قانون کی بالادستی میں پولیس کا مقام…
اس ایکٹ پرباقاعدہ طور پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا گیا اور اگلے چندسال ہی میں اس کا بوریا بستر باندھ کردکان بڑھادی گئی۔
ہمارے یہاں عام تاثر ہے کہ پولیس کا کام معاشرے میں برائیوں کا خاتمہ کرنا اور جرائم کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ اگر معاشرے میں جرائم پیشہ عناصر کی حوصلہ افزائی کی جائے تو معاشرے میں بگاڑ پیدا ہونے کے علاوہ جرائم میں اضافہ ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پولیس، عدالتیں اور مجرم، نظام قانون کی تکون ہیں اور اگر ان میں کسی ایک بھی میں کمزوری یا کوتاہی ہو تو معاشرے میں بگاڑ، عدل و انصاف کا قتل ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر ایسے مسائل بھی جنم لیتے ہیں جن کی بدولت ہم روایات، اقدار اور حسن معاشرت سے دور ہوجاتے ہیں۔ دنیا کے مہذب معاشروں نے طے کرلیا ہے کہ ان اداروں کو کسی کے تابع نہ کیا جائے اور انصاف بلاامتیاز ہر فرد کو چاہے وہ غریب ہو یا اس کا تعلق امیر گھرانے سے ہو یکساں فراہم کیا جائے۔
اس وجہ سے ان کی اہمیت اس طرح مرتب کی گئی ہے کہ حکومت، ریاست یا کسی بھی قسم کا سیاسی اثر و رسوخ یا دباؤ ان میں سے کسی ادارے یا فرد پر اثرانداز نہ ہو۔ انھوں نے مجموعی طور پر ایسے قوانین مرتب کیے ہیں جن کی وجہ سے عوام کو انصاف کی فراہمی میں مسائل یا مشکلات درپیش نہ ہوں اور بہتر حالات میں عدل و انصاف کی سہولیات میسر ہوں۔ اس کے برعکس وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آزادانہ ماحول اور جمہوریت کی پائیداری و خودمختاری کے باوجود ملک کے کرتا دھرتا دیگر اداروں کی طرح محکمہ پولیس اور عدلیہ کو اپنی دسترس میں رکھنا چاہتے ہیں۔ بالخصوص پولیس کو عوامی امنگوں، انصاف کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اسے موثر ادارے کی شکل دینے میں ناکام ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر 2002 تک وطن عزیز میں پولیس میں بہتر انداز میں قوانین مرتب نہ کیے گئے البتہ 2002 میں پولیس آرڈر ایکٹ تیار کیا گیا اور ادارے میں بڑے پیمانے پر اصطلاحات کا آغاز کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ماضی کی طرح بدقسمتی کے سائے اسے متاثر کرتے رہے۔
اس ایکٹ پر باقاعدہ طور پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا گیا اور اگلے چند سال ہی میں اس کا بوریا بستر باندھ کر دکان بڑھادی گئی۔ ہمارے حکمرانوں نے روز اول سے پولیس کو اقتدار کا زینہ اور رعونیت قائم کرنے کا ذریعہ سمجھنے کی مسلسل اور کامیاب کوشش کی ہے اور اسی وجہ سے انتہائی اہمیت کے حامل ادارے کی کارکردگی ہمیشہ سوالیہ نشان بنی رہی۔ شولڈر پروموشن اس میں خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ بہت سے افراد عام سپاہی کی حیثیت سے پولیس میں بھرتی ہوئے اثروروسوخ اور سیاسی جماعت سے تعلق کی وجہ سیاعلی مقام پر پہنچے۔ بے شمار افسران ہیں جوکہ سیاسی وابستگی کی وجہ سے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔ ان اقدامات کی وجہ سے ایک طرف تو جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی ہورہی ہے تو دوسری جانب پولیس فورس قابل اور حوصلہ مند اہلکاروں اور افسروں میں مایوسی پھیل رہی ہے جس کی وجہ سے ان کا مورال پستی کی جانب بڑھ رہا ہے۔
ہر افسر یا اہلکار جو پولیس فورس کا حصہ ہیں، کرپٹ ہیں تو یہ تاثر بھی سراسر غلط ہے اور ان کے ساتھ زیادتی بھی۔ ہمارے یہاں بعض افسران اور تعینات اہلکاروں نے ادائیگی فرائض کے دوران موت کو بھی گلے لگایا ہے۔ خیبرپختونخوا ہو، کراچی ہو، بلوچستان میں باالخصوص کوئٹہ ہو یا پھر ملک کے مختلف حساس شہر یا علاقہ جات، انھوں نے نامساعد حالات میں وسائل کی کمی کے باوجود ڈٹ کر مقابلہ کیا اور جانیں دیں لیکن بعض اوقات انھیں قانون نافذ کرنے والے ادارے سے تعلق ہونے کی پاداش میں شہید کیا گیا۔ مساجد، امام بارگاہوں سمیت اہم شخصیات کی حفاظت اور حساس مقامات کے تحفظ میں دن رات اپنے اہل و عیال سے دور ڈیوٹیاں دیں۔ انھوں نے ملک کے عوام کے سکون وامان کی خاطر اپنی جانیں خطرے میں ڈال رکھی ہیں جب کہ پورے ملک میں دہشت گردی عام ہے اور ہر فرد بے امان ہے۔ ان حالات میں اپنی ذمے داری کو نبھانا بہرحال جہاد سے کم نہیں۔
پاکستان میں دیگر ممالک کی نسبت محکمہ پولیس کو بے شمار دشواریوں کا سامنا ہے۔ قانون کے نفاذ اور امن وامان کے قیام کے اس ادارے کو سیاست گردی کی نذر کیا گیا ہے۔ مقتدر طبقات نے یہاں قانون کی بالادستی کی بجائے ہمیشہ اپنی اجارہ داری کو مضبوط و مستحکم بنانا اپنی اولین ترجیح بنائے رکھا ہے۔ نیشنل سیکیورٹی پالیسی میں اس کا عمل دخل نہیں ہے۔ مینجمنٹ کی صورت حال ناقص ترین ہے۔ نااہل افسران اور اہلکاروں کی ترجیحی بنیادوں پر ترقیاں اور پرسکون علاقوں میں تعیناتیاں کی جاتی ہیں جب کہ قابل اہلکاروں اور افسران کو نامساعد حالات میں جھونک دیا جاتا ہے۔
اس محکمے سے حکومت، عوام اور دیگر طبقات نتائج کے خواہاں دکھائی دیتے ہیں جب کہ حالات اس قدر ابتر ہیں کہ فورس میں افرادی قوت کی کمی سنگین صورت حال پیش کر رہی ہے۔ اسلحہ اول تو پرانے دور کا ہے لیکن اگر ہے تو وہ وزرا ودیگر اعلیٰ افسران کی سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں کے پاس ہے۔ 2002 کے پولیس ایکٹ میں ایک خوبی یہ بھی رکھی گئی کہ اہلکاروں کے ڈیوٹی اوقات 12 گھنٹے کی بجائے 8 گھنٹے ہونے چاہئیں۔ اس سے بے شمار فوائد حاصل ہوں گے۔ اہلکار اپنی ڈیوٹی میں تھکن کا شکار نہیں ہوں گے اور مستعدی بھی برقرار رہے گی۔ علاوہ ازیں ان کے دوران ڈیوٹی دیگر امور کی بہتری کے بارے میں بھی قوانین مرتب کیے گئے ہیں جن کا بنیادی مقصد فورس کی بہتر کارکردگی درکار ہے۔
محکمے کے اعلیٰ اور قابل افسران نے بارہا حکومت سے گزارش کی ہے۔ پولیس کے قوانین جدید تقاضوں کے مطابق ہوں۔ ٹریننگ کا معیار فوج کے معیار کے مقابل ہو یا کم ازکم اس سے قریب تر ہو۔ اسٹرکچر میں تبدیلی کے بارے میں اصلاحات ہوں۔ محکمے میں سیاسی مداخلت کو ختم کیا جاسکے تاکہ قانون کا عمل درآمد ہر خاص و عام پر ممکن ہو کیونکہ ہمارے یہاں عام آدمی تو قانون کے شکنجے میں باآسانی پھنس جاتا ہے البتہ قدآور شخصیات پر اس کا اثر نہیں ہوتا جو معاشرے میں بگاڑ کا سبب ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ پولیس ڈپارٹمنٹ کو اختیار کل حاصل ہو تاکہ فیصلہ کن مراحل میں اعلیٰ سطح یا سیاسی احکامات میں وقت ضایع نہ ہو جیساکہ ہم نے اسلام آباد میں ملک سکندر کے معاملے میں دیکھا۔
المختصر یہ ہے کہ تمام فیصلے کرنا ان دنوں آسان نہیں ہیں کہ جب ہمارے معاشرے میں روش چلی آرہی ہے کہ اس محکمے کو یرغمال بنالیا گیا ہے چاہے وہ وزیر اعظم ہو یا کوئی اور اعلیٰ عہدیدار، لیکن یہ ناممکن بھی نہیں کیونکہ اگر جسم میں کوئی جگہ ناسور کی صورت اختیار کرجائے تو حکمت عملی کے طور پر پورا جسم متاثر ہونے سے بچانا ہوتا ہے لہٰذا اس کو کاٹ کر پھینک دیا جاتا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ذرا سی تکلیف برداشت کرتے ہوئے معاشرے پر اس کے منفی اثرات سے تحفظ کی خاطر اس سیاست گردی کے ناسور کو کاٹ دینا چاہیے۔ امکان یہی ہے کہ اس طرح محکمہ اور معاشرہ دونوں بچ جائیں گے۔
اس وجہ سے ان کی اہمیت اس طرح مرتب کی گئی ہے کہ حکومت، ریاست یا کسی بھی قسم کا سیاسی اثر و رسوخ یا دباؤ ان میں سے کسی ادارے یا فرد پر اثرانداز نہ ہو۔ انھوں نے مجموعی طور پر ایسے قوانین مرتب کیے ہیں جن کی وجہ سے عوام کو انصاف کی فراہمی میں مسائل یا مشکلات درپیش نہ ہوں اور بہتر حالات میں عدل و انصاف کی سہولیات میسر ہوں۔ اس کے برعکس وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آزادانہ ماحول اور جمہوریت کی پائیداری و خودمختاری کے باوجود ملک کے کرتا دھرتا دیگر اداروں کی طرح محکمہ پولیس اور عدلیہ کو اپنی دسترس میں رکھنا چاہتے ہیں۔ بالخصوص پولیس کو عوامی امنگوں، انصاف کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اسے موثر ادارے کی شکل دینے میں ناکام ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر 2002 تک وطن عزیز میں پولیس میں بہتر انداز میں قوانین مرتب نہ کیے گئے البتہ 2002 میں پولیس آرڈر ایکٹ تیار کیا گیا اور ادارے میں بڑے پیمانے پر اصطلاحات کا آغاز کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ماضی کی طرح بدقسمتی کے سائے اسے متاثر کرتے رہے۔
اس ایکٹ پر باقاعدہ طور پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا گیا اور اگلے چند سال ہی میں اس کا بوریا بستر باندھ کر دکان بڑھادی گئی۔ ہمارے حکمرانوں نے روز اول سے پولیس کو اقتدار کا زینہ اور رعونیت قائم کرنے کا ذریعہ سمجھنے کی مسلسل اور کامیاب کوشش کی ہے اور اسی وجہ سے انتہائی اہمیت کے حامل ادارے کی کارکردگی ہمیشہ سوالیہ نشان بنی رہی۔ شولڈر پروموشن اس میں خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ بہت سے افراد عام سپاہی کی حیثیت سے پولیس میں بھرتی ہوئے اثروروسوخ اور سیاسی جماعت سے تعلق کی وجہ سیاعلی مقام پر پہنچے۔ بے شمار افسران ہیں جوکہ سیاسی وابستگی کی وجہ سے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔ ان اقدامات کی وجہ سے ایک طرف تو جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی ہورہی ہے تو دوسری جانب پولیس فورس قابل اور حوصلہ مند اہلکاروں اور افسروں میں مایوسی پھیل رہی ہے جس کی وجہ سے ان کا مورال پستی کی جانب بڑھ رہا ہے۔
ہر افسر یا اہلکار جو پولیس فورس کا حصہ ہیں، کرپٹ ہیں تو یہ تاثر بھی سراسر غلط ہے اور ان کے ساتھ زیادتی بھی۔ ہمارے یہاں بعض افسران اور تعینات اہلکاروں نے ادائیگی فرائض کے دوران موت کو بھی گلے لگایا ہے۔ خیبرپختونخوا ہو، کراچی ہو، بلوچستان میں باالخصوص کوئٹہ ہو یا پھر ملک کے مختلف حساس شہر یا علاقہ جات، انھوں نے نامساعد حالات میں وسائل کی کمی کے باوجود ڈٹ کر مقابلہ کیا اور جانیں دیں لیکن بعض اوقات انھیں قانون نافذ کرنے والے ادارے سے تعلق ہونے کی پاداش میں شہید کیا گیا۔ مساجد، امام بارگاہوں سمیت اہم شخصیات کی حفاظت اور حساس مقامات کے تحفظ میں دن رات اپنے اہل و عیال سے دور ڈیوٹیاں دیں۔ انھوں نے ملک کے عوام کے سکون وامان کی خاطر اپنی جانیں خطرے میں ڈال رکھی ہیں جب کہ پورے ملک میں دہشت گردی عام ہے اور ہر فرد بے امان ہے۔ ان حالات میں اپنی ذمے داری کو نبھانا بہرحال جہاد سے کم نہیں۔
پاکستان میں دیگر ممالک کی نسبت محکمہ پولیس کو بے شمار دشواریوں کا سامنا ہے۔ قانون کے نفاذ اور امن وامان کے قیام کے اس ادارے کو سیاست گردی کی نذر کیا گیا ہے۔ مقتدر طبقات نے یہاں قانون کی بالادستی کی بجائے ہمیشہ اپنی اجارہ داری کو مضبوط و مستحکم بنانا اپنی اولین ترجیح بنائے رکھا ہے۔ نیشنل سیکیورٹی پالیسی میں اس کا عمل دخل نہیں ہے۔ مینجمنٹ کی صورت حال ناقص ترین ہے۔ نااہل افسران اور اہلکاروں کی ترجیحی بنیادوں پر ترقیاں اور پرسکون علاقوں میں تعیناتیاں کی جاتی ہیں جب کہ قابل اہلکاروں اور افسران کو نامساعد حالات میں جھونک دیا جاتا ہے۔
اس محکمے سے حکومت، عوام اور دیگر طبقات نتائج کے خواہاں دکھائی دیتے ہیں جب کہ حالات اس قدر ابتر ہیں کہ فورس میں افرادی قوت کی کمی سنگین صورت حال پیش کر رہی ہے۔ اسلحہ اول تو پرانے دور کا ہے لیکن اگر ہے تو وہ وزرا ودیگر اعلیٰ افسران کی سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں کے پاس ہے۔ 2002 کے پولیس ایکٹ میں ایک خوبی یہ بھی رکھی گئی کہ اہلکاروں کے ڈیوٹی اوقات 12 گھنٹے کی بجائے 8 گھنٹے ہونے چاہئیں۔ اس سے بے شمار فوائد حاصل ہوں گے۔ اہلکار اپنی ڈیوٹی میں تھکن کا شکار نہیں ہوں گے اور مستعدی بھی برقرار رہے گی۔ علاوہ ازیں ان کے دوران ڈیوٹی دیگر امور کی بہتری کے بارے میں بھی قوانین مرتب کیے گئے ہیں جن کا بنیادی مقصد فورس کی بہتر کارکردگی درکار ہے۔
محکمے کے اعلیٰ اور قابل افسران نے بارہا حکومت سے گزارش کی ہے۔ پولیس کے قوانین جدید تقاضوں کے مطابق ہوں۔ ٹریننگ کا معیار فوج کے معیار کے مقابل ہو یا کم ازکم اس سے قریب تر ہو۔ اسٹرکچر میں تبدیلی کے بارے میں اصلاحات ہوں۔ محکمے میں سیاسی مداخلت کو ختم کیا جاسکے تاکہ قانون کا عمل درآمد ہر خاص و عام پر ممکن ہو کیونکہ ہمارے یہاں عام آدمی تو قانون کے شکنجے میں باآسانی پھنس جاتا ہے البتہ قدآور شخصیات پر اس کا اثر نہیں ہوتا جو معاشرے میں بگاڑ کا سبب ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ پولیس ڈپارٹمنٹ کو اختیار کل حاصل ہو تاکہ فیصلہ کن مراحل میں اعلیٰ سطح یا سیاسی احکامات میں وقت ضایع نہ ہو جیساکہ ہم نے اسلام آباد میں ملک سکندر کے معاملے میں دیکھا۔
المختصر یہ ہے کہ تمام فیصلے کرنا ان دنوں آسان نہیں ہیں کہ جب ہمارے معاشرے میں روش چلی آرہی ہے کہ اس محکمے کو یرغمال بنالیا گیا ہے چاہے وہ وزیر اعظم ہو یا کوئی اور اعلیٰ عہدیدار، لیکن یہ ناممکن بھی نہیں کیونکہ اگر جسم میں کوئی جگہ ناسور کی صورت اختیار کرجائے تو حکمت عملی کے طور پر پورا جسم متاثر ہونے سے بچانا ہوتا ہے لہٰذا اس کو کاٹ کر پھینک دیا جاتا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ذرا سی تکلیف برداشت کرتے ہوئے معاشرے پر اس کے منفی اثرات سے تحفظ کی خاطر اس سیاست گردی کے ناسور کو کاٹ دینا چاہیے۔ امکان یہی ہے کہ اس طرح محکمہ اور معاشرہ دونوں بچ جائیں گے۔