سر پر دوپٹہ

عامرہ عثمان نے بال حجاب کے ساتھ ڈھانپنے سے انکار کردیا۔

03332257239@hotmail.com

انڈونیشیا میں عالمی مقابلہ حسن کی مخالفت اور سوڈان میں ایک خاتون کا سر پر دوپٹہ لینے سے انکار نے دنیا بھر میں ایک سوال کو جنم دیا ہے۔ عورت کی آزادی کس قدر؟ اس سے قبل ان ہی صفحات پر ''بھارت لڑکیوں کے لیے جہنم'' کے عنوان پر کچھ لکھا گیا تھا۔ کہا گیاتھا کہ معاشروں کی پر سکونی اور ہیجان انگیزی کا انحصار اس سوال پر ہے کہ عورت کا برتائو سماج میں کیسا ہوگا؟ اگر ہم آزادی اور آوارگی کی حدود طے کرلیں تو پاکستان میں اپنے مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔ آیئے! دو برادر اسلامی ملکوں میں عورت کے حوالے سے جو تنازعہ پیدا ہوا ہے اس پر بحث کرتے ہیں۔

عامرہ عثمان نے بال حجاب کے ساتھ ڈھانپنے سے انکار کردیا۔ 35سالہ خاتون پر سوڈانی قانون کے تحت مقدمہ چل سکتاہے اور کوڑوں کی سزا بھی مل سکتی ہے۔ عامرہ نے کہاکہ وہ طالبان جیسے قانون کی حکم عدولی میں اپنے بال ننگے رکھنے کے دفاع کے حق میں کوڑے کھانے کو تیار ہے۔ ایک طرف سوڈان میں ایک خاتون کو زبردستی دوپٹہ پہنانے کی کوشش کی جارہی ہے تو دوسری طرف فرانس میں اسکارف اتارنے کی زبردستی کی جارہی ہے؟ مشرق و مغرب ہو یا یورپ و افریقہ، عورت پر یہ ظلم کیوں؟ ملک اسلامی ہو یا مسیحی، نسوانیت کے حقوق کہاں ہیں؟ عورت کی آزادی کو مردانہ جبر تلے کیوں روندا جا رہا ہے؟ ایک طرف خرطوم میں حجاب کے لیے زور ہے تو دوسری طرف پیرس میں بے حجابی کے لیے زبردستی۔ عورت کو کیوں نہ آزادی دی جائے کہ اگر اس کا لباس مناسب ہے تو وہ خود طے کرلے کہ وہ سر پر دوپٹہ لے گی یا نہیں۔ یہ دیکھیں کہ آوارگی کیا ہے؟

جکارتہ میں ہونے والا مقابلہ حسن ملک کے دوسرے صوبے بالی میں منتقل کردیاگیا۔ ہزاروں افراد کی مخالفت اور کئی روز کے مظاہروں کے باوجود حسن کے جلوے بکھیرنے کا مظاہرہ تو ضرور ہوا لیکن مقام تبدیل کردیاگیا۔ سکیورٹی کے سخت انتظامات کرکے ہوٹل جانے والے تمام راستوں کو بند کردیا گیا تھا۔ انڈونیشیا میں عالمی مقابلہ حسن کے خلاف اسلام پسندوں کی جانب سے شدید احتجاج کیاگیا۔ انھوںنے اسے فحاشی و عریانی شو قرار دیا۔

حسن کا مقابلہ کس کے درمیان ہے؟جھگڑا کس کا ہے؟ اگر یہ طے کرلیا جائے کہ تنازعہ مذہب اور صنعت کا ہے تو بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ پردے کی تعلیم صرف اسلام نہیں بلکہ تمام مذاہب دیتے ہیں۔ فیشن کی اربوں ڈالر کی صنعت چاہتی ہے کہ عورت بنے، سنورے اور نکھرے۔ وہ اپنے حسن کے جلوے بکھیرے، خوبصورت اور حسین خواتین بالخصوص فلمی اداکاروں کو لے کر عام عورتوں کو قائل کیاجائے کہ وہ بھی حسین بنیں۔ عورت کے اچھا لگنے کے فطری جذبے کو بے جا طورپر استعمال کرکے وہ اپنی تجوریاں بھرنا چاہتے ہیں۔ وہ سانولے اور کالے رنگ کو خامی قرار دے کر عورت کے لیے گورے رنگ کو بہتر قرار دے کر بڑی بڑی صنعتیں چلارہے ہیں۔ اس سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے خوبصورتی و حسن کے مقابلوں کا انعقاد کرتے ہیں۔ یوں صنعت اور مذہب آپس میں ٹکراتے ہیں۔ اسلام کیونکر اپنے ماننے والوں کی ہر شعبے میں رہنمائی کرتا ہے تو محسوس ہوتاہے کہ مقابل صرف وہی ہے۔ پھر ہمارے اپنے ملک میں گوروں کے مفادات کی نگہبانی کے لیے مہرے موجود ہیں۔


یوں ٹی وی اور اخبارات میں ایک طرف مغرب کے نگہبانوں اور اسلام کے پاسبانوں کی نظریاتی جنگ ہے جو نصف صدی سے جاری ہے۔ امید ہے کہ یہ جنگ مزید پچاس برس جاری رہے گی۔ جب تک ہم اتفاق رائے سے پاکستان کے مردوں اور خواتین کے لیے ایک مناسب کوڈ آف کنڈکٹ تشکیل نہیں دے دیتے یوں یہ سلسلہ کم از کم آج کے محاذ جنگ پر موجود نظریاتی سپاہیوں یعنی قلم کاروں کی زندگی تک تو سمٹتا اور نمٹتا نظر نہیں آتا۔ مذہب و صنعت کو مقابل قرار دے کر ہمیں دیکھنا ہوگا کہ دوسرے مذاہب عورت کے پردے کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ صرف اسلام ہی نہیں بلکہ مسیحیت، یہودیت اور ہندومت بھی عورتوں کو حجاب کا مشورے دیتے ہیں۔ مذہب سے قریب ان مذاہب کی خواتین کا لباس اور قدیم زمانے کے دریافت سکے عورت کو ویسے ہی پردے کی تعلیم دیتے ہیں جس پر آج یورپی فیشن انڈسٹری کے پروپیگنڈے سے متاثر دانشور تنقید کرتے ہیں۔ عورت کی خود مختاری اور بے باکی میں فرق نہ کرنے والا نظریہ دلائل کے میدان میں شکست کھارہاہے۔

آزادی اور آوارگی کو لے کر آج ہم خواتین کے حوالے سے دو ممالک میں پیش آنے والے واقعات پر گفتگو کررہے ہیں۔ ہم ایمانداری سے کہہ سکتے ہیں کہ سوڈان میں عامرہ کو سر پر دوپٹہ لینے کا حکم اس کی آزادی میں مداخلت ہے۔ ہمارے ترقی پسند دوست بھی تسلیم کریں کہ انڈونیشیا میں ہونے والا مقابلہ حسن آوارگی کی ایک قسم ہے۔ یہ وہ ایماندارانہ سوچ ہے جس پر چل کر پاکستان کے اسلام پسند اور جدت پسند طبقات قریب آسکتے ہیں۔ متوازن نقطہ نظر ہی آیندہ نصف صدی تک لڑنے کے وقت کی میعاد کو کم کرسکتا ہے۔ پاکستان میں جنرل ضیاء کے دور میں ٹیلی ویژن پر آنے والی خواتین کو دوپٹہ لینے کا حکم غیر مناسب تھا۔ اس پر مہتاب چنا نے پی ٹی وی پر آنا چھوڑدیا۔ جب مہتاب کی شادی اکبر راشدی سے ہوئی تو بے نظیر بھٹو اپنے سر پر دوپٹہ لیے رخصتی کی تقریب میں شریک تھیں۔ یہ ایک بڑی سیاست دان کا اپنا فیصلہ تھا۔ مناسب لباس کے ساتھ سر پر اسکارف لینا یا نہ لینا عورت کا اپنا فیصلہ ہونا چاہیے جس پر نہ سوڈان میں زور ہونا چاہیے اور نہ فرانس میں زبردستی۔ اسے صرف ترغیب دی جائے کہ ایک گز کپڑا اس کے اپنے لیے مفید ہے۔ اس سے کوئی زور زبردستی نہیں ہونی چاہیے۔

پردے اور اسلامی سزائوں پر تنقید کرنیوالے معاشرے بے سکون اور ہیجان انگیز ہوچکے ہیں۔ فیشن انڈسٹری اور آزادانہ تجارت کے علمبردار دولت کے زور کی بدولت اپنے مہروں کو آگے بڑھارہے ہیں۔ وہ مقابلہ حسن کا انعقاد بھارت میں کرکے اور ان کی کئی ناریوں کو حسن کی دیویاں قرار دے کر ایک بڑی مارکیٹ پر قبضہ کرچکے ہیں۔ چالیس کروڑ مڈل کلاس لوگوں کی قوت خرید سرمایہ داروں کا ٹارگٹ تھی۔ اب ایسا ہی مقابلہ حسن انڈونیشیا میں کرواکر دس کروڑ خریداروں کو رجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دنیا بھر سے غیر شادی شدہ، خوبصورت اور مختصر لباس میں ملبوس لڑکیوں کی شرکت، ایک مرتبہ شرکت کے بعد پابندی، شاندار انداز میں پروپیگنڈہ۔ یہ وہ حربے ہیں جو یورپ سے ایشیا کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ عیسائی وہندو اکثریت کے ممالک کے بعد اب مسلم اکثریتی ملکوں کی جانب لپک رہے ہیں۔ ایشوریا زیادہ خوبصورت یا مدرٹریسا؟

یہ سوال بھارت میں صورت اور خدمت کو لے کر بھارتی ناریوں نے اٹھایاتھا۔ روایت اور جدت کی جنگ صرف پاکستان وانڈونیشیا میں ہی نہیں بلکہ بھارت میں بھی جاری ہے یہ دنیا کے ہر ملک میں لڑی جائے گی جہاں کچھ مہرے دولت کے پجاری ہوںگے تو کچھ پروانے روایت کے امین۔ پاکستان میں سرخ سبز کے نعرے لگانے والے مقابلہ حسن کو عریانی اور عورت کے مناسب لباس میں سر ڈھانپنے کو اس کی اپنی مرضی قرار دے دیںگے؟ پھر ہم پاکستان میں عورت کے حوالے سے اتفاق رائے تک پہنچ سکیںگے۔ پھر یقیناً ہم عورت کے حسن وجمال کے مظاہروں کو آوارگی اور سر پر اسکارف لینے یا نہ لینے کو اس کی آزادی قرار دیںگے۔ پھر ہمیں انڈونیشیا اور سوڈان کی طرح کا کوئی مسئلہ درپیش نہ ہوگا۔ ہم طے کرلیںگے کہ حسن کے مقابلے عریانی وفحاشی کا فروغ ہیں۔ پھر کوئی مسئلہ نہیں ہوگا کہ مناسب لباس کے ساتھ عورت سر پر دوپٹہ لے یا نہ لے۔
Load Next Story