ڈاکٹر ایس ایم ادریس مصنف سیاست دان اور سوشل ورکر

انسان تو ایک دن اس دنیا کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے مگر اس کا کردار ساری زندگی قائم رہتا ہے۔

ISLAMABAD:
کسی کتاب کے ورق الٹتے ہوئے مجھے کیپٹن ڈاکٹر ایس ایم ادریس کی تصویر نظر آئی، مجھے بچپن میں اپنا بیمار ہونا بھی یاد آیا۔ ہمارے گھر میں جب بھی کوئی بھی بیمار ہوتا تو ہم علاج کے لیے ڈاکٹر ادریس کے پاس دوائی لینے جاتے تھے، جن کا کلینک بندر روڈ ، لاڑکانہ پر ہوا کرتا تھا۔

بہرحال میں ابھی اس قابل نہیں تھا کہ ان کی شخصیت کو پہچان سکوں یا پھر سیاسی شعور ہم لوگوں میں کم تھا اور ادب کی دنیا سے بھی بہت دور تھے۔ پاکستان بننے کے بعد کچھ پڑھے لکھے ہندو انڈیا چلے گئے اور وہاں سے اردو بولنے والے علم و ادب سے پیار رکھنے والے یہاں آگئے، لاڑکانہ میں بھی ایسے افراد کا آنا ہوا جس کی وجہ سے ہندو ادیب اور شاعروں کا خلا انھوں نے پورا کیا اور ایک بار پھر سے سیاسی، سماجی، ثقافتی، علمی اور ادبی محفلیں بحال ہونے لگیں۔

جب میں محکمہ اطلاعات میں کام کرنے لگا تو کچھ کچھ سمجھنے لگا۔ لیکن وہ بھی خاموشی سے۔ مجھ میں تبدیلی ذوالفقار علی بھٹوکی وفات کے بعد آئی۔ ادب اور صحافت کی دنیا کی سمجھ مجھے 1985 کے بعد آئی جب میں محکمے میں افسر کے طور پر پروموٹ ہوا۔ میں نے اپنی قلمی شناخت مختلف اخباروں میں مضامین لکھ کر بنائی۔

میں نے کتابیں بھی پڑھنا شروع کیں، ادبی شخصیات سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ لیکن کچھ شخصیات لاڑکانہ چھوڑ کر چلی گئیں، کچھ یہ دنیا چھوڑکے چلی گئیں۔ ان میں ایک شخصیت ڈاکٹر ایس ایم ادریس کی بھی ہے جس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے کافی لوگوں سے ملا، کتابیں ڈھونڈیں اور آخرکار ان کے بارے میں معلومات حاصل کیں جسے پڑھ کر مجھے اپنے آپ پر بہت غصہ آیا کہ میں ان سے قریب سے کیوں نہیں ملا؟ اب تو ان کے بارے میں بتانے والے بھی نہیں ہیں۔

ڈاکٹر ادریس بین الاقوامی لٹریچر بہت شوق سے پڑھتے تھے ، اہم اور عمدہ کتابیں خریدتے تھے وہ زبردست لکھاری اور شاعر تھے اور بین الاقوامی طور پر مختلف ملکوں کے ادیبوں اور شاعروں سے رابطے میں رہتے تھے۔ اردو اور انگریزی زبانوں میں لکھتے تھے ۔ سیاسی اور سماجی زندگی سے وقت نکال کر تھوڑا بہت لکھ ڈالتے جس کی وجہ سے انھوں نے 6 کتابیں لکھیں۔ ان کی پہلی کتاب تھی۔'' قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو۔'' یہ کتاب انھوں نے اردو میں لکھی تھی جو 1972 میں شایع ہوئی، دوسری کتاب '' سنگ گرہ'' تھی وہ بھی اردو میں تھی جو 1974 میں چھپ گئی تھی، تیسری کتاب تھی '' بلند پستیاں'' جو بھی اردو میں لکھی گئی اور 1975 میں شایع ہوئی۔ چوتھی کتاب ہے سنگ آمد، پانچویں کتاب تھی '' زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے'' اس کتاب میں انھوں نے sub continant کی تاریخ لکھی تھی اور چھٹی کتاب تھی ''پتھرکے تابوت۔''

ان کتابوں میں سے دوکتابیں سنگ آمد اور سنگ گرہ نے پوری ادب کی دنیا میں مقبولیت پائی اور یہ دونوں کتابیں اس وقت بھی امریکا کی کانگریس لائبریری اور دنیا کی دوسری لائبریریز میں موجود ہیں۔ ان سے فائدہ لینے کے لیے ریسرچ کرنے والے انھیں پڑھتے ہیں۔

ڈاکٹر ادریس ولد حامد حسین بہار صوبے کے ایک گاؤں پالی میں 12 دسمبر 1919 میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم پٹنہ سے حاصل کرنے کے بعد وہ انگلینڈ چلے گئے جہاں سے انھوں نے کالج کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کیا ۔ پھر وہ ہندوستان لوٹ آئے اورکمیشن کا امتحان پاس کرکے برٹش آرمی میں کیپٹن بن گئے۔ اور یہ وہ دن تھے جب دوسری عالمگیر جنگ چھڑگئی تھی۔ وہ ہندوستان اور دوسرے ممالک میں برٹش آرمی کے اسپتالوں میں اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔

انھوں نے British common wealth occupation forces japan میں بھی کام کیا۔ جب پاکستان اور ہندوستان الگ ہوگئے تو برٹش حکومت نے انھیں ہندوستان واپس بھیج دیا۔ اس کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور سندھ میں آباد ہوگئے جہاں انھیں سندھ میڈیکل سروسز میں بھرتی کیا گیا۔


ڈاکٹر ادریس کو اب لاڑکانہ گورنمنٹ اسپتال ٹرانسفرکیا گیا ، وہ اسپتال بہت کامیابی سے چل رہا تھا جہاں پر سرلہ دیوی نے بھی کام کیا تھا اور یہ اسپتال 1901 میں قائم کیا گیا تھا، اس وقت اسپتال میں گورنمنٹ ڈی سی ہائی اسکول قائم ہے۔ وہاں پر کچھ مہینے کام کرنے کے بعد انھوں نے وہاں سے استعفیٰ دے کر اپنا پرائیویٹ کلینک قائم کیا، جہاں پر انھوں نے جدید میڈیکل سہولتیں دستیاب کیں جس میں ایکسرے مشین بھی تھی۔

انھیں خیال آیا کہ وہ میڈیکل سائنس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرلے جس کے لیے وہ پھر لندن چلے گئے جہاں پر انھوں نے پڑھائی شروع کردی جس کے بعد انھیں Fellow of Royal Tropical Medicine and Hagging of London and Associate of Royal College of General Practitioner کی ڈگری دی گئی۔

ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ لاڑکانہ واپس آگئے، جہاں پر انھوں نے اپنی رہائش مکمل قائم کی تھی۔ پڑھے لکھے ہونے کے ساتھ ان کی علمی، ادبی اور سماجی خدمات نے اسے کئی اچھے اور بڑے خاندانوں کے قریب لے آئے اور وہ ان کے فیملی ڈاکٹر بن گئے، جس میں نواب غیبی خان چانڈیو، سر شاہنواز بھٹو، نواب نبی بخش بھٹو، محمد ایوب کھوڑو، میر سیف اللہ مگسی وغیرہ شامل تھے۔ اب وہ لاڑکانہ کی اہم شخصیات کی فہرست میں شامل تھے۔ وہ خوش لباس اور خوش گفتار بھی تھے اور ان کی باتوں میں شائستگی پائی جاتی تھی جس کی وجہ سے ہر آدمی چاہتا تھا کہ وہ ان سے ملے اورگفتگو کرے۔ اب وہ صرف ڈاکٹر نہیں بلکہ ایک سیاسی، ادبی اور سماجی شخصیت بن چکے تھے۔

ان کی عوامی مقبولیت کی وجہ سے انھیں کہا گیا کہ وہ لوکل لیول پر سیاست میں اپنا کردار ادا کریں جس کی وجہ سے وہ میونسپل کمیٹی لاڑکانہ سے یونین کونسل کے ممبر منتخب ہوگئے۔ 1953 میں وائس چیئرمین میونسپل کمیٹی کے لیے انھیں الیکٹ کیا گیا جس میں ان کے مقابلے میں پاکستان کی بڑی اہم اور قابل احترام شخصیت مولانا جان محمد عباسی تھے اس عہدے پر وہ 1964 تک کام کرتے رہے اور نہ صرف اپنی یونین کونسل جیلس بازار بلکہ پورے لاڑکانہ شہر میں ترقیاتی کاموں کا جال پھیلا دیا جس کی وجہ سے وہ دوبارہ الیکشن میں کامیاب ہوئے اور اپنے 11 سالہ دور کے اندر عوام میں اپنی ساکھ بنا ڈالی۔

جب بھٹو صاحب وزیر خارجہ تھے تو ان کے ساتھ بھی ڈاکٹر ادریس کی بڑی اچھی دوستی رہی اور وہ انھیں ہمیشہ دعوت میں بلواتے تھے اور خاص طور پر باہر سے آنے والے فارنر ڈاکٹرز۔کیونکہ ڈاکٹر ادریس برٹش آرمی میں رہ چکے تھے اور وہ بین الاقوامی پروٹوکول کو جانتے تھے۔اس کے علاوہ انھیں بیٹھنا بڑے لوگوں کے درمیان تھا اور اسے اٹھنے بیٹھنے،کھانے پینے، ملنے جلنے اور بات چیت کرنے کا سلیقہ اور ڈسپلن آتا تھا جس کی وجہ سے بھٹو اور دوسرے نواب انھیں بڑا پسند کرتے تھے۔ وہ ہوشیار، باصلاحیت تھا جس کی وجہ سے انھوں نے نہ صرف شہر میں بلکہ ہر آدمی اور خاندان میں اپنی خاص جگہ بنالی۔

جب بھٹو نے پی پی پی بنائی تو ڈاکٹر ادریس ان کے بنیادی ممبران میں سے تھے اور بھٹو نے ان کی وفاداری، سچائی اور ذہانت دیکھ کر اسے شہر لاڑکانہ کے لیے پہلا کنوینر بنایا۔ پارٹی بنانے والے مراحل میں بھٹو کو بڑی دشواریاں ہوئی تھیں اورکئی لوگ چھپتے پھرتے تھے مگر ڈاکٹر ادریس نے کبھی بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ ادریس صاحب نے لاڑکانہ میں پارٹی کو آرگنائزکرنے میں بھٹوکی بڑی مدد کی اور جب بھٹو اقتدار میں آئے تو ڈاکٹر ادریس اپنے پروفیشن کی طرف لوٹ آئے اور دوبارہ لوگوں کی خدمت کے لیے دن رات کام کرتے رہے۔

ہماری قوم بڑی جلدی احسانات بھول جاتی ہیں اور اپنے پرائے کی پہچان بھول جاتے ہیں۔ ڈاکٹر ادریس بھی احسان فراموشی کی نذر ہوگئے ، سندھ میں لسانی ہنگاموں میں انھیں بھی کچھ لوگوں نے تنگ کیا، انھیں لاڑکانہ کو خیر باد کہنا پڑا اور وہ نواب شاہ شہر میں آکر بسے۔ لاڑکانہ کے عوام اور پی پی پی کے لوگوں نے ان کی بڑی منتیں کی تھیں مگر ان کا دل ٹوٹ چکا تھا ادریس صاحب کا لاڑکانہ کو الوداع کہنا مجھ سمیت ہزاروں افراد کو اچھا نہیں لگا کیونکہ ہم نے لاڑکانہ سے پیار کرنے والا ایک اور شخص کھو دیا جس کی کمی کوئی بھی پوری نہیں کرسکا ہے۔

نواب شاہ سے بھی وہ کراچی چلے آئے اور اپنی زندگی کے باقی دن پورے کرتے ہوئے 19 جنوری 1990 کو اس جہان فانی سے کوچ کیا۔ لاڑکانہ کے عوام، سیاسی ، سماجی، سیاسی، ادبی اور علمی حلقوں میں اس خبر نے سناٹا طاری کردیا۔

انسان تو ایک دن اس دنیا کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے مگر اس کا کردار ساری زندگی قائم رہتا ہے۔ سچ جانیے مجھے ڈاکٹر ادریس کے بارے میں یہ تحریر لکھتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ ڈاکٹر ادریس نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ اس شہر کی خدمت کرتے ہوئے گزارا۔ اور ہمیں ناز ہے کہ ہمیں اسے اپنے شہرکا شہری قبول کرتے ہیں اور ان کی مغفرت اور جنت فردوس میں جگہ کے لیے اللہ تعالی سے دل سے دعا مانگتے ہیں۔
Load Next Story