکاسی آب والی ٹولی یہاں آ کر کھدائی شروع کر دے گی۔ بس اس کے بعد سڑک کا حال خراب ہونا شروع ہو جائے گا۔

ٹولنٹن مارکیٹ کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بس مرغیوں کے کاروبار کی رونق اس کی رونق کو کھا گئی۔ مرغیوں کے اڑتے پروں نے اتنا زور باندھا کہ عقبی گوشے سے اڑ اڑ کر پارکنگ لاٹ میں آ کر اپنی رونق دکھلانے لگے۔ ان پروں کے ساتھ ہلکی ہلکی بساند۔ پھر کسی قصاب نے اپنے عقب کے ٹھکانے کو چھوڑکر برآمدے میں آ کر اپنی دکان جما لی۔ لیجیے چیل کووں بلیوں نے دور دور سے آ کر یہاں منڈلانا شروع کر دیا۔

پھر پانی جانے کن کن راستوں سے آیا اور اس کشادہ جگہ میں جہاں اب موٹروں کے پہلو بہ پہلو مرغیوں سے بھری گاڑیاں بھی وقتاً فوقتاً کھڑی نظر آتی تھیں۔ کیچڑ نظر آنے لگی۔ بس پھر سارا نقشہ ابتر ہوتا ہی چلا گیا۔ بہتری کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو ہم نے بضد افسوس اس کوچے کو سلام کیا اور خریداری کے لیے دوسرے کوچوں کا رخ کیا۔

مگر ٹولنٹن مارکیٹ سے ہمارا رشتہ پھر بھی برقرار رہا۔ اس کے لیے ہم ٹولنٹن کی بلیوں کے شرمندہ احسان ہیں۔ پہلے تو ہم یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ ہمارے بیرونی برآمدے میں گوشت کا اتنا بڑا لوتھڑا کون پھینک گیا ہے۔ رفتہ رفتہ پتہ چلا کہ وقتاً فوقتاً ٹولنٹن سے اپنے مطلب کی غذا حاصل کر کے منہ میں دبا کے بلیاں نکلتی ہیں اور کتنے ٹیڑھے میڑھے رستوں سے گزر کر ہمارے گھر میں دیوار پھاند کر آتی ہیں اور اپنا دستر خوان بچھاتی۔


ادھر ہم حیران کہ یہ غریب بلیاں ٹولنٹن سے ہمارے گھر تک آنے میں کتنا کشٹ کھینچتی ہیں۔ کیا راستے میں انھیں ایسا کوئی گوشہ میسر نہیں آتا جہاں وہ بیٹھ کر اطمینان سے اپنے حاصل کردہ چھیچھڑے لوتھڑے چچوڑ سکیں۔ یا ہمارا گھر تخصیص کے ساتھ انھیں مہمان نواز نظر آتا ہے۔

خیر ہم نے تو یہ سوچ کر صبر کر لیا تھا۔ چلو اب ہمارے گھر میں بلیوں کا آنا جانا ہو گیا ہے۔ چوہوں سے ہمیں نجات مل جائے گی۔ مگر یہ بلیاں ٹولنٹن سے جو مزے مزے کے چھیچھڑے اور لوتھڑے منہ میں دبا کر لاتی ہیں انھیں کھا کر وہ اتنی مست ہو جاتی ہیں کہ چوہوں کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتیں۔

مگر احتجاج ہمارے لان میں اترنے والی چڑیوں کی طرف سے ہوا۔ ہمارے بالشت بھر کے لان میں جو دو ڈھائی درخت اور آٹھ سات پودے ہیں، ان میں چڑیاں بڑے امن چین سے گزر بسر کر رہی تھیں۔ ایک کونڈا پانی کا اور چٹکی بھر دانہ دنکا جس میں توس کے تھوڑے ریزے بھی شامل کر لیجیے۔ یہ خور و نوش کا سامان ان کے لیے بہت تھا۔ وہ اپنی جگہ خوش۔ ہم اپنی جگہ خوش کہ اس شہر میں رہتے ہوئے جہاں اب فضا درختوں اور پرندوں کے لیے ساز گار نہیں رہی، ہماری کیاریوں میں اور پودوں تلے مٹھی بھر چڑیاں چگتی چہچہاتی نظر آتی ہیں مگر جب یہاں ٹولنٹن کی بلیوں کے سبز قدم آئے تو وہ چوکنی ہو گئیں۔ شاید وہ سمجھ رہی تھیں کہ بلیوں کی ادھر آمد و رفت عارضی ہے۔ مگر جب انھوں نے دیکھا کہ بلیوں نے یہاں مستقل قیام کی ٹھانی ہے تو پھر یہ ہوا کہ ؎

اڑ گئے شاخوں سے یہ کہہ کر طیور
اس گلستاں کی ہوا میں زہر ہے

چڑیاں ایک ایک کر کے نو دو گیارہ ہو گئیں۔ اب ہم ہیں اور یہ بلیاں ہیں۔

اخبار میں اس مارکیٹ کے بارے میں ہم نے رپورٹ پڑھی تو سوچا کہ شاید اب شہری انتظامیہ اس کوچہ کے اصلاح احوال پر توجہ دے۔ بہت اچھی بات ہے مگر ہم نے سوچا کہ ہمارے لیے اس سے کیا فرق پڑے گا۔ بلیوں نے تو ہمارا گھر دیکھ لیا ہے اور بلیاں جو گھر دیکھ لیں اسے آسانی سے نہیں چھوڑتیں۔
Load Next Story